ہوتا ہے مرے دل میں حسینوں کا گزر بھی
اک انجمنِ ناز ہے اللہ کا گھر بھی
جھگڑا ہی مٹا دے مرا اندوہِ شبِ غم
ہونے کو ہے اب چاک گریبانِ سحر بھی
سن سن کے وہ ہنستے ہیں کہ یہ ہوش میں کب ہے
کھویا ہے جنوں نے مری باتوں کا اثر بھی
کرتے تو ہو برباد محبت کی خطا پر
یاد آئیں گے تم کو کبھی ہم اہلِ نظر بھی
ہم ہیں کہ مٹے جاتے ہیں ایک ایک ادا پر
اور صاحبِ محمل کو نہیں اس کی خبر بھی
دیکھے ہیں بہت ان کی نگاہوں کے کرشمے
ہے دل پہ گراں اب تو محبت کی نظر بھی
دل جلوۂ رعنا کی جھلک ہی میں ہوا گم
کرنی تھی ہمیں دعوتِ دزدیدہ نظر بھی
بے کیفئ دل ہجر میں کچھ طرفہ بلا ہے
کہنے کو تو اٹھتا ہے بہت دردِ جگر بھی
اس درجہ چڑھا نشۂ الفت کہ سہاؔ اب
یہ سر سے نہ اترے جو اتاریں مرا سر بھی