کیا غرض لاکھ خدائی میں ہوں دولت والے
ان کا بندہ ہوں جو بندے ہیں محبت والے
گئے جنت میں اگر سوزِ محبت والے
تو یہ جانو رہے دوزخ ہی میں جنت والے
ساقیا ہوں جو صبوحی کی نہ عادت والے
صبحِ محشر کو بھی اٹھیں نہ ترے متوالے
کس مرض کی ہیں دوا یہ لبِ جاں بخش ترے
جاں بہ لب ہیں ترے آزارِ محبت والے
حرص کے پھیلتے ہیں پاؤں بہ قدرِ وسعت
تنگ ہی رہتے ہیں دنیا میں فراغت والے
نہیں جز شمع مجاور مری بالینِ مزار
نہیں جز کثرتِ پروانہ زیارت والے
ہائے رے حسرتِ دیدار مری ہائے کو بھی
لکھتے ہیں ھائے دو چشمی سے کتابت والے
نہ شکایت ہے کرم کی نہ ستم کی خواہش
دیکھ تو ہم بھی ہیں کیا صبر و قناعت والے
دل سے کچھ کہتا ہوں میں مجھ سے ہے کچھ کہتا دل
دونوں اک حال میں ہیں رنج و مصیبت والے
تو گر آ جائے تو اے دردِ محبت کی دوا
مرے ہمدرد ہوں بے درد فضیحت والے
کبھی افسوس ہے آتا کبھی رونا آتا
دلِ بیمار کے ہیں دو ہی عیادت والے
تو مرے حال سے غافل ہے پر اے غفلت کیش
تیرے اندازِ تغافل نہیں غفلت والے
ہم نے دیکھا ہے جو اس بت میں نہیں کہہ سکتے
کہ مبادا کہیں سن پائیں شریعت والے
ناز ہے گل کو نزاکت پہ چمن میں اے ذوقؔ
اس نے دیکھے ہی نہیں ناز و نزاکت والے