ان کو تو نے کیا سے کیا شوقِ فراواں کر دیا
پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کر دیا
ہو چکے تھے وہ عیاں پھر ان کو پنہاں کر دیا
ہائے کیا اندھیر تو نے چشمِ حیراں کر دیا
زاہدوں کو بھی شریکِ بزمِ رنداں کر دیا
سیکڑوں کو دخترِ رز نے مسلماں کر دیا
دردِ دل نے اور سب دردوں کا درماں کر دیا
عشق کی مشکل نے ہر مشکل کو آساں کر دیا
جب فلک نے مجھ کو محرومِ گلستاں کر دیا
اشک ہائے خوں نے مجھ کو گل بداماں کر دیا
یہ تری زلفیں یہ آنکھیں یہ ترا مکھڑا یہ رنگ
حور کو اللہ کی قدرت نے انساں کر دیا
ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم
کر کے جرأت ان سے آج اظہارِ ارماں کر دیا
زلف و رخ کو ڈھانکیے یہ بھی کوئی انداز ہے
اس کو حیراں کر دیا اس کو پریشاں کر دیا
پھونک دی اک روح تو مجھ میں مری ہر آہ نے
دردِ دل نے میری رگ رگ کو رگِ جاں کر دیا
تو نظر آنے لگا کی اس قدر گہری نگاہ
میں نے جس ذرے کو دیکھا چاہِ کنعاں کر دیا
چپکے چپکے اندر اندر تو نے اے شوقِ نہاں
دل کو میرے رازدارِ حسنِ پنہاں کر دیا
جن کی استادی پہ خود حکمت بجا کرتی تھی ناز
ایک امی نے انھیں طفلِ دبستاں کر دیا
مجھ کو سوجھا بھی تو کیا مجذوبؔ وحشت کا علاج
میں نے دل وابستۂ زلفِ پریشاں کر دیا