ہم اپنے ایک گزشتہ مضمون میں بیان کر چکے ہیں کہ اردو کے حروفِ تہجی میں ایک بڑی تعداد وہ ہے جس کا ہمارے لب و لہجہ سے کوئی تعلق نہیں اور وہ محض وراثتاً ہم تک منتقل ہو گئی ہے۔ ان حروف کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ عربی یا عبرانی وغیرہ میں تو الگ الگ آوازوں کے حامل ہیں مگر اردو میں کم و بیش ایک ہی آواز کے لیے ایک سے زیادہ کی تعداد میں موجود ہیں۔ ان کے تلفظ کے حوالے سے دو رویے اختیار کرنے ممکن ہیں۔ یا تو ہم انھیں اصل زبان کے حقیقی مخارج کے ساتھ ادا کرنے کی عادت ڈالیں یا پھر اپنے فطری لب و لہجہ پر قائم رہتے ہوئے ان کی تجوید کی تمام موشگافیوں کو نظر انداز کر دیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو زبان کے اصول اور عمل سے آگہی رکھتا ہو، پہلے رویے پر دوسرے کو ترجیح دے گا۔
ہمارے خیال کے مطابق اردو نظامِ تہجی میں نو حروف ایسے شامل ہیں جن کی آوازیں برصغیر کے باشندوں کی فطری بول چال میں نہیں پائی جاتیں۔ اردو کی جڑواں بہن ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے۔ یہ رسم الخط ہندوستانی لب و لہجہ کا قدیم، اصل اور فطری ترجمان ہے کیونکہ یہ اس دھرتی سے تعلق رکھتا ہے جس پر درحقیقت ہماری زبان نے جنم لیا ہے۔ نتیجتاً اس میں وہ نو حروف پائے ہی نہیں جاتے جن کا ہم نے ذکر کیا ہے۔ بہتر ہو گا کہ بات آگے بڑھانے سے قبل ہم ان اضافی حروف کی ایک فہرست نقل کر دیں جو ہم تک عربی رسم الخط سے وراثتاً اور بلا ضرورت منتقل ہو گئے ہیں۔
اصل آواز | زائد حروف |
---|---|
ا | ع |
ت | ط |
ز | ذ، ظ، ض |
س | ث، ص |
ک | ق |
ہ | ح |
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عربی رسم الخط ہم تک یونہی منتقل نہیں ہوا بلکہ ایک تہذیبی اور مذہبی قوت نے اسے اردو زبان پر نافذ کیا ہے۔ اور وہ قوت ہے اسلام۔ لہٰذا آج تک وہ لوگ جو اسلامی متون سے علاقہ رکھتے ہیں، ان اضافی حروف کے اصل مخارج سے بڑی حد تک آگاہ ہوتے ہیں۔ جیسے مذہبی علما اور مدرسوں کے طلبہ۔ تاہم ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جس طرح انگریزی بولنے سے ایک پنجابی انگریز نہیں بن سکتا اسی طرح عین، قاف، طوئے وغیرہ کو تجوید کے اصولوں کے مطابق ادا کرنے سے دیسی لوگ عرب نہیں ہو جاتے۔ یہ آوازیں انھیں بڑے تردد سے سیکھنی پڑتی ہیں اور تکلف سے نکالنی پڑتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اسلامی علوم سے دلچسپی نہیں رکھتے، وہ اچھے خاصے شائستہ اور مہذب ہوتے ہوئے بھی مخارج کے اس فرق سے محض بےخبر ہوتے ہیں۔
یہ معاملہ کچھ اردو ہی سے مخصوص نہیں۔ انگریزی کا رسم الخط رومیوں سے مستعار ہے۔ یہ رسم الخط جسے لاطینی کہا جاتا ہے، دنیا کا سب سے مقبول رسم الخط ہے۔ تاہم وہ بیسیوں زبانیں جو اسے استعمال کرتی ہیں، حروف کے مخارج کے سلسلے میں ویسے ہی اختلافات رکھتی ہیں جیسوں کا ہمیں سامنا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی تہجی کا تیسرا حرف C دیکھیے۔ یہ انگریزی میں مختلف مواقع پر اردو کے کاف اور سین کی سی آواز دیتا ہے۔ لیکن رومیوں کی زبان یعنی لاطینی یا موجودہ اطالوی میں اس کا مخرج قریب قریب وہ تھا جو ہمارے ہاں چے یعنی جیمِ فارسی کا ہے۔
لہجہ کی پیشکشوں کے حوالے سے ہم پر بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم قافِ قرشت اور کافِ کلمن کی آوازوں میں فرق روا نہیں رکھتے اور دونوں کو ایک ہی طرح ادا کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اردو میں بعض اچھے بولنے والوں نے اس فرق کو اہمیت دی ہے اور تکلف سے ہی سہی، مگر قافِ قرشت کی آواز کافِ کلمن کے برعکس حلق سے نکالتے آئے ہیں۔ مگر ہم یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ پھر عین، طوئے، ظوئے، ثے، صاد، ضاد وغیرہ نے کیا قصور کیا ہے کہ انھیں اصل مخارج کے ساتھ نہ بولا جائے؟ اگر عربی آوازوں ہی کا اعتبار مقصود ہے تو عربی سے مستعار تمام آوازیں ٹھیک ٹھیک طرح ادا ہونی چاہئیں جیسے مدرسے کے مولوی صاحب کرتے ہیں۔ اور اگر اپنی فطرت اور طبیعت کا لحاظ چاہیے تو پھر کیا قاف اور کیا طوئے ظوئے؟
جو قاف اردو میں ہے وہ اردو کا حرف ہے، عربی کا نہیں۔ اور اردو والے خوش قسمتی یا بدقسمتی سے عرب نہیں۔ کیا برا ہے کہ ہم بدوؤں کی بجائے اپنے باپ دادا کے لب و لہجہ کو ترجیح دیں؟
أَلَا لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ
بات یہ ہے کہ ہم اردو کو ابھی تک اردو سمجھنے پر تیار نہیں۔ ایک طرف وہ فضلا ہیں جو قلفی کو قفلی بلوانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب وہ ہیں جنھیں جا بجا انگریزی یا پنجابی الفاظ گھسیٹرنے کا لپکا ہے۔ تیسرے وہ ہیں جنھیں قاف و کاف کے مخارج پر اعتراض ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہم خود شاید کوئی بہترواں گروہ ہیں جو باقی سب کو ٹھیک نہیں سمجھتے۔ لیکن اتنا تو شاید ہے کہ ہم اردو کو اردو سمجھتے ہیں۔ ہم نہیں کہتے کہ ثے سے قاف تک تمام غیرضروری آوازوں والے حروف اردو سے خارج کر دیے جائیں۔ بس اتنا چاہتے ہیں کہ انھیں بولتے وقت خود کو عرب سمجھنا چھوڑ دیا جائے۔