دنیا میں ایسی زبانیں نہ ہونے کے برابر ہیں جن پر ان کی پیش رو اور معاصر زبانوں کے کم یا زیادہ اثرات نہ پڑے ہوں۔ ہر زبان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جوں جوں اس نے ترقی اور شیوع کی منازل طے کیں توں توں وہ اپنے زمانے کے وہ تہذیبی و تمدنی اثرات قبول کرنے پر مجبور ہوتی گئی جن کے طفیل اس میں قواعد سے لے کر ذخیرۂِ الفاظ تک مختلف سطحوں پر لسانیاتی تغیرات پیدا ہوئے۔ پس اردو کی نسبت جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ لشکری زبان ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری زبانوں سے اخذ و استفادہ میں یہ تنہا ہے بلکہ محض یہ مراد ہوتی ہے کہ اس میں اثر پذیری کا مادہ دوسری زبانوں سے زیادہ ہے اور نتیجتاً ایک امتیازی خصوصیت کے درجے کو پہنچ گیا ہے۔
فارسی زبان و ادب کے مطالعے کے دوران میں ایک اوسط درجے کا طالبِ علم بھی باآسانی دریافت کر سکتا ہے کہ اس کے ذخیرۂِ الفاظ پر بالخصوص عربی اور ترکی کے اثرات کتنے گہرے ہیں۔ ممکن نہیں کہ آپ ٹکسالی فارسی کے دو جملے یا مصرعے سنیں اور ان میں کوئی عربی لفظ در نہ آئے۔ ایک آدھ صفحے کے برابر مطالعے میں یہ بھی کم و بیش یقینی ہے کہ ایک آدھ ایسے ترکی الاصل لفظ سے بھی سامنا ہو جائے گا جو اہلِ فارس کا خانہ زاد معلوم ہوتا ہو۔ یہی معاملہ پنجابی کے مختلف لہجوں اور سندھی، پشتو، بلوچی وغیرہ کے ساتھ ہے۔
یورپ کی اکثر زبانوں کو دیکھیں تو ان پر یونانی اور لاطینی کے اثرات انمٹ طور پر مرتسم ہیں۔ جو صورتیں مختلف زبانوں نے آج اختیار کر رکھی ہیں وہ بھی گاہے گاہے ایک دوسری کو متاثر کرتی رہتی ہیں۔ انگریزی کی موجودہ شکل ہی کو لیجیے تو ہزار ہا الفاظ ایسے مل جائیں گے جو یونانی، لاطینی، اطالوی، فرانسیسی، المانوی، ہسپانوی اور پرتگالی وغیرہ زبانوں سے جوں کے توں قبول کر لیے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے انگریزی اہلِ مغرب کی اردو ہے کہ اس نے عموماً تمام اور خصوصاً یورپی زبانوں کے مہمان الفاظ کے لیے اتنی ہی تواضع اور کشادہ ظرفی سے کام لیا ہے جتنی ہم مشرق یا برصغیر میں اردو کے ہاں پاتے ہیں۔
توریت میں مذکور ہے کہ جب انسانوں نے بابل میں ایک مینار قائم کر کے نظامِ الہٰی کو گویا تسخیر کرنے کی کوشش کی تو انھیں اس سے باز رکھنے اور مستقبل میں بھی اس قسم کے سوانح کے سدِ باب کے لیے ان کی زبانوں میں اختلاف ڈال دیا گیا۔ یہ حکایت بڑی بلیغ ہے اور زبان و ادب کے طالبِ علم کی حیثیت سے میں اسے رہنما سمجھتا ہوں۔ مفصل پھر کبھی لکھوں گا مگر بالفعل یہ نتیجہ نکالنا مقصود ہے کہ دنیا کی زبانیں درحقیقت متحد الاصل ہیں۔ لسانیات توریت سے انکار بھی کر دے تو اس بات کا انکار بہرحال نہیں کرتی کہ اکثر زبانیں ایک دوسری سے ایسے مضبوط اور گہرے رشتوں میں بندھی ہوئی ہیں کہ ان کی اصل کا ایک ہونا قرینِ قیاس ہے۔
اب اگر تمام انسانی زبانوں کی اصل ایک ہے تو کسی زبان کے خالص یا ناخالص ہونے کا سوال ہی اٹھ جاتا ہے۔ سبھی گویا مائیں بیٹیاں اور بہنیں ہیں جن کی الگ الگ حیثیت کے باوجود ان کا ایک دوسری سے تعلق اور رشتہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی کلاسیک اور مبین عربی میں بھی مردانِ تحقیق نے سیکڑوں الفاظ ایسے نکال کر دکھا دیے ہیں جو دیگر زبانوں سے مستعار ہیں۔
اب جب کہ ہم نے یہ دیکھ لیا کہ زبانوں کا ایک دوسری سے متاثر ہونا اور اخذ و استفادہ کرنا عین فطری امر ہے جس سے کسی زبان کی پاکیزگی اور اصلیت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا تو ہم اس طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ عمل کب اور کس طرح انجام پاتا ہے اور اس سے کیا فائدہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ باوجود تمام تر ارتباط و علاقہ کے کوئی زبان کسی دوسری سے تب تک اثر قبول نہیں کرتی جب تک ناگزیر نہ ہو جائے۔ اس کی مثال یوں سمجھنی چاہیے کہ بہنوں میں ایک دوسری سے تب تک کچھ ادھار نہیں لینے والی جب تک اس کے بغیر کام چل سکتا ہو۔ اگرچہ یہی بہنیں چھوٹی تھیں تو سب کچھ مشترکہ تھا اور لین دین بےخرخشہ چلتا تھا۔ مگر جونہی بلوغت کو پہنچیں اور اپنے اپنے گھروں کی ہوئیں، آزادانہ داد و ستد موقوف ہو گئی اور ایک دوسری کو دی جانی والی ہر زحمت ضرورت کے قاعدے کی پابند ٹھہری۔
آپ انگریزی میں کسی سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیبل (Table) کو میز پکاریے۔ لوگ اسے قبول نہیں کریں گے۔ آپ لاکھ دلائل دیں کہ آپ کو اس لفظ کے متعارف کروانے میں درحقیقت انگریزی کی توسیع اور ترقی مقصود ہے مگر اس سے ٹیبل میز نہیں بننے والا۔ الٹا انگریزی دان آپ سے پوچھیں گے کہ بندہ پرور، لفظ ٹیبل جب اسی شے کے لیے پہلے سے موجود اور رائج ہے تو میز بولنا چہ ضرور؟ پنجابی کی مثال دیکھیے۔ ٹانگ کو پنجابی میں لت کہتے ہیں۔ آپ اسے اردو محاورے کے موافق لات کہہ کر پنجابی میں استعمال کریں گے تو رد کر دیے جائیں گے۔ وجہ وہی کہ پنجابی کو اس ابداع و ایجاد کی ضرورت نہیں ہے اور اس میں ہر مضمون اس کے بغیر ہی یعنی لفظ لت سے کماحقہً بلکہ شاید بہتر طور پر ادا کیا جا سکتا ہے۔
تو قاعدہ یہ ہے کہ دوسری زبانوں سے الفاظ یا اصول تب مستعار لیے جاتے ہیں جب آپ کی زبان میں ان کے لیے کوئی متبادل موجود نہ ہو۔ خواہ مخواہ کی درآمد یا تو سیاسی مقاصد کے تحت ہوا کرتی ہے یا پھر تہذیبی زوال اور ضعف کے سبب۔ اردو عربی فارسی وغیرہ والوں کے ہاں ٹیلیفون کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے کیونکہ یہ آلہ انھوں نے ایجاد ہی نہیں کیا۔ جنھوں نے کیا ہے انھوں نے اس کے لیے اپنی زبان کے مزاج اور تقاضوں کے موافق ایک لفظ تراشا جسے ہم نے تقریباً جوں کا توں قبول کر لیا۔ یہاں تک بات سمجھ میں آتی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر خواہ مخواہ ایسے انگریزی، پنجابی، عربی، پشتو الفاظ کو اردو میں گھسیڑنے کی کوشش جن کے اچھے خاصے متبادلات اردو میں موجود ہیں اور زیادہ مزہ دیتے ہیں، لسانی جارحیت ہے۔ اس کے محرکات خواہ سیاسی ہوں خواہ تہذیبی، زبان کو زخم ہی لگتے ہیں۔
ایک ضمنی قاعدہ جسے اصول کہیں یا نہ کہیں مگر اپنی زبان سے محبت کرنے والے اسے لامحالہ فوقیت دیتے ہیں یہ بھی ہے کہ مثلاً ہمیں اردو میں کسی سائنسی اصطلاح کے لیے مناسب لفظ نہیں ملتا تو بجائے اس کے کہ وہ اصطلاح انگریزی سے درآمد کی جائے اس کے لیے اپنی زبان کے مزاج کے مطابق اسی طرح ایک لفظ تراش لیا جائے جیسے انگریزی گوؤں نے تراشا ہے۔ انگریزی والے اکثر نئی اصطلاحات کے لیے یونانی اور لاطینی مادوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ہم اپنی تاریخ اور تہذیب کے موافق عربی اور فارسی پر تکیہ کر لیں تو یہ کچھ ایسا برا نہیں جیسا بعض لوگوں کو معلوم ہوتا ہے۔ نیا لفظ خواہ لاطینی الاصل ہو خواہ عربی الاصل، ہے تو نیا ہی۔ آپ لاؤڈ سپیکر کہیں یا مکبر الصوت، دونوں اول اول اجنبی معلوم ہوں گے۔ مگر پھر جب لفظ اور شے دونوں کا استعمال بڑھے گا تو رچاؤ کی وہ کیفیت خود بخود پیدا ہو جائے گی جسے محاورہ کہتے ہیں اور جس سے زبان کی شان وابستہ ہوتی ہے۔