خیالستان کی پری
(١)
جب ملک خیالستان کی مشہور پری غفیرہ اس جرم کی مرتکب ہوئی کہ “وہ شہریار کی بلا اجازت جو اس سبھا کا راجا تھا، کامل تین روز اور تین رات اپنے فرض منصبی سے غیرحاضر رہی ہے” تو گو اس نے اپنی علالت اور مجبوری کے ہرچند عذر کیے۔ مگر شہریاری دربار نے اس کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اس کے پر نوچ کھسوٹ کر خیالستان کی سرحد سے باہر نکال دو ۔ وہ اس سبھا میں کبھی شریک نہ ہونے پائے اور خیالستان کی سرحد میں باقی عمر قدم نہ دھرے۔
شہریار کا یہ حکم ایک بجلی تھی جو غفیرہ کے دل پر گری اور تمام امیدوں اور آرزوؤں کو جلا کر خاک کر دیا۔ اس نے ایک حسرت بھری نظر تمام سبھا پر ڈالی۔ دنیا اس کی آنکھوں میں اندھیر تھی اور آنسو کی لڑیاں اس کے رخساروں پر بہ رہی تھیں۔ وہ روتی ہوئی آگے بڑھی اور بصد منت و سماجت یوں عرض کرنے لگی:
جنگل کے درند اور ہوا کے پرند پر راج کرنے والے راجا! خیالستان کا بچہ بچہ تیری حکومت کے گیت گا رہا ہے، جنوں کی زبردست قوم جو ایک دوسرے کو کھائے جاتی تھی، تیرے راج میں ایک گھاٹ پانی پی رہی ہے۔ چمنستان موسیقی جہاں دن دہاڑے پریاں لٹتی تھیں آج وہاں تن تنہا ہوا میں اچھلتی کودتی پھرتی ہیں اور کسی کی اتنی مجال نہیں کہ آنکھ ملائے۔ اس وقت راحت منزل کا چپہ چپہ اور کونہ کونہ، بارہ دری کا ایک ایک تنکا، درختوں کے پتے، ڈالیوں کے پھول، پھولوں کی پنکھڑیاں میری اس جدائی پر جو کبھی ختم نہ ہوگی، اس رات پر جس کی اب صبح نہ آئے گی آٹھ آٹھ آنسو رو رہی ہیں۔ مجھے اتنی اجازت ملے کہ جن محلوں میں مَیں نے پرورش پائی، جن درختوں کے نیچے میں بچپن میں کھیلی، جس گھاس پر میں نے قدم دھرے، جس پر میں لوٹی، ان سب سے لپٹ کر رخصت ہو لوں۔
غفیرہ کی یہ درخواست منظور ہوئی۔ خیالستانی لباس جو بدن پر تھا اتارا گیا۔ پر نوچ دیے گئے۔ اور وہ چیختی چلاتی، لپٹتی، لپٹاتی ایک ایک سے گلے مل کر خیالستان کی سرحد سے باہر نکل آئی۔
(٢)
اب غفیرہ ایک دوسری دنیا میں تھی جہاں گرمی میں لو کے تھپیڑے، برسات میں کڑک، چمک اور جاڑے میں کہرا پالا موجود تھا۔ جن آنکھوں نے کبھی خواب میں بھی تکلیف نہ دیکھی تھی اب وہ دن رات مصیبتیں دیکھتیں۔ جو دل رنج کے نام سے آشنا نہ تھا اب اس پر پے در پے آفتیں پڑتیں، جو پاؤں خیالستان میں وہاں چلتے پھرتے تھے جہاں مخملی زمین تھی، اب ان میں ببول کے کانٹے پار ہو جاتے۔ جس سر پر کبھی ایک بوند پانی کی نہ پڑی اب اس پر چھاجوں مینہ پڑتا۔ اور جس رخ پر کبھی دھوپ کی چمک تک نہ آئی تھی اب اس کو گرم ہوا کے جھونکے بھلسائے دیتے تھے۔
بہشتِ شہریار جو آسمانی جنت کا ایک نمونہ تھی، غفیرہ نے اس سے چھوٹ کر ایسی مصیبت ناک زندگی بسر کی کہ اس کے نالوں کی چوٹ جانوروں تک کے کلیجہ دہلاتی تھی۔ تاروں بھرا آسمان اس کے سر پر ہوتا، چاند کی روشنی اسے بے تاب کرتی۔ وہ دیوانہ وار خیالستان کی طرف دوڑتی اور اس قہقہہ دیوار سے سر ٹکرا کر بیٹھ جاتی تھی۔ وہ دیکھتی کہ دن بھر کے بچوں سے چھوٹے ہوئے پرند کس شوق سے جُھٹ پٹے وقت لپک کر اپنے گھونسلوں میں دبکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی حالت کا خیال کرتی؛ خیالستان کی زندگی، سکھیوں کی چہل پہل، سبھا کی رونق، درخت، درخت کے پتے، پتوں کی سرسراہٹ، ہوا کی چھیڑ چھاڑ، بلبلوں کی چہکار، پھولوں کی مہکار، تیتریوں کا تھرکنا۔ جب یہ سماں یاد آتا تو کلیجہ مسوس کر رہ جاتی۔ رات کے اس سنسان وقت میں جب بادشاہ اپنے محلوں میں، غریب اپنی جھونپڑیوں میں بے خبر سوتے، دریا کا پانی تک تھم جاتا، نظام عالم کی ہر شے پر (خلاف اصول) سکون مطلق طاری ہوتا وہ وطن کی یاد میں اٹھتی اور خیالستان کی دیوار کے پاس ٹہلتی، ٹکریں مارتی، سر پھوڑتی، یہاں تک کہ تاڑ کے درختوں پر بسنے والی چڑیاں اس کے کانوں میں صبح کا پیغام پہنچا دیتیں۔
ایک رات جب کہ چودھویں کا چاند نیلگوں آسمان پر نہایت تیزی سے دوڑ رہا تھا۔ اور اس کی روشنی نے در و دیوار، جنگل اور میدان میں نورانی چادر بچھا دی تھی، غفیرہ دریا کے کنارے جو خیالستان کی سرحد سے ملا ہوا لہریں لے رہا تھا، بیٹھی ہوئی اپنی تقدیر کو رو رہی تھی، قمر چہار دہم دریا کی گود میں لوٹ رہا تھا، غفیرہ قدرت کے اس کرشمے میں ایسی محو ہوئی کہ وہ چند لمحے کے واسطے اپنے تفکرات بالکل بھول گئی۔ دفعتاً اس نے اپنا منہ اٹھایا اور ایک حسرت آمیز نظر خیالستان کی سرحد پر ڈالی۔ دیکھتی کیا ہے کہ فصیل بیچ میں سے شق ہوئی اور ایک ایسی روشنی نمودار ہوئی جو اس دنیا میں غفیرہ نے نہ دیکھی تھی، وہ بے تاب ہو کر لپکی۔ جس طرح روشنی لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جاتی تھی اسی طرح غفیرہ کا شوق قدم بقدم تیز ہوتا جاتا تھا۔ سرحد کے قریب پہنچنا تھا کہ فصیل اسی طرح بند ہو گئی اور وہ روشنی آناً فاناً بالکل غائب! بہتیرا سر پٹکا، ہرچند چیخی چلائی، مگر بے سود۔ یہ کچھ ایسا تعجب انگیز سماں تھا کہ غفیرہ اس مسئلہ پر جتنا غور کرتی تھی اتنا ہی پیچیدہ ہوتا جاتا تھا۔ آخر وہ بھی خیالستان ہی کی رہنے بسنے والی تھی مگر اس قسم کا واقعہ اس نے تمام عمر میں کبھی نہ دیکھا تھا۔ سر پکڑ کر بیٹھ گئی اور جس مقام پر سے فصیل شق ہوئی تھی وہاں ٹکٹکی باندھ لی۔ رہ رہ کر کلیجہ میں ہوک اٹھتی تھی اور خیال آتا تھا کاش چند لمحہ پہلے پہنچ جاتی اور اس راز کو سمجھ جاتی، آخر یہ بھید ہے کیا؟ کیا میری طرح کوئی اور پری اس عتاب میں گرفتار ہوئی؟ مگر نہیں، ایسا ہوتا تو وہ چلی کہاں جاتی؟ زمین نگل جاتی، آسمان کھا جاتا؟
اب سمجھی، اوہو آج نو روز ہوگا، جب ہی یہ تمام سرحد جھاڑ فانوسوں سے جگمگا رہی ہے، ابھی تو ایک دفعہ دیوار اور روشن ہوگی تاکہ اس دنیا والے بھی جنت شہریار کی روشنی سے آنکھیں ٹھنڈی کر سکیں۔ یہ رسم تو برسوں سے چلی آتی ہے کہ نوروز کی رات چند لمحہ کے واسطے یہ دیوار دو دفعہ شق ہو جاتی ہے، شاید پہلی دفعہ میں نے نہ دیکھا ہو خیر میری تقدیر، بیٹھی ہوں۔
اس وقت غفیرہ پر ایک وجد کی حالت طاری تھی۔ یہ تعلق کہ اب تھوڑی دیر میں دیوار شق ہوگی، اس کو بے تاب کر رہا تھا۔ بیٹھتی تھی، اٹھتی تھی، تھک جاتی تو پھر بیٹھ جاتی، مگر نگاہ فصیل پر سے نہ ہٹتی۔
رات کا اپنی منزل کو پورا کرنا تھا کہ ان ہی خوش الحان پرندوں نے جن کے زمزموں سے غفیرہ کے کان آشنا تھے، صبح صادق کے استقبال میں نغمہ سنجی شروع کی جس نے غفیرہ کے تمام ارمانوں کو خاک میں ملا دیا۔ اس نے ایک آہ سرد بھری اور مایوس ہو کر اٹھی چاہتی تھی کہ قدم آگے بڑھائے، دفعتاً فصیل شق ہوئی اور خیالستان کی روشنی سے تمام بیابان جگمگا اٹھا۔ غفیرہ دیوانہ وار دوڑی، اندر داخل ہوتی تھی کہ داروغۂ جنت نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ برسوں کے بعد ایک ہم جنس کی صورت کا نظر آنا تھا کہ غفیرہ پاؤں پر گری اور کہا:
کیا تقدیر مجھ کو اب یہ وقت نہ دکھائے گی کہ میں خیالستان میں داخل ہوں۔ اے مبارک داروغہ میری خستہ حالت پر رحم کر اور اتنی اجازت دے کہ میں ایک نظر بھر کر خیالستان کو دیکھ لوں۔
داروغہ: عزیز! عزیزوں کی عزیز غفیرہ! مجھ کو تیرے ساتھ دلی ہمدردی ہے مگر اتنی مجال نہیں کہ بلا اجازت شاہی تیرے ساتھ کوئی رعایت کر سکوں۔ اگر ایسا کروں تو جو حال آج تیرا ہے، وہی کل میرا ہوگا۔ ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ تو شہریار کے واسطے اس دنیا کا جس میں تو اب موجود ہے، کوئی ایسا تحفہ لا جس سے بہتر شے روئے زمین پر موجود نہ ہو۔ میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ تیرا تحفہ دربار شاہی میں پہنچا دوں گا اور تجھ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر تیرے تحفے نے شہریار کو خوش کر دیا تو تجھ کو خیالستان میں داخل ہونے کی اجازت مل جائے گی۔ بس وقت ہو چکا، اب میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔
ابھی یہ فقرہ پورے طور پر ختم بھی نہ ہوا تھا کہ دیوار بند، روشنی ندارد! اب غفیرہ پر خیالات کا ہجوم تھا، صبح ہو چکی تھی اور سامنے کے پہاڑوں سے آفتاب جہاں تاب بلند ہوتا چلا آتا تھا۔ بہت سی ادھیڑ بن اور پیچ و تاب کے بعد غفیرہ نے یہ ہی فیصلہ کیا کہ گو کہ کامیابی کی امید مشکل اور موہوم ہے لیکن اس سے زیادہ بیوقوف کون ہو سکتا ہے جو محض اس خیال سے کہ کام مشکل ہے، اس کے انجام دینے کی کوشش نہ کرے۔ میں اس وقت تک یہ کوشش جاری رکھوں گی کہ دنیا کا بہترین تحفہ شہریار کے واسطے لے جاؤں جب تک موت میری اس آرزو کو مجھ سے جدا کردے۔
(٣)
یہ فیصلہ قطعی تھا اور اس کے بعد غفیرہ مدتوں جنگل کی خاک اڑاتی اور شہروں کی گلیاں چھانتی پھری۔ اب اس کا کام صرف اشیائے دنیوی کا مطالعہ تھا۔ رات کی نیند، دن کی بھوک، غرض اطمینان اور آرام کی کوئی صورت نہ تھی۔ جنگل کے پھل کھا کر پیٹ بھر لیتی اور چشموں کے پانی سے پیاس بجھاتی۔ گھڑی آدھ گھڑی کو کسی درخت کے نیچے پڑ رہی، نیند کا غلبہ ہوا آنکھ لگ گئی، ہوشیار ہوئی اور اپنی دھن میں ہڑبڑا کر دوڑی۔ آٹھ مہینہ کے قریب اسی طرح چکر لگاتی ہوئی وہ ایک روز جب کہ آفتاب غروب ہونے کی تیاریاں کر رہا تھا ایک ایسے مقام پر پہنچی جہاں سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ ایک اونچے سے ٹیلے پر ایک شخص کھڑا تھا جس پر یہ الزام تھا کہ اس نے مذہب میں رخنہ ڈالا اور ہمارے سچے دین کی توہین کی۔ چونکہ وہ اپنے خیالات پر اب تک قائم تھا اس لیے قوم نے اس کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ اس کی گردن اڑا دی جائے۔ یہ شخص قیدیوں کی طرح گرفتار تھا، اس کے ہاتھ پاؤں میں بیڑیاں پڑی تھیں اور جلّاد ننگی تلوار لیے اس کے سر پر کھڑا تھا۔ جب وہ وقت قریب آیا کہ جلاد اس کا سر تن سے جدا کرے تو اس شخص نے سردارِ قوم سے یہ درخواست کی کہ میری آخری آرزو قوم سے صرف اتنی ہے کہ جو کچھ میں کہوں، بد نصیب قوم اس کو ٹھنڈے پٹیوں سن لے اور اس کے بعد جو فیصلہ کیا گیا ہے، اس پر عمل ہو۔ درخواست منظور ہوئی اور اس نے یہ کہنا شروع کیا:
“یہ وقت جو اب تھوڑی دیر بعد آنے والا ہے جب کہ یہ جسد خاکی اس ٹیلے پر تھوڑی دیر بعد تڑپ کر ٹھنڈا ہوجائے گا اور یہ سر جس میں جنون اور سودا نہیں، بد نصیب قوم کی سچی محبت بھری ہوئی تھی، برسوں کا ساتھ چھوڑ کر اس جسم سے علاحدہ ہوگا، میرے عقیدے کے موافق کبھی نہ کبھی آنے والا تھا مگر یہ موت وہ موت ہوگی جس پر ہزاروں زندگیاں قربان ہوں جب بھی یہ موت نصیب نہ ہو۔ اے بدنصیب اور گمراہ قوم! سچے مذہب میں جو کچھ آمیزش کی گئی ہے یہ بعض افراد کی نفسانیت ہے اور کچھ نہیں۔ مذہب کو مصنوعی لباس اور گوٹے ٹھپوں کی زیبائش سے بچاؤ اور جس طرح سیدھا سادہ نازل ہوا، اسی طرح اس کو دوسروں کے سامنے پیش کرو۔ اے فطرت الٰہی کے برخلاف یقین کرنے والی قوم! خدا کا عذاب تیرے ساتھ ہے اور وہ مقدس روحیں جن پر تم بہتان لگا رہے ہو، عنقریب تمہارے لیے بد دعائیں کرنے والی ہیں۔ عقل سے کام لو اور اس خیال سے کہ باپ دادا سے ہوتی آئی ہے عقیدہ کو مذہب میں داخل نہ کرو۔ اس احکم الحاکمین کا جمال جس کی حکومت لازوال ہے، مجھ کو محبت سے اپنی طرف بلا رہا ہے۔ چل چل اے جلاد! اپنا کام کر اور اس گمراہ قوم کا دل خوش کر دے”۔
اس تقریر پر وہ مجمع تو ٹھٹھے مار کر ہنستا رہا مگر غفیرہ پر ایک خاص حالت طاری ہوئی اور اس نے اس وقت یہ فیصلہ کیا کہ اس سے بہتر تحفہ دنیا میں کوئی اور نہ ہوگا۔ جلاد کی تلوار کا گردن پر پڑنا تھا کہ اس کی زبان سے قوم کا لفظ نکلا۔ غفیرہ آگے بڑھی اور خون کا وہ پہلا قطرہ جو اس کی گردن سے نکلا، مٹھی میں لیا اور خیالستان کی طرف واپس آئی۔ رستہ بھر اس کے دل کی کہ عجیب کیفیت تھی، وہ یقین کر رہی تھی کہ دنیا میں اس سے بہتر شے اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ اس شخص کے خون کا پہلا قطرہ ہے جو زندگی جیسی نعمت کو قوم پر سے قربان کر گیا۔ غفیرہ اس اعتبار سے نہایت خوش نصیب تھی کہ اس کو آج زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑا۔ اتفاق سے محض یہ جشن نوروز کا دن تھا۔ اس کے پہنچتے ہی دیوار شق ہوئی اور غفیرہ نے آگے بڑھ کر وہ خون کا قطرہ پیش کیا۔
داروغہ: غفیرہ تیری محنت قابل داد ہے۔ بے شک تو نے بہت مصیبتیں بھگت کر یہ نادر شے فراہم کی۔ مجھے یہ کہنے میں عذر نہیں کہ یہ دنیا کی اچھی شے ہے، لیکن یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس سے بہتر شے دنیا میں موجود نہیں۔ جا پھر کوشش کر، اور اگلے سال پھر آ۔
(٤)
فصیل بند ہوگئی اور غفیرہ حسرت نصیب دل پہلو میں لیے شہر شہر گاؤں گاؤں میں خاک اڑاتی پھری، یوں تو رات دن ہی دنیا کے سینکڑوں کرشمے اس کی آنکھ سے گذرتے مگر یہ خیال کہ دنیا کی بہترین شے کیا ہے؟ اس کو سخت پریشان کر رہا تھا۔ پھرتی پھراتی وہ ایک روز ایسے مقام پر پہنچی جہاں ایک جوان اکلوتی بچی مرض الموت میں گرفتار تھی اور عزیزوں کا مجمع اس کے چاروں طرف تھا۔ موت خیالستان میں چاہے غیر معمولی شے ہو مگر اس دنیا میں تو کوئی لمحہ اس سے خالی نہ تھا۔ غفیرہ بھی یہ اچھی طرح سمجھتی تھی مگر ان عزیزوں کے چہروں پر کچھ ایسی حسرت اور مایوسی برس رہی تھی کہ وہ تھوڑی دیر وہاں ٹھٹکی، اس مجمع میں ایک عورت ایسی بھی تھی جس کو ہر چند لوگ سمجھا رہے تھے مگر اس کی آنکھ سے آنسو نہ تھمتا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد جھکتی تھی اور مریضہ کے منہ کو بوسہ دیتی تھی۔ اس کے ہاتھ اپنی آنکھوں سے لگاتی تھی اور اپنے ہاتھ اس کے منہ پر پھیرتی تھی۔ دفعتاً مریضہ نے درد سے بے تاب ہو کر ایک آہ کی اور ان آنکھوں سے جن میں سوا نا امیدی کے اور کچھ نہ تھا، اس عورت کو دیکھا اور دیکھ کر کہا: “بس اماں جان خدا حافظ”۔
مریضہ کی زبان سے یہ لفظ ایسے درد سے نکلے کہ سیدھے اس عورت کے کلیجے پر جا گرے، وہ چاہتی تھی کہ ضبط کرے مگر نہ کر سکی۔ بے اختیار ایک چیخ ماری اور کہا:
“ماں کی جان صالحہ! گو موت کا ایک وقت مقرر ہے لیکن میں وہ بد نصیب ماں ہوں جس نے اپنی بچی کو جو تمام عمر کی کمائی اور زندگی کا حاصل تھی، اپنے ہاتھ سے موت کے منہ میں دھکیلا اور وہ شخص جس کے نام سے ترے بدن پر رعشہ ہوتا تھا اور تو لرزتی تھی، اے صالحہ! میں نے زبردستی تیری شادی کر کے تجھے اس ظالم قصائی کے سپرد کر دیا، جس کے ظلم آج تیری جان لے کر بھی ختم نہ ہوئے۔ نہ معلوم مجھے اس دنیا میں ابھی کتنے روز اور جینا ہے مگر اب زندگی کا ہر لمحہ مجھ پر لعنت برسائے گا، دنیا کی ہر جاندار اور بے جان شے مجھ کو نفرت سے دیکھے گی۔ زمین کا وہ حصہ جس کے اوپر اور آسمان کا وہ ٹکڑا جس کے نیچے میں زندہ ہوں گی، بلند آواز سے کہے گا کہ یہی ہے وہ سنگ دل ماں جس نے ایک معصوم روح کو ناشاد اور نامراد دنیا سے رخصت کیا اور خدا کی ایک مخلوق اور اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو دیدہ و دانستہ دنیا کے عذاب میں پھنسا دیا۔ سنگدل ماں کی مظلوم و معصوم صالحہ، وہ صالحہ جو ماں کے حکم پر فدا اور اس کی خواہش پر قربان ہو رہی ہے۔ جس طرح میں تجھ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں، اسی طرح قیامت کے روز نادم اور شرم سار نہیں خدا کے حضور میں نافرمان گناہ گار حاضر ہوں گی اور اس عذاب کو بھگتوں گی جو میرے واسطے تجویز ہوگا۔ مگر وہی خدا شاہد ہے اس بات کا کہ مجھے یہ اندیشہ نہ تھا کہ یہ شقی القلب تجھ پر سوکن لا کر دنیا میں تیری یہ کچھ مٹی پلید کرے گا”۔
ان واقعات نے گو غفیرہ کے دل میں اس بیمار کی طرف سے ہمدردی پیدا کر دی لیکن یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہ تھی کہ غفیرہ اس کو دنیا کے عجائبات میں شمار کرتی۔ وہ آگے بڑھنے کا ارادہ کر رہی تھی کہ ایک نوجوان ایک ہم عمر لڑکی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے داخل ہوا، بیمار کے قریب آیا اور کہا:
“قیوم کی ماں! ابھی تک چوں کہ تو زندہ ہے، میں تجھ کو اس لیے طلاق دیتا ہوں کہ شرعاً و عقلاً تیرا کوئی مطالبہ مجھ پر نہ رہے”۔
لفظ طلاق نے غفیرہ کو بالکل حیران کر دیا اور اس نے یہ فیصلہ کر دیا کہ اس سے زیادہ شقی مرد اور اس سے زیادہ مظلوم عورت دنیا میں کوئی نہ ہوگی۔ وہ قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ طلاق نے مریضہ پر ایک خاص اثر کیا۔ اس نے ایک نگاہ جس میں منت و سماجت شامل تھے اپنے شوہر پر ڈالی چونکہ زبان نے یاری نہ دی، اس نے اپنے ہاتھ بڑھائے، ان کو جوڑا اور آہستہ آہستہ زبان سے کچھ کہا، کھانسی اٹھی اور صالحہ اسی حالت میں شوہر کے آگے ہاتھ باندھے دنیا سے رخصت ہوئی۔
یہ آخری سانس جو دم واپسیں تھا، غفیرہ نے مٹھی میں لیا اور خیالستان روانہ ہوئی۔
پہلی دفعہ بھی نہ معلوم کیا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹ گیا تھا کہ ادھر غفیرہ خون کا قطرہ لے کر پہنچی اور ادھر فصیل شق ہوئی۔اب کے تو انتظار کرتے کرتے آنکھیں پتھرا گئیں اور راہ دیکھتے دیکھتے آندھ آ گئی مگر نوروز ہی نہ آیا۔ دن بھر آس پاس کے جنگلوں میں خاک چھانتی مگر جہاں جُھٹ پٹا ہوا اور وہ فصیل کی طرف لپکی۔ ایک دل اور بیسیوں وہم، ایک سر اور سینکڑوں خیال۔ وہ جانتی تھی کہ تقدیر بری طرح ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی ہے۔ کیا تعجب، مَیں بیٹھی کی بیٹھی ہی رہوں، آنکھ جھپک جائے اور وہ روشنی آ بھی جائے، چلی بھی جائے، جوئندہ یابندہ۔ آخر خدا خدا کر کے وہ وقت آیا۔ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ اس جنگل بیابان میں اگر کوئی پناہ تھی، تو کیکر کے درخت۔ ان ہی میں سے ایک کے نیچے غفیرہ کھڑی ٹکٹکی باندھے دیوار کو تک رہی تھی۔ اِدھر آسمان پر بجلی چمکی، اُدھر خیالستان کی روشنی نمودار، گرتی پڑتی بے تاب ہو کر لپکی۔ داروغہ موجود تھا۔ غفیرہ نے وہ سانس پیش کی۔ ساری رام کہانی سننے کے بعد داروغہ کا دل بھی پسیج گیا اور اس نے کہا:
“غفیرہ! افسوس تو آج کل ایسی زندگی بسر کر رہی ہے جہاں ایسے ایسے سنگ دل لوگ بستے ہیں۔ مجھے اس مظلوم لڑکی کا حال سن کر سخت صدمہ ہوا اور گو میں اس سانس کو عجائبات میں شمار کرتا ہوں، مگر غفیرہ! ابھی تو نے انسانی دنیا کو اچھی طرح نہیں پرکھا۔ جا ابھی اور دیکھ اور اگلے سال پھر آ”۔
یہ الفاظ ختم بھی نہ ہوئے تھے کہ دیوار بند، روشنی ندارد اور داروغہ غائب۔
اس وقت غفیرہ کی حالت قابل رحم تھی۔ امید نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور نا امیدی کی مجسم تصویر اس کے سامنے آ گئی۔ اس وقت اس کو یقین ہو گیا کہ اب خیالستان کا دیکھنا مجھے نصیب نہ ہوگا۔ میں اپنے وطن سے ایسی نہیں چھوٹی کہ پھر مل سکوں۔ میری جدائی ابدی ہے اور میرا فراق قطعی، بس یہی دنیا، ناپاک دنیا، انسانوں کی دنیا، خود غرضوں کی بستی میرا مسکن ہوگا اور اسی زمین میں خیالستان کو ترستی پھڑکتی کسی دن سرد ہو جاؤں گی۔
کچھ دیر انھیں خیالات میں محو رہنے کے بعد امید نے پھر اپنا نقشہ جمایا اور نا امیدی کا خوفناک منظر آنکھ سے اوجھل ہونا شروع ہوا۔
(۵)
صبح کا سہانا وقت تھا، پرند اپنے سچے معبود کی تسبیح میں مصروف تھے کہ غفیرہ وہاں سے چلی، روز نیا دانہ تھا، نیا پانی۔ دن کہیں رات کہیں بسر کرنے لگی۔ کامل گیارہ مہینے غفیرہ نے یہ زندگی بسر کی۔ روز سینکڑوں اور ہزاروں واقعات اس کی آنکھ سے گذرتے مگر اب کوئی واقعہ اس کی رائے میں ایسا نہ ہوتا، ہزاروں اور لاکھوں چیزیں وہ صبح سے شام اور رات سے صبح تک دیکھتی، مگر کسی کو اس قابل نہ سمجھتی کہ خیالستان لے جائے۔ ایک دن خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے کہ غفیرہ پھرتی پھراتی ایسے گھر میں پہنچی جہاں ایک ضعیفہ حسرت و یاس کی تصویر بنی بیٹھی تھی اور اس کے گرد و پیش بہت سے آدمی مرد اور عورتیں ہشاش بشاش پھر رہے تھے۔ گھر آراستہ کیا گیا تھا اور گھر والے اجلے اور نئے کپڑے بدلے، اس طرح کاموں میں مصروف تھے گویا آج ان کو کوئی غیر معمولی خوشی ہے۔ چھوٹے سے بڑے تک، مرد سے عورت اور بچے سے بڈھے تک کوئی متنفس ایسا نہ تھا جو کسی نہ کسی کام میں مصروف نہ ہو۔ کچھ ڈولیاں اتریں، کچھ مرد آئے۔ ان سب کے چہرے شگفتہ اور شاداب تھے اور سوا اس ضعیفہ کے جو کسی خیال میں محو اور کسی یاد میں از خود فراموش تھی، ہر شخص خوشی کے نعرے لگا رہا تھا۔ آخر یہ گروہ متفق ہو کر اس ضعیفہ کے قریب آیا اور ایک شخص نے اس طرح کہنا شروع کیا:
“محترمہ! اس سے زیادہ خوشی کا وقت آپ کو اور کیا نصیب ہوگا کہ آپ اب تھوڑی دیر میں اس صورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں جس کو زمانے نے مدت العمر کے لیے آپ کی نظر سے اوجھل کر دیا تھا، کسے امید تھی کہ صغیر بھائی ہماری زندگی میں جلا وطنی کا زمانہ پورا کرکے ہمارے گھر میں واپس آئیں گے، ہماری آنکھیں اس صورت کو دیکھ لیں گی جس کا ہمارا مدتوں کا ساتھ تھا۔ یہ وقت آپ کے گم سم بیٹھنے کا نہیں ہے، رونے کے دن ہو چکے، اب ہنسنے کا وقت ہے۔ اب چار بجے ہیں، ساڑھے چار بجے کا وقت مقرر ہے۔ ہم استقبال کو جاتے ہیں۔ خدا صغیر بھائی کا آنا مبارک کرے اور آپ کی آنکھیں ان کے دیدار سے روشن ہوں”۔
ضعیفہ کی زبان سے کوئی لفظ نہ نکلا، اس کی ٹکٹکی اس شخص کے چہرے پر تھی اور اس کی صورت اس کے دل کی اس حالت کو ظاہر کر رہی تھی جس میں نا امیدی کے سوا اب کچھ نہ تھا۔ یہ وہ عورت تھی جس کے اکلوتے بچے کو بے گناہ محض دشمنوں کی شرارت سے عمر بھر کے واسطے جلاوطن ہونا پڑا۔ اس مبارک لمحہ کے انتظار میں جب اس کی آنکھیں اس لال کی صورت دیکھیں، اس آنے والے وقت کی امید پر جب یہ اپنے کلیجہ کے ٹکڑے کو سینہ سے لگائے، اس کی جوانی بڑھاپے سے بدل چکی تھی اور پچیس برس کے فراق نے مامتا کی ماری کو دیوانہ بنا دیا تھا۔ اس کے آنسو خشک ہو چکے تھے اور ہاتھ پاؤں نے جواب دے دیا تھا۔ ہڈیاں اور ہڈیوں میں صرف ایک سانس کی حرکت باقی رہ گئی تھی۔ سروپا کا مطلق ہوش نہ تھا۔ دیوانہ وار ایک ایک کی صورت تک رہی تھی، بے گناہ بچہ کی صورت اور اس کی محبت آنکھوں کے سامنے تھی۔ لمحہ لمحہ کے بعد کلیجہ پکڑ لیتی اور ٹھنڈا سانس بھر کر آنکھیں بند کر لیتی۔ اس میں بولنے کی طاقت نہ تھی اور اس کی ترستی پھڑکتی روح جسم سے جدا ہونے کے واسطے صرف اس صورت کے دیکھنے کا انتظار کر رہی تھی جس کو خون جگر پلا کر بڑا کیا تھا اور جس کو مدتوں کلیجے اور سینے پر لٹایا اور سلایا تھا۔
دفعتاً مبارک سلامت کا غلغلہ بلند ہوا اور ۲۵ برس کے چھوٹے ہوئے بچے کے ہاتھ ماں کے گلے میں پڑے۔ مصیبت زدہ ماں نے اس لال کی صورت دیکھ کر ایک چیخ ماری۔ فرط محبت میں اس کی آنکھ سے آنسو جاری ہوئے اور اپنے بے گناہ بچہ کو کلیجہ سے چمٹا کر نہ معلوم بے ہوش ہوئی یا مر گئی۔
آنسو کا وہ پہلا قطرہ جو اس ماں کی آنکھ سے اس وقت نکلا جب وہ بچہ کو کلیجہ سے لگائے تھی، غفیرہ نے مٹھی میں لیا اور خیالستان پہنچی۔ اس مرتبہ غفیرہ کو انتظار کی زیادہ تکلیف نہ اٹھانی پڑی۔ چار پانچ ہی روز ہوئے ہوں گے کہ ایک رات آسمان پر اس کی نگاہ تھی گو چاند نہ تھا مگر تارے کچھ ایسی دلفریبی سے کھلے ہوئے تھے کہ نیلگوں آسماں کا کونہ کونہ قدرت کی صنعت یاد دلا رہا تھا۔ یہ کچھ ایسا دلکش منظر تھا کہ غفیرہ بالکل محو ہو گئی اور اس کو وہ وقت یاد آیا جب وہ بچپن میں ماں کے ساتھ سبھا میں جاتی اور راجا بطور انعام اس کو ایک زمردیں قمقمہ دیتا۔ یہ خیال آتے ہی خیالستان اس کی آنکھ کے سامنے تھا اور عمر گذشتہ کی دلچسپیاں، عزیزوں کا جمگھٹا، برابر والیوں کی چھیڑ چھاڑ، ہم جولیوں، سہیلیوں اور بہنیلیوں کا ملنا جلنا اور سب سے زیادہ وطن کے در و دیوار۔ اس کے کلیجے پر چھریاں چل رہی تھیں، وہ ان ہی خیالات میں محو تھی کہ فصیل شق ہوئی اور غفیرہ سٹ پٹا کر لپکی۔
داروغہ: کوئی شک نہیں کہ تیرا انتخاب قابل داد ہے مگر غفیرہ ابھی کے دن اور کے رات۔ ابھی تو اس دنیا کی تہہ کو نہیں پہنچی۔ جا! جا! جا! غفیرہ جا اور پھر ڈھونڈنے جا۔
اس سے پہلے کہ غفیرہ کچھ بولتی، نہ داروغہ تھا نہ خیالستان۔ وہ سماں درہم برہم اور وہ صورت غائب!
چند گھنٹے ششدر و متحیر، مایوس و نا امید سر پکڑے بیٹھی رہی۔ مگر غفیرہ کے کلیجے میں ایسی آگ نہ لگی تھی جو کسی کے بجھائے بجھ جاتی۔ ایک ٹھنڈا سانس بھرا اور جدھر منہ اٹھا، چل کھڑی ہوئی۔ شہر اور جنگل ایک کر دیا۔ دس ساڑھے دس مہینے تک خاک اڑاتی پھری۔ اس دنیا میں واقعات کی کیا کمی تھی مگر پچھلے واقعات نے اس کی کمر کچھ ایسی توڑ دی تھی کہ وہ غیر معمولی واقعات کو بھی معمولی ہی سمجھتی۔
(٦)
برسات کا موسم، ساون کا آخری دن اور رات کا وہ وقت تھا جب ساون بھادوں گلے مل مل کر رو رہے تھے۔ سات دن اور سات رات کی متواتر بارش نے خلق خدا کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ کچے پکے دھابے، ٹوٹے پھوٹے کھنڈلے تو کبھی کے مہندم ہو چکے تھے۔ اب بڑی بڑی محل سرائیں بھی اس طوفان کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ چاروں طرف سے دھواں دھوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سینکڑوں بندگان خدا اور بیسیوں پردہ نشین بیبیاں بھرے گھر چھوڑ چھاڑ سڑکوں پر آن بیٹھے۔ پوروا ہوا فراٹے بھر رہی تھی اور موسلا دھار مینہ دم بھر کو بھی ہلکا نہ ہوتا تھا۔
ٹھیک آدھی رات کا وقت تھا کہ دریا میں طغیانی شروع ہوئی اور آناً فاناً تمام سڑکوں پر پانی کے نالے بہنے لگے۔ عورتوں کی گریہ و زاری، مردوں کی چیخ پکار، بچوں کی واویلا بے سود تھی۔ ہوا کا شور، پانی کا زور لمحہ بہ لمحہ ترقی کر رہا تھا۔ ابھی رات کا پچھلا پہر شروع نہ ہوا تھا کہ سینکڑوں جانیں ظغیانی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ کیسا درد ناک سماں اور نازک وقت تھا کہ سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے ساری بستی سمندر بن گئی اور سوتے جاگتے، روتے چیختے، اس سر زمین کے بسنے والے چشم زدن میں لقمۂ اجل ہو گئے۔ البتہ بچ گئیں تو وہ چند جانیں جو پہاڑی پر پہنچ گئیں اور دریا کی زد سے محفوظ رہیں۔
اس پہاڑی کے دامن میں ایک ٹوٹی سی جھونپڑی تھی جہاں ایک بد نصیب عورت اپنے چھ مہینے کے بچہ کو کندھے سے لگائے ٹہل رہی تھی۔ ہوا کے ایک جھکڑ نے جھونپڑی کا ایک حصہ اڑا دیا اور اب اس قیامت خیز وقت میں اس بد نصیب عورت کے پاس اگر کوئی معاون و مددگار تھا تو صرف شیر خوار بچہ۔
آدھی رات کا وقت تھا۔ ہوا سائیں سائیں کر رہی تھی اور موسلا دھار مینہ پڑ رہا تھا۔ گو یہ جھونپڑی کچھ بلندی پر تھی، مگر دریا کی طغیانی نے اس کو بھی نہ چھوڑا اور پانی اس طرف بھی پہنچنا شروع ہوا۔ مال اور اسباب کا ہوش کسے تھا، لوگ اپنی جانوں ہی کو بچا لینا غنیمت سمجھ رہے تھے۔ چند مردوں کی ایک جماعت روشنی ہاتھ میں لیے اس جھونپڑی کے قریب پہنچی تو اس بدنصیب عورت کو با آواز بلند پکارنا شروع کیا کہ بچہ کو لے کر باہر نکل آئے اور پہاڑی پر پہنچ کر اپنی اور اس معصوم کی جان بچائے۔
پانی کمر کمر پہنچ چکا تھا اور کوئی دم جاتا تھا کہ دریا کی لہریں ان دونوں ماں بیٹوں کو کہیں کا کہیں پہنچا دیں کہ اس آواز نے عورت کو ہوشیار کیا۔ وہ بھاگنے کے واسطے دروازے تک آئی مگر غیر مردوں کی صورت دیکھ کر پھر اندر چلی گئی، پانی اب گلے گلے تھا کہ ایک دفعہ ان لوگوں نے اور آواز دی اور چلا کر کہا: “بدنصیب عورت یہ پردے کا وقت نہیں ہے، ان دو جانوں پر رحم کر، باہر نکل اور پہاڑی پر چڑھ جا۔”
عورت گھبرا کر آگے بڑھی، بچہ کندھے سے چمٹا ہوا تھا، باہر نکلنے کی کوشش کی مگر پردے کی اس قید نے جو زنجیر کی طرح پاؤں میں پڑی ہوئی تھی، اس کو ایک قدم نہ اٹھانے دیا۔ وہ اپنے دل سے یہ کہہ کر پھر اندر چلی گئی: “جان ایک روز جانی ہے مگر غیروں کی مدد سے جان بچائی تو کیا بچائی”۔ لوگوں نے ایک آواز اور دی اور اس کے بعد ناامید و مایوس پہاڑی پر چڑھ گئے۔ آناً فاناً پانی کی زبردست لہر نے جھونپڑی کو تاراج کردیا اور ماں بیٹوں کی چمٹی ہوئی لاشیں آنکھ سے اوجھل ہو گئیں۔
غفیرہ اس آسمانی عتاب کی کیفیت دیکھ کر لرز رہی تھی۔ جس وقت یہ عورت دوسری مرتبہ واپس ہوئی ہے اور پانی کی لہر نے اس کو غرقاب کر دیا ہے اس وقت دو خیال اس کے دل میں پیدا ہوئے:
- کیا تعریف کے قابل ہے وہ عورت جس نے اپنی اور اپنے بچے کی جان قربان کردی مگر پردہ کی زنجیر کو نہ توڑا۔
- افسوس کے قابل ہے وہ سرزمین جس کے بسنے والوں میں ایسی جہالت بھری ہوئی ہو کہ محض ایک قدیم رسم کو پورا کرنے کے واسطے جان تک کی پروا نہ کی۔
جس لہر نے ان دونوں کا خاتمہ کیا اس کے چند قطرے غفیرہ نے لیے اور خیالستان چلی۔
اس مرتبہ غفیرہ کی تقدیر نے اتنا سلوک تو کیا کہ عین وقت کے اوپر پہنچ گئی ورنہ پورے سال بھر سر ٹکراتی جب کہیں جا کر رسائی ہوتی۔ خیالستان کی سرحد میں داخل ہونا تھا کہ جان میں جان آ گئی۔ ابھی اس فرحت سے جی بھرنے بھی نہ پایا تھا کہ دیوار شق ہوئی اور غفیرہ اس خوشی اور فرحت کو چھوڑ چھاڑ ادھر لپکی اور اپنا ہدیہ پیش کیا۔
یہ کہنے کا شاید ہمیں حق نہ ہو کہ داروغہ انسان سے زیادہ سنگ دل تھا، مگر ہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انسان کتنا ہی سنگ دل ہوتا مگر بہت مشکل سے ممکن تھا کہ غفیرہ جیسی مظلوم، بے بس، بے کس کی منت و سماجت پر اس کا دل نہ پسیجتا۔
داروغہ جب تک سوچتا رہا، غفیرہ کی آنکھ سے آنسو گرتے رہے۔ وہ بے تاب تھی اور جانتی تھی کہ عنقریب اس زبان سے وہ لفظ نکلیں گے جو میری سال بھر کی محنت کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔
داروغہ نے آخر سر اٹھایا اور کہا:
“غفیرہ! تیرا انتخاب قابل داد مگر منزل مقصود ابھی دور ہے”۔
فقرہ ختم ہونے سے پہلے وہ سماں درہم برہم تھا اور غفیرہ کے سامنے وہ سرحد تھی جس کی دیواریں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں۔ اس مرتبہ بد نصیب غفیرہ اپنی کامیابی سے بالکل مایوس ہوگئی اور یہ فیصلہ کر کے کہ اگر زندگی اس ارمان کو پورا نہیں کر سکتی تو موت اس تکلیف کا خاتمہ کر دے گی، وہ دریا کے قریب پہنچی۔
تاروں بھری رات اپنی دو منزلیں طے کر چکی تھی اور چودھویں رات کا چاند غفیرہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ لہریں پانی کے آغوش میں مچل مچل کر لوٹ رہی تھیں اور قریب تھا کہ غفیرہ ان لہروں سے لپٹ کر اپنی تکلیفوں کو خیر باد کہے کہ دفعتاً کامیابی کی امیدوں نے پھر اپنا نقشہ جمایا اور دل نے یہ صدا دی کہ اس فانی دنیا کے چند روزہ قیام میں ایسی ایسی بیویاں دیکھیں کہ آنکھیں آج تک ان کے صبر و استقلال کی داد دے رہی ہیں۔ وہ بھی عورتیں ہی ہیں جو مردانہ وار صدمات کا مقابلہ کر رہی ہیں اور ایسی موت مر رہی ہیں کہ لاکھوں زندگیاں ان پر ست سے قربان ہوں۔ اور میں بھی عورت ہوں کہ اس تھوڑی سی تکلیف میں زندگی سے بیزار ہو گئی۔ چلوں پھر چلوں اور اس وقت تک اپنی کوشش میں کمی نہ کروں جب تک تقدیر مجھ کو میرے پیارے وطن خیالستان میں پہنچا دے یا قدرت اپنی زبردست طاقت سے پیغام موت بھیج کر مجھ کو کوشش کے قابل نہ رکھے۔
(٧)
یہ سوچتے ہی غفیرہ اٹھی اور ایک طرف کو چل نکلی۔ تارے پھیکے پڑ چکے تھے، آسمان کروٹ بدل رہا تھا اور بادِ صبا کے جھونکے جھوم جھوم کر صبح کا پیغام لا رہے تھے۔ اس وقت غفیرہ کے دل میں ارمانوں کا دریا امنڈ امنڈ کر لہریں لے رہا تھا۔ مدتوں خاک اڑاتی رہی اور سر ٹکراتی پھری۔ نت نئے تماشے اور رنگ برنگ کے لوگ دیکھنے میں آئے، مگر کامل گیارہ ساڑھے گیارہ مہینے تک کوئی چیز ایسی نظر نہ آئی جو انتخاب میں آتی۔ ایک روز جب کہ آفتاب اچھی طرح بلند ہو چکا تھا، وہ پھرتی پھراتی ایسے گھر میں پہنچی جس پر ایک متوسط العمر عورت حکمران تھی۔ مامائیں اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھیں اور دو تین چھوٹے چھوٹے بچے انگنائی میں ٹہلتے پھر رہے تھے۔ اور ایک بڑی لڑکی جس کی عمر دس گیارہ برس کی ہوگی، میلے کچیلے کپڑے پہنے کونے میں بیٹھی کچھ سی رہی تھی۔ ماں کی محبت بھری نظریں لڑکوں پر پڑ رہی تھیں اور ان کے اچھلنے کودنے سے نہال نہال ہو رہی تھی۔ دروازہ پر انگور والا بولا، بیوی کے حکم سے ماما اسے بلا کر لائی، دونوں لڑکوں نے آدھ آدھ پاؤ انگور لیے اور کھائے۔ لڑکی کچھ دیر تک تو چپکی بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر کہنے لگی: “اماں جان! چھٹانک بھر مجھے بھی منگا دیجیے”۔ ماما لینے گئی۔ اب کاچھی کے پاس صرف پاؤ سیر انگور باقی تھے۔ ماما سے پہلے لڑکے پہنچے آدھ آدھ پاؤ تلوا کر لے آئے اور بہن کے سامنے بیٹھ کر ختم کر دیے۔
غفیرہ آگے بڑھنے کو تھی کہ اس کی نظر اس دس برس کی بچی پر پڑی جو حسرت سے اس توقع پر ماں کا منہ تک رہی تھی کہ شاید مجھے بھی ان دونوں کے ہاں سے کچھ مل جائے، مگر جب ماں نے اس کو معمولی سی بات سمجھ کر یہ کہہ دیا: “تجھے پھر لے دوں گی” تو غفیرہ ٹھٹکی۔ کھانے کا وقت آگیا تھا، ماما نے پتیلیاں آگے رکھیں، باہر سے رقعہ آیا کہ دو آدمیوں کا کھانا زیادہ بھیجنا۔ بیوی نے اٹھ کر کھانا نکالا، پہلے مردانہ میں بھیجا اور پھر لڑکوں کو دیا۔ اب سالن نہ بچا تھا۔ پتیلی سے روٹی پونچھ کر دونوں ماں بیٹیوں نے کھا لی۔ غفیرہ تعجب سے اس لڑکی کو دیکھ رہی تھی، اس کی عقل کام نہیں کرتی تھی کہ کیوں اس لڑکی کی روزانہ زندگی ان لڑکوں کے مقابلے میں ایسی خراب ہے۔ حالانکہ یہ سب ایک پیٹ کے بچے اور ایک باپ کی اولاد ہیں۔ غفیرہ کو اس معمے کے حل کرنے کا شوق ہوا اور وہ اطمینان سے بیٹھ گئی۔ دو بجے کے قریب لڑکی نہایت خوش خوش اٹھی اور ماں سے آکے کہا: “لیجیے اماں جان! میرا بٹوا تیار ہوگیا۔ دیکھیے چھریاں ٹھیک پڑی ہیں نا؟”
بٹوے کی تیاری اس بچی کے واسطے ہفت اقلیم کی بادشاہت تھی۔ اس کا دل باغ باغ تھا اور چہرہ اس ننھے سے دل کی اس خوشی کا پتا دے رہا تھا جو تین دن کی محنت کے بعد اس لڑکی کو حاصل ہوئی تھی۔ وہ اچھلتی ہوئی باہر آئی، لوٹا بھر کر وضو کیا اور نماز کو کھڑی ہو گئی۔ بڑا لڑکا جو تقریباً سات برس کا تھا، ماں کے پاس آیا، بٹوا دیکھ رہا تھا کہ لڑکی نے سلام پھیرا اور کہا: “اماں جان! ان کو بٹوا نہ دیجیے گا یہ خراب کر دیں گے”۔
ماں نے اس درخواست کا مطلق خیال نہ کیا۔ لڑکا بٹوا باہر لے گیا اور لڑکی نماز میں مشغول ہو گئی۔ لڑکے کے میلے کچیلے ہاتھوں میں بٹوے کی آب و تاب بالکل جاتی رہی۔ لڑکی نماز پڑھ چکی تو بہ منت کہا: “اماں جان! میرا بٹوا دلا دیجیے، دیکھیے خراب ہوگیا”۔ بہن کے اتنا کہتے ہی بھائی نے بٹوا انگنائی میں پھینک دیا جو تمام کیچڑ میں لت پت ہو گیا۔ ماں لڑکے پر خفا ضرور ہوئی مگر جب بیٹی سے یہ کہا کہ “بگڑتی کیوں ہے، اور بنا لیجیو” تو وہ ننھا سا دل جس میں چند لمحے پہلے خوشی کا دریا لہریں لے رہا تھا، اس فیصلے سے بالکل خشک ہو گیا۔ وہ مجبور اور معذور بچی جو ماں کے گھر پر چند روز کی مہمان تھی، جس کی اتنی مجال نہ تھی کہ منہ سے اف کر سکے، جس کا ماں کے سوا کوئی رفیق شفیق نہ تھا، جس کی تمام خوشی ایک آن کی آن میں ماں کی آنکھوں کے سامنے بھائی کے ہاتھوں کرکری ہوگئی، اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک کونے میں منہ لپیٹ کر رونے لگی۔ آنسوؤں کا وہ پہلا قطرہ جو اس کی آنکھ سے نکلا غفیرہ نے قبضہ میں کیا اور روانہ ہوئی۔
جھٹ پٹا وقت ہوگا کہ غفیرہ خیالستان کی سرحد میں داخل ہوئی۔ متواتر ناکامیوں نے اس کی ہمت اس قدر پست کر دی تھی کہ اندر پہنچنے کا خیال اب اس کو ایک یوں ہی سی امید تھی اور ایسی امید، جس میں روشنی کی جھلک کا نشان تک نہ تھا۔ اس وقت بھی دل یہ گواہی دے رہا تھا کہ تمام سال کی محنت دم بھر میں برباد ہوگی مگر اس کے ساتھ ہی دل نے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ کوشش کی حد اور تلاش کی انتہا ہو چکی۔ اگر آج بھی داروغہ نے رخ نہ کیا تو ادھر کا رخ نہ کروں گی۔ متواتر کئی گھنٹے تک غفیرہ انھیں خیالات میں غلطاں و پیچاں رہی، یہاں تک کہ وقت مقرر آپہنچا۔ دیوار شق ہو گئی اور غفیرہ نے اپنا تحفہ داروغہ کے حضور میں پیش کیا۔
داروغہ: غفیرہ تیری کوشش قابل داد، تیری محنتیں لائق تعریف؛ تو نے انسانی دنیا کا خوب مطالعہ کیا اور ایسے ایسے تحفہ لائی کہ خیالستان ان پر فخر کر رہا ہے اور ہمارا عجائب خانہ اس بے نظیر انتخاب پر ہمیشہ ناز کرے گا، مگر غفیرہ تیرا قصور اس قدر سنگین ہے کہ میں اس تحفے کو بھی معافی جرم کے برابر نہیں سمجھتا۔ ہمت نہ ہار اور کوشش کر۔
ان الفاظ کے بعد کچھ بھی نہ تھا۔ وہ روشنی، وہ دیوار، وہ داروغہ، وہ تقریر ندارد۔ داروغہ کا آنکھ سے اوجھل ہونا تھا کہ غفیرہ نے اپنی ناکامی پر ایک چیخ ماری اور یہ کہتی ہوئی گر پڑی:
“خیالستان کی دیوارو! میرا آخری سلام قبول کرو اور مجھے اجازت دو”۔
عطر اور لخلخہ کے بجائے ببول کے پھول اور جنگل بیابان کی ہوا تھی۔ سب سے بڑا معالج آفتاب عالم تاب تھا جس کی حرارت غفیرہ کو ہوش میں لائی، اٹھی اور اٹھ کر آگے بڑھی۔
نا امیدی کی خطرناک صورتیں ہر طرف پیش نظر تھیں مگر غفیرہ خیالستان کی پری ہی تھی کہ پھر سنبھلی اور دل سے اس طرح مخاطب ہوئی:
“انسانی دنیا کی یہ مثل سننے کے بعد “جب تک سانس ہے اس وقت تک آس ہے” میرا مایوس ہونا میرے وطن خیالستان کی شان پر بٹہ لگا دے گا۔ چلوں پھر چلوں اور دنیا کا مطالعہ کروں۔ جو ہاتھ لگے، لاؤں اور کوشش میں کمی نہ کروں۔ وطن کی محبت سے بہتر مشغلہ اور ناکامیابیوں کے بعد کامیابی کی کوشش سے بہتر کام اور کیا ہو سکتا ہے؟”
(٨)
اتنا کہہ کر غفیرہ روانہ ہوئی۔ نیا دانہ، نیا پانی، آج یہاں، کل وہاں، تقریباً تمام دنیا چھان ڈالی۔ نت نئے سوانگ دیکھتی اور طرح طرح کے معاملے آنکھ کے سامنے گذرتے، مگر وہ ان کو معمولی سمجھ کر ٹال دیتی۔ ایک دن کا ذکر ہے آدھی رات کا وقت ہوگا کہ وہ ایک ایسے میدان میں پہنچی جو کسی وقت عالیشان محلوں سے راستہ تھا۔ اور جہاں ریاست حسین پور کا مشہور سردار اپنی محبوبہ بیوی گیتی آرا بیگم کے ساتھ گیتی محل میں اپنا وقت آرام و اطمینان سے بسر کرتا تھا۔
آج انقلاب زمانے نے حسین پور کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ محلوں کی جگہ خاک اڑ رہی تھی اور گیتی محل پھونس کی ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی تھی۔ یہ دونوں میاں بیوی دنیائے ناپائدار کی بے وفائی کی ایک ایسی تصویر تھے جس کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ جس شحض کے ادنی سے اشارے پر سینکڑوں ہزاروں آدمی جانیں لڑا دینے کو تیار تھے، آج لق و دق جنگل میں اپنی مصیبت ناک زندگی کے دن بسر کر رہا تھا۔ خارستان کے تنکے اور درختوں کے پتے اس کا بچھونا تھے اور میدان کا گھاس پھونس اس کا اوڑھنا۔ وہ بیگم جو والیِ سعید آباد سے مشہور رئیس کی بیٹی تھی، آج اپنا تمام مال و زر شوہر پر لٹا کر دو دو دانوں کی محتاج تھی۔ جنگل کے پھل اس کی خوراک تھے اور چشموں کی روانی اس کی پیاس بجھاتی تھی۔ دونوں میاں بیوی علی الصباح نکل جاتے، جنگلی میوے چن کر لاتے اور اپنی جھونپڑی میں پتوں کا دسترخوان بچھا کر پیٹ بھر لیتے۔ فرش فروش کے بدلے گو ان کے ہاں پیپل کے پتے ہی تھے۔ مگر یہ جھونپڑی محبت کے ایسے پھولوں سے مہک رہی تھی جس پر آسمان اور زمین درود پڑھ رہے تھے۔
چاندنی رات میں جس وقت یہ جوڑا جو انسانی زندگی کے اصل مقصد کا ایک نمونہ تھا، دریا کے کنارے بیٹھا ہوا ہوا کے ترانے سنتا اور فانوس محبت کی روشنی میں ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھ دیکھ بشاش ہوتا تو چاروں طرف سے ان پر مرحبا کے نعرے لگتے، درختوں کے پتے ان کو مبارک باد دیتے اور چشموں کا پانی ان کے خلوص کے گیت گاتا۔
غفیرہ جس وقت یہاں پہنچی، آدھی سے زیادہ رات گذر چکی تھی۔ سردی کی شدت کی پڑ رہی تھی، چاند نکلا ہوا تھا اور یہ دونوں میاں بیوی ایک پھٹی سی چادر میں، جو ان کی کل کائنات تھی، سکڑے ہوئے بیٹھے تھے۔ سردی کی اذیت کا احساس ان کو بالکل نہ تھا۔ چاند کی روشنی میں ان کی محبت بھری نظریں خلوص باہمی کی سچی قدردانی کا پتہ دے رہی تھیں۔ اس وقت زندگی کا کوئی فکر ان کے دماغ میں نہ تھا، نہ ان کو صبح کے کھانے کی سوچ تھی، نہ کڑاکے کی سردی کا غم، نہ عزیزوں کے ملنے کی توقع تھی، نہ غیروں کے حسد کا کھٹکا، دونوں اپنی حالت میں مگن تھے اور باہمی محبت کے سوا ان کے دلوں میں کسی اور چیز کا گذر نہ تھا۔
پچھلا پہر ہوگا کہ شوہر کو بخار چڑھا اور پیاس کی شدت میں اس نے اپنی محبوبہ کو پانی پلانے کی تکلیف دی۔ فرماں بردار بیوی اور عاشق زار بیگم دریا کی طرف چلی۔ پانی کی لب دریا سے بھری اور واپس ہوئی۔ دفعتاً آسمان نے رنگ بدلا اور باد و باراں کے زبردست طوفان نے عاشق زار بیوی کے پاؤں پکڑ لیے۔ آناً فاناً پھیلی ہوئی چاندنی اندھیرے گھپ سے بدل گئی۔ ہوا کا جھکڑ، مینہ کا طوفان، بادل کی کڑک، بجلی کی چمک نازک دل کو دہلانے لگی مگر حقیقی محبت کا سرشار دل ان سختیوں کو جھیلتا ہوا جھونپڑی کی طرف لے جا رہا تھا کہ اولوں کی باڑ نے محبت کی دیوی کو زخمی کر دیا۔
سہارے کے واسطے کوئی جگہ بہ ظاہر نہ تھی مگر بہادر درخت چاروں طرف سے اپنی سپر لیے کھڑے تھے۔ ہر چند اس قیامت خیز طوفان نے پاؤں پکڑے، مگر دل مجروح انتظار شوہر کے خیال سے تھرا اٹھا اور یہ جنت کی حور آسمانی اولوں کو سر پر لیتی جھونپڑی کے قریب پہنچی۔ اولوں کی متواتر باڑ نے سر اور سینہ زخمی کر دیا تھا۔ خون کے فوارے جسم سے جاری تھے مگر وہ پانی جو ہاتھ میں موجود تھا اس کی حفاظت جان کے ساتھ تھی۔ جھونپڑی میں داخل ہونا چاہتی تھی کہ ایک بھاری اولے نے سر کو پاش پاش کر دیا۔
مریض شوہر بخار میں بے ہوش تھا۔ اس کو مطلق خبر نہ تھی کہ آسمان کیا رنگ دکھا رہا ہے، کہ فرماں بردار بیوی عاشق زار بیگم اور غم گسار عورت نے پانی کے قطرے حلق میں ٹپکائے، مرد نے آنکھ کھولی۔ ابھی کچھ بات نہ کرنے پایا تھا کہ یہ وفا شعار بیگم جس کا سر پاش پاش اور بدن زخمی ہو چکا تھا، شوہر کے سامنے دنیا سے سدھار گئی۔
بدنصیب منکوحہ کا یہ آخری سانس غفیرہ نے اپنی مٹھی میں لیا اور خیالستان روانہ ہوئی۔
(٩)
کوشش کی انتہا اور ناکامی کی ایک حد ہوتی ہے۔ غفیرہ پرستش کے قابل عورت تھی کہ مردہ سے بدتر ہو گئی اور جس دھن کے پیچھے پڑی اس سے ہاتھ نہ اٹھایا۔ کاش ہمارے ہندوستانی عورتیں غفیرہ کے واقعات سے اتنا ہی سبق سیکھیں کہ جو ارادہ کریں، اس میں استقلال اور ثابت قدمی کو ہاتھ سے نہ دیں۔ رات آدھی سے بھی کم گذری تھی کہ غفیرہ خیالستان پہنچی۔ وہ اپنی تقدیر سے مایوس ہو چکی تھی اور اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ اب مجھے خیالستان کی بہار دیکھنا نصیب نہ ہوگی، پیارا وطن مجھ سے ہمیشہ کے لیے چھوٹ چکا۔ مگر جب تک زندہ ہوں کوشش میں کمی نہ کروں گی۔ سچ یہ ہے کہ انسانی زندگی کا مطالعہ بھی میرے واسطے خیالستان سے کم دلچسپ نہیں۔
غفیرہ ان ہی خیالات میں غلطاں و پیچاں تھی کہ دیوار شق ہوئی اور غفیرہ نے وہ سانس پیش کیا۔
داروغہ: آ آ غفیرہ! اندر داخل ہو، آخر تو نے گوہرِ مقصود پا لیا۔ بے شک! بے شک! وہ دنیا جس میں ایسے ایسے لوگ بستے ہوں، داد دینے کے قابل ہے۔ تیرا قصور معاف۔ تیرا وطن تجھ کو مبارک ہو۔ خیالستان اس سانس پر ہمیشہ ہمیشہ ناز کرے گا اور ہم کہ انسان نہیں ہیں، محبت کے اس پھول کو سر آنکھوں پر رکھیں گے۔ آگے بڑھ غفیرہ! کہ میں تیرے قدموں کو بوسہ دوں جو انسانی دنیا سے ایسا بے نظیر تحفہ لائے۔
لال کی تلاش
(١)
کہتے ہیں دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے کہ “ادھر دعا مانگی، اُدھر قبول”۔ کیا تعجب وہ قبولیت ہی کی گھڑی ہو جب فیروزہ جا نماز سے اٹھ، انگنائی میں آ، گود پھیلا اس طرح گڑگڑائی:
“آدھی رات کا سماں، سوتا سنسار، جاگتا پاک پروردگار، الہی! اگر میں نے ساس سے لگایا ہو تو میرا ناس، اور نہیں تو جیسا جھوٹا الزام شعبانہ نے مجھ پر رکھا، اس کے دیدے گھٹنوں گود پیٹ اور کوک مانگ کے آگے”۔
وہ کمبخت کچھ بات بھی ہو۔ ہوا یہ کہ فیروزہ اور شعبانہ دونوں دیورانیاں جیٹھانیاں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ ساس گئیں نماز کو۔ میکے کی نکل آئی ماما۔ شعبانہ نے ساس سے چُھپواں نینوں کا تھان، چار پینڈیاں، دو خربوزے اور تین روپے اس کو دے دیے۔ ادھر سے آتی تھیں ساس، ادھر سے چلی ماما۔ ڈیوڑھی میں ہوئی مد بھیڑ، چور کے پاؤں کہاں؟ ماما سٹ پٹائی اور سٹ پٹاتے ہی بغل کی پوٹلی نیچے، روپے چھنکے، خربوزے لڑھکے، پینڈیوں کا ہوا چور۔
ساس! ساس کلیجہ کی پھانس، بلکہ اس سے بھی سوا سہی۔ مگر اگلے زمانے کی آدمی، بھاری بھرکم عورت، ایسی پیٹ کی ہلکی نہ تھیں کہ اتنی سی بات بھی ضبط نہ کر سکتیں۔ مگر بدگمانی کا علاج کیا؟ چور کی ڈاڑھی میں تنکا۔ شعبانہ کا ماتھا ساس کو مسکراتے دیکھتے ہی ٹھنکا۔ فیروزہ کی کھسر پھسر نے اور بھی یقین دلا دیا۔ یہ فیروزہ کی تقدیر کہ بیچاری کہتی تھی کچھ، لپ گئی کچھ۔ ہم سے پوچھو تو قصور سر تا سر شعبانہ کا ہے۔ چیز اپنی، مال اپنا، ماں کو بھیجا تو خوب کیا اور ماما کو دیا تو خوب کیا۔ ڈر کس کا اور چوری کس کی؟ فضول تھا چھپانا، اور بے سود تھا ڈرنا۔
(٢)
اس واقعہ کو مشکل سے ایک مہینہ ہوا ہوگا۔ صبح کے وقت ایک روز تار والے نے آواز دی۔ تار کا نام سنتے ہی ساس بہوؤں کے کلیجے دھکڑ دھکڑ کرنے لگے۔ لڑکے نے اٹھ کر تار لیا، کھولا پڑھا اور پڑھتے ہی چیخ مار کر کہا: “ہائے محسن بھائی گذر گئے”۔
خاوند کی موت کا سننا تھا کہ شعبانہ کی آنکھوں میں دنیا اندھیر ہو گئی۔ پانچ برس کی بیاہی ابھی دنیا کا دیکھا ہی کیا تھا؟ بلبلاتی تھی اور پچھاڑیں کھاتی تھی۔ ہر چند چاہتی تھی کہ صبر کرے، مگر دل تھا کہ اندر سے آپ ہی آپ امڈا چلا آتا تھا۔ سوچتی تھی کہ یہ پہاڑ سی زندگی، بچے کا ساتھ کیا کروں گی؟ کیا نہ کروں گی؟ کچھ ایسا دھاکا بیٹھا کہ چالیسویں سے پہلے ہی پہلے ہتنی جیسا ڈیل سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ دن ہو یا رات، صبح ہو یا شام، چپکی بیٹھی ہے اور کسی نہ کسی خیال میں محو ہے۔ کھانا پینا تھک گیا۔ ہنسنا بولنا چھٹ گیا۔ جو شعبانہ جٹھانی کی آدھی بات سننے کی روادار نہ تھی، ہزاروں باتیں سنتی اور اف نہ کرتی۔ بہت جلتی تو اتنا کہہ دیتی “میرا زور ڈھے گیا، میرا وارث اٹھ گیا، تم جو کہو سب سچ”۔
کچھ ایسا دل مرا کہ کسی بات کو جی ہی نہ چاہتا تھا۔ ایک تصویر ہے کہ چل پھر رہی ہے۔ کپڑے چکٹ، سر پھولا ہوا، سر منہ لپیٹے پڑی ہے اور رو رہی ہے۔ جن ہاتھوں میں دو پونے دو سو روپیہ مہینے کے مہینے آتا اور اٹھتا، اب ان میں ایک ایک پیسہ اشرفی ہو گیا۔ اتفاق سے ایک دن کھلونے والا دروازہ پر آ نکلا۔ بچہ ایک تصویر پسند کر کے دوڑا دوڑا ماں کے پاس آیا اور کہنے لگا: “اچھی میری اماں یہ تصویر لے دو”۔
اتنا کہا اور کہتے ہی گلے میں ہاتھ ڈال کر لپٹ گیا۔ بچہ کا لپٹنا تھا کہ شعبانہ کا دل بھر آیا۔ بچہ کو چمٹا کر پیار کیا اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ساتھ ہی خیال آیا کہ اس تقدیر کی کیا خبر تھی کہ احسن اس طرح آ کر لپٹے گا اور بہار دیکھنے والا قبر میں جا سوئے گا۔ بچہ کو گود میں لٹا کر تصویر دیکھنے لگی، دیکھتی ہے تو اس میں چار آدمی ہیں ایک میاں ایک بیوی دو بچے۔ ایک بچہ ماں کی گود میں ہے، ایک باپ کی اور دونوں میاں بیوی بچوں کو دیکھ کر نہال نہال ہو رہے ہیں۔ خوشیوں کا مینہ ان کے چہروں پر برس رہا تھا اور بے فکری کی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ جس آگ کو شعبانہ مشکل سے دبا رہی تھی، اس تصویر نے اس میں دیا سلائی دکھا دی۔ شعلہ بھڑک اٹھا اور خاوند کی تصویر آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ دل بے اختیار ہو گیا اور آنسو بہنے لگے۔ اس ہی حالت میں بچہ کو پیار کیا۔ بچہ ماں کو روتا دیکھ کر کہنے لگا: “اماں روتی کیوں ہو؟”
بچے کا یہ کہنا کلیجے کے پار ہو گیا۔ دوپٹے سے آنسو پونچھے، پیار کیا اور کہنے لگی: “نہیں میاں روتی نہیں، جاؤ پوچھ آؤ تصویر کتنے کی ہے؟”
بچہ کے جاتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ بچہ لپک کر گیا اور آ کر کہا: “ایک روپیہ کی”۔ اب غریب شعبانہ کو روپیہ تو کیا، پیسہ بھی بڑی چیز تھی۔ چمکار کر کہا: “نہیں میاں! بری چیز ہے پھیر آؤ”۔ اللہ آمین کا بچہ، لاڈوں کا پلا، لوٹ گیا اور لگا پٹخنیاں کھانے۔ شعبانہ جس بچے کے ایک آنسو کی روادار نہ تھی، اس کی یہ حالت دیکھ کر اور بھی بے قابو ہو گئی۔ تصویر پھیرنے جاتی تھی، ہونی شدنی، دو ہی قدم چلی ہوگی کہ ہاتھ سے چھوٹی اور شیشے کے دو ٹکڑے، تصویر کا ٹوٹنا تھا کہ شعبانہ کی جان نکل گئی۔ ادھر بچہ لوٹ رہا ہے اُدھر تصویر والا باتیں بنا رہا ہے۔ روپے کا پتہ نہیں۔ ساس سے مانگا، ان کے پاس نہ تھا۔ فیروزہ سے پوچھا، اس نے جواب دے دیا۔
کیا حسرت ناک وقت تھا۔ ایک روپیہ کے واسطے ایک ایک سے مانگتی پھرتی تھی اور نہ جڑتا تھا۔ اتفاق سے احسن کی انا آ نکلی۔ انا کی صورت دیکھتے ہی شعبانہ بےاختیار ہوگئی۔ چپکے سے پاس بلایا اور کہا:
“انا! میرے ہاتھ سے تصویر ٹوٹ گئی۔ روپیہ میرے پاس ہے نہیں یہ پیمک بیچ کر اس کا روپیہ دے دے”۔ انا شعبانہ کی یہ گفتگو سن کر رو دی اور کہا: “بیگم! جی بھاری نہ کرو، روپیہ میں دے دیتی ہوں۔ میرے پاس ہے”۔
(٣)
جس شعبانہ کے منہ پر کبھی عید بقرعید کو بھی ہنسی نہ آتی تھی، آج چاروں طرف ہشاش پھر رہی ہے۔ رات کا وقت ہے مگر خوشی کے مارے نیند نہیں آتی۔ بھتیجے کی بسم اللہ ہے۔ صبح کو جانا ہے، مشکل سے رات کاٹی۔ اندھیرے سے کپڑے نکالے، سر گوندھا، منہ ہاتھ دھویا۔ بچہ اٹھا تو نہلا دھلا کر کپڑے بدل ڈولی منگوا کر میکے آئی۔ مہینوں کی چھوٹی، مدتوں کی بچھڑی، ایک ایک سے ملتی پھرتی تھی۔ دوپہر کے وقت ادھر تو مہمانوں کی افراتفری، ادھر کھانے کا شور و غل۔ چار ساڑھے چار برس کا گورا بھبوکا بچہ پہنے اوڑھے لیس کی ٹوپی سونے کے بٹن، آنکھوں ہی آنکھوں میں غائب ہو گیا۔ دسترخوان پر بیٹھی تو بچہ یاد آیا، گلی گلی اور کوچہ کوچہ دیکھا، دکھوایا، ڈھونڈا، ڈھنڈھوایا۔ خدا معلوم آسمان کھا گیا یا زمین، بچہ نہ ملنا تھا اور نہ ملا۔ کیسی شادی اور کس کی بسم اللہ۔ روتی پیٹتی سسرال آئی مگر یہاں کیا رکھا تھا۔ ایک شبہ تھا وہ بھی نکل گیا۔ ڈاڑھیں مار مار کر روتی اور بلبلاتی تھی۔ کلیجہ امڈا چلا آتا تھا۔ ایک ایک کی منت اور خوشامد کر رہی تھی اور خدا کا واسطہ دے کر کہتی تھی کہ کوئی میرے بچے کو ڈھونڈ دو۔ جاڑوں کی پہاڑ سی رات دروازے پر گذار دی۔ رہ رہ کر ہوک اٹھتی تھی، تھم تھم کر جوش آتا تھا۔ کسی پہلو چین نہ تھا۔ ایک خیال تھا کہ کلیجے کے ٹکڑے اڑا رہا تھا۔ چار بج گئے، موذن نے اللہ اکبر کی آواز دی۔ انگنائی میں آئی، زمین پر بیٹھی سجدہ میں گری اور رو کر کہا:
“الٰہی مجھ پر رحم کر۔ میرے احسن کو ملا دے”۔
دن گذر گئے، مہینے نکل گئے۔ باغوں میں پودے لگے، پودوں میں کلیاں آئیں۔ کلیوں سے پھول بنے مگر شعبانہ کے دل کی کلی ایسی مرجھائی کہ پھر کھلنی نصیب نہ ہوئی۔ وہ تھی اور احسن کی یاد۔ اس کے ننھے منے کپڑے اور چھوٹے چھوٹے کھلونے اٹھاتی، سر اور آنکھوں پر رکھتی، دیکھتی اور کلیجے میں تیر لگتے۔ بہتیرا ہی سب سمجھاتے، تسلی دیتے، دل بہلاتے مگر صبر تو درکنار، کوئی لمحہ ایسا نہ جاتا کہ بچہ کو بھولتی ہو۔ دیوانوں کی طرح پھرتی اور مُردوں کی طرح اٹھتی۔ کھانا، پینا، پہننا اوڑھنا سب چھوٹ گیا۔ بیٹھی ہے تو چپکی، کھڑی ہے تو ساکت، جب دیکھو گم سم۔ ظاہر میں خاصی تندرست تھی مگر احسن کے فراق نے اندر ہی اندر کلیجہ کھرچنا شروع کیا۔ مُردوں سے بدتر صورت، فقیرنیوں سے بدتر ہڈرا، آنسو ہیں کہ ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ دل ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے۔
آدمی تو آدمی مامتا تو خدا جانور تک کی نہ چھڑائے، شعبانہ نے تو چار بچے کھو کر اس پھونسڑے کی صورت دیکھی تھی۔ کیسے کیسے ارمان اور کیا کیا آرزوئیں تھیں۔ مگر سب خاک میں مل گئیں۔ سچ پوچھو تو احسن نے چھوٹ کر ماں کی زندگی ختم کر دی۔ رات ہوتی وہ ہوتی، تاروں بھرا آسمان ہوتا اور حسرت بھرا دل۔ مچھلی کی طرح تڑپتی اور چاروں طرف لوٹتی، کوٹھے پر جاتی ادھر ادھر جھانکتی اور کہتی: “اے احسن صورت دکھا”۔
کبھی کبھار بھولے بسرے پلنگ پر لیٹی اور کہنا شروع کیا:
“اے لال! کس ظلم کے پھندے میں پھنسا۔ آ آ آ۔ احسن منہ دھلاؤں، کھانا کھلاؤں، پانی پلاؤں۔ اے احسن آ۔ کلیجہ سے لگاؤں۔ سینہ سے چمٹاؤں”۔
شعبانہ کی حالت دیکھ کر غیروں کو رحم آتا تھا۔ ایک ایک کی صورت دیکھتی اور روتی۔ اس درد سے بچہ کو یاد کرتی تھی کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے۔ احسن کو بچھڑے ہوئے دو سوا دو برس ہو گئے مگر اس کا صدمہ ہر وقت تازہ تھا۔ اس کے میلے کچیلے کپڑے منہ پر ڈال کر لیٹ جاتی اور روتے روتے ہچکی بندھ جاتی۔ تصویر ہاتھ میں لی اور الگ تھلگ جا پڑی۔ سینہ پر رکھتی، آنکھوں سے لگاتی، غور سے دیکھتی اور دیکھتے دیکھتے چیخ مارتی اور کہتی: “ہائے میاں! کہاں چلا گیا”۔
حالت بے قراری میں ایک روز اسی طرح چیختی چیختی دروازے تک گئی، آ کر دیکھتی ہے تو تصویر ندارد۔ گھر بھر سے پوچھا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھا، مگر کسی نے جواب نہ دیا۔
اصل یہ ہے کہ شعبانہ کی زندگی ختم تو کبھی کی ہو چکی تھی۔ اب اگر کوئی سہارا تھا تو احسن کے ملنے کی امید۔ تسکین تھی تو اس کی تصویر۔ یہ تقدیر کی خوبی تھی کہ بچہ گیا، بچہ کی یادگار گئی۔ اتنا کہا اور رونے لگی:
“میرے لال کی نشانی تھی۔ کوئی لے کر کیا نہال ہوگا”۔
(٤)
ایک دن آدھی رات کے قریب اسی بے اوسانی اور بے قراری میں انگنائی کے چکر کاٹ رہی تھی اور آنکھ سے آنسو کی لڑیاں بہ رہی تھیں۔ سڑک پر کوئی لڑکا یہ گاتا ہوا نکلا:
خدا جانے وہ کیڑے دیس ہوگا
پھٹے کپڑے وہ میلا بھیس ہوگا
اس آواز کے کان میں آتے ہی بے اختیار ہوگئی۔ سوچنے لگی:
“بیمار پڑتا، مر جاتا، صبرکرتی۔ ہائے کھیلتا مالتا سامنے سے غائب ہوگیا۔ ایسا روٹھا کہ پلٹ کر نہ دیکھا، کہاں ہوگا؟ کس حال میں ہوگا؟ بھوکا پیاسا ہوگا؟ آہ کیا کروں، کلیجہ نکلا جاتا ہے، کدھر جاؤں؟ کس سے پوچھوں؟ بے غیرت ہے میری زندگی اور بے حیا میرا جینا۔ احسن چھوٹے اور میں زندہ رہوں۔ مجھے سے زیادہ بد نصیب کون ہوگا۔ ایسی پڑی کہ خدا دشمن پر نہ ڈالے۔ پانچ برس کی بیاہی رانڈ ہوئی۔ خلیل جلیل جیسے لال ڈھائی ڈھائی تین تین برس کے پورا سے پھرتے آنکھوں کے سامنے اٹھ گئے، آمنہ جمیلہ جیسی پیاریاں دنیا بھر کی باتیں لمکاتی جنگلوں میں جا سوئیں۔ ایک احسن کا دم رہا تھا وہ بھی رخصت ہوا۔ بھرا گھر دیکھتے دیکھتے سنسان ہوگیا اور میں سب کی رونے والی باقی رہ گئی۔ دل نہ ہوا، پتھر ہوا۔ کس کس کو یاد کروں؟ اور کہاں کہاں سر ٹکراؤں؟ اس زندگی کو سلام جس سے صدموں کے سوا کچھ اور نہ پایا۔ الہ العلمین اب موت دے مگر اتنی التجا ہے کہ ایک دفعہ احسن کی صورت دیکھ لوں”۔
اسی طرح دل سے باتیں کرتی کرتی چارپائی پر آئی، لیٹی اور لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔ دیکھتی کیا ہے، کڑکڑاتے جاڑے میں احسن سامنے کھڑا سوں سوں کر رہا ہے۔ بغلوں میں ہاتھ ہیں اور دانت سے دانت بج رہے ہیں۔ بدن پر مار کے نشان ہیں اور تمانچوں سے کلے لال ہو گئے ہیں۔ لمبے لمبے آنسوؤں سے رو رہا ہے۔ گلاب سے رخسار مرجھا گئے ہیں۔ سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے، بے تاب ہو کر آگے بڑھی تو بچے نے کہا: “اماں جان خدا کے لیے بچاؤ، بڑی مصیبت میں ہوں”۔
احسن ابھی پوری طرح کہہ بھی نہ چکا تھا کہ سامنے سے فیروزہ ایک موٹی سی کھپچی لیے ہوئے آئی۔ صورت دیکھ کر سہم گیا اور تھر تھر کانپنے لگا۔ فیروزہ نے پاس پہنچ کر مارنا شروع کیا۔ بچہ ننھے ننھے ہاتھ جوڑے بلک رہا تھا اور کہہ رہا تھا: “اچھی چچی جان اب نہیں”۔
پورے پانچ برس کے بعد بچہ کی صورت کا نظر آنا اور بچہ بھی وہ بچہ جس نے ماں کو جدا ہو کر دیوانہ بنا دیا۔ نظر آنا اور اس حال میں نظر آنا، کچھ ایسا درد انگیز سماں تھا جس نے دل کے ٹکڑے اڑا دیے۔ آگے بڑھی اور کہنے گی:
“او سنگ دل فیروزہ! خدا سے ڈر اور بن باپ کے بچے پر اتنا ظلم نہ کر۔ مجھ سے تڑا میرا کلیجہ توڑ۔ ننھی سی جان پر یہ ستم توڑ رہی ہے، یہ چلے کا جاڑا اور چار چوٹ کی مار۔ میری اس کی صورت دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں اور تو اس پر یہ غضب ڈھا رہی ہے۔ فیروزہ میں نے بڑی مصیبت سے اس لال کو پالا تھا”۔
بچے کی درد ناک آواز نے ماں کے کلیجہ کے ٹکڑے اڑا دیے۔ اس قدر منت خوشامد کی، مگر فیروزہ نے ایک نہ سنی۔ معصوم بچے کا مار کھانا، رونا اور ماں کے چہرہ کو دیکھنا، ماں کے کلیجہ پر تیر لگ رہے تھے۔ تڑپی اور بلبلائی، جب کچھ پیش نہ گئی۔ تو دوڑی دوڑی صندوق کے پاس آئی۔ چاقو نکالا اور فیروزہ پر جھپٹی اور پیٹ میں بھونک دیا۔ خون کا فوارہ چھوٹ گیا۔ تمام زمین اور کپڑے لال ہو گئے، دیکھتی ہے تو فیروزہ دور کھڑی ہنس رہی ہے اور چاقو احسن کے پیٹ میں گھسا ہوا ہے۔ ہائے ہائے کرتی ہوئی دوڑی، بچہ کا سر اٹھا کر گود میں رکھا۔ اور ایک حسرت بھری نگاہ چہرے پر ڈالی۔ بچہ نڈھال تو مار ہی سے ہو گیا تھا، چاقو گھسا تو اس غضب کا کہ پسلیاں اور انتڑیاں باہر نکل پڑیں۔ اتنا تو کہا: “اے ماں مجھ بے گناہ کو کس جرم میں مارا؟”
بچے کی یہ آواز سنتے ہی آنکھ کھل گئی۔ دیکھتی ہے تو نہ احسن ہے نہ فیروزہ۔ وہی گھر اور چارپائی، جس صورت کی دیوانی تھی اس کو اپنے ہاتھ سے خاک میں ملانا گو خواب کا واقعہ تھا مگر دل کی یہ کیفیت تھی کہ چھریاں چل رہی تھیں۔ روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ مگر کسی طرح چین نہ پڑا۔ رات کے دو بجے ہوں گے۔ چادر سر پر ڈالی اور باہر نکل کھڑی ہوئی۔
(٥)
ایک لق و دق میدان میں بندھیاچل پہاڑ کھڑا آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ رات دو حصہ ختم کر چکی۔ گھٹا چھائی ہوئی ہے اور بادل زور شور سے کڑک رہا ہے۔ آبشار بلندی سے گر رہے ہیں اور ہوا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھونکے بنگالی چڑیوں کو تھپک تھپک کر سلا رہے ہیں۔ شیروں کی دہاڑ اور ہاتھیوں کے چنگھاڑ نے جنگل سر پر اٹھا رکھا ہے۔ اس وحشت ناک مقام پر جہاں کوسوں انسان کا پتہ نہ تھا، پہاڑ کی چوٹی سے یہ آواز آ رہی ہے:
اس دل کی لگی نے کیا جوگن، گھر بار چھٹا تیرے کارن
نیناں ترسیں دکھلا درشن، چھتیں لگ جا آ جا احسن
دن رات ہوئے عمریں بیتیں، کھل کھل کر پھول ہوئیں کلیاں
پر دل کی کلی میری نہ کھلی، جنگل دیکھے، ڈھونڈھیں گلیاں
چلتی ہے ہوا پھولوں میں بسی، کہسار میں جب دن ہوتا ہے
آتی نہیں بو تیری لیکن، دل خون کے آنسو روتا ہے
بچوں سے چھٹا دن بھر کا فلک، جب گود میں تارے لیتا ہے
اس وقت دلِ مجروح مرا اندر سے صدا یوں دیتا ہے
کہہ دیجیو اتنا باد صبا احسن کی طرف گر ہو جانا
چھتین لگ جا یوں ہی احسن، ماں کیسی بونڈی شعبانہ
پہاڑ کی چوٹی، جنگل بیابان، رات کا وقت، غمزدہ شعبانہ اور مصیبت بھرا دل۔ غرض کچھ عجیب سماں تھا۔ مدت خاک اڑاتے ہو گئی۔ گرمی کا سورج، جاڑوں کی راتیں، آندھی اور طوفان سر پر بیتے مگر دل کی لگی نہ بجھنی تھی اور نہ بجھی۔ جن آنکھوں نے کبھی گیدڑ کی صورت نہ دیکھی تھی اب ان کے آگے سے گینڈے اور چیتے گذرتے، کجلی بن کی خطرناک منزل میں بڑے بڑے اژدہے برابر سے نکل جاتے۔ پہاڑوں میں دن گذرے، جنگلوں میں راتیں آئیں، چشمہ کا پانی، جنگل کے پھل، کھایا پیا اور چل کھڑی ہوئی۔
نا امید ہوتی، دل ٹوٹ جاتا اور ارادہ کرتی کہ مر جاؤں۔ پہاڑ سے گروں۔ دریا میں ڈوبوں، شیر کھائے، چیتا پھاڑے پھر خیال آتا کہ نہیں خدا کی قدرت بڑی ہے۔ دلوں کا حال جاننے والا، مظلوموں کی فریاد سننے والا، وقت پر کام آنے والا، وہ زبردست بادشاہ جس کی حکومت کے گیت درختوں کے پتے، پودوں کی کوپلیں، جنگل کے جانور، بستی کے آدمی سب گا رہے ہیں۔ جس نے یعقوب کو یوسف، رحمہ کو موسیٰ دیا، مجھ سے بھی احسن کو ملا دے گا۔ یہ تاروں بھری رات اور پھولوں بسی ہوا کبھی تو کام آئے گی۔ سیوا کرے سو میوہ پائے۔ چھ اور چھ بارہ پورا ایک جگ ہو گیا۔ بارہ برس بعد تو کوڑی کے بھی دن پھرتے ہیں۔ مصیبت کے دن نکل گئے، اب تو فقط آنکھوں کی سوئیاں رہ گئی ہیں۔ کچھ عجیب زندگی بسر کر رہی تھی، کبھی تو امید کی جھلک احسن کے ملنے کا یقین دلاتی، کبھی نا امیدی زندگی کو وبال بنا دیتی۔ وحشت خیز مقام جہاں انسان کا گذر نہ تھا آنکھ کے سامنے ہوتے اور رات بسر کر دیتی۔ محبت کا دریا لہریں لیتا۔ مامتا کا جوش بے چین کرتا، دیوانوں کی سی حالت ہوتی، چیختی چلاتی، روتی گاتی۔ آخر شعر ختم کر چکی تو خیال آیا، کوشش فضول، تلاش بے کار، احسن کہاں اور میں کہاں۔ آنکھیں اس کے تکتے تکتے بند ہونے کو آئیں اور پاؤں اس تک پہنچتے پہنچتے جواب دینے کو ہو گئے۔ دنیا اور دنیا کی چیزیں سب بدستور ہیں، ہاں میرا دل مر گیا جب دل ہی مر گیا تو میں زندہ رہ کر کیا کروں گی۔ بس ڈھونڈھ لیا جتنا ڈھونڈھنا تھا اور دیکھ چکی جتنا دیکھنا تھا۔ اس پہاڑ کی چوٹی سے گر کر ختم ہوں۔ لے میاں احسن خدا حافظ۔ اتنا کہا اور چاہتی تھی کہ نیچے گرے، دفعتاً یہ آواز کان میں آئی:
“او پاپن! تین دن تین رین خاک چھانتے بیت گئے۔ ان جل سب چھوڑ دیا۔ بابا جی کی آنکھ بچا چمپت ہوئی”۔
بجلی چمکی اور شعبانہ نے منہ موڑ کر دیکھا تو ایک جوگی لنگوٹی باندھے بھبھوت ملے لال لال آنکھیں، بڑی بڑی جٹیں ہاتھ پکڑے گھسیٹتا اور دھکے دیتا ایک طرف لے جا رہا ہے۔
(٦)
رات کا گریبان چاک ہو چکا۔ کالے کالے بادل، گھٹا ٹوپ اندھیرا، جھوکے اور جھکڑ سب ہوا ہوئے۔ پو پھٹ رہی ہے اور دریائے گنگا خموشی کے ساتھ لہریں لے رہا ہے۔ درختوں کے جھنڈ کنارے پر چھائے ہوئے ہیں اور رنگ برنگ کے پرند خدا کی تسبیح کر رہے ہیں۔ ایک منڈھیا میں بڈھا پھونس جوگی مرگ چھالا بچھائے آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے اور چار چیلے نیچی نگاہ کیے کھڑے ہیں۔ شعبانہ بد نصیب اس الزام میں کھڑی ہے کہ ایک جوگی کو کھانے میں زہر دیا اور چمپت ہوئی۔
جوگی: اے سائن استری، ہم رام رام جپنے والے مانس دنیا کو چھوڑ چھاڑ اپنے مالک کا دھیان لگائے بیٹھے ہیں۔ سالگ نے تیرا کیا بگاڑا تھا؟
شعبانہ: جوگی مہاراج! میں مامتا کی ماری اپنے لال کی تلاش میں چار کھونٹ پھر رہی ہوں۔ نیا دانہ، نیا پانی، میں اس سے پہلے ادھر نہیں آئی۔ میرا دل آپ ہی کلپ رہا ہے۔ میں کہاں اور آپ کا چیلا کہاں؟
جوگی: اچھا اس استری کو دیوی کی بھینٹ چڑھا دو۔
(٧)
بندھیا چل کی چوٹی پر ایک خوش نما عمارت میں جو دیوی کا مندر ہے، بیسیوں پجاری اچھلتے کودتے پھر رہے ہیں۔ مندر طرح طرح کے پھولوں سے سجایا گیا ہے، مورتی کے گلے میں پنج رنگے ہار، برابر میں ننگی تلوار، جوگی مہاراج مضطرب و بے قرار شکار کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ منڈھیا سے دس بارہ آدمیوں کا ایک گروہ سنکھ بجاتا اور کچھ پڑھتا شعبانہ کو لیے نکلا۔ اس وقت شعبانہ کی حالت اور صورت دونوں دیکھنے کے قابل تھیں۔ سپید اجلی ساڑھی بندھی ہوئی تھی، ماتھے پر چندن کا تلک، ہاتھ میں پھولوں کی تھالی، آنسوؤں کی لڑیاں بہ رہیں، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہیں، ٹھنڈے سانس بھرتی، آہستہ آہستہ قدم دھرتی چلی جاتی تھی۔
سوچتی تھی اور سوچتی کیا جانتی تھی کہ ایک آدھ گھڑی کی اور مہمان ہوں۔ خیر اسی بہانے تکلیفوں کا خاتمہ ہوا، مگر اے کم بخت تقدیر! اس آخر وقت بھی ساتھ نہ دیا۔ جان چلی اور نامراد چلی، آنکھیں ایک دفعہ اس لال کی صورت دیکھ لیتیں اور ہمیشہ کو بند ہو جاتیں۔ عمر تھوڑی دیر کو اسے ملا دیتی اور ختم ہو جاتی۔ رخصت کا وقت آ پہنچا اور اے احسن اس وقت تک خبر نہ لی۔ دنیا تیرے فراق نے دوزخ بنا دی۔ حال سے بے حال، صورت سے بے صورت، پھول سے پتھر، آدمی سے جانور، جو کچھ کہ ہونا تھا سب کچھ ہو گئی۔ پردہ ٹوٹا، عزیز چھوٹے، گھر کے بدلے جنگل ملا، تکیوں کے بدلے پتھر ملے، مگر نہ ملنا تھا تو احسن جس کے کارن جوگ لیا۔ کیا خبر تھی کہ تقدیر ان بے دردوں کے پھندے میں پھنسا دے گی اور مجھ بے گناہ کو دیوی کے بھینٹ چڑھا دیں گے۔ “اے خدا کے بندو! مجھ دکھیاری پر رحم کرو، یہ دل جو آج تمھارے ہاتھوں بجھتا ہے، بڑے بڑے ارمانوں سے لبریز ہے۔ میں مامتا کی ماری اس لال سے چھوٹی ہوں، جو چار ساڑھے چار برس میرے سینہ پر لوٹا ہے۔ میری بپتا سنو اور مجھ کو چھوڑ دو، شاید کہیں صورت دیکھ لوں”۔
ابھی جوگی کچھ جواب دینے نہ پائے تھے کہ برابر سے ایک شخص نکلا اور ٹکٹکی باندھ کر شعبانہ کو دیکھا۔ مظلوم کی گریہ و زاری پر غریب کا دل پسیجا۔ ٹھٹکا اور ٹھٹک کر قریب آیا۔ ایک سکتہ کی حالت تھی۔ قریب پہنچ کر تصویر کی طرح کھڑا ہوگیا۔ نگاہ شعبانہ کے چہرے پر جمی ہوئی تھی اور پاؤں زمین پر گڑے ہوئے۔ کچھ دیر تک اسی عالم میں کھڑا رہا اور پھر اس طرح پوچھا:
“کیا ہوا مائی کیا ہوا؟ کہاں سے آئی؟ کدھر چلی؟ کیا بپتا پڑی؟”
حسرت بھری نگاہیں سنتے ہی اوپر اٹھیں اور اس شخص کے چہرہ پر جا پڑیں۔ ایک موثر سماں تھا کہ شعبانہ دیکھتے ہی جھپٹی اور چیخ مار کر دوڑی، لپٹی اور یہ کہہ کر بے ہوش ہو گئی:
“اے لال!”
جوگیوں کے یہ دیکھ کر اوسان جاتے رہے، ایسے بھاگے کہ پلٹ کر نہ دیکھا۔ کہیں ڈیڑھ گھنٹہ کے بعد جا کر شعبانہ کو ہوش آیا تو کیا دیکھتی ہے کہ بچے کی گود میں سر ہے اور بارہ برس کا بچھڑا ہوا لال گوہر مقصود جوگن ماں کی حالت دیکھ دیکھ کر آنسو بہا رہا ہے۔ بے اختیار ہو کر کلیجے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اٹھنا چاہتی تھی مگر نہ اٹھ سکی۔ فرط محبت اور مامتا کا جوش دیوانہ بنا رہا تھا۔ آنکھ سے زار قطار آنسو بہ رہے تھے کلیجے پر سر رکھا اور پھر بے ہوش ہوگئی۔ پھر سوا پہر تک یہی حالت رہی، ہوش آجاتا، صورت دیکھتی، پیار کرتی، بلائیں لیتی اور پھر نڈھال ہو کر گر پڑتی۔ دوپہر کے وقت اٹھ کر بیٹھی اور تمام رام کہانی سنائی۔ احسن کا دل تو ماں کی صورت دیکھتے ہی بگڑ گیا تھا۔ حال سن کر تو اور بھی بے اختیار ہو گیا۔ ہاتھ چومے، پاؤں چومے اور شروع سے سارا حال کہہ سنایا۔ چار پانچ برس کا بچہ جدائی کا وقت خواب سا یاد ہوتا۔ مگر اس نے تو حرف بہ حرف تمام کتاب پڑھ ڈالی۔ فیروزہ بالکل بے گناہ تھی۔ دروازے پر آیا تھا فقیر، بچہ کو دیکھا پہنے اوڑھے، بہانہ سے لے سیدھا ہو لیا اور بنگال کے جنگلوں میں چھوڑ رخصت ہوا۔ وہ دن اور آج کا دن، ادھر شعبانہ ادھر احسن دونوں ماں بیٹے مچھلی کی طرح تڑپتے تھے۔ شعبانہ تو خیر مامتا کی ماری تھی، مگر احسن مُردوں سے بدتر تھا۔ بہتیرا سوچتا تھا، نہ شہر یاد آتا تھا نہ رستہ، ایک اس ماں کی صورت البتہ یاد تھی، جس کی گود میں چار پانچ برس پلا اور بڑھا۔