راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں
یہ بھی تم جانتے ہو چند ملاقاتوں میں
آزمایا ہے تمھیں ہم نے کئی باتوں میں
غیر کے سر کی بلائیں جو نہیں لیں ظالم
کیا مرے قتل کو بھی جان نہیں ہاتھوں میں
ابرِ رحمت ہی برستا نظر آیا زاہد
خاک اڑتی کبھی دیکھی نہ خراباتوں میں
یارب اس چاند کے ٹکڑے کو کہاں سے لاؤں
روشنی جس کی ہو ان تاروں بھری راتوں میں
تمھی انصاف سے اے حضرتِ ناصح کہہ دو
لطف ان باتوں میں آتا ہے کہ ان باتوں میں
دوڑ کر دستِ دعا ساتھ دعا کے جاتے
ہائے پیدا نہ ہوئے پاؤں مرے ہاتھوں میں
کیا قیامت ہے اس ارمان بھرے کی حسرت
ایک شب جس کو میسر نہ ہو سو راتوں میں
جلوۂ یار سے جب بزم میں غش آیا ہے
تو رقیبوں نے سنبھالا ہے مجھے ہاتھوں میں
ایسی تقریر سنی تھی نہ کبھی شوخ و شریر
تیری آنکھوں کے بھی فتنے ہیں تری باتوں میں
عہدِ جمشید میں تھا لطفِ مے و ابر و ہوا
کب یہ معشوق تھے اس وقت کی برساتوں میں
ہم سے انکار ہوا غیر سے اقرار ہوا
فیصلہ خوب کیا آپ نے دو باتوں میں
ہفت افلاک ہیں لیکن نہیں کھلتا یہ حجاب
کونسا دشمنِ عشاق ہے ان ساتوں میں
اور سنیے ابھی رندوں سے جنابِ واعظ
چل دیے آپ تو دو چار ہی صلواتوں میں
ہم نے دیکھا انھی لوگوں کو ترا دم بھرتے
جن کی شہرت تھی یہ ہرگز نہیں ان باتوں میں
بھیجے دیتا ہے انھیں عشق متاعِ دل و جاں
ایک سرکار لٹی جاتی ہے سوغاتوں میں
دل کچھ آگاہ تو ہو شیوۂ عیاری سے
اس لیے آپ ہم آتے ہیں تری گھاتوں میں
وصل کیسا وہ کسی طرح بہلتے ہی نہ تھے
شام سے صبح ہوئی ان کی مداراتوں میں
وہ گئے دن جو رہے یاد بتوں کی اے داغؔ
رات بھر اب تو گزرتی ہے مناجاتوں میں