خوش بہت پھرتے ہیں وہ گھر میں تماشا کر کے
کام نکلا تو ہے ان کا مجھے رسوا کر کے
روک رکھنا تھا ابھی اور یہ آواز کا رس
بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کر کے
فرق اتنا نہ سہی عشق و ہوس میں لیکن
میں تو مر جاؤں ترا رنگ بھی میلا کر کے
صاف و شفاف تھی پانی کی طرح نیتِ دل
دیکھنے والوں نے دیکھا اسے گدلا کر کے
مجھ سے چھڑوائے مرے سارے اصول اس نے ظفرؔ
کتنا چالاک تھا مارا مجھے تنہا کر کے