چلی آخر جلا کر گل کے ہاتھوں آشیاں اپنا
چمن میں ہائے بلبل نے نہ چھوڑا کچھ نشاں اپنا
یہ حسرت رہ گئی کیا کیا مزے سے زندگی کرتے
اگر ہوتا چمن اپنا گل اپنا باغباں اپنا
جنوں سوں اس قدر روئیں کہ رسوا ہو گئیں آخر
ڈبایا ہائے ان آنکھوں نے آخر خانماں اپنا
مرا جلتا ہے دل اس بلبلِ بیکس کی غربت پر
کہ گل کے آسرے پر جن نے چھوڑا آشیاں اپنا
رقیباں کی نہ کچھ تقصیر ثابت ہے نہ خوباں کی
مجھے ناحق ستاتا ہے یہ عشقِ بد گماں اپنا
جو تو نے کی سو دشمن بھی نہیں دشمن سے کرتا ہے
غلط تھا جانتے تھے تجھ کو جو ہم مہرباں اپنا
کوئی آزردہ کرتا ہے سجن اپنے کو ہے ظالم
یہ دولت خواہ اپنا مظہرؔ اپنا جانِ جاںؔ اپنا