نہ گدا آستاں سے اٹھتا ہے
نہ ستم نیم جاں سے اٹھتا ہے
نالہ اٹھتا ہے اٹھ نہیں سکتا
جب دلِ ناتواں سے اٹھتا ہے
ہے قفس مدفنِ ہزار الم
کب یہ بوجھ آشیاں سے اٹھتا ہے
کارواں دل کا اور ہے ظالم
یہ غبار آسماں سے اٹھتا ہے
ہو چکا راکھ دل تو مدت سے
"یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے”
آخرِ کار اٹھ گیا راحیلؔ
غیر کب درمیاں سے اٹھتا ہے