فلسفی کو بحث کے اندر خدا ملتا نہیں
ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں
معرفت خالق کی عالم میں بہت دشوار ہے
شہرِ تن میں جب کہ خود اپنا پتا ملتا نہیں
غافلوں کے لطف کو کافی ہے دنیاوی خوشی
عاقلوں کو بے غمِ عقبیٰ مزہ ملتا نہیں
کشتئ دل کی الٰہی بحرِ ہستی میں ہو خیر
ناخدا ملتے ہیں لیکن با خدا ملتا نہیں
غافلوں کو کیا سناؤں داستانِ عشقِ یار
سننے والے ملتے ہیں درد آشنا ملتا نہیں
زندگانی کا مزہ ملتا تھا جن کی بزم میں
ان کی قبروں کا بھی اب مجھ کو پتا ملتا نہیں
صرفِ ظاہر ہو گیا سرمایۂ زیب و صفا
کیا تعجب ہے جو باطن با صفا ملتا نہیں
پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں میں نشانِ نقشِ پا ملتا نہیں
شیخ صاحب برہمن سے لاکھ برتیں دوستی
بے بھجن گائے تو مندر سے ٹکا ملتا نہیں