اچھی صورت پہ غضب ٹوٹ کے آنا دل کا
یاد آتا ہے ہمیں ہائے زمانہ دل کا
تم بھی منہ چوم لو بے ساختہ پیار آ جائے
میں سناؤں جو کبھی دل سے فسانہ دل کا
نگہِ یار نے کی خانہ خرابی ایسی
نہ ٹھکانا ہے جگر کا نہ ٹھکانا دل کا
پوری مہندی بھی لگانی نہیں آتی اب تک
کیوں کر آیا تجھے غیروں سے لگانا دل کا
غنچۂ گل کو وہ مٹھی میں لیے آتے تھے
میں نے پوچھا تو کیا مجھ سے بہانہ دل کا
ان حسینوں کا لڑکپن ہی رہے یا اللہ
ہوش آتا ہے تو آتا ہے ستانا دل کا
دے خدا اور جگہ سینہ و پہلو کے سوا
کہ برے وقت میں ہو جائے ٹھکانا دل کا
میری آغوش سے کیا ہی وہ تڑپ کر نکلے
ان کا جانا تھا الٰہی کہ یہ جانا دل کا
نگہِ شرم کو بے تاب کیا کام کیا
رنگ لایا تری آنکھوں میں سمانا دل کا
انگلیاں تارِ گریباں میں الجھ جاتی ہیں
سخت دشوار ہے ہاتھوں سے دبانا دل کا
حور کی شکل ہو تم نور کے پتلے ہو تم
اور اس پر تمھیں آتا ہے جلانا دل کا
چھوڑ کر اس کو تری بزم سے کیوں کر جاؤں
اک جنازے کا اٹھانا ہے اٹھانا دل کا
بے دلی کا جو کہا حال تو فرماتے ہیں
کر لیا تو نے کہیں اور ٹھکانا دل کا
بعد مدت کے یہ اے داغؔ سمجھ میں آیا
وہی دانا ہے کہا جس نے نہ مانا دل کا