خیال دل کو ہے اس گل سے آشنائی کا
نہیں صبا کو ہے دعویٰ جہاں رسائی کا
کہیں وہ کثرتِ عشاق سے گھمنڈ میں آ
ڈروں ہوں میں کہ نہ دعویٰ کرے خدائی کا
مجھے تو ڈھوکے تھا زاہد پر اک نگاہ سے آج
غرور کیا ہوا وہ تیری پارسائی کا
جہاں میں دل نہ لگانے کا لیوے پھر کوئی نام
بیاں کروں میں اگر تیری بے وفائی کا
نہ چھوڑا مار بھی کھا کر گزر گلی کا تری
رقیب کو مرے دعویٰ ہے بے حیائی کا
نہیں خیال میں لاتے وہ سلطنت جم کی
غرور ہے جنھیں در کی ترے گدائی کا
جفائے یار سے مت اشتیاقؔ پھیر کے منہ
خیال کیجو کہیں اور جبہہ سائی کا