میرے بزرگ خوش نویس تھے۔ میں نے بھی بچپن میں تختیاں لکھیں اور، یادش بخیر، تیسری چوتھی جماعت کی اردو کی کتاب میں یہ شعر پڑھا:
گر تو می خواہی کہ باشی خوش نویس
می نویس و می نویس و می نویس
یعنی اگر تو چاہتا ہے کہ اچھا لکھنے والا ہو جائے تو لکھتا رہ، لکھتا رہ، لکھتا رہ۔ اس مشورے پر عمل تو خیر نہیں کیا مگر اب سافٹ وئیر کی مدد سے اردو لکھ کر خوش ہو لیتا ہوں۔
مجھے خطاطی کے مبادی سے بھی آگہی نہیں۔ نستعلیق سے عشق البتہ ہے۔ کتنی ہی کتابیں محض اس لیے خریدیں اور سنبھال کر رکھیں کہ ان میں کمپیوٹر کمپوزنگ کی بجائے نستعلیق کی کتابت موجود ہے۔ دوست کہتے ہیں کہ میں اچھی چائے پینے کے لیے لنڈی کوتل تک جا سکتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ نستعلیق کی ایک جھلک کا لالچ شاید مجھے ایران بھی لے جائے۔ اسی عشق کا اعجاز ہے کہ ہنر ور احباب کے ساتھ ساتھ غامدیؔ صاحب جیسے اربابِ علومِ اسلامیہ بھی لہجہ کے نقوش کو بنظرِ استحسان دیکھتے ہیں۔
شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما