وہ کہتے ہیں آؤ مری انجمن میں مگر میں وہاں اب نہیں جانے والا
کہ اکثر بلایا بلا کر بٹھایا بٹھا کر اٹھایا اٹھا کر نکالا
نشاط و الم کے سفید و سیہ نے ہماری نگاہوں کو حیرت میں ڈالا
ادھر روشنی ہے ادھر تیرگی ہے کہیں ہے اندھیرا کہیں ہے اجالا
مرا درد پوچھا مرا حال دیکھا مرے دل کا ارمان تم نے نکالا
خدا اور بھی دے زیادہ مراتب سوا اور اس سے بھی ہو بول بالا
پڑی نیو آپس میں گو دوستی کی مگر دوستی کس طرح نبھ سکے گی
اسے ہے نزاکت مجھے ہے نقاہت نہ وہ آنے والا نہ میں جانے والا
شوالے کی جانب قدم کیوں بڑھاؤں نظر کس لئے سوئے مسجد اٹھاؤں
ادھر کہہ رہا ہے ادھر سن رہا ہے کوئی کہنے والا کوئی سننے والا
ہمیں پر ہوئیں کیا ہزاروں جفائیں ہزاروں پر آئیں ہزاروں بلائیں
زمانے میں کوئی سنبھلنے نہ پایا کسی شوخ نے ہوش جب سے سنبھالا
وہ آئے تھے پہلو میں بے ہوش تھا میں ہوئی ہوگی دل پر بہت کچھ نوازش
مگر کیا خبر مجھ کو اللہ جانے تمنا نکالی کہ کانٹا نکالا
ہزاروں بلا نوش ادھر بھی ادھر بھی ملی اتنی فرصت کہاں مے کدے میں
رہا کام پینے پلانے سے سب کو نہ دھوئی صراحی نہ ساغر کھنگالا
محبت کے جوگی ستم کے بروگی وفا کے بھکاری جفا کے پجاری
جہاں دیکھ پاتے ہیں جلوہ بتوں کا بچھاتے ہیں اپنا وہیں مرگ چھالا
چرا لے گیا کوئی دل بھی جگر بھی اڑا لے گیا کوئی صبر و سکوں بھی
یقیں ہے تمنا نکلتے نکلتے نکل جائے گا عاشقوں کا دوالا
وطن سے نکل کر اکیلے چلے تھے مگر خوش یقینی کے قربان جائیں
ملا دشتِ غربت میں اک اک قدم پر ہمیں اک نہ اک جان پہچان والا
فغاں کی بھی امداد حاصل کروں میں محبت کو بھی کچھ توجہ دلاؤں
بھرم جذبِ دل کا نکلنے نہ پائے نکل آئے پردے سے وہ پردے والا
غضب ڈھا گئیں سیدھی سادی ادائیں ستم کر گئیں ترچھی بانکی نگاہیں
یہی شور اٹھا جدھر سے وہ گزرے مجھے مار ڈالا مجھے مار ڈالا
ادھر طور پر غش میں موسیٰ پڑے ہیں ادھر ہاتفِ غیب یہ کہہ رہا ہے
ذرا کھولیے آپ آنکھیں تو اپنی قریب آ گیا دیکھیے دور والا
یہ مطلب تھا ارمان اس کے نہ نکلیں جو تڑپیں تو کچھ اور پیچیدگی ہو
مرے خانۂ دل میں رنج و الم نے تنا ہر طرف خوب مکڑی کا جالا
تمھارا ثنا خواں تمھارا دعا گو تمھارا فدائی تمھارا سلامی
یہ کیا کہہ دیا اس نے واقف نہیں ہم وہی ہاں وہی نوحؔ طوفان والا