پہلا مصرع
ایک دن باغ میں جا کر ، چشمِ حیرت زدہ وا کر، جامۂ صبر قبا کر، طائرِ ہوش اڑا کر، شوق کو راہ نما کر، مرغِ نظارہ اڑا کر، دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی، شکل غنچوں کے دہن کی، تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی، ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی پری تھی، خوش نسیمِ سحری تھی ، سر وو شمشاد و صنوبر ، سنبل و سوسن و عر عر ، نخل میوے سے رہے بھر، نفسِ باد معنبر، در و دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوق، کہیں انگور معلق ، نالے بلبل کے مدقق، کہیں غوغائی کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل، غم ہوا کشتہ و بسمل، شادی خاطر سے گئی مل، خرمی ہو گئی حاصل ، روح بالیدہ ہو آئی، شانِ قدرت دی دکھائی، جان سی جان میں آئی، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا
دوسرا مصرع
نا گہاں صحنِ چمن میں، مجمعِ سرو و سمن میں، جیسے ہو روح بدن میں، جیسے ہو شمع لگن میں، جیسے خورشید کرن میں، ماہ پروین و پرن میں، دیکھا اک دلبرِ رعنا و طرح دار، جفا کار، دل آزار نمودار، نگہ ہمسرِ شمشیر، مژہ ترکشِ پرتیر، سرِ زلف گرہ گیر،دلِ خلق کی زنجیر، جبیں نور کی تصویر، وہ رخ شمس کی تنویر ، زباں شہد بیاں شیر، نظر روح کی اکسیر ، دہن غنچۂ خاموش، سمن برگ بر و دوش ، سخن بحرِ گہر جوش، بدن سروِ قباپوش ، چھڑی گل کی ہم آغوش ، وفا رحم فراموش ، ہر اک آن ستم کوش ، عجب حسن دل آرا، نہ کبھی مہر نے دیکھا، نہ کبھی ماہ نے دیکھا نہ کسی فہم میں آیا ، نہ تصور میں سمایا، وہ نظر مجھ کو جو آیا، مجھے حسن اپنا دکھایا، دل نے اک جوش اٹھایا، جی نے سب ہوش اڑایا، سر کو پائوں پہ جھکایا،اشک آنکھوں سے بہایا، اس نے جب یوں مجھے پایا، یہ سخن ہنس کے سنایا، کہ ’’توہے عاشقِ شیدا، لیکن عاشق نہیں پیدا ، ہووے تجھ پر یہ ہو یدا، کہ اگر ہم کو تو چاہے یا محبت کو نباہے، نہ کبھی غم سے کراہے، نہ کسی غیر کو چاہے ، نہ کبھی گل کی طرف دیکھ، نہ سنبل کی طرف دیکھ، نہ بلبل کی طرف دیکھ، نہ بستاں پہ نظر کر، نہ گلستاں میں گزر کر ، چھوڑدے سب کی مودت، ہم سے رکھ دل کی محبت ، اس میں ہم بھی تجھے چاہیں، تجھ سے الفت کو نباہیں ، ہیں یہی چاہ کی راہیں، گریہ مقدور تجھے ہو، اور یہ منظور تجھے ہو، تو نظیرؔ آج سے تو چاہنے والا ہے ہمارا‘‘