زلف برہم سنبھال کر چلیے
راستہ دیکھ بھال کر چلیے
موسمِ گل ہے اپنی بانہوں کو
میری بانہوں میں ڈال کر چلیے
مے کدے میں نہ بیٹھیے تاہم
کچھ طبیعت بحال کر چلیے
کچھ نہ دیں گے تو کیا زیاں ہوگا
حرج کیا ہے سوال کر چلیے
ہے اگر قتل عام کی نیت
جسم کی چھب نکال کر چلیے
کسی نازک بدن سے ٹکرا کر
کوئی کسب کمال کر چلیے
یا دوپٹہ نہ لیجیے سر پر
یا دوپٹہ سنبھال کر چلیے
یار دوزخ میں ہیں مقیم عدمؔ
خلد سے انتقال کر چلیے