ساقی کی نوازش نے تو اور آگ لگا دی
دنیا یہ سمجھتی ہے مری پیاس بجھا دی
اک بار تجھے عقل نے چاہا تھا بھلانا
سو بار جنوں نے تری تصویر دکھا دی
مانا کہ میں پامال ہوا زخم بھی کھائے
اوروں کے لیے راہ تو آسان بنا دی
اتنی تو مئے ناب میں گرمی نہیں ہوتی
ساقی نے کوئی چیز نگاہوں سے پلا دی
وہ چین سے بیٹھے ہیں مرے دل کو مٹا کر
یہ بھی نہیں احساس کہ کیا چیز مٹا دی
اے بادِ چمن تجھ کو نہ آنا تھا قفس میں
تو نے تو مری قید کی میعاد بڑھا دی
لے دے کے ترے دامن امید میں ماہرؔ
اک چیز جوانی تھی جوانی بھی لٹا دی