موجد کا حسن اپنی ہی ایجاد کھا گئی
ماں کا شباب کثرتِ اولاد کھا گئی
دیہات کے وجود کو قصبہ نگل گیا
قصبے کا جسم شہر کی بنیاد کھا گئی
اک عمر جس کے واسطے دفتر کیے سیاہ
اس مرکزی خیال کو روداد کھا گئی
تیری تو شان بڑھ گئی مجھ کو نواز کر
لیکن مرا وقار یہ امداد کھا گئی
کاری گروں نے بابوؤں کو زیر کر لیا
محنت کی آنچ کاغذی اسناد کھا گئی
قد تو پھلوں کا بڑھ گیا دورِ جدید میں
سپراؔ مگر اثر کو نئی کھاد کھا گئی