Skip to content
لہجہ - صوتی ادب
  • تعارف
  • فہرست
  • ادبا
  • اصناف
    • غزل
    • نظم
Menu
  • تعارف
  • فہرست
  • ادبا
  • اصناف
    • غزل
    • نظم

بحرِ طویل

نظیرؔ اکبر آبادی

تحت اللفظ

نظم

پہلا مصرع

ایک دن باغ میں جا کر ، چشمِ حیرت زدہ وا کر، جامۂ صبر قبا کر، طائرِ ہوش اڑا کر، شوق کو راہ نما کر، مرغِ نظارہ اڑا کر، دیکھی رنگت جو چمن کی، خوبی نسرین و سمن کی، شکل غنچوں کے دہن کی، تازگی لالہ کے تن کی، تازگی گل کے بدن کی، کشت سبزے کی ہری تھی، نہر بھی لہر بھری تھی، ہر خیاباں میں تری تھی، ڈالی ہر گل کی پری تھی، خوش نسیمِ سحری تھی ، سر وو شمشاد و صنوبر ، سنبل و سوسن و عر عر ، نخل میوے سے رہے بھر، نفسِ باد معنبر، در و دیوار معطر، کہیں قمری تھی مطوق، کہیں انگور معلق ، نالے بلبل کے مدقق، کہیں غوغائی کی بق بق، اس قدر شاد ہوا دل، مثل غنچے کے گیا کھل، غم ہوا کشتہ و بسمل، شادی خاطر سے گئی مل، خرمی ہو گئی حاصل ، روح بالیدہ ہو آئی، شانِ قدرت دی دکھائی، جان سی جان میں آئی، باغ کیا تھا گویا اللہ نے اس باغ میں جنت کو اتارا

دوسرا مصرع

نا گہاں صحنِ چمن میں، مجمعِ سرو و سمن میں، جیسے ہو روح بدن میں، جیسے ہو شمع لگن میں، جیسے خورشید کرن میں، ماہ پروین و پرن میں، دیکھا اک دلبرِ رعنا و طرح دار، جفا کار، دل آزار نمودار، نگہ ہمسرِ شمشیر، مژہ ترکشِ پرتیر، سرِ زلف گرہ گیر،دلِ خلق کی زنجیر، جبیں نور کی تصویر، وہ رخ شمس کی تنویر ، زباں شہد بیاں شیر، نظر روح کی اکسیر ، دہن غنچۂ خاموش، سمن برگ بر و دوش ، سخن بحرِ گہر جوش، بدن سروِ قباپوش ، چھڑی گل کی ہم آغوش ، وفا رحم فراموش ، ہر اک آن ستم کوش ، عجب حسن دل آرا، نہ کبھی مہر نے دیکھا، نہ کبھی ماہ نے دیکھا نہ کسی فہم میں آیا ، نہ تصور میں سمایا، وہ نظر مجھ کو جو آیا، مجھے حسن اپنا دکھایا، دل نے اک جوش اٹھایا، جی نے سب ہوش اڑایا، سر کو پائوں پہ جھکایا،اشک آنکھوں سے بہایا، اس نے جب یوں مجھے پایا، یہ سخن ہنس کے سنایا، کہ ’’توہے عاشقِ شیدا، لیکن عاشق نہیں پیدا ، ہووے تجھ پر یہ ہو یدا، کہ اگر ہم کو تو چاہے یا محبت کو نباہے، نہ کبھی غم سے کراہے، نہ کسی غیر کو چاہے ، نہ کبھی گل کی طرف دیکھ، نہ سنبل کی طرف دیکھ، نہ بلبل کی طرف دیکھ، نہ بستاں پہ نظر کر، نہ گلستاں میں گزر کر ، چھوڑدے سب کی مودت، ہم سے رکھ دل کی محبت ، اس میں ہم بھی تجھے چاہیں، تجھ سے الفت کو نباہیں ، ہیں یہی چاہ کی راہیں، گریہ مقدور تجھے ہو، اور یہ منظور تجھے ہو، تو نظیرؔ آج سے تو چاہنے والا ہے ہمارا‘‘

  • سپاٹیفائی
  • یوٹیوب
  • پوڈ کاسٹ
Prevپچھلی پیشکشسبا ویراں
اگلی پیشکشجس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہناNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

لہجہ

صوتی ادب۔ اردو کی کلاسیک غزلیں، نظمیں اور نثر پارے راحیلؔ فاروق کی آواز میں سنیے۔ دل آویز نقاشی اور پس پردہ موسیقی کے ساتھ!

آپ کے لیے

کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا

کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا

خمارؔ بارہ بنکوی
  • تحت اللفظ
  • غزل
  • راحیلؔ فاروق
ہر طرف یار کا تماشا ہے

ہر طرف یار کا تماشا ہے

سراجؔ اورنگ آبادی
  • تحت اللفظ
  • غزل
  • راحیلؔ فاروق
لہجہ - اردو گاہ - ربط

رقص

ن م راشدؔ
  • تحت اللفظ
  • راحیلؔ فاروق
فرصتِ زندگی بہت کم ہے

فرصتِ زندگی بہت کم ہے

خواجہ میر دردؔ
  • تحت اللفظ
  • غزل
  • راحیلؔ فاروق
دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ کر دیا

دنیا کے ہر خیال سے بیگانہ کر دیا

فناؔ بلند شہری
  • تحت اللفظ
  • غزل
  • راحیلؔ فاروق
اردو گاہ
Facebook-f Twitter Instagram Pinterest Youtube

ہم روایت شکن روایت ساز

  • لغت
  • ادب
  • لہجہ
  • شاعری
  • نثر
  • اقوال
  • امثال
  • محاورات
  • املا
  • عروض
  • معاصرین
  • زار
  • کیفیات
Menu
  • لغت
  • ادب
  • لہجہ
  • شاعری
  • نثر
  • اقوال
  • امثال
  • محاورات
  • املا
  • عروض
  • معاصرین
  • زار
  • کیفیات
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
Menu
  • تشہیر
  • ضوابط
  • رابطہ
اطلاقیہ
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔