سات ارب انسانوں کی دنیا میں ایک بھی ایسا نہیں جو کسی دوسرے کو بچا سکے۔ ایک بھی ایسا نہیں جو خود بچ سکے۔ سب چلتے پھرتے، جیتے جاگتے لوگ فنا کا مال ہیں۔ آج نہیں تو کل مٹی میں مل جانے والے ہیں۔ یہ رونقیں، یہ دلچسپیاں، یہ لگاؤ، یہ محبتیں، یہ کام، یہ مصروفیات کتنا بڑا دھوکا ہیں!
بہت لوگوں کو لہجہ کی حالیہ پیشکش سے گمان گزرا کہ جناب تہذیب حافیؔ نے شیخ بقاء اللہ خاں بقاؔ کی غزل سے سرقہ کیا ہے۔ ہم نے بقاؔ کا ایک شعر تعقید کے سبب چھوڑ دیا تھا۔ وہ بھی دیکھ لیجیے:
بزم میں شیخ جی اب ہے کہ ہے یاں عیب نہیں
فرش پر گر نہ ملی جا تو تلے بیٹھ گئے
اگرچہ اس شعر سے یاروں کا گمان یقین میں بدل جائے گا تاہم ہم شاعرِ موصوف پر یہ تہمت عائد کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ ادب میں سرقہ ثابت کرنا فقۂ اسلامی میں زنا ثابت کرنے جتنا مشکل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو یقین ہو بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے ہوتے ہوئے دیکھا ہو مگر نیتوں کا حال تو صرف اللہ جانتا ہے۔
تفنن برطرف، ہم آپ کو ادب میں سرقہ کی نسبت اپنے خیالات پر نظرِ ثانی کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ذیل میں ایک مضمون کا ربط دیا گیا ہے جس میں ہم نے سرقہ کی نسبت اکابرینِ ادب کی آرا اور رویے نقل کیے ہیں:
سرقہ، شعر اور اس کے حقوقِ ملکیت
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 6 اکتوبر 2020ء
- ربط