ہے ہمارے مشاعروں کا یہ حال
جس کی اب نقل کرتے ہیں نقال
روشِ اہلِ فن پہ ہنستے ہیں
رنگِ بزمِ سخن پہ ہنستے ہیں
کیا زمانے میں غدر ہے توبہ
شاعری کی یہ قدر ہے توبہ
گو کہ پاسِ ادب نہیں کرتے
ہجو کچھ بےسبب نہیں کرتے
چلتے ہیں شاعرانِ خوش تقریر
اپنے ہمراہ لے کے جمِ غفیر
کب سخن ور اکیلے جاتے ہیں
قدر دانوں کو لے کے آتے ہیں
جاتے ہیں معرکوں میں فوج سمیت
ساتھ ہوتے ہیں بےشمار پھندیت
جن کے ہمراہ یہ ہجوم نہ ہو
کبھی ان کی غزل کی دھوم نہ ہو
اک ادھر واہ واہ کرتا ہے
اک ادھر آہ آہ کرتا ہے
واہ کیا طرزِ در فشانی ہے
واہ کیا وضعِ خوش بیانی ہے
کوئی کہتا ہے واہ کیا کہنا
فی الحقیقت ہے یہ نیا کہنا
اس سے بہتر کہے گا کیا کوئی
کب ہے استاد آپ سا کوئی
اس زمانے میں آپ یکتا ہیں
واقعی فخرِ میرؔ و مرزاؔ ہیں
کب میسر تھا ان کو حسنِ کلام
کچھ نہ تھے وہ فقط ہے نام ہی نام
ان کے دیواں میں کب یہ نشتر ہیں
بخدا آپ ان سے بہتر ہیں
ان سے واللہ آپ اچھے ہیں
ثم باللہ آپ اچھے ہیں
کہیں بڑھ کر ہے آپ کا انداز
نکتہ سنجی ہے یا کہ ہے اعجاز
آپ قدرت نمائے معنیٰ ہیں
فی الحقیقت خدائے معنیٰ ہیں
آپ کے آگے کون منہ کھولے
کس کا مقدور ہے جو کچھ بولے
ہے یہ انداز آپ کا حصہ
ہے یہ اعجاز آپ کا حصہ
دل میں ہم خوب کر چکے ہیں غور
آپ ہی آپ ہیں نہیں کچھ اور
آپ ایسے ہیں آپ ویسے ہیں
ہم سمجھتے ہیں آپ جیسے ہیں
آپ کیا قدر اپنی پہچانیں
پوچھیے ہم سے آپ کیا جانیں
آپ کا کام ہے ہوا بندی
آپ پر ختم ہے ادا بندی
ایسے شاعر ہوئے تھے کب پیدا
نہ ہوئے تھے نہ ہوں گے اب پیدا
الغرض بےتکی اڑاتے ہیں
بچھے جاتے ہیں لوٹے جاتے ہیں
ان کی تعریف ہے وہ لاطائل
جس سے دکھتا ہے دوسروں کا دل
منہ سے وہ شعر ادھر نکالتے ہیں
یہ ادھر ٹوپیاں اچھالتے ہیں
جن کی تعریف کا یہ تھا مذکور
اپنے دل میں بہت ہی ہیں مسرور
اگر اس میں کسی کو غصہ آئے
کچھ تعجب نہیں کہ لٹھ چل جائے
نہیں یہ بات کچھ تعجب کی
بلکہ اکثر ہوا ہے ایسا بھی
پڑھتے ہیں لفظ لفظ رک رک کے
ہو رہے ہیں سلام جھک جھک کے
گو بظاہر ہے انکسار بہت
دل میں ہے جوشِ افتخار بہت
کس قدر تنتے ہیں بررتے ہیں
خود بھی تعریف اپنی کرتے ہیں
ہوتی ہے لفظ لفظ کی تشریح
ہوتی ہے بات بات کی تصریح
کیوں نہ ہوں اپنی مدح کے شائق
جانتے ہیں کہ ہم ہیں اس لائق
کس قدر دور ہیں معاذ اللہ
کیسے مغرور ہیں معاذ اللہ
نکتہ فہم ایسے نکتہ داں ایسے
شاعر ایسے ہیں قدر داں ایسے
جھوٹی تعریف کی حقیقت کیا
جب حقیقت نہ ہو تو لذت کیا
اس میں کیا حظ ہے یہ مزا کیا ہے
کوئی پوچھے انھیں ہوا کیا ہے
گو کہ میری مذمتیں ہوں گی
میں سمجھتا ہوں جو گتیں ہوں گی
صاف گوئی کی داد پاؤں گا
میں بھی اپنی مراد پاؤں گا
کیا غرض ہے جو میں کسی سے ڈروں
بات سچی ہے کیوں نہ کہہ گزروں
مجھ کو بھاتی نہیں لگی لپٹی
بلکہ آتی نہیں لگی لپٹی
طرزِ اہلِ سخن سے ناخوش ہوں
روشِ اہلِ فن سے ناخوش ہوں
شاعری ہے اگر اسی کا نام
دور سے ایسی شاعری کو سلام
بحوالہ: امراؤ جان اداؔ از مرزا ہادی رسواؔ