عرضِ حال
بہ جنابِ سرورِ کائناتؐ علیہ افضل الصلوٰت و اکمل التحیات
اے خاصۂ خاصانِ رسلﷺ وقتِ دعا ہے
امت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
جو دین کہ ہمدردِ بنی نوعِ بشر تھا
اب جنگ و جدل چار طرف اس میں بپا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
عالم ہے سو بےعقل ہے جاہل ہے سو وحشی
منعم ہے سو مغرور ہے مفلس سو گدا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
جو قوم کہ مالک تھی علوم اور حکم کی
اب علم کا واں نام نہ حکمت کا پتا ہے
فریاد ہے اے کشتئ امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
اے چشمۂ رحمت بِاَبِی اَنتَ وَ اُمِّی
دنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہے
جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چھڑایا
جب تو نے کیا نیک سلوک ان سے کیا ہے
صدمہ درِ دنداں کو ترے جن سے کہ پہنچا
کی ان کے لیے تو نے بھلائی کی دعا ہے
کی تو نے خطا عفو ہے ان کینہ کشوں کی
کھانے میں جنھوں نے کہ تجھے زہر دیا ہے
سو بار ترا دیکھ کے عفو اور ترحم
ہر باغی و سرکش کا سر آخر کو جھکا ہے
جو بے ادبی کرتے تھے اشعار میں تیری
منقول انھی سے تری پھر حمد و ثنا ہے
کر حق سے دعا امتِ مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تیری کہ مقبولِ خدا ہے
خود جاہ کے طالب ہیں نہ عزت کے ہیں خواہاں
پر فکر ترے دین کی عزت کی سدا ہے
گر دین کو جوکھوں نہیں ذلت سے ہماری
امت تری ہر حال میں راضی برضا ہے
عزت کی بہت دیکھ لیں دنیا میں بہاریں
اب دیکھ لیں یہ بھی کہ جو ذلت میں مزا ہے
ہاں حالئؔ گستاخ نہ بڑھ حدِ ادب سے
باتوں سے ٹپکتا تری اب صاف گلا ہے
ہے یہ بھی خبر تجھ کو کہ ہے کون مخاطب
یاں جنبشِ لب خارج از آہنگ خطا ہے