یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی ترے ساتھ چلے ہیں
جلنا تو چراغوں کا مقدر ہے ازل سے
یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں
نازک تھے کہیں رنگِ گل و بوئے سمن سے
جذبات کہ آداب کے سانچے میں ڈھلے ہیں
تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈوبے
ہنگامِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں
جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور
تاروں کی خنک چھاؤں میں وہ لوگ جلے ہیں
اک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں
ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں