ارسطو نے کہا تھا کہ انسان نقال ہے اور نقل سے حظ اٹھاتا ہے۔ ہماری تعلیم و تربیت تمام تر نقل ہی کی مرہونِ منت ہے۔ ہم دوسروں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں کہ کیا کرنا چاہیے اور کیسے کرنا چاہیے۔ چونکہ نقالی انسان کی فطرت میں داخل ہے اس لیے کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی شے کی نقل بہت زیادہ شائع اور مروج ہو جاتی ہے۔ اسے ہم رواج یا فیشن کہتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں ایک رواج میں یہ دیکھتا ہوں کہ زمین کا نمک کی تلمیح زیادہ استعمال ہونے لگی ہے۔ تاہم بہتوں کو ابھی اچھی طرح نہیں معلوم کہ یہ فی الواقع ہے کیا۔ اس مختصر مضمون میں اس کے معانی بیان کرنے کا قصد کیا گیا ہے۔
سیدنا مسیح علیہ السلام ایک برگزیدہ نبی گزرے ہیں جو یہودیوں میں برپا ہوئے۔ آپ کو قرآنِ مجید میں روح اللہ اور کلمۃ اللہ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ آپ نے بنی اسرائیل کو جو منادی فرمائی اسے انجیل کہتے ہیں۔ موجودہ بائبل کے عہد نامۂ جدید کی ابتدائی کتب میں اسی کو نقل کیا گیا ہے۔ آپ نے اپنے چند برگزیدہ حواریوں کو منتخب کر کے یہ پیغام پھیلانے کا حکم دیا تھا۔ ان بزرگوں کو مسیحیت کی اصطلاح میں رسول کہا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک متی رسول تھے جن کی روایت کردہ انجیل نئے عہد نامے کی پہلی کتاب ہے۔
متی نے بیان کیا ہے کہ حضرتِ عیسیٰ علیہ السلام ایک پہاڑ پر چڑھے اور اپنے شاگردوں کو خطبہ دیا۔ یہ خطبہ پہاڑی وعظ کے نام سے جانا جاتا ہے اور دنیائے اخلاق و ادب میں اسے ایک بےنظیر حیثیت حاصل ہے۔ صالحین کی چند نشانیاں گنوانے اور انھیں خوشخبری دینے کے بعد کلمۃ اللہ نے اپنے پیروکاروں کو مخاطب کر کے فرمایا:
تم زمین کے نمک ہو لیکِن اگر نمک کا مزہ جاتا رہے تو وہ کس چیز سے نمکین کیا جائے گا؟ پھر وہ کسی کام کا نہیں سوا اس کے کہ باہر پھینکا جائے اور آدمیوں کے پاؤں کے نیچے روندا جائے۔
انجیلِ مقدس: متی، باب ۵، آیت – ۱۳
اب سمجھنا چاہیے کہ یہ تمام نہایت اچھے، راست باز اور منتخب لوگ تھے جنھیں مسیح علیہ السلام نے زمین کے لیے بمنزلہ نمک کے قرار دیا۔ پھر ان سے سوال کیا کہ اگر نمک ہی میں نمکینی نہ ہو تو اس کا کیا فائدہ ہے؟ گویا اگر پاکباز لوگ بھی بدکرداری اور گمراہی پر اتر آئیں تو یہ کتنے افسوس کی بات ہے۔
چو کفر از کعبہ بر خیزد کجا ماند مسلمانی
وہ اس نمک کی طرح ہو جائیں گے جس نے اپنا ذائقہ کھو دیا اور گلی میں پھینک دیا گیا اور لوگوں نے اسے پیروں تلے روند دیا۔ فحوائے کلام یہ ہے کہ اچھے لوگوں کو ہمیشہ اچھائی پر قائم رہنا چاہیے اور کسی بھی مشکل میں حق پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔
دوسرا لطیف نکتہ اس میں یہ ہے کہ نمک کا لطف تبھی ہے کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ نہ ہو۔ آٹے میں نمک کا محاورہ عام ہے۔ یعنی بہت کم۔ قدرت نے بھی بعینہٖ یہی تناسب خیر و شر کا قائم فرمایا ہے۔ غور کی نگاہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ صحیح معنوں میں نیک اور پاک لوگ دنیا میں ہر جگہ اور ہر زمانے میں آٹے میں نمک کے برابر ہی رہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ تشبیہ اور زیادہ بلیغ ہو جاتی ہے کہ مسیح علیہ السلام اپنے سچے اور مخلص صحابہ کو یہ شعور دلانا چاہتے تھے کہ وہ کس قدر خاص اور چنیدہ لوگ ہیں اور ان کی یہ ذمہ داری کہ وہ ہر حال میں حق پر قائم رہیں، کس قدر بڑی ہے۔
تیسری بات وہ ہے جس کا شعور عام طور پر مردوں بلکہ اکثر عورتوں کو بھی نہیں ہوتا۔ اتفاق کی بات ہے کہ مجھ پر یہ بھید ایک مرد ہی نے کھولا۔ اللہ انھیں جزا دے۔ ہمارے وہ دوست ایک بڑے ادارے کے خانساماں یعنی شیف ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ کھانے کا ذائقہ تمام تر نمک کے تناسب پر منحصر ہوتا ہے۔ باقی تمام مسالے اسی ذائقے میں مختلف تبدیلیاں یا اضافے تو کرتے ہیں مگر اسے پیدا یا ختم نہیں کر سکتے۔ کھانے کو اگر ایک تصویر فرض کیا جائے تو نمک اس کے نقوش کی مانند ہے اور باقی تمام مسالے گویا اس کے اندر بھرے ہوئے رنگ ہیں۔ اگر نقوش ٹھیک نہیں تو اس نقصان کی تلافی رنگوں سے نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر نقوش دلکش ہیں تو رنگ نہ بھی ہوں تو تصویر دل موہ لے گی۔
اس بات کا عملی تجربہ کچھ ہی دن بعد ہو گیا جب ایک پٹھان دوست نے ہمیں اپنے ہاتھ سے نمکین گوشت بنا کر کھلایا۔ ہم انگلیاں چاٹتے رہ گئے۔ ترکیب پوچھی تو معلوم ہوا کہ گوشت، نمک اور گھی کے سوا کچھ نہیں۔ ہمیں یقین نہ آیا۔ کھانے کی لذت ایسی تھی کہ گمان تک نہ ہوا تھا کہ اس میں کوئی مسالا شامل نہیں۔ لیکن پھر شدہ شدہ کڑیاں ملتی چلی گئیں اور مانتے ہی بنی کہ نمک نمک ہے۔
کلمۃ اللہ نے اس حقیقت کی جانب محولۂ بالا آیت کے دوسرے حصے میں اشارہ فرمایا ہے۔ نمک کا مزہ ایسی ضروری شے ہے کہ کھانے میں دنیا بھر کے لوازمات شامل کر دیے جائیں اور یہ اکیلا نکال دیا جائے تو رنگ میں بھنگ پڑ جاتی ہے۔ پس حق پرست اور راست باز لوگ اگرچہ بہت کم ہوتے ہیں مگر گمراہ اور کجرو لوگوں کی بھاری اکثریتوں پر بھاری ہیں۔ ایک وہ نہ ہوں تو دنیا کی پوری زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں اور رنگینیوں کے باوجود بےنمک کھانے کی طرح ہو جائے۔
انگریزی میں زمین کے نمک کی تلمیح پہلی بار انگریزی ادب کے باوا آدم جیفری چاسر نے اپنے مشہور کتاب کنٹربری ٹیلز میں استعمال کی تھی۔ یہ آج سے کوئی آٹھ سو برس پہلے کی بات ہے۔ تب سے اس کا رواج مغرب میں چلا آتا ہے اور اس سے مراد نہایت اچھے اور دیانت دار لوگ لیے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اردو میں اس کی پہلی نظیر شاید بائبل کا اردو ترجمہ ہی ہے۔ اردو لغت بورڈ کی لغت میں اس حوالے سے ۱۸۱۹ کے چھپے ہوئے ترجمے سے سند دی گئی ہے۔