اِسمِ مُذکّر
انگریزی میں a لغوی معنے سب جگہ موجود ۔ پھٹکار۔ تُھڑی ۔ رچا ہوا ۔ نحو م میں حروف اعراب کا پہلا اعراب۔ الِف معہ زبر۔ حرف نِدا۔ سؤر۔ ( جِس طرح عربی زبان اور فارسی کا الف مُختلف مقاموں پر مُختلف کام دیتا ہے۔ اِسی طرح یہ بھی کبھی نفی کے کیے آتا ہے (اوّل میں) جیسے اہان۔ ابُدھ۔ ابھاگ۔ اٹل ۔ اگم۔ اچل۔ اَدھر وغیرہ۔ کبھی الصاق کے لیے (وسط میں) جیسے چلاچلی ۔ بُوندا باندی۔ مارا ماری۔ دِھینگا دِھینگی ۔ دُھواں دُھوں ۔ برسا برس۔ تڑا تڑ۔ مونہا مونّھہ۔ بھاگا بھاگ وغیرہ۔ کبھی عطف کے واسطے (وسط میں) ہاتھا پائی ۔ دھکا پیل۔ ریلا پیل۔ بولا چالی۔ وغیرہ۔ کبھی فاعل کے لیے (آخر میں) جَیسے ہل جوتا۔ کمیرا ۔ تُھڑدلا ۔ بُزدِلا ۔ اِکلڑا ۔ دولڑا ۔ کیرا۔ کبھی تصغیر کے واسطے ( آخر میں) چُٹیا ۔ بِیٹا ۔ کھوٹیا۔ وغیرہ کبھی تذکِیر کے واسطے (ۤخر میں) جیسے لڑکا ۔ گھوڑا ۔ چِیونٹا۔ پھاوڑا ۔ اُونچا ۔ گہرا ، کھڑکا۔ چانٹا وغیرہ۔ کبھی نسبت کے واسطے(درمیان میں) جیسے موسلادھار ۔ ساتا روہن ۔ مرگا لوچنی ۔ کاگا رول ۔ اکہرا دُہرا ۔ کانا پھوسی۔ بھیڑیا چال ۔ دگا چوکڑی۔ کبھی بڑپن کے واسطے ( اخیر میں) جیسے ٹوکرا ۔ ٹہنا ۔ برچھا ۔ پرکھا۔ وغیرہ۔
اِسمِ مُذکّر
لغوی معنے مردِ مُجرد ۔ ا یہ عربی اور فارسی حروف تہجّی کا پہلا حرف ہے اہلِ عرب کے نزدیک اِس کی آواز زبان کے بے جھٹکا دیے نِکلتی ہے۔ یہ حرف کِسی لفظ کے درمیان یا آخر میں ہمیشہ ساکن واقع ہوا کرتا ہے۔ اور اِسی لگّا نہ کھانے کے سبب اِس کا نام الف رکھا گیا۔ چونکہ ابتدأ بساکن محال ہےاس لیے نحویوں نے الف بے تے کے پہلے حرف کو ہمزہ مانا اور لام کے ساتھ میں ایک اتحاد قلبی کے باعث ملا دیا۔ جِسے لوگ اپنی غلط فہمی سے لام الف کہنے لگے۔ یہ حرف لکھنے کی حالت میں ایک خطِ مُستقیم اور شکل میں گویا چاول کا دانہ ہے۔ حسابِ جُمل میں اس کا عدد ایک فرض کیا گیا ہے۔ اگر یہ خطِ مُستقیم کِسی لفظ مُتحرک کے شُروع میں آئے یا لفظ ساکن کے درمیان یا آخر میں زبان کے جھٹکے سے نِکلے تو ہم بقاعدہ عرب اسی کو ہمزہ کہیں گے۔ مگر عُرف میں کیا اہلِ عرب کیا اہلِ فارس دونوں حالتوں میں اِس کو الف ہی کہتے ہیں اور لِکھتے ہیں۔ اس صورت سے ہم سنسکرت اور ہنّدی بلکہ انگریزی اور دیگر زبانوں کے پہلے حرف یا اعراب کی آواز کو بہی نیچرل قاعدہ کے موافق ایک ہی کہہ سکتے ہیں۔ پس اب یہ سنسکررت کا بھی پہلا اعراب اور انگریزی کا بھی پہلا حرف ثابت ہوا۔ مگر چونکہ اس جگہ ہم نے اس حرف کو عربی قائم کیا ہے اِس سبب سے یہاں ہم صِرف عربی اور اس کے ضمن میں فارسی الف کے بیان سے غرض رکھیں گے۔ اور ہندی کے الف کو اس بحث سے الگ رکھیں گے۔ بلکہ عربی و فارسی الف کا بیان بھی وہیں تک ہو گا ۔ کہ جہاں تک اُردُو میں کبھی کبھی کان پڑتا ہے۔ یا جِس سے آئندہ فلو لجی (علم زبان) میں مدد مِلنے کی امید ہے۔ عربی میں یہ حرف کبھی تو جمع کے واسطے آتا ہے جیسے تدابیر تراکیب ۔ عناصر ۔ مساجِد وغیرہ۔ اور کبھی مُتکلّم کے واسطے جیسے مُشفقا وغیرہ اور کبھی واو کو اُس کی جگہ سے ہٹا کر آپ آن کودتا ہے۔ جَیسے عصو کا عصا ہو گیا۔ اور کبھی یاے تحتائی کی صورت میں لِکھا جاتا ہے اور الف کی آواز میں پڑھا جاتا ہے جَیسے مصطفیٰ اور مر تضیٰ ( اصل میں یہاں بھی واو تھی ۔ ایسی یے کے اوپر تمِیز کے واسطے ایک چھوٹا سا الف یا کھڑا زبر بھی لِکھ دیا کرتے ہیں) کبھی تانِیث کے واسطے آتا ہے ۔ جیسے عُقبیٰ دینی مگر دُنیا کو مثلِ عُلیا ا؛ف بھی لِکھتے ہیں۔
بھی حالتِ وقف میں تمِیز کے واسطے نصبی تنوِین کو بھی الف پڑھا جاتا ہے ۔ جیسے اصلاً اور اصلا۔ ظاہرًا ظاہرا۔ بعضوں نے لِکھا ہے کہ نہیں ایک قِسم کا تنوِینی الف بھی ہوتا ہے۔ اور جس لفظ پر نصبی تنوِین دینی منظور ہوتی ہے اُس کو وہاں ضرور لِکھتے ہیں جیسے یقیناً ۔ تمثلاً ۔ اِثباتاً وغیرہ۔ یہی الف مِثلِ فارسی اور ہندی حالت میں امالہ میں یاے تحتانی سے بھی بدل جاتا ہے ۔ جیسے کِتاب اور کتیب۔ رکاب اور رکیب۔ حِساب اور حسیب بلکہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جِس طرح ہندی میں یہ حرف کِسی لفظ کے اوّل میں نفی کے واسطے آتا ہے۔ اِسی طرح عربی میں بھی آتا ہے ۔ جِسے ہمزۂ سلب کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جَیسے افلاس اور اعراب۔ کیونکہ فلس کے معنی پیسہ کے تھے جب اُس کے اوّل میں ہمزۂ سلب آ گیا تو اُس نے اِس کے معنی اُلٹ دئے یعنی امیر سے غریب بنا دیا۔ اِسی طرح عربت کے معنی فساد معدہ کے تھے مگر جب یہ ہمزۂ آیا تو اُس نے رفع فساد کے معنی کر دئے یعنی وہ حروف جو عبارت کے فساد کو دُور کریں۔
اب ہم فارسی کی طرف توجّہ کرتے اور دیکھتے ہیں کہ یہ حضرت کیا گُل کِھلاتے اور ہماری زبان میں کہاں تک مدد دیتے ہیں۔
( فارسی الف ضیغہ امر کے آخر میں فاعل کے واسطے آتا ہے۔ جیسے دانا ۔ بِینا ۔ جویا ۔ زیبا۔ توانا ۔ شکیبا۔ اور نیز مفعول کے واسطے آتا ہے۔ جیسے گورا۔ پزیرا۔ اور اتّصال کے واسطے جیسے رَوَارَو ۔ دوادو۔ رنّگا رنّگ ۔ لبالب ۔ مالامال۔ شباشب۔ گوُناگوُں۔ عطف کے واسطے جیسے شباروز۔ تگاپُو۔ سراپا۔ تگادو۔ مذبہ کے واسطے جَیسے دریغا۔ حسرتا۔ دردا۔ نِدا کے واسطے (کلمہ کے آخر میں) جَیسے خُداونّدا۔ جہانّدارا۔ شاہا ۔ دِلا۔ جانا وغیرہ)
اس علاوہ یہ الف کبھی اوّل کبھی وسط کبھی اخیر میں زایٔد بھی آیا کرتا ہے۔