وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
یہ نہیں چاند ہے وہی محبوب
کس طرح تا بہ آسماں جاؤں
آئی یاد اس کی زلف کی زنجیر
توڑ کر اب تو بیڑیاں جاؤں
رہنمائی کرے جو عالمِ غیب
وہ جہاں ہے نہاں وہاں جاؤں
کتنے روزوں سے غم نہیں کھایا
اس کے گھر آج میہماں جاؤں
ہو نہ گل گشت میں کہیں وہ گل
جی میں ہے آج بوستاں جاؤں
خاک اڑاتا ہوا ہر اک بن میں
صورتِ گردِ کارواں جاؤں
جی میں حسرت ہے قاصدوں کی طرح
ڈھونڈتا یار کا مکاں جاؤں
گھر میں بیٹھا رہوں توکل پر
سچ ہے ناسخؔ کہاں کہاں جاؤں