فتنہ کی ایک شکل یہ ہے کہ موچی زخم سینے شروع کر دے، لوہار سونا کوٹنے لگے، کمھار استاد بن جائے، بنیا فلسفی ہو جائے۔۔۔
نظامِ قدرت و معاشرت ہر کسے را بہرِ کارے ساختند کے اصول پر قائم ہے۔ موسیقار کا کام ٹھٹھیرا نہیں کر سکتا اور بڑھئی نائی کی جگہ نہیں لے سکتا۔ دنیا کی عظیم ترین حکمتیں چھوٹی چھوٹی حکایات میں رکھ دی گئی ہیں۔ اس قسم کی ایک حکایت ہم نے بچپن میں پڑھی تھی۔ سبق کچھ یوں تھا:
جس کا کام اسی کو ساجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
اب دیکھتے ہیں تو انٹرنیٹ اور سماجی واسطوں کی دنیا میں ہر طرف ٹھینگا باج رہا ہے۔ فضائی حادثوں پر درزی اظہارِ خیال کر رہے ہیں اور سیاست کے رموز دندان سازوں کے ہاں زیرِ بحث ہیں۔ صحافی ادب میں نام پیدا کرنے کے متمنی ہیں اور عالمی جنگیں حکیموں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ حاصل یہ کہ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔
انسان ہونے اور اسی معاشرے کا فرد ہونے کے ناتے یہ غلطی مجھ سے بھی بہت بار ہوئی ہے۔ مگر پے در پے منہ کی کھانے کے بعد اب معلوم ہوتا ہے کہ ہر موضوع پر چونچ کھولنا کچھ ایسا فرض نہ تھا۔ بلکہ شاید اکثر معاملات میں نہ کھولنا فرض تھا۔ اپنی اوقات پہچان لینے ہی میں عافیت ہے۔ کسی دل جلے کا شعر ہے:
تم شہر میں رہنا کہ مضافات میں رہنا
اوقات بڑی چیز ہے اوقات میں رہنا