Skip to content

ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے

فناؔ نظامی کانپوری

تحت اللفظ

غزل

ساقیا تو نے مرے ظرف کو سمجھا کیا ہے
زہر پی لوں گا ترے ہاتھ سے صہبا کیا ہے

میں چلا آیا ترا حسنِ تغافل لے کر
اب تری انجمن ناز میں رکھا کیا ہے

نہ بگولے ہیں نہ کانٹے ہیں نہ دیوانے ہیں
اب تو صحرا کا فقط نام ہے صحرا کیا ہے

ہو کے مایوسِ وفا ترکِ وفا تو کر لوں
لیکن اس ترکِ وفا کا بھی بھروسا کیا ہے

کوئی پابندِ محبت ہی بتا سکتا ہے
ایک دیوانے کا زنجیر سے رشتہ کیا ہے

ساقیا کل کے لیے میں تو نہ رکھوں گا شراب
تیرے ہوتے ہوئے اندیشۂ فردا کیا ہے

میری تصویر غزل ہے کوئی آئینہ نہیں
سیکڑوں رخ ہیں ابھی آپ نے دیکھا کیا ہے

صاف گوئی میں تو سنتے ہیں فناؔ ہے مشہور
دیکھنا یہ ہے ترے منہ پہ وہ کہتا کیا ہے

  • سپاٹیفائی
  • یوٹیوب
  • پوڈ کاسٹ
Prevپچھلی پیشکشفاتحہ پڑھ کے چلے آئے ہیں مے خانے سے
اگلی پیشکشخاک ہونے والوں کو خاک بھی نہ سمجھا جائےNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

لہجہ

صوتی ادب۔ اردو کی کلاسیک غزلیں، نظمیں اور نثر پارے راحیلؔ فاروق کی آواز میں سنیے۔ دل آویز نقاشی اور پس پردہ موسیقی کے ساتھ!

آپ کے لیے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

مرزا محمد رضا برقؔ
  • تحت اللفظ
  • غزل
  • راحیلؔ فاروق
بول

بول

فیض احمد فیضؔ
  • تحت اللفظ
  • نظم
  • راحیلؔ فاروق
ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا

ہم نے تو دل جلا کے سرِ عام رکھ دیا

قتیلؔ شفائی
  • تحت اللفظ
  • غزل
  • راحیلؔ فاروق
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے

شکیبؔ جلالی
  • تحت اللفظ
  • غزل
  • راحیلؔ فاروق
ہر طرف یار کا تماشا ہے

ہر طرف یار کا تماشا ہے

سراجؔ اورنگ آبادی
  • تحت اللفظ
  • غزل
  • راحیلؔ فاروق
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔