کبھی بن سنور کے جو آ گئے تو بہارِ حسن دکھا گئے
مرے دل کو داغ لگا گئے یہ نیا شگوفہ کھلا گئے
کوئی کیوں کسی کا لبھائے دل کوئی کیوں کسی سے لگائے دل
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
مرے پاس آتے تھے دم بدم وہ جدا نہ ہوتے تھے ایک دم
یہ دکھایا چرخ نے کیا ستم کہ مجھی سے آنکھ چرا گئے
جو ملاتے تھے مرے منہ سے منہ کبھی لب سے لب کبھی دل سے دل
جو غرور تھا وہ انھی پہ تھا وہ سبھی غروروں کو ڈھا گئے
بندھے کیوں نہ آنسوؤں کی جھڑی کہ یہ حسرت ان کے گلے پڑی
وہ جو کاکلیں تھیں بڑی بڑی وہ انھی کے پیچ میں آ گئے
یہی شوق تھا ہمیں دم بدم کہ بہار دیکھیں گے اب کے ہم
جونہی چھوٹے قیدِ قفس سے ہم تو سنا خزاں کے دن آ گئے