دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں
رسمِ الفت میں روا شکوۂ بیداد نہیں
یہ تو کم ظرفئ جذبات ہے فریاد نہیں
وہ مری خاک نشینی کے مزے کیا جانے
جو مری طرح تری راہ میں برباد نہیں
ڈھونڈنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتا یاد نہیں
ایک زنجیرِ طریقت میں بندھے ہیں دونوں
عشق پابند سہی حسن بھی آزاد نہیں
عرش والے نہ سنیں ساری خدائی سن لے
اس قدر پست مذاقِ لبِ فریاد نہیں
روحِ بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن
پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں
حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھول ہوئی ہو یہ مجھے یاد نہیں
بربطِ ماہ پہ مضرابِ فغاں رکھ دی تھی
میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمھیں یاد نہیں
قفس و بلبل و گل سب ہیں یہ فانوسِ خیال
تیری ہستی سے زیادہ کوئی صیاد نہیں
کھول قاموسِ محبت ورقِ عشق الٹ
حسن کو معنئ یک لفظِ وفا یاد نہیں
لاؤ اک سجدہ کروں عالمِ بدمستی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں