مری داستانِ الم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
مرا مدعا نہیں آئے گا ترا تذکرہ نہیں آئے گا
مری زندگی کے النگ میں کئی گھاٹیاں کئی موڑ ہیں
تری واپسی بھی ہوئی اگر تجھے راستہ نہیں آئے گا
اگر آئے دن تری راہ میں تری کھوج میں تری چاہ میں
یوں ہی قافلے جو لٹا کیے کوئی قافلہ نہیں آئے گا
مری عمر بھر کی برہنگی مجھے چھوڑ دے مرے حال پر
یہ جو عکس ہے مرا ہم سفر مجھے اوڑھنا نہیں آئے گا
اگر آئے دشت میں جھیل تو ذرا احتیاط سے پھینکنا
کہ میں برگِ خشک ہوں دوستو مجھے ڈوبنا نہیں آئے گا
کہیں انتہا کی ملامتیں کہیں پتھروں سے اٹی چھتیں
ترے شہر میں مرے بعد اب کوئی سر پھرا نہیں آئے گا
کوئی انتظار کا فائدہ مرے یار بیدلِؔ غم زدہ
تجھے چھوڑ کر جو چلا گیا نہیں آئے گا نہیں آئے گاا