زمانۂ ما قبلِ تاریخ سے انسانوں کے مختلف گروہ ایک دوسرے کو زیر کرتے رہے ہیں اور فاتح و مفتوح کی تہذیبیں ایک دوسری میں نفوذ کرتی آئی ہیں۔ اغلب ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس پر افسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہاں، البتہ اپنی آنکھوں کے سامنے ایک تہذیب کو مرتے دیکھنا ضرور افسردہ کر دیتا ہے۔ خاص طور پر جب وہ تہذیب آپ کی اپنی ہو، کمزور اور غلام ہو اور آپ کو اس سے بے اندازہ محبت ہو۔
اردو کا ایک لفظ ہے، ٹاٹ۔ کم لوگ ہوں گے کہ اس سے واقف نہ ہوں۔ ٹاٹ بوریے کو کہتے ہیں۔ پٹ سن ایک پودا ہے جس کے ریشوں کو سکھا کر آپس میں بن لیا جاتا ہے۔ اس سے ایک موٹا کپڑا تیار ہو جاتا ہے جس پر لوگ بیٹھتےبھی ہیں اور تھیلے بنا کراناج وغیرہ بھی محفوظ کرتے ہیں۔ میں نے پٹ سن کا پودا تو نہیں دیکھ رکھا مگر ٹاٹ کی بوریاں اور بوریے بہت دیکھے ہیں۔ بچپن میں انھی پر بیٹھ کر تختیاں لکھی ہیں، سبق یاد کیے ہیں اورکان پکڑے ہیں۔
ٹٹ پونجیا اس شخص کو کہتے ہیں جس کی جمع پونجی ٹاٹ ہو۔ یعنی بہت ہی کم مال و متاع رکھتا ہو۔ ٹٹ ٹاٹ کا مخفف ہے۔
ٹٹا اور ٹٹر دو لفظ اسی سے نکلے ہیں۔ یہ اس آڑ کے لیے استعمال ہوتے ہیں جو ٹاٹ ہی کی طرح بانس کی کھپچیوں یا سرکنڈوں کو آپس میں باندھ کر بنائی جاتی ہے۔ اسے فرش پر بچھانے اور مختلف جگہوں پر اوٹ یا رکاوٹ کھڑی کرنے کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔ ٹٹی چھوٹے ٹٹے کو کہتے ہیں۔ یہ اسمِ مصغر ہے۔ جیسے چھوٹے پیالے کو پیالی کہا جاتا ہے۔
ٹٹی کی اوٹ میں شکار کھیلنا اردو کا ایک مشہور محاورہ رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے سامنے آئے بغیر یعنی اوٹ میں رہ کر کوئی کام کرنا۔ خواجہ حیدر علی آتشؔ کا شعر ہے:
ٹٹی کی اوٹ میں وہ کیا کرتے ہیں شکار
منھ کو چھپائے رکھتے ہیں اپنے نقاب میں
ایک لفظ ہے ٹٹیانا۔ یہ اوٹ میں چلتے جانے، چھپ چھپا کر، ڈرتے جھجکتے آگے بڑھنے کو کہتے ہیں۔ آغا حشرؔ کاشمیری کو ہندوستان کا شیکسپیئر کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے مشہور کھیل یہودی کی لڑکی میں کہتے ہیں:
تم کُڑک مرغی کی طرح ٹٹیا کر اُدھر جاؤ اور یاروں کے پروں میں گٹھ جاؤ۔
برصغیر کی ثقافت کو مغربی ٹیکنالوجی اور اسلامی شدت پسندی سے شدید نقصان پہنچا ہے مگر یہ خاکم بدہن فنا نہیں ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے ہمارے روایتی رہن سہن کی ایک جھلک بھی دیکھ رکھی ہے تو وہ اس صناعی سے ضرور واقف ہو گا جو دراصل ٹٹی کہلاتی ہے۔ یہ وہی شے ہے جسے لوگ چق کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔ پنجابی کا ایک مشہور گیت ہے:
عاشقاں توں سوہنا مکھڑا لکان لئی
سجناں نے بوہے اگے چق تان لئی
یعنی عاشقوں سے پیاری صورت چھپانے کے لیے محبوب نے دروازے پر چق گرا دی۔
اسی کی ایک قسم کا نام چلمن ہے۔ نواب مرزا خان داغؔ دہلوی کا شہرۂ آفاق شعر ہے:
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
روایتی طور پر ٹٹیاں، چقیں اور چلمنیں ہمارے ہاں برآمدوں اور دالانوں میں اور دروازوں اور دریچوں وغیرہ کے آگے لگائی جاتی تھیں۔ آج کل کے پردوں کے برعکس زیادہ تر نیچے سے اوپر لپیٹی جاتی تھیں۔ گزرنے کے لیے ایک طرف سے ہٹایا بھی جا سکتا تھا۔ ان کا سب سے بڑا مقصد پردہ داری اور دوسرا شاید زیبائش تھا۔
تہذیبیں زوال پذیر ہوں تو سب سے پہلے طاقت ور اور دولت مند طبقات ان سے منہ موڑتے ہیں اور سب سے آخر میں کمزور اور غریب۔ ہمارے دیہاتی اور مفلس لوگوں کے گھروں میں آج بھی ٹاٹوں، چلمنوں اور ٹٹیوں کی کوئی نہ کوئی صورت دیکھنے کو مل جائے گی۔ کچھ عرصہ پہلے تک یہ ہر خاص و عام کے گھر کا حصہ تھیں۔ عوامی مقامات پر بیت الخلا کے دروازوں اور دیواروں کی جگہ بھی اوٹ اور آڑ کے لیے لگائی چاتی تھیں۔ وہیں سے اس بدقسمت لفظ کا وہ مطلب برآمد ہوا جو اب زیادہ تر رائج ہے۔ اور صرف برآمد نہیں ہوا بلکہ اصل مطلب کو نگل بھی گیا۔
ہمارے زمانے میں ٹٹی عام طور پر ایک مکروہ لفظ ہے اور اس سے مراد پاخانہ یا گوہ لیا جاتا ہے۔ میں نہیں کہتا کہ اسے ضرور اپنی اصل پاکیزگی کی طرف لوٹنا چاہیے مگر اتنا تو ہو کہ حقارت اور مضحکے کا وہ تاثر دور ہو جو نئے لوگوں نے اس سے خواہ مخواہ وابستہ کر دیا ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا، یہ کلمہ ایک نہایت وضع دار، نستعلیق اور عالی ذوق تہذیب سے یادگار ہے۔ کوئی کہے کہ میں بیت الخلا جا رہا ہوں یا اس کا انگریزی متبادل (washroom, restroom) استعمال کرے یا رفعِ حاجت وغیرہ کے الفاظ سے کام لے تو یہ بات ہمیں مہذبانہ معلوم ہوتی ہے۔ حالانکہ اس میں صاف صاف اظہار کر دیا گیا ہے کہ کہاں اور کس لیے جانے کا قصد ہے۔ پرانی روایت اس قدر شائستہ رہی ہے کہ بزرگوں کو یہ اشارہ کرنے سے بھی عار ہوا اور انھوں نے محض ٹٹی یعنی چلمن یا پردے کے لفظ کو کافی سمجھا۔ انگریزی میں حاجت کے لیے فطرت کی پکار یا آواز (call of nature) کی ترکیب استعمال ہوتی ہے اور یار لوگ اسے تہذیب کی معراج خیال کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ آوازۂ فطرت میں لطیف ہی سہی مگر ایک اشارہ بہرحال اس جانب پایا جاتا ہے۔ ہمارے بزرگوں نے وہ بھی گوارا نہیں فرمایا اور ایک عام اور بےضرر لفظ ایسے کو رواج دیا جو روزمرہ زندگی میں جا بجا بولا جاتا تھا۔
ذیل میں اردو لغت سے چند نظائر اس لفظ کے نقل کیے گئے ہیں جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ بیچاری ٹٹی کس عروج سے کس زوال کو پہنچی ہے۔
بوجھ باندھ کر گرد اس درخت کے رکھے اور کچھ بطور ٹٹی کے بنا کر درخت کے اوپر باندھے۔
( ۱۸۴۲، الف لیلہ ، عبدالکریم ، ۱ : ۱۰۵)
وہی قادرِ مطلق ہے جس نے باغ پیدا کیے، بعض تو ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے جیسے انگور کی بیلیں۔
( ۱۹۰۶، الحقوق و الفرائض ، ۲ : ۷۱)
ایک جا پر ٹٹیاں مہندی کی دور تک مثل چار دیواری کے بنی ہیں۔
( ۱۸۹۶، لعل نامہ ، ۱ :۶ )
کسی سے مہر کسی سے کینہ کسی سے ناتا کہیں قرابت
اٹھی جو دل سے بھرم کی ٹٹی تو پھر یہ دیکھی خدا کی قدرت
( ۱۸۳۰، نظیر، ک ، ۲ : ۲۶۵)
ہر اک ٹٹی تھی مینا کار خوش رنگ
سجا تھا اس طرح پر عقل تھی دنگ
( ۱۸۶۱، الف لیلہ نو منظوم ، ۲ : ۵۲۲)
ٹٹی چھڑ کی گئی، اب دوپہر کی صحبت نہایت خوش گوار تھی۔
(۱۹۲۴، اودھ پنچ ، لکھنؤ ، ۹ ، ۲۰ :۴).
ٹٹی کی خوشنمائی اس میں ہے کہ تمام یکبارگی سلگ جائے۔
(۱۹۰۳ ، آتش بازی ، ۲۷)
مضبوط تختوں کی ٹٹیاں سامنے قائم کی گئیں کہ سپاہی بندوق کی گولی کی مار سے محفوظ رہیں۔
( ۱۹۰۷، نپولین اعظم، ۳ : ۵۷۵)
زمین … داخلِ سرائے و تالاب کرلی ہے اور کچھ ٹٹیوں یعنی مبر زِعامہ میں آگئی۔
( ۱۸۶۴، تحقیقات چشتی ، ۲۱۵)
آخری مثال سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ عوامی بیت الخلا کس طرح چلمنوں کی اوٹ میں بنائے جاتے تھے اور ان کے لیے ٹٹیوں کا لفظ مستعمل تھا۔ نکتے کی بات مگر یہ ہے کہ یہ اس استعمال سے مخصوص نہ تھا بلکہ اپنے اصل معانی کی رعایت سے عام زندگی میں دوسرے بہت مقامات پر بھی بولا جاتا تھا۔ اور وہ تمام مقامات نہایت خوشگوار تجربوں کے تھے۔ سایہ، ٹھنڈک، پردہ، پناہ، روشنی، خوشبو۔۔۔
یہ سب اس لیے تھا کہ پردے کی بات پردے میں رہے!
اقبالؔ کا ایک شعر ہے:
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر