وقت بدل جاتا ہے۔ لوگ بھی بدل جاتے ہیں۔ بہت کم ہوتے ہیں جو رہتے ہیں اور نبھاتے ہیں۔ تعلق بیج ہے۔ ڈالنا مشکل نہیں۔ اگانا جوکھم ہے۔ لہجہ کے جو کرم فرما ساتھ رہے ہیں، اللہ کرے ہمیشہ ساتھ رہیں۔ ان جیسا کوئی نہیں۔
پاکستان میں پنجاب پر دوسرے صوبوں کے استحصال کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب سے نفرت یا بغاوت میں پاکستان سے نفرت یا بغاوت کے معانی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسی بالا دستی اور زبردستی کے باوجود میرے خیال میں پاکستانی پنجاب محض ایک بناوٹی، کھوکھلا اور مصنوعی وجود ہے۔ پنجابی ہونے کے ناتے جب میں ہندوستانی اور پاکستانی پنجاب کا موازنہ کرتا ہوں تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے اور بسنے والا پنجابی بہت گھاٹے میں رہا ہے۔ میری زبان اکیسویں صدی میں بھی ایک معیاری رسم الخط سے محروم ہے۔ میری دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے والا منشی اردو بولنا چاہتا ہے اور افسر انگریزی۔ میں دھوتی باندھوں، صافہ رکھوں اور کھسا پہنوں تو میرا بھائی مجھے گنوار سمجھ کر ہنستا ہے۔ میری اولاد جس مٹی سے پیدا ہوتی ہے اس میں دفن ہونے کو ننگ سمجھتی ہے۔ میرے باپ دادا کی تہذیب اور ثقافت کو میرے باپ دادا کے وطن میں ڈھونڈنا ناممکن ہو گیا ہے۔ میرا پنجاب کاغذ کا پھول ہے۔ بظاہر اس کے مرجھانے کا کوئی امکان نہیں مگر بباطن اس کے امکانات کی دنیا ہی مرجھائی ہوئی ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 29 اکتوبر 2022ء
- ربط