اندھیر نگری چوپٹ راجا
ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا
अंधेर नगरी चौपट राजा
टके सेर भाजी टके सेर खाजा
ترجمہ/معنیٰ/مفہوم
ملک میں ظلم کا راج ہو اور بادشاہ احمق ہو تو کھانا اور مٹھائی ایک ہی بھاؤ بکنے لگتے ہیں۔
مطلب/وضاحت/تشریح
اندھیر ظلم کو کہتے ہیں اور نگری علاقے یا ملک کو۔ اندھیر نگری کا مطلب ہوا وہ ملک جس میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہو۔ ظلم اصل میں حد سے گزر جانے کا نام ہے۔ لہٰذا اندھیر نگری سے مراد وہ بستی ہے جہاں لوگ اپنے معاملات میں اعتدال اور انصاف قائم نہ رکھ سکیں۔ چوپٹ بےوقوف یا نادان کو کہتے ہیں۔ بھاجی سبزی ترکاری یا سادہ کھانے کو کہتے ہیں۔ کھاجا ایک مزیدار مٹھائی کا نام ہے جسے مکھن بڑے بھی کہا جاتا ہے۔ ٹکا پرانے وقتوں کا ایک سکہ تھا جو دو پیسے کے برابر ہوتا تھا۔
کہاوت کا مطلب یہ ہے کہ جو قوم انصاف اور توازن قائم نہ رکھ سکے اس پر احمق اور گاؤدی حکمران مسلط ہوتے ہیں۔ وہ مہنگی اور سستی چیزیں کا فرق بھول جاتی ہے اور برے بھلے کی تمیز کھو بیٹھتی ہے۔ ہر شخص اپنے مفاد کی فکر میں رہتا ہے۔ فتنہ و فساد کا دور دورہ ہوتا ہے۔ ایسی بستیاں دنیا ہی میں جہنم کا نمونہ بن کر رہ جاتی ہیں۔
پس منظر/کہانی/حکایت
کہتے ہیں کہ ایک سادھو اپنے چیلے کے ساتھ کہیں سے گزر رہا تھا۔ چیلے کو بھوک لگی تو اس نے کچھ لے کر کھانا چاہا۔۔ معلوم ہوا کہ اس سلطنت میں ہر چیز کی ایک ہی قیمت ہے۔ بھاجی یعنی کھانا بھی ٹکے کا ایک سیر مل جاتا ہے اور کھاجا جیسی قیمتی مٹھائیاں بھی اسی نرخ پر دستیاب ہیں۔ چیلے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے اپنے گرو سے کہا، "میں یہیں رہوں گا۔ یہ ملک بہت اچھا ہے۔”
سادھو کہنے لگا، "جہاں اچھے برے کی تمیز نہ ہو وہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں۔ یہ اندھیر نگری معلوم ہوتی ہے۔ تو میرے ساتھ چلا چل۔” چیلے نے ضد کی۔ گرو نے کہا، "اچھا، جیسے تیری مرضی۔ مگر میں ایک انگوٹھی تجھے دیتا ہوں۔ اسے انگلی میں پہنے رکھنا اور کبھی کوئی مصیبت پڑے تو نکال کر منہ میں ڈال لینا۔” یہ کہہ کر سادھ تو چل دیا اور چیلا وہیں کا ہو لیا۔
کچھ دن عیش میں گزرے۔ ایک دن ایک گلی سے گزر رہا تھا تو دیکھا کہ عمارت بن رہی ہے۔ چیلا تماشا دیکھنے کھڑا ہو گیا اور مزدوروں سے باتیں کرنے لگا۔ اچانک ایک زور کا دھماکا ہوا اور سامنے کی دیوار دھڑام سے نیچے آ گری۔ ایک راہ گیر اس کے نیچے دب کر ہلاک ہو گیا۔ سپاہی دوڑے اور عمارت کے مالک کو گرفتار کر کے راجا کے دربار میں لے گئے۔
راجا نے فرمان جاری کیا کہ مکان کے مالک کو فی الفور پھانسی دے دی جائے۔ وہ گڑگڑایا اور کہنے لگا کہ میرا کچھ قصور نہیں۔ میں تو موقع پر موجود ہی نہ تھا۔ سب قصور دراصل راج مستری کا ہے جس نے عمارت ناقص بنائی۔ راج مستری کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس نے عرض کی، "حضور! میری کچھ تقصیر نہیں۔ مزدور گارا پتلا لایا تھا جس کی وجہ سے دیوار قائم نہ رہ سکی۔” مزدور نے بیان دیا کہ ماشکی نے پانی زیادہ ڈال دیا تھا جس کے سبب گارا پتلا ہو گیا۔ ماشکی نے حاضر ہو کر صفائی دی کہ مجھے سادھو کے چیلے نے باتوں میں لگا لیا تھا۔ میری کوئی خطا نہیں۔
راجا نے غضب ناک ہو کر حکم دیا کہ چیلے کو لٹکا دیا جائے۔ اس غریب کا خون خشک ہو گیا۔ جان بچانے کی فکر میں تھا کہ اچانک گرو کی دی ہوئی انگوٹھی یاد آئی۔ اس نے جھٹ انگلی سے کھینچی اور منہ میں ڈال لی۔ سادھو نجانے کہاں سے جن کی طرح نمودار ہوا اور راجا سے کہنے لگا، "مہاراج! اصل گناہگار میں ہوں۔ میں نے اس چیلے کی تربیت ہی غلط کی تھی۔ آپ اس کی جگہ مجھے پھانسی دے دیجیے۔” راجا کو تو پھانسی دینی تھی۔ چاہے کسی کو ہو۔ وہ راضی ہو گیا۔ سادھو نے کہا، "میں مرنے سے پہلے کچھ پوجا پاٹھ کرنا چاہتا ہوں۔” راجا نے مہلت دے دی۔
سادھو نے کچھ دیر الگ جا کر عبادت کی اور پھر خوش خوش لوٹ آیا۔ مسکرا کر کہنے لگا، "بس اب جلدی سے مجھے پھانسی دے دیجیے۔ یہ بڑی شبھ گھڑی ہے۔ دیوتاؤں نے بتایا ہے کہ اس وقت مرنے والا سیدھا جنت میں جائے گا۔”
بےوقوف راجا نے یہ خبر سنی تو ہکا بکا رہ گیا۔ چند لمحے سوچتا رہا اور پھر لپک کر خود پھانسی کے تختے پر چڑھ گیا۔
استعمال/موقع/سبق
یہ مثل ان معاشروں پر صادق آتی ہے جن میں لاقانونیت کا راج ہو۔ حکمران اور ان کے کارندے جاہل ہوں۔ لوگ خواہشات کی غلامی کریں۔ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہو۔ لوگ اپنے فائدے کے لیے دوسروں کو روند ڈالنے سے بھی گریز نہ کرتے ہوں۔ ایسی بستیوں میں بسنا نقصان کا باعث ہوتا ہے۔