پیش لفظ
انڈمان سے واپسی کے بعد جب ہر دوست نے مجھ سے میری بیس سالہ قید، سفر اور ان جزائر کی کیفیت پوچھنی شروع کی تو میرے لیے ہر ایک کے سامنے بیس سالہ تاریخ کو بیان کرنا نہایت دشوار تھا، اس لیے میں نے اس مدت میں پیش آنے والے اہم واقعات کو نہایت اختصار کے ساتھ سپرد قلم کردیا ہے؛ تاکہ ہر سائل اور مستفسر کے سامنے اس کتاب کو پیش کردوں۔
جب اپریل ۱۸۷۹ء میں میں نے تاریخ پورٹ بلیر مسمی بہ “تاریخ عجیب” لکھی تھی، تو اس سے چند دن قبل گورنر جنرل ہند نے میری رہائی کی درخواست کو مسترد کردیا تھا، جس سے اکثر حکام بلکہ خاص و عام کو یقین ہو گیا کہ اب قید فرنگ سے مجھے کبھی نجات نہیں ملے گی، لیکن میں رحمت الٰہی سے ناامید نہیں ہوا تھا، اس لیے میں نے کتاب مذکور کے دیباچہ میں لکھ دیا تھا “دنیا بامید قائم ہے، دیکھیے پردۂ غیب سے اور کیا ظاہر ہوتا ہے” بلکہ دیباچہ کے اختتام پر ناظرین کرام کی خدمت میں التجا بھی کی گئی تھی کہ وہ میرے حق میں دعا کریں کہ ہماری سرکار اس خاکسار کو ان ننگ دھڑنگ جنگلیوں کی صحبت سے جدا کردے ؛ تاکہ اس کتاب کی جلد دوم ہندوستان آکر اپنی ملکی زبان میں ہدیۂ ناظرین کر سکوں۔
اس دل سوز تحریر کو ابھی چند روز ہوئے تھے کہ میری درخواست کے بغیر غیبی مدد سے میری رہائی کا سامان ہو گیا، اور لارڈ پن نے میری رہائی کا اعلان کردیا، میری پہلی کتاب “تاریخ عجیب”(۱۲۹۲ھ) کا نام بھی تاریخی ہے، اور اتفاق حسنہ کی بات ہے کہ صرف ایک حرف زیادہ کر دینے سے اس کتاب کا نام “تواریخ عجیب” بھی تاریخی ہو گیا اور اس طرح چھ برس کی زیادتی بھی پوری ہوگئی۔گویا یہ اس کتاب کی جلد دوم ہے، جس کا وطن واپس آکر لکھنے کا وعدہ تھا۔
ناظرین باوقار کی خدمت میں عرض ہے کہ میں نے اس کتاب کو روز مرہ کی بول چال میں لکھاہے اور جہاں تک مجھے یاد تھا دوسرے لوگوں کے مقولوں اور واقعات کو من و عن نقل کیا ہے، اس کے باوجود اگر تقاضاے بشریت کے مطابق مجھ سے کہیں کمی بیشی ہوئی ہو تو خداوند عالم الغیب مجھے معاف فرمادے اور نکتہ چین اصحاب اور اہل قلم جہاں کہیں غلطی دیکھیں اپنے قلم عفو سے اصلاح فرمادیں اور میرے حق میں دعا کریں کہ جیسے اس عظیم ہلاکت انگیز قید فرنگ سے نجات بخشی، ایسے ہی وہ رب کریم دلی مراد پوری کردے اور خاتمہ بالخیر کے ساتھ اس ہلاکت دنیا سے بھی نجات بخشے، آمین ثم آمین۔ وَمَا تَوْفِیقِي إِلَّا بِاللَّہ عَلَیه تَوَکّلْتُ وَإِلَیه أُنِیبُ
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :
أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ یتْرَکوا أَنْ یقُولُوا آمَنَّا وَہمْ لَا یفْتَنُونَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِهمْ فَلَیعْلَمَنَّ اللَّہ الَّذِینَ صَدَقُوا وَلَیعْلَمَنَّ الْکاذِبِینَ.
کیا لوگ یہ خیال کیے ہوئے ہیں کہ (صرف) یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی، اور جو لوگ ان سے پہلے ہو چکے ہیں ہم نے ان کو بھی آزمایا تھا، {اور ان کو بھی آزمائیں گے} سو خدا ان کو ضرور معلوم کرے گا جو {اپنے ایمان میں} سچے ہیں اور ان کو بھی جو جھوٹے ہیں۔
جہاں تک مجھے سمجھ اور علم ہے اس مقدمہ میں ہماری گرفتاری۔ اس آیت شریفہ میں بیان کردہ منشا ایزدی کے مطابق صرف سچے اور جھوٹوں کی پہچان اور آزمائش کے لیے تھی ورنہ وعدہ حق موجود ہے کہ “وَلَنْ یجْعَلَ اللَّہ لِلْکافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلًا” اگر یہ ہماری آزمائش نہ ہوتی تو ہمیں کبھی بھی انگریزی سرکار سے صدمہ نہ پہنچتا ور بفحواے حدیث نبوی: “یبتلی الرجل علیٰ حسب دینه” آدمی کی دین و ایمان کی استعداد کے مطابق آزمائش ہوتی ہے۔
اس مقدمہ میں ایمان کے دعوی داروں کی آزمائش کی گئ اور ظاہر کیا گیا ہے کہ اپنے دعوی میں جھوٹے کون تھے اور سچے کون؟ یہ کتاب تواریخ عجیب المعروف بہ کالا پانی گویا اس آیت مذکورہ بالا کی تفسیر ہے۔
اس تمہید کے بعد اب اصل مقدمہ ابتدا سے انتہا تک بیان کرتا ہوں، اگر ناظرین کرام اس آیت مبارکہ اور حدیث شریفہ کے مضمون کو ذہن میں رکھیں گے تو ان پر واقعات کے اسرار و رموز خود بخود آشکارا ہوتے چلے جائیں گے، لیکن یاد رکھیے کہ ان کے سمجھنے کے لیے ایمان درکار ہے۔ میں خود اپنی کم ظرفی، بے استعدادی اور ضعیف الایمانی کے سبب اس مقدمہ کے ہزاروں مخفی اسرار کو سمجھ نہ سکا۔
محمد جعفر تھانیسری
﷽
معرکۂ امبیلا
۱۸۶۳ء بمطابق ۱۲۸۰ھ کے آخر کی بات ہے کہ مغربی ہند کی سرحد کے قریب انگریزی سرکار کی زبردستی کی وجہ سے ایک عظِم جنگ شروع ہوگئی، جنرل چیمبرلین صاحب اس جنگ کے سپہ سالار تھے، امبیلے کی گھاٹی میں پہنچ کر سرکاری فوج کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، بیگانے ملک میں سرکار کی بے جا مداخلت کو دیکھ کر ملا عبد الغفور صاحب اخوند سوات بھی اپنے بہت سے مریدوں کو ساتھ لے کر آموجود ہوئے، ملکی خواتین اور افغان بھی اپنے بچاؤ کے لیے چاروں طرف سے سرکار پر ٹوٹ پڑے اور مجاہدین کا وہ قافلہ اس کے علاوہ تھا جن کی سرکوبی اور نیست و نابود کرنے کے لیے چڑھائی کی تھی، الغرض بدعوی حفاظت خود اختیاری ہر کس و ناکس سرکار کے مقابل کھڑا ہو گیا، مجاہدین نے حصول شہادت کے جذبہ سے سرشار ہوکر شجاعت کے خوب خوب جوہر دکھلائے، یہ ہنگامہ جنگ و جدل دو تین مہینے جاری رہا، اور تقریبا سات ہزار کشت و خون میں تڑپ گئے، خود جنرل چیمبرلین شدید مجروح ہوئے، پنجاب کی تمام چھاونیوں کی فوج کو اس جنگ میں جھونک دیا گیا تھا۔
ادھر یہ ہنگامہ برپا تھا ادھر لارڈ ایلجن وائسرائے ہند اپنی اس حرکت پر نادم ہو کر راہی ملک عدم ہوا اور ہندوستان بے گورنر ہو گیا۔
سازش کا انکشاف
ایسے نازک وقت میں ۱۱ دسمبر ۱۸۶۳ء بمطابق ۲۸ جمادی الثانی سنہ 1280 ھ کو ایک ولایتی افغان غزن خان نے جو کہ پانی پت ضلع کرنال کی چوکی میں بطور پولیس سوار متعین تھا، کسی ذریعہ سے میرے حالات معلوم کیے اور اپنے دنیوی فائدے کی خاطر ایک لمبی چوڑی اور جھوٹی داستان ڈپٹی کمشنر کرنال کو سنائی اور کہا کہ سرحد پر ہندوستانی مجاہدین سے لڑی جانے والی جنگ میں تھانیسر کا نمبردار محمد جعفر مجاہدین کی روپیہ اور آدمیوں سے مدد کررہا ہے، ڈپٹی کمشنر نے یہ داستان سنی تو بذریعہ تار ضلع انبالہ میں خبر بھیج دی ؛ کیوں کہ ہمارا شہر تھانیسر اسی ضلع میں واقع ہے۔
مخبر داستان سرائی کرکےباہر نکلا ہی تھا کہ ہمارے ایک دوست ڈپٹی کمشنر کرنال کی ملاقات کے لیے ان کے ڈیرے پر پہنچ گئے، جن سے گفتگو کے دوران ڈپٹی کمشنر نے اس مخبری کا ذکر بھی کیا، ملاقات کے بعد جب وہ دوست اپنے ڈیرے پر تشریف لائے تو انہوں نے اپنے ایک نوکر کاوا نامی سے جو میرا ہمسایہ تھا بطور افسوس اس واقعہ کا ذکر کیا، کاوا اسی وقت مجھے اطلاع دینے کے لیے تھانیسر دوڑ پڑا، جب تھانیسر پہنچا تو رات کافی بیت چکی تھِی، سب سے پہلے میرے مکان پر آیا لیکن میں اندر سو رہا تھا، اس نے جب دروازہ بند دیکھا تو آرام کے وقت میں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا، اور یہ سوچا کہ صبح کے وقت اطلاع دے دوں گا، حقیقت یہ تھی کہ تقدیر اسے دروازے پرسے ہٹا لے گئی۔
اب انبالہ کی کیفیت سنیے، جب یہ تار انبالہ پہنچا تو میری خانہ تلاشی کے لیے وارنٹ جاری ہوا، اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ کپتان پارسن، پولس کی ایک بھآری جمعیت کے ساتھ راتوں رات میرے مکان پر پہنچ گیا، قدرت الٰہی کا تماشہ دیکھیے ایک ہی وقت میں دو آدمی روانہ ہوتے ہیں ایک کرنال سے مجھے خبر دینے کو اور دوسرا انبالہ سے میری خانہ تلاشی کو، کرنال والا جو میرا خیر خواہ تھا پہلے پہنچا اور کچھ نہ کر سکا۔
چاک کو تقدیر کے ممکن نہیں کرنا رفو
سوزن تدبیر ساری عمر گر سیتی رہے
دوسرے صاحب رات کے تین بجے میرے گھر پر پہنچ گئے، چاروں طرف سے مکان کا محاصرہ کرنے کے بعد مجھے باہر بلایا، جب باہر نکلا تو دیکھا سپرنٹنڈنٹ پولیس، خانہ تلاشی کے وارنٹ کے ساتھ میرے دروازہ پر موجود ہے، اس نے وارنٹ دکھائے اور کہا کہ مکان کی تلاشی لو، میں اسی وقت سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، میں نے سوچاکہ تلاشی پہلے گھر کے اندر کی ہو تو بہتر ہے ؛ تاکہ بیٹھک میں رکھا ہوا خط پولس کے ہاتھ نہ لگے ، لیکن جو ہونا ہے اسے کون روک سکتا ہے، باوجود یکہ صدر دروازے کی اندرونی دہلیز میں بالکل اندھیرا تھا اور بیٹھک کا دروازہ جو کہ شمالی جانب تھا، بالکل نظر نہیں آتا تھا، لیکن سپری ٹینڈنٹ صاحب اسی پر مصر ہوئے کہ پہلے بیٹھک ہی کی تلاشی لی جائے۔
بیٹھک میں داخل ہونے کے لیے دو دروازوں کا کھلوانا ضروری تھا، جوکہ اندر سے بند تھے، میں نے چالاکی سے منشی عبد الغفور کا نام (جو اس کے اندر چند آدمیوں کے ہمراہ موجود تھے) لے کر بلند آواز سے کہا کہ “سپرنٹنڈنٹ صاحب تلاشی کے لیے کھڑے ہیں، تم جلد دروازہ کھول دو” اس سے میری غرض یہ تھی کہ کسی طرح وہ لوگ تلاشی کی بات سمجھ کر دروازہ کھولنے سے پہلے اس زہریلے خط کو چاک کردیں سپرنٹنڈنٹ نے میری پکار کو سمجھتے ہوئے مجھے روکا لیکن میں کہاں سنتا تھا، بیٹھک کے اندر والے گھبراہٹ میں میرے اشاروں کو سمجھ نہ سکے اور انہوں نے دروازہ کھول دیا، اب بیٹھک میں تلاشی ہونے لگی تو جس خط کا ڈر تھا، سب سے پہلے وہی پولیس کے ہاتھ لگا، اسی شام کو پکڑَ جانے سے چھ گھنٹے پہلے تقدیر نے وہ خط میرے ہاتھ سے لکھوا رکھا تھا، خط امیر قافلہ کے نام تھا اور اس میں اصطلاحی لفظوں میں چند ہزار اشرفیوں کی روانگی کا ذکر تھا، اس کے علاوہ چند خطوط پارینہ بھی پولس کے ہاتھ لگ گئے، جو کہ محمد شفیع انبالوی کو پٹنہ سے ارسال کیے تھے، اگرچہ ان خطوط میں کوئی مضر بات نہ تھِی، مگر ان سے پولیس کو محمدشفیع انبالوی اور اہل پٹنہ مثلا مولانا یحییٰ علی، مولانا عبد الرحیم اور مولانا احمد اللہ وغیرہ (جو اس وقت تحریک مجاہدین کے ارباب حل و عقد تھے) کی تلاشی و تفتیش کا بہانہ ہاتھ آ گیا۔
منشی عبد الغفور جوکہ بہار کے ضلع گیا کہ باشندے تھے اور میرے پاس محرری کا کام کیا کرتے تھے اور ایک لڑکے عباس نامی کو جو بیٹھک میں سویا ہوا تھا، پولیس پکڑ کر لے گئی، اگر چہ میری نسبت انھیں قوی شک ہو گیا تھا، لیکن وارنٹ گرفتاری اور گورنمنٹ کی منظوری کے نہ ہونے کی وجہ سے جو کہ ایسے مقدمات میں ضروری ہے، پولیس نے مجھ سے کچھ تعرض نہ کیا۔
فرار
پولیس کی واپسی کے بعد یہ بات غور طلب تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں نے اس خیال سے کہ چونکہ میرے گھر سے ثبوت مل گیا ہے، اور جنگ سرحد کی وجہ سے حکومت کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے فرار ہو جانا اور بزدلی سے جان بچانا مناسب سمجھا، اگر چہ پولیس کی حراست میں نہیں تھا، مگر وہ چاروں طرف سے میرا سراغ لگائے ہوئے، میری حرکات کو تاک رہے تھے۔
میں نے اپنی والدہ ماجدہ جو کہ اس وقت بقید حیات تھیں اور اپنی بیوی سے صلاح و مشورہ اور انھیں اپنے فرار پر راضی کرکے یہ داؤ کھیلا کہ میں ۱۲ دسمبر ۱۸۶۳ء کو اپنے شہر سے روانہ ہو کر اوّل موضع پیپلی میں، جہاں تحصیل اور تھانہ و غیرہ ہے، آیا اور تحصیل اور پولیس کے ملازمین سے سے بھی رائے لی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ سب نے بالاتفاق یہ رائے دی کہ تم انبالہ جاؤ اور وہاں سے دریافت کرو کہ یہ کیا مقدمہ ہے؟ اور کس نے مخبری یہ کی ہے؟
یہ سب صلاح و مشورہ کرنے کے بعد میں بوقت شام براستۂ سڑک کلاں پیپلی سے بظاہر انبالہ کو روانہ ہوگیا، اس وقت بہت سے آدمی چشم محبت اور افسوس سے میری طرف دیکھ رہے تھے، جب میں ایک گھوڑے پر سوار ہو کر چلا تو ہر کسی کو یقین ہو گیا کہ میں انبالہ جا رہا ہوں جب تک دن کی روشنی رہی میں برابر سڑک پر انبالہ کی طرف چلتا رہا، کوئی میل بھر راستہ چلنے کے بعد جب خوب تاریکی پھیل گئی اور مسافر بھی دور دور تک نظر نہ آتے تھے، تو میں نے سڑک کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لی اور تھانیسر کے متصل اپنی زمین میں مقررہ جگہ پر ایک بجے رات پہنچ گیا۔
جب وہاں پہنچا تو دیکھا کہ والدہ ماجدہ، بیوی، بچے اور بھائی محمد سعید آخری ملاقات کے لیے انتظار کر رہے ہیں، والدہ سے آخری ملاقات کرکے اور بیوی بچوں کو ساتھ لے کر ایک عمدہ بیلی پر سوار ہوئے اور بتیس میل کا فاصلہ طے کرکے صبح پانی پت پہنچ گئے، میں شہر کے اندر گیا؛ بلکہ سڑک ہی سے بیوی بچوں کو رخصت کر دیا، اس وقت میں جس سے بھی رخصت ہوتا تھا زندگی میں دوبارہ ملنے کی امید نہ تھی، بہیلی والے سے میں نے کہا کہ میرے بیوی بچوں کو پانی پت میں چھوڑ کر تم بہیلی لے کر جمنا پار چلے جانا، یہ بہیلی مع بیلوں کی جوڑی جو تین سو روپیہ سے کم قیمت کے نہیں ہیں، ہم نے تمھیں اس شرط پر بخش دی کہ کسی کو میرے بال بچوں کی خبر نہ دینا اور جب تک یہ معرکہ گرم رہے تھانیسر نہ جانا، جس وقت ڈاک خانہ پانی پت کے سامنے میں ساری عمر کے لیے اپنے بیوی بچوں سے جدا ہوا اور میرا یکّہ ان کے سامنے دہلی کو چلا، وہ حادثہ نا قابل بیان ہے، آج بھی وہ ایک ایک لمحہ میرے ذہن پر نقش ہے، اور شب و روز کی گردشوں کے باوجود میں اسے بھول نہ سکا۔
دہلی
تانگہ کے ذریعہ چالیس میل کا سفر طے کرنے کے بعد، دوسرے دن دہلی پہنچ گیا اور وہاں میاں نصیر الدین کی کوٹھی میں قیام کیا، میاں حسینی ساکن تھانیسر، حسینی ساکن پٹنہ اور عبد اللہ نامی ایک بنگالی سے بھی ملاقات ہوئی، یہ دونوں مؤخر الذکر پٹنہ سے کچھ اشرفیاں لے کر، اسی دن آئَے تھے، میں نے وہ اشرفیاں ان سے لے کر حسینی ساکن تھانیسر کے حوالہ کرتے ہوئے اسے ہدایت کردی کہ جیسے ممکن ہو اس بیت المال کو قافلہ تک پہنچا دو۔
حسینی تھانیسر کو روانہ کرنے کے بعد، میں نے ان دونوں کو اپنے ساتھ پورب لے جانا چاہا؛ کیونکہ معرکۂ امبیلا اور میرے مکان کی تلاشی کے بعد پنجاب میں امن نہیں رہا تھا، اس وقت میں نے عمر کی ابھی تک صرف پچیس بہاریں دیکھی تھیں، لہذا اس شباب کے زمانہ میں مذہبی جوش جنون کی حد تھا اور زمانہ کے نشیب و فراز کا کچھ خیال نہ تھا، بس ایک لگن تھی کہ یہ خدا کا کام ہے، وہ خود اس کی حفاظت کرے گا، اس لیے میرا خیال تھا کہ میری تلاشی انبالہ اور اس کے مغرب میں ہو رہی ہوگی، اس طرف میری تلاش میں کون آئے گا۔
علی گڑھ
اس مذکورہ خیال کے باعث میں نے دہلی پہنچ کر اپنے تئیں مخفی رکھنے کو ضروری نہیں سمجھا، اس لیے آزادی سے گھومنے پھرنے لگا، ایک دفعہ اپنے معمولی لباس میں چاندنی چوک تک بھی گیا ؛ تاکہ سواری کے لیے کرایہ کی شکرم وغیرہ کا انتظام کیا جا سکے، ۱۵ دسمبر کو ہم تینوں کھلم کھلا شکرم پر سوار ہو کر علی گڑھ روانہ ہوگئے، راستہ میں گاڑی بان کو بہت دا انعام و اکرام دے کر چاہا کہ جس قدر ممکن ہو علی گڑھ جلد پہنچ کر ریل پر سوار ہو جائیں، مجھے پختہ یقین تھا کہ جس چال سے آیا ہوں، شاید کوئی مدت تک بھی میری تلاش کو ادھر نہ آئے، میں اپنی تدبیر پر اتنا نازاں تھا کہ تقدیر کا خیال بھی نہ رہا تھا، اب مجھے یہیں چھوڑئے اور پولس انبالہ کی کار روائی سنیے۔
۱۲دسمبرکو جب سپرنٹنڈنٹ پولیس میرے خطوط اور ان آدمیوں کو جو میرے گھر سے ملے تھے، انبالہ لے گیا تو ان کو دیکھ کر گورنمنٹ نے میری گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے، وہی سپرنٹنڈنٹ پارسن جب میرے وارنٹ گرفتاری لے کر دوسرے دن تھانیسر آیا تو اس نے مجھے وہاں نہ پاکر شہر میں آفت مچا دی، سینکڑوں گھروں کی تلاشی ہوئی، پچاسوں مرو و عورت پکڑَ گئے، بوڑھی والدہ بھائی محمد سعید (جو اس وقت صرف بارہ تیرہ برس کا تھا) اور اس کی بیوی کو قید کرکے ان پر سخت تشدد اور مار پٹائی شروع کر دی گئی، پردہ نشین عورتوں کو اس قدر آلام و مصائب کا تختۂ مشق بنایا گیا کہ سن کر دل لرز اٹھتا اور کانپ کانپ جاتا تھا، میری بیوی کی گرفتاری کے لیے پولیس کی ایک جمعیت پانی پت دوڑی مگر مولانا رضی الاسلام کی صاحب کی جوانمرد والدہ کی دلیری سے میری بیوی بچ گئی، ان ظلم و تشدد کا نشانہ بننے والوں میں سے میرا بھائی محمد سعید جو کہ نہایت کم سن، لذت ایمانی سے نا آشنا اور فضائل ثابت قدمی سے سراسر بے بہرہ تھا، اس سخت مار پیٹ کی تاب نہ لا سکا، ڈر گیا اور جان بچانے کے لیے بول اٹھا کہ میرا بھائی دہلی گیا ہے، یہ خود میری بڑِی غلطی تھی کہ ایسے اہم راز پر ایک نا بالغ بچے کو آگاہ کردیا تھا، جس کا نتیجہ میری گرفتاری کی شکل میں برآمد ہوا، جب میرے بھائی نے راز کا انکشاف کردیا تو پارسن سے لے کر گاڑی کے ذریعہ دہلی پہنچ گیا۔
ادھر پنجاب میں جا بجا میری تلاشی شروع ہوگئی، حتی کہ میری گرفتاری کے لیے دس ہزار روپئے کا انعامی اشتہار جاری ہوا، انبالہ کیمپ میں محمد شفیع کے مکان کی بھی تلاشی ہوئی، اتفاق سے وہ اس وقت گھر پر موجود نہیں تھے، بلکہ لاہور گئے ہوئے تھے، ان کے بھائی محمد رفیع اور ان کے کارندے مولانا محمد تقی اور منشی عبد الکریم وہاں موجود تھے، لہذا ان کو گرفتار کر لیا گیا، اور ڈرایا گیا کہ اگر تم صورت حال سے آگاہ نہیں کروگے تو تمھیں تختۂ دار پر لٹکا دیا جائے گا، جان کے ڈر سے محمد رفیع اور محمد تقی نے محمد شفیع کے خلاف شہادت دیدی، اور پولیس کے کہنے کے مطابق گواہی دے کر اپنی جان بچائی، منشی عبد الغفور نے شہادت نہ دی ؛ لہذا انھیں بلا قصور محمد شفیع کے ساتھ عمر قید کر دیا گیا۔
پارسن صاحب دہلی پہنچے تو انہوں نے یہاں بھی آفت مچا دی سراوَں اور شہر کے دروازے بند کر دیے، ہزاروں آدمیوں کی تلاشی ہوئی، پچاسوں آدمی پکڑ ے گئے، اسی پکڑ دھکڑ میں پارسن کو یہ علم ہو گیا کہ میں فلاں شکرم میں سوار ہو کر فلاں وقت دو دوسرے آدمیوں کے ہمراہ علی گڑھ کی طرف روانہ ہوا ہوں، انہوں نے اسی وقت تار برقی کے ذریعہ علی گڑھ میری گرفتاری کے لیے خبر کردی۔
علی گڑھ میں گرفتاری
علی گڑھ میرے گھر سے دو سو میل کے فاصلے پر تھا، جب ہم علی گڑھ پہنچے تو اسی وقت تار پہنچ گیا، لہذا اسی وقت بر لب سڑک پولیس نے آکر ہمیں گھیر لیا اور ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ علی گڑھ کے بنگلے پر لے گئے، اس نے ہمیں مجسٹریٹ صاحب کے پاس بھیج دیا، جہاں مجھے اور میرے دونوں ساتھیوں کو تار کے جواب ثانی آنے تک حوالات میں بند کردیا گیا، اسی دن شام کو جب میں تیمم کرکے نماز پڑھ رہا تھا، پارسن صاحب وہاں پہنچ گئے اور مجھے قید میں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور حکم دیا کہ “اس کو پھانسی گھر میں نہایت حفاظت کے ساتھ بند کردو”۔ حکم کی فوراً تعمیل کی گئی اور مجھے ایک بڑی تنگ و تاریک اور کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا، اور گرد دو تین پہرے دار متعین کر دیے گئے۔
پھانسی گھر میں بند ہو کر مجھے عقل آئی کہ اس فرار اور تدبیر پر فخر خداوند تعالی کی مرضی کے خلاف تھا، اس فرار سے یہ مقدمہ بہت بھاری ہوگیا اور پھر مجھے یا میرے عزیزوں اور دوستوں کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا، وہ اسی فرار نابکار کا ثمرہ تھا، آزمائش کے وقت بھاگ جانا سچّے عاشقوں کا کام نہیں ہوتا۔ بقول حافظ
بیگانہ را چہ کار بود در بلائے غم
آں را رسد کہ خاص بود آشنائے ما
علی گڑھ کے پھانسی گھر میں قید تھا کہ ایک رات پہرے دار پوچھنے لگے : “پھانسی والے مجرم پر بھی صرف ایک پہرہ ہوتا ہے، تم ایسا کیا قصور کرکے آئے ہو کہ جس سے تم پر تین پہرے لگائے گئے ہیں؟ ”
میں نے جواب دیا: “میں جس آقا کا غلام تھا، اس کے حکم کے بغیر بھاگ نکلا؛ لہذا وہ ناراض ہو گیا اور مجھے راستے ہی سے پکڑوادیا”۔
جیل میں ناقص خوراک
جیل کا کھانا سب سے پہلے اسی جیل میں چکھا، جو دو روٹیوں اور تھوڑے سے ساگ پر مشتمل تھا، ساگ میں موٹے موٹے ڈنٹھل تھے، پتی کا نام تک نہ تھا، اس لیے ان کا چبانا بھی دشوار تھا، روٹیوں میں چوتھائی کے قریب ریت اور مٹی ملی ہوئی تھی، خدا کا شکر ادا کرکے اس میں سے تھوڑا بہت کھایا، اس کے بعد وقتاً فوقتاً اکثر جیل خانوں میں رہ کر دیکھا، سب جگہ قیدیوں کو اسی طرح کا کھانا ملتا تھا، در اصل بات یہ ہے کہ قیدیوں کو خوراک کم ملتی ہے، جس سے ان کا پیٹ نہیں بھرتا، جب انھیں گندم پیسنے کے لیے دی جاتی ہے تو وہ بھوک کے مارے سیروں گندم چبا جاتے ہیں یا کچا آٹا پانی میں گھول کر پی لیتے ہیں، اور آٹے کا وزن پورا کرنے کے لیے آٹے میں مٹی یا ریت ملا دیتے ہیں۔
اسی طرح جو عمدہ ترکاری جیل کے باغوں میں پیدا ہوتی ہے، اس کو تو فروخت کر دیتے ہیں یا جیل کے عہدہ دار کھا جاتے ہیں اور ناکارے ڈنٹھل جن کو جانور بھی نہیں کھاتے، کاٹ کاٹ کر قیدیوں کے لیے پکا دیے جاتے ہیں، وہ بھوکے اسی کو غنیمت جان کر ہاتھوں ہاتھ اڑا جاتے ہیں، اگرچہ نئے قیدیوں کو ایک دو دن ضرور دقت ہوتی ہے، مگر جب بھوک سے پیٹ میں قراقر اٹھتے ہیں تو پلاؤ قورمے سے بھی زیادہ اس میں مزہ پاتے ہیں اور کھا جاتے ہیں ؛ کیونکہ دنیا میں اصل مزہ بھوک کا ہے۔
امتحان عشق
دوسرے دن پارسن صاحب خوشی خوشی ہم تینوں آدمیوں کو لے کر بذریعۂ شکرم دہلی روانہ ہوا، شکرم میں سوار ہونے سے پہلے مجھے بیڑی، ہتھکڑی اور طوق پہنا کر اور طوق میں بطور باگ ڈور ایک زنجیر ڈال کر اور اس کا سرا ایک مسلح سپاہی کے ہاتھوں میں دے کر اس کو میرے پیچھے بٹھایا، پارسن صاحب اور دوسرا انسپکٹر پولس میرے دائیں بائیں بھرے ہوئے تمنچوں کی جوڑیاں لے کر اور میرے بدن سے بدن ملا کر بیٹھ گئے، راستے میں پارسن مجھے بار بار کہ رہا تھا کہ اگر تم نے ذرا بھی حرکت کی تو میں اس تمنچے سے تمھیں مار ڈالوں گا۔
علی گڑھ سے دہلی تک کھانا پینا تو درکنار، کسی سخت ضروری حاجت کے لیے بھی ہمیں نہ اتارا گیا، جب نماز کا وقت آتا تو میں اجازت کے بغیر ہی تیمم کرکے بیٹھے بیٹھے اشاروں سے نماز پڑھ لیتا، گاڑی بدستور سوئے منزل رواں دواں رہتی اور وہ چپ چاپ میری نماز کا تماشہ دیکھا کرتے تھے، آخر کار بڑی مصیبت کے ساتھ لوہے میں جکڑے ہوئے، دہلی میں داخل ہوئے، جہاں ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس دہلی کے بنگلہ کے ایک تہ خانہ میں ہمیں زندہ درگور کردیا گیا۔
دہلی سے انبالہ تک
دوسرے دن ہمیں دہلی سے کرنال اور کرنال سے انبالہ لے گئے، جب انبالہ پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی، ہمیں بے آب و دانہ تین علاحدہ علاحدہ پھانسی گھروں میں بند کردیا گیا، چنانچہ ہم اپریل کے شروع تک یہیں بند رہے۔
دوسرے دن فجر کے وقت سپرنٹنڈنٹ پارسن، میجر بام فیلڈ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس اور کپتان ٹائی ڈپٹی کمشنر انبالہ یاجوج ماجوج کی طرح میری کوٹھڑی میں آئے اور مجھ سے کہا کہ تم “اس مقدمہ کا سب حال بتا دو، تو یہ تمھارے لیے بہتر ہوگا” میں نے کہا کہ “میں کچھ نہیں جانتا” پارسن نے پہلے تو مجھے بہت ڈرایا دھمکایا اور پھر مارنا شروع کیا، جب مار انتہا کو پہنچ گئی تو میں گر پڑا، ٹائی صاحب اور جام فیلڈ کوٹھڑی سے باہر کھڑے ہوگئے، جب اس قدر تشدد پر بھی میں نے کچھ نہ بتایا تو وہ سب اس دن مایوس ہو کر چلے گئے، جب میں نے ظلم و تعدی کی یہ کیفیت دیکھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ مجھے زندہ نہیں چھوڑیں گے، میرے ذمہ رمضان المبارک کے کچھ روزے باقی تھے، دوسرے دن سے میں نے ان کی قضا رکھنی شروع کردی۔
دوسرے دن میں روزے سے تھا، علی الصبح پارسن صاحب آیا اور وہی کار روائی شروع کردی، تھوڑی زد و کوب کے بعد مجھے اپنی بگھی میں بٹھا کر ڈپٹی کمشنر ٹائی صاحب کے بنگلے پر لے گیا، جہاں ٹائی اور بام فیلڈ دونوں موجود تھے، انہوں نے بڑی چاپلوسی کی اور کہا کہ ہم تحریری عہد کرتے ہیں کہ اگر تم دوسرے شرکا اور معاونین جہاد کے نام بتادو تو تمھیں سرکاری گواہ بنا کر رہا کردیں گے اور ایک بڑے عہدے پر بھی فائز کر دیں گے بصورت دیگر تمھیں پھانسی کی سزا دی جائے گی، میں نے اس چاپلوسی پر بھی انکار کردیا۔
پھر پارسن صاحب ان دونوں سے انگریزی میں کچھ باتیں کرکے مجھے ایک الگ کمرے میں لے گیا، اور وہیں پھر مارنا شروع کیا، میں کہاں تک لکھوں آٹھ بجے فجر سے آٹھ بجے رات تک مجھ پر اس قدر مار پیٹ ہوئی کہ شاید کسی پر ہوئی ہو، لیکن بفضل الٰہی میں نے سب کچھ برداشت کر لیا اور ہر دم اپنے رب سے دعا کی “اے رب ذو الجلال، یہ امتحان کا وقت ہے تو مجھے ثابت قدم رہنے کی توفیق عنایت فرما”۔ جب وہ ہر طرح مایوس ہو گئے تو لاچا ر ہو کر انہوں نے آٹھ بجے رات مجھے واپس جیل خانہ میں بھیج دیا۔
میں تمام دن روزے سے تھا، بنگلے سے باہر نکل کر درخت کے پتوں سے روزہ افطار کر لیا، جیل میں پہنچ کر جو میرے حصے کا کھانا رکھا ہوا تھا کھایا اور شکر الٰہی بجا کے سو گیا۔
جس دن ٹائی صاحب کے بنگلہ پر مار پیٹ کی لذت اٹھا رہا تھا، اس وقت منشی حمید علی صاحب تھان پوری تحصیلدار نرائن گڑھ اپنے عہدے سے معطل ہوکر باہر برآمدہ میں غمگین بیٹھا تھا، اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے چند برس پہلے، اپنے کسی دنیوی معاملہ میں مجھے ایک خط لکھا تھا اور کچہری کے بعض عملہ نے اس سے دشمنی کی بناء پر اس کے معنی غلط بیان کر دیے تھے، میں اس کا غمگین چہرہ دیکھ کر اپنی تکلیف بھول گیا اور دل میں خیال آیا کہ مجھ منحوس اور نالائق کو ایک خط لکھنے کی وجہ سے یہ بیچارہ بے گناہ پکڑا گیا، اگر اس کے بجاے مجھے ہی سزا ہو جائے اور یہ رہا ہو جائے تو یہ بہت بہتر ہے، میں اپنی حالت زار کے باوجود اس کے لیے بہت دعائیں کرتا رہا، آخر کار اللہ تعالی کے فضل سے وہ ناکردہ گناہ بری ہو کر اپنے عہدے پر بحال ہو گیا اور اب تک پنجاب میں اول درجہ کا عہدے دار ہے، اس دن کے بعد پھر کبھی مجھے سرکاری گواہ بننے کی ترغیب نہیں دی گئی۔
جب میری طرف سے قطعی مایوسی ہو گئی تو محمد رفیع اور مولوی محمد تقی کو مخبر بنا کر رہا کر دیا گیا، انھیں کے بیان سے بیچارہ محمد شفیع لاہور سے پکڑا گیاتھا، جس کا اس مقدمہ سے بہت ہی تھوڑا تعلق تھا، پھر ان ہی کی رہبری میں پارسن پٹنہ گیا تھا، جہاں ایشری پرشاد ملازم پولس اور مسٹر ٹیلر سابق کمشنر پٹنہ جسے ۱۸۵۷ء میں مولانا احمد اللہ صاحب وغیرہ موحدوں کو بے قصور نظر بند کرنے کے قصور میں برخاست کر دیا گیا تھا، اس کے مددگار ہو گئے، ان کی غیبت سے اس نے مولانا یحیی علی صاحب، مولانا عبد الرحیم صاحب، الٰہی بخش اور میاں عبد الغفور کو گرفتار کرکے انبالہ بھیج دیا۔
پھر پارسن بنگال گیا، جہاں اس نے جا بجا بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا، ان میں سے اکثر تو لاکھوں ہزاروں روپیہ خرچ کرکے رہا ہو گئے، اور بہت سے لوگوں کو پھانسی دینے کی دھمکیاں دے کر گواہ بنا لیا گیا، صرف ایک قاضی میاں جان ساکن کارکھلی ثابت قدم رہے، جو گرفتار ہو کر انبالہ آئے ، بصیر الدین علاوَ الدین سودا گران دہلی اور دوسرے بہت سے لوگ دہلی سے بھی گرفتار ہو کر آئے، پشاور سے بنگال کے مشرقی و شمالی کنارے تک شاید کوئی مالدار مسلمان، مولوی یا نمازی بچا ہو، جسے ایک دفعہ پولس نے پکڑ کر، اس کی طاقت کے مطابق اپنی مٹھی گرم نہ کر لی ہو، یہ ہنگامۂ دار و گیر دسمبر سے اپریل تک جاری رہا اور صدہا آدمیوں کو ڈرا، دھمکا اور سکھلا کر گواہ بنا لیا گیا۔
اس پارسن گردی کے زمانہ میں وہ بیچارہ حسینی تھانیسری بھی دہلی سے اشرفیاں لاتے ہوئے پکڑا گیا، اور کل اشرفیاں ضبط کراکے ہمارے ساتھ ہی بے قصور عمر قید ہوا۔
غدّاروں پر نوازشیں
ہم نے دیکھا ہے کہ اس مقدمہ میں بڑے بڑے صاحب لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لیے آئین اور قانون کو طاق نسیان کردیا، مثلا ایشری پرشاد وغیرہ نے اپنے فائدے کے لیے اس مقدمہ کو رسی سے سانپ اور رائی سے پہاڑ بنا دیا، اور ہمیں نپولین یا مہدی سوڈانی جیسا انگریزوں کا دشمن ثابت کرکے اپنا مطلب نکالنا چاہا؛ چنانچہ اسے کامیابی ہوئی اور وہ ایک ادنی عہدے سے ڈپٹی کلکٹر ہو گیا، نیز دھوکہ دے کر سرکار سے بڑی بڑی زمینداری اور جاگیر بھی حاصل کر لی، اسی طرح غزن خان نے اپنے بیٹے کے قافلے کے بھیجنے کا ایک جھوٹا اور فرضی قصہ گھڑ کر حکومت سے ایک دو گاؤں جاگیر لے لیے۔
۱۸۶۳ء کے اخیر سے لے کر دس برس تک ہندوستان کے مسلمانوں پر قیامت برپا رہی، مسلمان خوف کے مارے گھر بار چھوڑ کر عرب ممالک میں ہجرت پر مجبور ہو گئے، خود غرضوں خوشامدیوں اور ہمارے دشمنوں نے دل کھول کر ارمان پورے کیے، دس برس تک اخباروں میں یہی قصہ موضوع سخن بنا رہا، برسوں تک اس دار و گیر کے لیے ایک باقاعدہ محکمہ موجود رہا، جس کا کام ہی یہ تھا کہ جس کو چاہا پکڑ لیا، جو چاہا رشوت لے لی اور جس نے رشوت دینے سے انکار کردیا، اپنے معمولی گواہوں سے گواہی دلا کر اسے عمر قید کردیا۔
شیخ الکل میاں نذیر حسین کی طلبی
چیمبرلین صاحب وہابیوں کی اس دار و گیر کے سلسلہ میں کمشنر مقرر ہوئے تھے، اور راولپنڈی ان کا صدر مقام تھا، انہوں نے وہابیوں کی حمایت کے جرم میں شیخ الکل حضرت میاں نذیر حسین محدث دہلوی کو بھی دہلی سے راوَل پنڈی طلب کیا، ابھی کچھ کار روائی شروع نہ ہوئی تھی کہ احکم الحاکمین اور سریع الانتقام کو اپنے برگزیدہ بندوں پر ظلم کی یہ کار روائی پسند نہ آئی اور اس نے چیمبرلین صاحب کی موت ناگہانی کے وارنٹ جاری کرکے اسے اپنے دربار عالی میں طلب کر لیا، اس کی موت کے بعد پھر کسی کو اس خطرناک خدمت کے قبول کرنے کا حوصلہ نہ ہوا، وہ محکمہ ہی ٹوٹ گیا، اور غریب مسلمان اس غیبی تائید کے ساتھ اس آفت ناگہانی سے محفوظ ہو گئے، حضرت میاں صاحب محدث دہلوی جنہیں ہندوستان کے تمام اہل حدیث ممبروں کے نام ظاہر کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا، رہا ہو کر اپنے گھر تشریف لے گئے۔
ہمارے ہندوستانی مسلمان
خود غرض لوگوں نے ہماری بہادر اور دانا سرکار کے دل پر، ان سو دو سو فقیروں کا ڈراور رعب اس قدر جمایا اور اس میں ایسا مبالغہ کیا کہ گویا انگریزی سلطنت کا قلع قمع کرنے والے ہمیں لوگ ہیں اور اس کا اثر جس قدر ہماری فاتح قوم پر ہوا ہے، وہ ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب “Our Indian Muslims” کے دیکھنے سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ اس میں کیسے رسی کا سانپ اور رائی کا پہاڑ بنایا گیا ہے اور کن کن لایعنی دلائل سے فاتح اور مفتوح قوم کے درمیان عداوت ثابت کی گئی ہے اور پھر طرّہ یہ کہ علی العموم ہندوستان کے تمام مسلمانوں پر حملہ کیا گیا ہے حالانکہ اس تحریر کے بعد بڑے بڑے موقعوں پر خیر خواہی وخیر سگالی کے جذبات پیدا ہوئے لہذا فاتح اور مفتوح کے دلوں کو بگاڑنے والی یہ کتاب ہرگز قابل اعتبار نہیں ہے۔
جب یہ کتاب چھپ کر آئی، اسی وقت مولوی سید احمد صاحب بہادر سی۔ایس۔آئی نے بڑے دلائل سے اس خیالی پلاؤ ڈاکٹر کی تردید کرکے اس کی دھجیاں اڑا دیں اور ہر دعوی کو اصول ہی سے غلط ثابت کردکھایا لیکن وہابیوں کو اپنا جانی دشمن سمجھنے والے انگریزوں پر ابھی تک اس کتاب کا جادوانہ اثر باقی ہے۔ اگرچہ افغانوں نے پنجاب میں عملداری کے ابتدا ہی میں صدہا بڑے بڑے معزز انگریزوں، میم اور بچوں حتی کہ گورنر جنرل تک کو مار ڈالا۔ اب بھی جہاں موقع پاتے ہیں اپنی وحشیانہ حرکت سے باز نہیں آتے، ان کے مولویوں نے بھی فتوی دے رکھا ہے کہ انگریزوں کا مارنا بڑا ثواب ہے لیکن اس کے باوجود انگریز افغانوں کو اپنا اس قدر دشمن نہیں سمجھتے، جتنا کہ وہابیوں کو، ڈاکٹر ہنٹر کے پیھلائے ہوئے تعصّب کے باعث انہوں نے اپنا دشمن فرض کر رکھا ہے حالانکہ وہابیوں سے کسی انگریز کا قتل تو کجا، کبھی خلاف تہذیب بات بھی سرزد نہیں ہوئی۔
سنہ 1857 ء میں جب کہ بغاوت اپنے عروج پر تھی، وہابیوں نے انگریزوں کی میم اور بچّوں کی حفاظت کی، انھیں اپنے گھر میں چھپایا اور باغیوں سے محفوظ رکھا مگر ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب کی وجہ سے دونوں قوموں کے درمیان تعصّب، نفرت اور دشمنی بہت بڑھ گئی ہے، لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان گزشتہ پچیس برس کے تجربوں اور وہابیوں کی خیرخواہی نے ڈاکٹر ہنٹر صاحب کی دروغ گوئی کو طشت از بام کردیا ہے، چنانچہ گورنمنٹ ہند کے حکم سے سرکاری تحریرات میں ان کے لیے وہابی کے لفظ کا استعمال یک قلم بند ہوگیا ہے اور آئندہ سے یہ لوگ اپنے پرانے نام محمدی یا اہل حدیث سے پکارے جائیں گے۔ گورنمنٹ کا یہ ایک مستحسن اقدام ہے، اس وجہ سے اگر کبھی موقع آپڑے تو سرکار پر اپنی جان نچھاور کرنے سے بھی یہ لوگ دریغ نہ کریں۔
مقدمہ انبالہ
دسمبر سے اپریل تک دار و گیر کا یہ سلسلہ جاری رہا، اور اپریل میں یہ مقدمہ ضلع انبالہ کے مجسٹریٹ کے پاس پیش ہوا، ہم سب لوگوں کو پھانسی گھروں سے نکال کر کچہری میں لے جایا گیا، کچہری میں جا کر معلوم ہوا کہ پھانسی کی دھمکی دے کر میرے بھائی محمد سعید کو میرے اوپر اور محمد شفیع کے حقیقی بھائی محمد رفیع کو اس پر گواہ بنا لیا گیا ہے، نیز پچاس ساٹھ دیگر آدمیوں کو بھی زبردستی گواہ بنا لیا گیا ہے، ان بے چاروں کی عجب حالت تھی، ایک طرف گواہی دے رہے تھے اور دوسری طرف ہماری جانب دیکھ کر زار زار رو رہے تھے، یہ بے بس اور مجبور محض تھے ؛ کیونکہ اگر گواہ نہ بنتے تو تختۂ دار پر لٹکا دیے جاتے، ادائے شہادت تک ان بے گناہوں کو قیدیوں کی طرح پولیس کے زیر حراست رکھا گیا، لباس اور خوراک کا انتظام سرکاری تھا، جس کی وجہ سے ان بے جا کارروائیوں پر حکومت کا لاکھوں روپیہ صرف ہو گیا۔
پولیس تشدّد کی ایک مثال
پولیس کے ان بے گناہوں پر مظالم، تشدد اور زد و کوب کا اندازہ اس سے لگائیے کہ عباس نامی ایک لڑکا جس نے مدت تک میرے گھر میں رہ کر پرورش پائی تھی، جب مجھے دیکھ کر محبت کے مارے مجسٹریٹ کے پاس جھوٹا اور آموختہ بیان دینے سے ہچکچایا تو اسی روز رات کو اس بچے کو ایسی سخت سزا دی گئی کہ وہ تاب نہ لاتے ہوئے قبل از پیشی مقدمہ سیشن ہی دم توڑ گیا، مگر بدنامی کے ڈر سے بچنے کے لیے پارسن نے یہ مشہور کردیا تھا کہ اس کی وفات کسی مرض کی وجہ سے ہوئی ہے۔
بھائی کا جھوٹی گواہی سے انکار
جب ہم پہلے دن مجسٹریٹی میں حاضر کیے گئے تو میرا بھائی بھی پولیس کے زیر حراست گواہوں میں سے تھا، اس نے ایک سپاہی کے ذریعہ مجھے یہ اطلاع دی کہ پولیس نے مار پیٹ کر مجھے تمھارے خلاف گواہ بنایا ہے، لہذا اب جس وقت بر سر اجلاس بیان ہوںگے تو میں اپنے اس بیان سے پھر جاوَں گا، جسے مار پیٹ کی وجہ سے لکھوایا ہے، میں نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میری آزادی اور قید خدا کے ہاتھ میں ہے تمھاری گواہی پر موقوف نہیں، اگر تم نے حلفیہ بیان دیا ہے تو پھر جانے کی صورت میں بجرم دروغ حلفی تمھیں سخت سزا ہوگی، میں تو پہلے سے پھنسا ہوا ہوں، تمھارے پھنس جانے کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ ضعیف والدہ صاحبہ شاید صدمہ کی تاب نہ لا سکیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ جو بیان تم نے پہلے لکھایا ہے، اسی پر قائم رہو، لیکن بایں ہمہ جب اس کا میرے سامنے بیان ہونے لگا تو وہ پہلے بیان سے منحرف ہو گیا، بر سر اجلاس اس کا انکار سن کر صاحب لوگ پہلے تو بڑے بر افروختہ ہوئے اور پھر اس کی صغر سنی کی وجہ سے اسے کوئی سزا نہ دے سکے، اور اس کا نام گواہوں کی فہرست سے نکال دیا۔
گواہوں کی کثرت کی وجہ سے یہ مقدمہ ایک ہفتہ تک مجسٹریٹ کی کچہری میں پیش ہوتا رہا، صاحب لوگوں کا تعصّب ہم سے اس حد تک تھا کہ جب مقدمہ کی پیشی کے وقت ہم نے یہ درخواست کی کہ ہماری نماز کا وقت آگیا ہے، لہذا ہم کو نماز پڑھنے کی اجازت بخشی جائے لیکن انہوں نے ہمیں یہ اجازت نہ دی، مگر وہ ہمارا کیا کر سکتے تھے ہم نے عین دوران مقدمہ میں تیمّم کرکے بیٹھے ہوئے اشاروں سے نماز پڑھ لی۔
مقدمہ سیشن سپرد
ایک ہفتہ کی کار روائی کے بعد ہمارا مقدّمہ سپرد سیشن ہوا، اس وقت تک ہم پھانسی گھروں میں علاحدہ علاحدہ قید تھے، سیشن سپردگی کے بعد ہم سب کو حوالات میں ایک جگہ بند کردیا گیا، ایک مدت کی چلّہ کشی کے بعد ہم سب دوست ایک جگہ جمع ہوئے تو ہماری مسرت کی انتہا نہ رہی، میں تو اکثر سعدی کا یہ شعر پڑھا کرتا تھا:
پائے در زنجیر پیش دوستان
بہ کہ با بیگا نگان در بوستان
مگر چار ماہ کے اس تخلیہ اور تنہائی سے بھی ہم لوگوں کو بہت روحانی فائدہ ہوا تھا، قلب کے آئینہ صافی میں انوار الٰہی خوب محسوس ہوتے تھے، نماز روزے میں کمال لذت حاصل ہوتی تھی کہ شاید وہ کیفیت برسوں کی چلّہ کشی اور گوشہ نشینی سے بھی حاصل نہ ہوتی۔
مولانا یحیی علی کی صحبت
اس وقت محمد شفیع اور عبد الکریم تو کسی قدر کشیدہ خاطر رہا کرتے تھے، لیکن مولانا یحیی علی صاحب کی صحبت غنیمت سے کم نہ تھی، اسی طرح ہم باقی نو آدمی بھی اس حوالات میں نہایت شاداں و فرحاں تھے اور یہ خاکسار تو جب اپنی ذلیل النسبی اور کم علمی کے مقابلے میں ان انعامات الٰہی اور اس سرفرازی کو دیکھتا تو سمجھتا تھا کہ میری مثال تو ٹھیک اسی طرح ہے جیسے سفارش، استحقاق اور ذاتی لیاقت کے بغیر ہی کسی چمار کے سر پر تاج شاہی رکھ دیا جائے، اللہ اللہ! میرا حسب نسب اور لیاقت کہاں اور راہ خدا کے امتحان میں ثابت قدم رہنے کی یہ سرفرازی کیسی ! اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ایسے امتحانوں میں پیغمبر اور صحابہ کرام بھی گھبرا جاتے تھے، اس صبر اور استقلال کو انعام خداوندی سمجھنے کی وجہ سے میری زبان تو اول سے آخر تک شکر کے ترانوں سے لبریز رہی۔
مولانا یحیی علی صاحب کی کیفیت تو اس سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تھی، آپ اکثر ان اشعار کو پڑھا کرتے تھے:
فلست أبالی حين أقتل مسلما
على أی شقّ کان فی اللہ مصرعی
و ذاک فی ذات الإله و إن یشاء
یبارك على أوصال شلو ممزّع
ترجمہ: مسلمان ہونے کی حالت میں مجھے جس کروٹ بھی مارا جائے، اس کی قطعاً پروا نہیں، کیونکہ مجھے خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور یہ تو اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے کہ اگر وہ چاہے تو ان پراگندہ ٹکڑوں کے ملا دینے پر ان میں برکت فرمادے۔
مشہور صحابی حضرت خبیبؓ کو جب کفار مکہ پھانسی دینے لگے تو آپ نے ان اشعار کو نہایت جواں مردی سے پڑھتے ہوئے راہ خدا میں جان دے کر خلعت شہادت کی سرفرازی کو حاصل کر لیا تھا اور آپ کی خبر شہادت اور سلام شوق کو خود حضرت جبریل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک مدینہ منورہ میں پہنچایا تھا۔
مولانا یحیی علی صاحب حضرت سیّد احمد شہیدؒ کے فراق میں یہ شعر بھی بڑے درد اور عشق سے اکثر پڑھا کرتے تھے:
اتنا پیغام درد کا کہنا، جب صبا کوئے یار سے گذرے
کون سی رات آپ آئیں گے، دن بہت انتظار میں گذرے
مقدمہ کی پیروی
کچھ عرصہ کے بعد یہ مقدمہ باجلاس میجر ایڈورڈز محکمہ سیشن میں پیش ہوا، اور ایک ہفتہ تک رو بکاری ہوتی رہی، محمد شفیع اور عبد الکریم کی طرف سے مسٹر گڈال بیرسٹر محکمہ مجسٹریٹی میں وکیل اور پیروکار تھے، جب یہ مقدمہ کچہری سیشن میں پیش ہوا تومولوی محمد حسن اور مولوی مبارک علی صاحب نے جو پٹنہ والوں کی طرف سے پیروکار تھے، مسٹر پلاؤڈن نامی ایک دوسرے وکیل کو بلایا، یہ وکیل بڑا جہاں دیدہ اور فہمیدہ آدمی تھا، جب پلوڈن اپنا مختارنامہ لے کر حوالات میں ہمارے دستخط کرانے آیا، تو مولانا عبد الرحیم صاحب، مولانا یحیی علی صاحب، الٰہی بخش سودا گر، حسینی، قاضی میاں جان، عبد الغفار اور منشی عبد الغفور صاحب نے تو اس پر دستخط کر دیے، مگر میں نے نہ کیے اور کہا کہ میں وکیل ہوں، اپنی جواب دہی آپ کروں گا۔
مولانا یحیی علی صاحب وکیل کی تقرری اور روپیہ کی بربادی سے راضی نہ تھے ؛ بلکہ اگر دوسرے لوگ آپ کو نہ روکتے تو آپ اپنے نیک اعمال کا اقبال کرنے کو تیار تھے، لیکن آپ کی طبیعت اس قدر سیدھی سادی اور بے عذر تھی کہ جب آپ سے مختار نامہ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا تو اس پر دستخط کر دیے۔
حکومت کی طرف سے میجر ونکفیل اور پارسن پیروکار اور وکیل تھے، اور دس مدعا علیہم کی طرف سے دو وکیل تھے، اور میں بذات خود اپنی جوابدہی کرتا تھا، جب کوئی گواہ پیش نہیں ہوتا تو اس کا جواب سیشن جج خود لکھتے اور اس پر جرح کرتے، اس کے بعد سرکاری وکلاء پھر مدعا علیہم کے دونوں وکلا اور آخر میں یہ خاکسار جرح کے سوالات کرتا؛ چونکہ میں سب سے زیادہ اس مقدمہ سے واقف تھا، گواہوں کے حالات اور لیاقت سے بھی بخوبی آگاہ تھا اور فن وکالت میں بھی پورا پورا تجربہ رکھتا تھا، اور پھر اس وقت اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دوسروں کی نسبت مجھے جرح کے ایسے ایسے سوالات سوجھتے کہ اکثر گواہ میرے سوالات کے جواب سے تنگ آکر دہائی دہائی کرنے لگتے تھے۔
اجلاس عام ہونے کی وجہ سے بہت سے یورپین اور ملکی تماشا بین حاضر ہوکر یہ تماشا دیکھا کرتے تھے، چار اسیر دو ہندو دو مسلمان رؤسا ضلع انبالہ سے بلائے گئے تھے، جب شہادت طرفین تمام ہو گئی تو مدعا علیہم کے جواب لیے گئے، دس مجرموں کا جواب تو ان کے وکیلوں نے تحریری داخل کیا، آخر میں جب سیشن جج نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا: “بتاؤ تمھارا کیا جواب ہے؟” تو میں نے حکومت کے ہر ایک ثبوت کی تردید کرکے اپنا جواب نہایت مشرّح اور مدلل لکھانا شروع کیا، جج صاحب نے کچھ تو لکھا اور پھر بڑے غصّہ سے کہا کہ اس جواب کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ تم اپنے قصور کا اقبال کرو اور عدالت سے مہربانی اور رحم کی اپیل کرکے معافی مانگو، میں یہ مخالفانہ تعلیم کا سبق سن کر چپ ہو رہا اور کہا کہ میں فقط انصاف چاہتا ہوں، جس کی آپ سے کوئی امید نظر نہیں آتی۔ میں نے اپنی بریت کے لیے دس بارہ گواہ بلانے چاہے، لیکن اس کی بھی اجازت نہ ملی، بلکہ ۲ مئی سنہ ۱۸۶۴ء کو جب عدالت کا آخری فیصلہ سنایا جانا تھا، اپنے گواہوں کو خود حاضر کرادیا، لیکن انھیں بھی اظہار خیال کا موقع نہ دیا گیا۔
محمد شفیع اور اکثر دوسرے مدعا علیھم کی طرف سے بھی بہت سے گواہ پیش ہوئے، لیکن بے سود؛ بلکہ محمد شفیع کی طرف سے تو حکومت کی خیر خواہی و خیر سگالی اور عمدہ کارگزاری کے ایک سو سے زیادہ سرٹیفیکٹ پیش ہوئے، لیکن اس متعصب جج نے ان سرٹیفکیٹوں کے متعلق یہ لکھا کہ ان کا ایک ایک فقرہ محمد شفیع کے مجرم اور سزائے سخت کے مستحق ہونے پر ایک دلیل ساطع اور برہان قاطع ہے۔
مسٹر پلاؤڈن کے قانونی نکات
مسٹر پلاؤڈن ہمارے لائق اور دیرینہ وکیل تھے، انہوں نے بہت سی قانونی کتابوں اور نظائر سے ثابت کرکے یہ جواب لکھا تھا کہ ستھانہ وغیرہ،جہاں یہ جنگ ہوئی، جس میں اعانت کا ان لوگوں پر الزام ہے، سرکار کی عملداری سے باہر ہے، لہذا یہ جرم دفعہ ۱۲۱ تعزیرات ہند کے تحت نہیں آتا، دفعہ ۱۲۱ صرف ان اقدامات جنگ پر لاگو ہوتی ہے جو سرکاری علاقوں کے اندر عمل میں لائے جائیں، ستھانہ اور ملکا بہر حال برطانوی علاقے سے باہر اور آزاد علاقے ہیں۔ سیشن جج ہربرٹ ایڈورڈز نے یہ اعتراض مسترد کردیا تو پلاؤڈن نے دوسرا اعتراض پیش کردیا کہ میرے چھ مؤکلوں (مولانا یحیی علی، مولانا عبد الرحیم، حسینی تھانیسری، حسینی عظیم آبادی، عبد الغفار اور الٰہی بخش ) میں سے پانچ کے خلاف مقدمہ اس عدالت میں نہیں چل سکتا، کیونکہ انبالہ ڈویژن کی عدالتیں لیفٹیننٹ گورنر پنجاب کے ماتحت ہیں اور میرے پانچ مؤکل عظیم آباد کے رہنے والے ہیں، جو گورنر بنگال کے ماتحت ہے، ضابطۂ فوجداری کی دفعہ ۲۶ اور ۲۷ کے مطابق جرائم کی تحقیقات یا تو ان اضلاع میں ہونی چاہیے جہاں ان کا ارتکاب ہوا، یا ان اضلاع میں جہاں ان کے نتائج بر آمد ہوئے، دفعہ ۲۸ کے ماتحت شرکت و اعانت کی صورت بھی یہی ہے۔
جب سیشن اور دوسرے انگریزوں نے وکیل کی یہ دلیل سنی تو سکتے میں رہ گئے، اور سوائے ہاں اور بجا کہ ان سے کوئی جواب نہ بن پڑا، لیکن اس مقدمہ میں تو انگریزوں نے تعصّب کی انتہاء کر دی تھی اور مقدمہ کی کار روائی کے آغاز ہی سے قانون کو بالائے طاق رکھ دیا تھا، مسٹر پلوڈن کے اس قانونی نکتہ کا جواب دینے کے لیے باہم مشورہ کی غرض سے مقدمہ کو چند روز تک ملتوی کردیا گیا اور گورنر جان لارنس اور دیگر ان افسروں سے مشورہ کیا گیا جو ہمارا قلع قمع ہی چاہتے تھے ؛ کیونکہ خود غرض لوگوں نے انھیں یہ سبق پڑھایا ہوا تھا کہ جب ان غریب وہابیوں کو پھانسی دے کر نیست و نابود نہ کردوگے، عملداری سرکار ہند میں رہنا محال ہے، ان حالات میں قانون کو کون سنتا ہے؟
فیصلہ
مدت دراز تک التوا کے بعد ۲ مئی سنہ ۱۸۶4ء کو سیشن جج نے آخری اجلاس بلایا اور گورنر کے ایما سے اپنی تجویز اور سزا گھر سے لکھ لایا، اجلاس کے ابتدا ہی میں سیشن جج نے پہلے چاروں اسیروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ نے اس مقدمہ کو اوّل سے آخر تک سنا، اب آپ کی جو رائے ہو لکھ کر پیش کرو، ہم نے دیکھا کہ وہ چاروں اسیر اس وقت بھی ہماری شکلوں کو دیکھ کر آنسو بھر بھر لاتے تھے، اور دل سے ہماری رہائی کےخواہاں تھے، لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ جج اور کمشنر انھیں سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں تو ڈر کے مارے انہوں نے یہ بھی لکھ دیا کہ ہمارے نزدیک بھی ان پر جرم ثابت ہے۔
اس قانونی حیلہ کے حصول کے بعد جج اور کمشنر نے اپنی اس تجویز کو جو پہلے سے میز پر رکھی ہوئی تھی، پڑھنا شروع کیا اور آئیں بائیں شائیں کر کے مسٹر پلوڈن کی دلیل کو ٹال دیا۔
سزا کا فیصلہ
سب سے پہلی میری طرف مخاطب ہو کر کہا کہ تم بہت عقلمند، ذہین، قانون داں اپنے شہر کے نمبردار اور رئیس ہو، تم نے اپنی ساری عقلمندی اور قانون دانی کو سرکار کی مخالفت میں خرچ کیا، تمھارے ذریعہ سے سرکار کے دشمنوں کو آدمی اور روپیہ جاتا تھا، تم نے انکار بحث سے کام لیا اور سرکار کی خیر خواہی کا قطعا دم نہیں بھرا، اور فہمائش کے باوجود تم نے قطعا سرکار کی خیر خواہی نہ کی، لہذا تمھیں پھانسی دی جائے گی، تمھاری کل جائیداد بحق سرکار ضبط ہوگی، تمھاری لاش بھی وارثوں کو نہیں دی جائے گی ؛ بلکہ نہایت ذلّت کے ساتھ جیل کے گورستان میں گاڑ دی جائے گی، آخر میں یہ بھی کہا کہ میں تمھیں پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھ کر بہت خوش ہوں گا۔
صاحب موصوف کا یہ سارا بیان میں نے نہایت سکوت سے سنااور صرف آخری فقرہ کے جواب میں کہا کہ جان دینا اور لینا خدا کا کام ہے، آپ کے اختیار میں نہیں ہے، وہ ربّ العزت قادر ہے کہ میرے مرنے سے پہلے تم کو ہلاک کردے لیکن اس جواب باصواب سے وہ بہت خفا ہوا، مگر پھانسی کا حکم دینے سے زیادہ اور کیا کر سکتا تھا؟ جس قدر سزائیں اس کے اختیار میں تھیں، وہ دے چکا تھا، اس وقت میرے منہ سے یہ الہامی فقرہ نکلا تھا کہ میں تو اس وقت تک زندہ موجود ہوں، مگر وہ اس حکم دینے کے تھوڑے عرصہ بعد ناگہانی موت سےراہی ملک عدم ہوا، مجھ کو اپنی اس وقت کی کیفیت خوب یاد ہے کہ میں اپنے اس حکم پھانسی کو سن کر خوش ہوا تھا کہ شاید ہفت اقلیم کی سلطنت ملنے سے بھی اس قدر مسرور نہ ہوتا، اس حکم کے سننے سے میری وہ کیفیت ہوئی کہ گویا کہ جنت فردوس اور حوریں آنکھوں کے سامنے پھرنے لگ گئیں تھیں، میرے بعد مولوی یحیی علی صاحب اور ان کے بعد محمد شیع اور ان کے بعد نمبروار سب آدمیوں کو حکم سزا کا سنا دیا گیا، جن میں میں اور مولوی یحیی علی صاحب اور حاجی محمد شفیع تین آدمیوں کے واسطے پھانسی وغیرہ حسب مذکورہ بالا اور باقی آٹھ مجرموں کو دائم الحبس بعبور دریاے شور مع ضبطی کل جائیداد کے سزا ملی ہیں، میں مولوی یحیی علی صاحب کو نہایت بشاش پایا، لیکن محمد شفیع کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا ؛ تاہم انہوں نے بھی اپنی طبیعت کو بہت تھا ما، اس دن پولیس والے اور تماشہ بین مرد و عورت بکثرت حاضر تھے، قریب تمام کے احاطہ کچہری ضلع انبالہ کا خلقت سے بھرا ہوا تھا، حکم سنا کر اس کا چپ ہونا تھا کہ صدہا مسلح اہل پولیس زیر حکم کپتان پارسن صاحب میرے نزدیک آکر کہنے لگا کہ تم کو پھانسی کا حکم ملا ہے،تم کو رونا چاہئے، تم کس واسطے اتنا بشاش ہے، میں نے چلتے چلتے اس کو بولا کہ شہادت کی امید پر جو سب سے بڑی نعمت ہے، اور تم اس کو کیا جانو، اس مقام پر یہ بات بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ پارسن صاحب بھی ایڈورڈز صاحب سے بڑھ کر متعصب تھا اور اس مقدمہ میں شروع سے اس نے ہم لوگوں پر بہت ظلم کیا تھا، کہ جس کی تفصیل یہ قلم بھی نہیں کر سکتی، مگر خداوند تعالی منتقم حقیقی تو موجود تھا گو اس کے کام دیر اور سہولت سے ہوتے ہیں، ہم کو سزا ہوکر تھوڑے دن ہی گذرے تھے کہ یہ بے خوف بھی دنیا ہی میں پاگل ہوکر راہی ملک عدم ہوا، اس دن تماشہ بین لوگ ہماری پھانسی کو حکم سن کر اکثر زار زار روتے تھے، کوئی خدا کی مرضی اور رضا بقضا سے اپنے رنج کو روکتا تھا، کوئی دم بخود ساکت ہوکر ہم کو دیکھ رہا تھا، جیل خانہ تک بیسیوں مرد عورت ارد گرد سڑک کے ہمارا منہ دیکھتے ہوئے چلے گئے، اسی حالت کے اندر پولس ہم کو جیل خانہ میں لے گئی، اور ہم سب کو گیروا لباس پہنادیا، ہم تین پھانسی والوں کو علاحدہ علاحدہ پھانسی گھروں میں بند کردیا گیا، اور باقی آٹھ آدمیوں کو جیل میں دوسرے آدمیوں کے ساتھ ملا دیا گیا۔
2 مئی کی رات جب ہم جیل کی ان تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں داخل ہوئے تو پہلی رات ہی جہنم کا ایک نمونہ مل گیا، صبح ہم نے اہالیان جیل خانہ سے اپنی یہ تکلیف بیان کی اور چاہا کہ رات کو ہمیں ان کوٹھڑیوں سے باہر رکھا جائے، مگر جیل خانہ کے سب اہالی ڈر کے مارے انکار کرکے باہر چلے گئے، جب یہ انکار کرکے جیل خانہ سے باہر نکلے اسی وقت ایک سوار تار گھر سے ایک ضروری لفافہ لے کر پہنچا، کھول کر جو دیکھا تو اس میں یہی لکھا تھا کہ ان تینوں پھانسی والوں کو بوقت شب باہر سلایا کرو، تائید الٰہی کا یہ طرفہ تماشہ دیکھ کر اسی دم جیل والوں نے ہمیں یہ حکم سنا دیا کہ تمھارے لیے بڑے اہتمام سے تین نئی پھانسیاں اور ان کے ریشمی رسّے تیار ہوئے ہیں اور ادھر پھانسی کی منظوری کے لیے مقدمہ کی مسل کو پنجاب کے محکمہ چیف کورٹ میں بھیج دیا گیا۔
چیف کورٹ میں اپیل
ہمارے دونوں وکیل بھی کچھ زائد محنتانہ لےکر مولانا محمد حسن صاحب، مولانا مبارک علی صاحب، برادرم محمد سعید اور عبد الرحمن پسر محمد شفیع کے ہمراہ چیف کورٹ میں پہنچے اور میجر ونکفیل وغیرہ سرکاری وکلاء اور پیروکار بھی سب سے پہلے حاضر ہوگئے تھے، اور ادھر جیل میں نقل حکم منگوا کر میں نے بھی خوب مدلّل اپیل لکھ کر سپرنٹنڈنٹ جیل کی معرفت چیف کورٹ روانہ کردی۔
چیف کورٹ کے چند اجلاسوں میں بھی یہ مقدمہ بڑی دھوم دھام سے پیش ہوا، اور وہاں بھی ہمارے وکیل مسٹر پلوڈن نے بڑے دلائل سے بار بار یہ کہا کہ یہ لوگ زیر دفعہ ۱۲۱ ہر گز قید نہیں ہو سکتے، اس دفعہ کی رو سے انھیں قید کرنا سراسر خلاف قانون ہے، ان پر کوئی دوسری دفعہ قائم کرو، اس زمانہ کے جوڈیشنل کمشنر مسٹر رابرٹ کسٹ نے بھی وکیل کی اس قانونی دلیل کو بر سر اجلاس تسلیم کر لیا، لیکن مشورہ کرنے کی غرض سے پھر چند روز تک التواء کیا گیا، اسی اثنا میں اخبارات نے یہ خبر شائع کردی کہ یہ لوگ رہا ہو چکے ہیں، صرف حکم سنانا باقی رہ گیا ہے، ہمارے گھر والوں کو تو ہماری رہائی کا اس قدر یقین ہو گیا کہ انہوں نے گھر سے کپڑوں کا ایک نیا جوڑا بھی تیار کرکے بھیج دیا؛ تاکہ رہائی کے دن اسے زیب تن کرکے گھر آؤں، لیکن چیف کورٹ کا التواء بہت لمبا ہو گیا، ہماری خلاف قانون قید پر غالبا انگلستان تک سے رائے لی گئی۔
۲مئی پھانسی کے حکم سنائے جانے کی تاریخ سے لے کر ۱۶ ستمبر تک ہم پھانسی گھروں مں رہے، اہالیان جیل ہمارے پھانسی دینے کا سامان تیار کر رہے تھے، اور ادھر ہم انگریزوں کا تماشہ بن رہے تھے، صدہا صاحب اور میم ہمیں دیکھنے کے لیے روزانہ پھانسی گھروں میں آتے تھے، دوسرے پھانسی والے عام قیدیوں کے برعکس جب یہ یورپین زائرین ہمیں نہایت شاداں و فرحاں دیکھتے تو از راہ تعجب اکثر ہم سے پوچھتے کہ تمھیں تو بہت جلد پھانسی ہو گی پھر تم اس قدر خوشی کا اظہار کیوں کرتے ہو؟ ہم اس کے جواب میں صرف یہ کہتے تھے کہ ہمارے مذہب میں خدا کی راہ میں ایسے ظلم سے مارے جانے پر شہادت کا درجہ ملتاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم اس پر مسرت کا اظہار کرتےہیں۔
خدا کی شان ملاحظہ فرمائیے کہ ہم پھانسی گھروں میں ہی تھے ہی کہ بقرعید آگئی، ہمیں خیال آیا کہ آج مسلمان قربانی کا گوشت خوب اڑاتے ہونگے، اللہ نے ہمارے لیے پھانسی گھروں میں ہی عید کا سامان مہیا فرمادیا، وہ اس طرح کہ اس خیال کے تھوڑی دیر بعد ہی رات کے وقت پلاؤ، قورمہ اور کباب وغیرہ بقرعید کے سب کھانے ہمارے لیے ان پھانسی گھروں میں غیب سے موجود ہوگئے، ہم نے خوب سیر ہو کر کھایا اور خدا تعالی کا شکر بجا لائے۔
ایک رات ہم تینوں آدمی پھانسی گھر میں ایک جگہ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے کہ اس وقت ہمارے سب محافظ باہمی مشورہ کے بعد ہم سے کہنے لگے کہ تم تینوں اس وقت اندھیری رات میں بھاگ جاؤ، ہمیں غفلت کے جرم میں کچھ قید وغیرہ کی سزا ہوگی جسے ہم بھگت لیں گے، لیکن تمھاری جانیں تو بچ جائیں گی، ہم نے ان کی ہمت اور نیّت خیر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ خداوند کریم دونوں جہان میں تمھیں اس نیک نیّتی کا اجر دے گا، مگر ہم فرار نہیں ہونگے جب خدا چھڑا دے گا، خود بہ خود چھوٹ جائیں گے، میں نے یہ بھی کہا کہ بھاِئیو، جب اس کی مرضی نہ تھی تو میں علی گڑھ سے پکڑا گیا، اب دوبارہ ایسی حرکت نہیں کریں گے۔
رشتہ در گردنم افگندہ دوست
مے برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست
قاضی میاں جان کا انتقال
پھانسی گھروں میں قید ہی تھے کہ قاضی میاں جان صاحب بیمار ہو گئے، آپ کو ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا، لیکن اس کے باوجود آپ ہسپتال سے پھانسی گھروں میں ہماری ملاقات کے لیے اکثر تشریف لایا کرتے تھے، وفات سے ایک دو روز قبل انہوں نے یہ خواب دیکھا کہ آسمان سے ایک تخت جوہر دار اترا ہے اور ان کو اس پر بٹھا کر آسمان کی طرف لے جایا گیا۔ گویا خواب کی تعبیر یہ ہوئی کہ وہ تخت جنت الفردوس سے آیا تھا اور انھیں لے گیا، یہ بزرگ ہم سب لوگوں سے معمر تھے مگر بایں ہمہ بڑے صابر اور مستقل مزاج تھے، خداوند کریم انھیں جنت الفردوس نصیب فرمائے، ہمارے ساتھیوں نے تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ پڑھنےکے بعد گورستان جیل میں انھیں سپر خاک کرا دیا۔
آہ! والدہ مرحومہ
انھی ایام کا ذکر ہے کہ تھانیسر میں والدہ ماجدہ کو سانپ نے ڈس لیااور اس کے زہر سے ان کا انتقال ہو گیا، سنا ہے کہ آپ بہت استقلال سے جاں بحق تسلیم ہوئیں، لوگوں نے جھاڑ پھونک کرنے والے مشرک لوگوں کو بلا کر ان کی صحت کے لیے کچھ شرکیہ رسومات کرنا چاہا تھا مگر انہوں نے اس کی اجازت نہ دی اور فرمایا کہ مدت ہوئی شرک و بدعت میرے گھر سے اٹھ گیاہے اب میں اپنے بیٹے کی غیر حاضری میں اپنے گھر میں شرک نہ ہونے دوں گی، ایسی بے ایمانی کی حیات سے موت افضل ہے۔
جب ان کے انتقال پرملال کی خبر ہمیں پھانسی گھروں میں ملی تو اسی رات مولانا یحیی علی صاحب نے مراقبہ میں دیکھا کہ وہ جنت میں بڑی شان و شوکت سے ایک تخت پر بیٹھی ہیں، پوچھا آپ کو یہ مرتبہ عالی کس سبب سے ملا؟ انہوں نےفرمایا کہ میرے بیٹے کے آلام و مصائب پر صبر کرنے کے باعث میرے رب نے بخش دیا اور مجھے یہ درجہ عنایت فرمایا، اس وقت کی وفات بھی ایک امتحان پر امتحان تھا کہ جان، مال، آبرو اورہر چیز کی پوری پوری آزمائش کی جائے۔
کالے پانی کی سزا
مستحق دار کو حکم نظر بندی ملا
کیا کہوں کیسے رہائی ہوتے ہوتے رہ گئیمحمد علی جوہرؔ
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جب ہم پھانسی گھروں میں قید تھے، انہی دنوں ایک مقبول بارگاہ الٰہی پر اللہ رب العزت نے یہ منکشف فرما دیا تھا کہ ہمیں پھانسی نہیں ہوگی، بلکہ کالے پانی کو جانا ہوگااور میں پھر وہاں سے باعزت زندہ سلامت آؤں گا؛ چنانچہ اس پیش گوئی کے دو ماہ بعد ہماری پھانسی کا حکم موقوف ہوا، لیکن ہمیں پیش گوئی سنتے ہی پورا یقین ہو گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اسی وقت اپنے بھائی اور بعض دوستوں کو یہ خوشخبری لکھ دی تھی، اس وقت چونکہ تمام انگریزی سلطنت باتفاق ہمارے پھانسی دینے پر مستعد تھی، اس وجہ سے شاید دوسرے لوگوں کو اس پیش گوئی کا یقین نہ ہوا ہو، خصوصاً جبکہ صورت حال یہ تھی کہ اگر کوئی شخص ہمارے حق میں ذرا بھی کلمہ خیر کہتا تو قید ہو جاتا تھا، ہمارے شہر کے بیسیوں آدمی صرف اس قسم کے قصور میں قید ہو گئے کہ ان میں سے کسی کے پاس سے میرا مال و اسباب ملا، میرے مکانات کی ضبطی و نیلام کے بعد کسی نے اپنے گھر میں میرے بال بچوں کو جگہ دی۔ اس وقت اگر شاہ روم بھی انگریزوں سے میری سفارش کرتا تو کبھی منظور نہ کرتے، ان حالات میں پھانسی کی موقوفی غیر ممکن اور بالکل بعید از قیاس تھی۔
اب اس مقلب القلوب کی ظاہری کارروائی سنیے کہ جب بہت سے صاحب اور میم ہمیں پھانسی گھروں میں نہایت شاداں و فرحاں دیکھ گئے تو سب لوگوں میں یہ چرچا پھیل گیا، ہمارے جانی دشمن انگریزوں نے یہ خیال کیا کہ ایسے دشمنوں کو منہ مانگی موت تو نہیں دینی چاہیے کہ جس پر وہ اس قدر مسرت کا اظہار کر رہے ہیں ؛ بلکہ انھیں کالے پانی بھیج کر وہاں کے آلام و مصائب کا تختۂ مشق بنانا چاہیے۔
ہماری پیش گوئی کے مطابق ۱۶ ستمبر کو ڈپٹی کمشنر انبالہ پھانسی گھروں میں تشریف لائے اور چیف کورٹ کا حکم پڑھ کر سنایا کہ تم لوگ پھانسی کی سزا کو بہت محبوب سمجھتے ہو اور اسے شہادت تصوّرکرتے ہو، اس لیے حکومت تمھیں تمھاری پسندیدہ سزا دینےکے لیے تیار نہیں، لہذا تمھاری پھانسی کی یہ سزا حبس دوام بعبور دریاے شور سے بدلی جاتی ہے۔
اس حکم کےسنانے کے ساتھ ہی ہمیں پھانسی گھروں سے دوسرے قیدیوں کے ساتھ عام بارکوں میں ملا دیا، اور جیل خانہ کے دستور کے مطابق قینچی سے ہماری داڑھی، مونچھ اور سر کے بال وغیرہ تراش کر ایک منڈی بھیڑ کی طرح بنا دیا، میں نے اس وقت دیکھا کہ مولانا یحیی علی صاحب اپنی داڑھی کے کترے ہوئے بالوں کو اٹھا کر کہتے تھے :
“افسوس نہ کر، تو خدا کی راہ میں پکڑی گئی اور اسی کے واسطے کتری گئی”۔
لطیفہ
قدرت الٰہی کا ایک اور تماشہ قابل ذکر ہے کہ میرے بھاری مجرم ہونے کی وجہ سے میرے لیے ریشمی رسّہ اور پھانسی کا تختہ خاص طور پر نہایت مضبوط تیار کرایا گیا تھا، مگر خدا کے حکم سے میری پھانسی تو موقوف ہو گئی اور اسی اثناء میں خاص ولایت کے انگلش مین ایک گورے کو قتل کے جرم کی پاداش میں پھانسی کا حکم ملا اور پھانسی کا وہ سب سامان جو میرے لیے تیار کیا گیا تھا، اس بے چارے ہم قوم یورپین کو نصیب ہوا ؏
چاہ کن را چاہ درپیش
جو رسّہ میرے گلے میں ڈالنے کے لیے انگریزوں نے بڑے اہتمام سے تیار کیا تھا، اس قادر مطلق مقلب القلوب نے ان کے ایک بھائی کے گلے میں ڈلوا دیا، اور مجھے صاف صاف بچا لیا، اس عجیب و غریب واقعہ کو لوگ اسرار و آیات الٰہی تصوّر کرتے تھے، اسی وجہ سے اس گورے کی پھانسی کے بعد لوگوں نے اس رسّے کے ٹکڑے بھی تبرکاً تقسیم کر لیے تھے۔
جیل کی مشقت بھی
پھانسی کی موقوفی کے حکم سنانے کے بعد دوسرے روز دیگر قیدیوں کے ساتھ ہمیں بھی مشقت کے لیے بھیجا گیا، نبی بخش داروغہ جیل، رحیم بخش نائب داروغہ اور دوسرے سب دیسی افسر گو ہمارے عنایت فرما تھے، لیکن سپرنٹنڈنٹ جیل کے خوف کی وجہ سے ہم تینوں آدمیوں کو کاغذ کوٹنے کی ڈھینکلی کے کام میں لگا دیا، جو اس جیل میں سب سے زیادہ سخت کام تھا، تھوڑی دیر تک ہم نے اس کو پاؤں سے ہلایا تو پاؤں شل ہوگئے، مگر اسی وقت ڈاکٹر بٹین عرف ریلو سپرنٹنڈنٹ، جیل کے کاغذ گھر میں آئے اور میں ڈھینکلی کے سخت کام میں دیکھا، تو داروغہ پر بہت خفا ہوئے، اور ہمیں اس سخت کام سے نکال کر محمد شفیع اور مولانا یحییٰ علی صاحب کو تو سوت کھولنے کے کام میں لگا دیااور میرا ہاتھ پکڑ کر ایک ناؤ کے پاس لے گئے، جس میں کاغذ پھاڑ کر بھگوئے جاتے تھے، اور مجھے کہا کہ یہ دفتر کی ردّی ہے، غالباً تمھارے ہاتھ کے لکھے ہوئے کاغذ بھی اس میں ضرور ہوں گے، تم اپنا دل بہلانے کے لیے ان کاغذات کو پڑھتے بھی رہو، اور ردّی کو پھاڑ پھاڑ کس اس ناؤ میں ڈالتے بھی جاؤ، اللہ کے فضل سے میری مشقت دل لگی اور تفریح طبع سے خالی نہ تھی اور دوسرے ساتھی بھی کسی سخت کام میں نہ تھے، ہم دن بھر کام کرنے کے بعد رات کو سب کے سب ایک جگہ بارک میں جا کر سورہتے۔
جب ہم جیل گئے تو قیدیوں کو صرف روٹی دال اور ہفتے دو یاتین دن تیل سے بھگاری ہوئی ترکاری ملا کرتی تھی، گھی،گوشت یا دودھ دہی ابتدائے عملداری سرکار سے کبھی کسی قیدی نے خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی، تائید الٰہی ہمارے شامل حال ہوئی کہ جوں ہی ہم جیل میں داخل ہوئے، انسپکٹر جنرل مجلس پنجاب کے حکم سے پنجاب کے تمام قیدیوں کو عمدہ گوشت، گھی اور دہی ملنے لگی، ان غیر مترقبہ نعمتوں کو دیکھ کر سب قیدی ہمیں دعائیں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ سب تمھارے وجود مسعود کی برکت کا نتیجہ ہے، طرفہ یہ کہ جب تک ہم لوگ جیل ہائے پنجاب میں رہے، تب تک یہ چیزیں سب جیل خانوں میں برابر ملتی رہیں، مگر ہمارے کالے پانی کو روانہ ہونے کے ساتھ ہی یک قلم بند ہوگئیں؛ بلکہ ہمارے جانے کے بعد بے چارے قیدیوں کو گندم کی روٹی کے بجاے جوار باجرے کی روٹیاں ملنے لگیں۔
بیماری
ہم انبالہ جیل ہی میں تھے کہ قیدیوں میں وبائی بخار اور سرسام بڑے زور و شور سے پھیلا، کوئی چوتھے حصّہ کے قریب قیدی اس مرض سے فوت ہوگئے، کیفیت یہ تھی کہ بخار ہو جاتا اور کچھ دیر بعد مریض چل بستا، مہینے دو مہینے کی میعاد والے بہت سے قیدی مر گئے، جیل کے باہر خیمے لگائے گئے، اور قیدیوں کو ان میں منتقل کردیا گیا، مگر حضرت بخار نے وہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔
خاکسار بھی اس وبائی مرض سے نہ بچا اور سخت بیمار ہو گیا، مجھے جیل کے ہسپتال میں داخل کر دیا گیا، اور ڈاکٹر بٹسن صاحب دلی توجہ سے میرا علاج کرنے لگے، لیکن بخار سے قطعاً افاقہ نہ ہوا، گو سرسام کی نوبت نہ پہنچی تھی، مگر میں کئی دن تک بےہوش پڑا رہا، اور کھانے پینے کی کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگایا، انگریزی دوائیں مجھ پر ذرّہ بھر اثر نہیں کر رہی تھیں، لاچار ہو کر ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے پوچھاکہ اس مرض کے لیے تم گھر پر کیا دوا کھاتے تھے ؟ میں نے کہا ہندوستانی دوائیں کھاتا تھا، انگریزی دوائی کبھی استعمال نہیں کی شاید یہی وجہ ہے کہ ان دواؤں سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ہے، انہوں نے کہا تمھیں ان دواؤں کے نام معلوم ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا، انہوں نے کہا اچھا ان دواؤں کے نام ایک کاغذ پر لکھ دو، ہم تمھیں بازار سے منگوادیں گے، میں نے مربّہ سیب، مربّہ بہی، شربت انار، شربت بنفشہ، شربت نیلوفر اور ورق نقرہ وغیرہ عمدہ عمدہ مزےدار مفرّح ادویہ ایک کاغذ پر لکھ دیں اور انہوں نے اسی وقت وہ سب بازار سے منگوا کر میرے حوالہ کردیں۔
بیماری کی وجہ سے زبان کا مزہ تو بگڑا ہوا ہی تھا، میں نے ان کو جب یکے بعد دیگرے کھایا تو بہت مزہ آیا، بخار چونکہ تپ محرقہ کی قسم سے تھا، اس لیے شربتوں کے استعمال سے دوسرے ہی دن اتر گیا، مربّہ جات اور اوراق نقرہ کے استعمال سے بدن اور معدہ میں بھی قوت پیدا ہوگئی، ڈاکٹر صاحب نے جب دوسرے دن مجھے تندرست دیکھا، تو بہت خوش ہوئے، اور نقاہت دور کرنے کے لیے شوربا گوشت اور دودھ مقرر کردیا۔
دنیا کی دولت اور حشم و جاہ کی ناپائیداری، حالت سیمابی اور ہرجائی کا اندازہ لگائیے کہ خانہ تلاشی سے قبل 12 دسمبر تک میرے پاس ہزاروں روپیہ کی جائیداد منقولہ تھی، بیسیوں آدمی میری رعیت میں تھے، ایک بڑے شہر کا نمبردار تھا، گھوڑے اور گاڑیاں سواری کے لیے تھیں، اور ہر کام کے لیے گھر میں نوکر چاکر تھے، لیکن خانہ تلاشی کے چند گھنٹے بعد جب میں فرار ہوا تو سب جاہ و حشم خاک میں مل گیا، میرے فرار یا شدید غصّہ کی وجہ سے مقدمہ کے اختتام پر صادر ہونے والے حکم سے قبل ہی انگریزوں نے پہلے دن تمام جائیداد قرق کر لی تھی، دوسرے دن میرے عزیزوں کو کوئی برآمدہ میں بھی کھڑا نہ ہونے دیتا تھا، الغرض ایک ہی رات میں کایا پلٹ گئی، کل جس مال و دولت کا میں مالک تھا، آج وہ دوسروں کے قبضہ میں چلا گیاتھا۔
میرے وارثوں کو اس قدر موقع بھی نہ ملا کہ وہ قرقی سے قبل جائیداد کا کوئی حصّہ علاحدہ کر سکیں، ضبطی کا حکم صادر ہونے کے بعد میرے بھائی نے جب اپنے حصّے کا دعوی کیا تو اسے صرف ایک کوٹھڑی دی گئی اور باقی سب منقولہ و غیر منقولہ جائیداد بحقّ سرکار ضبط کرکے نیلام کر دی گئی، میں نے دور اندیشی خیال کرتے ہوئے اس حادثہ سے سات برس قبل اپنے حصہ کی کل جائیداد کو اپنی بیوی کے مہر میں مکفول کرکے ایک شرعی بیع نامہ لکھ دیا تھا، اب وہ بیع نامہ بھی پیش کیا گیا، مگر انگریزوں کو اس قدر شدید غصّہ اور تعصّب تھا کہ انہوں نے ایک نہ سنی اور میری بیوی اور دوشیر خوار بچّوں کے ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکال دیا۔
پھانسی کے حکم کی تبدیلی کے بعد ہم ستمبر ۱۸۶۴ء سے فروری ۱۸۶۵ءتک انبالہ جیل رہے، محمد شفیع کے گھر سے اکثر عمدہ عمدہ کھانا آیا کرتا تھا، ہم اسے جیل میں ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر بڑے مزے سے کھایا کرتے اور شکر الٰہی بجا لایا کرتے۔یہاں تک اپنی تعریف لکھتے لکھتے میرا نفس بہت پھول گیا ہے، اور اکثر مقامات پر اپنی تعریف میں مبالغہ کرنا چاہتا ہے، لہذا اپنے نفس کے دو عیب بھی یہاں تحریر کرتا ہوں ؛ تاکہ اس خود پسند موذی کو ذرا ذلّت ہو اور پھر مجھے مبالغہ کی ترغیب نہ دے۔
صاف صاف باتیں
ان دو عیوب میں سے ایک تو یہ ہے کہ جب ہم ایک مقفّل بارک میں سویا کرتے تھے۔ ان دنوں کی بات ہے کہ ایک سپاہی محمد شفیع کے گھر سے پلاؤ لے کر آیا، تو ایک جنگلے کی طرف سے پلاؤ لینے کے لیے چلا گیا، پلاؤ دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا، ایک بڑی سی بوٹی اٹھا کر منہ میں ڈال لی، اور تھوڑا سا چباکر اسے جھٹ پٹ نگل لینا چاہا، لیکن مال مسروقہ حلق سے نیچے کیسے اترتا؟ بوٹی حلق میں پھنس گئی، نیچے جاتی تھی نہ اوپر آتی تھی، میرا دم گھٹنے لگا اور میں لڑکھڑا کر گرپڑا، میرا گلا ملا گیا تو وہ بوٹی باہر نکل آئی، اور میرے نفس کا یہ عیب سب ساتھیوں کے سامنے ظاہر ہو گیا، اگرچہ محمد شفیع کے ساتھ معاملہ ٹھیک تھا اور ان کی طرف سے ہمیں ہر طرح کی اجازت تھی، لیکن پھر بھی یہ حرکت طفلانہ اور نہایت نا زیبا تھی، لہذا میں نے مال مشتبہ کے حلق سے نیچے نہ اترنے پر شکر الٰہی ادا کیا۔
اس سے بھی بڑھ کر اپنے نفس کی شرارت کا ایک اور واقعہ عرض کرتا ہوں، ہمارے جیل کے ایک ساتھی منشی عبد الغفور خاں بھی تھے جو کہ ہمارے ساتھ انبالہ جیل میں تھے، میرے بھائی کے نام ان کے گھر سے دس روپے کا منی آرڈر آیا، بھائی صاحب دس روپے کا نوٹ لے کر جب میرے پاس آئے تو انھیں بھی رقم کی شدیدضرورت تھی، میں نے منشی عبد الغفور خاں کو اطلاع کیے بغیر وہ نوٹ اپنے بھائی کو دے دیا، اور انہوں نے اپنے کام میں اسے خرچ کر لیا، منشی عبد الغفور خاں کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے میری کوئی شکایت نہیں کی ؛ کیونکہ وہ برسوں میرے گھر رہے تھے، اور مجھے اپنا بزرگ سمجھتے تھے، اور میں نے جرات بھی اسی بھروسے پر کی تھی ؛ تاہم دوسرے لوگوں نے مجھے ضرور لعن طعن کیا، اس وقت میرے پاس اتنی گنجائش بھی نہیں تھی کہ انھیں دس روپے دے سکتا، پورٹ بلیر پہنچنے کے بعد میرے ہاتھ میں روپیہ آیاتو میں نے انھیں لاہور جیل میں بھیج دیا۔
اپنے نفس کے ان دو عیوب کے اظہار کے بعد میں اللہ رب العزت سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ مجھے معاف فرمادے اور میدان حشر میں نیکوں کے سامنے ذلیل نہ کرے۔
مولانا احمد اللہ کی گرفتاری
جن دنوں ہم نے چیف کورٹ پنجاب میں اپیل دائر کر رکھی تھی، ہمارے وکیل مسٹر پلوڈن نے یہ خبر دی کہ اگر تم اپیل کرکے چیف کورٹ پنجاب سے رہا نہ ہوئے تو انگریزوں کا ارادہ ہے کہ وہ مولانا احمد اللہ صاحب کو بھی گرفتار کر لیں گے ؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب ہماری اپیل مسترد کردی گئی تو انگریزوں نے سکھلا پڑھا کر ہمیں مولانا احمد اللہ کے خلاف جھوٹے گواہ بنانے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔
تحصیلدار میر مجیب الدین ساکن نارنول، جو رشوت ستانی کے قصور میں انبالہ جیل میں قید تھا، انگریزوں نے اس سے وعدہ کیا کہ اگر تم ان گیارہ آدمیوں میں سے کسی کو مولانا احمد اللہ کے خلاف گواہ بنا دو تو تمھارا قصور معاف کرکے تمھیں دوبارہ تحصیلدار بنا دیا جائے گا؛ چنانچہ اس نے اپنی دنیوی بھلائی کے لیے کارروائی شروع کردی، ہمیں جب اس کا علم ہوا تو ہم نے اپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ بھائیو! ہماری دنیا تو خراب ہو گئی ہے، اب فقط دین باقی رہ گیا ہے، خدارا جھوٹے گواہ بن کر اسے نہ بگاڑو، کہیں ہماری مثال بھی وہ نہ ہوجائے کہ ؏
دونوں طرف سے گئے پانڈے، ادھر حلوا نہ ادھر مانڈے
اس کی دن بھر کی ترغیب سے جس قدر اثر ہوتا وہ ہماری تھوڑی سی نصیحت سے زائل ہو جاتا تھا، اس لیے اس نے انگریزوں سے کہہ دیا کہ جب تک اس جیل میں محمد جعفر اور مولانا یحیی علی صاحب موجود ہیں، کوئی گواہ نہیں بن سکتا؛ چنانچہ مجھے، مولانا صاحب اور میاں عبد الغفار کو سنٹرل جیل لاہور روانہ کر دیا گیا،اور محمد شفیع، عبد الکریم، الٰہی بخش اور منشی عبد الغفور وغیرہ کو انبالہ جیل ہی میں رہنے دیا، ہمارا اس جیل سے روانہ ہونا ہی تھا کہ محمد شفیع اور عبد الکریم وغیرہ سرکاری گواہ بن گئے، اور ان کی جھوٹی شہادت کی وجہ سے وقت کے ولی اللہ، شمس الاسلام حضرت مولانا احمد اللہ صاحب کی تمام جائیداد ضبط کر لی گئی، اور مئی ۱۸۶۵ء میں انھیں حبس دوام بعبور دریاے شور کی سزا دی گئی ؛ چنانچہ آپ جون میں ہم سے بھی پہلے انڈمان تشریف لے گئے۔
یہاں یہ بھی ملاحظہ فرمائیے کہ پہلے محمد شفیع کو کس قدر شدید غصّہ کے ساتھ پھانسی کا حکم دے کر اس کی پچاس لاکھ کی جائیداد ضبط کی اور پھر صرف ایک برس بعد گواہی کا حیلہ کرکے اسے رہا کردیا ؛ تاکہ ضبط شدہ جائیداد واپس نہ دینی پڑے، اگر وہ بے چارہ بے قصور تھا جیساکہ ایک سال بعد کی رہائی سے معلوم ہوتا ہے تو بڑے شد و مد کے ساتھ اس کی جائیداد کی ضبطی اور پھانسی کی سزا کیوں تھی؟ اور اگر وہ بہت بڑا مجرم تھا، جیساکہ سیشن جج نے اپنے فیصلہ میں مندرج دلائل سے ثابت کیاتو ایک سال کے بعد رہائی کیوں؟
اس کے بعد ۱۸۷۱ء تک امیر خاں صاحب سوداگر چرم، مولوی تبارک علی صاحب، مولوی امیر الدین صاحب ساکن پٹنہ، بنگال اور ابراہیم منڈل ساکن اسلام پور وغیرہ وہابیوں کی گرفتاری کے جس قدر مقدمات پیش ہوئے، ان سب میں ان سرکاری گواہوں کو جھوٹی گواہی دینے کے لیے بلایا جاتا تھا، اور میں نے خود ان گواہوں میں سے ایک کی زبانی سنا تھا کہ جب کبھی ہم جھوٹی گواہی دینے سے انکار کرتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ تمھیں تو مشروط طور پر صرف اسی لیے رہا کیا گیا تھاکہ تم بوقت ضرورت گواہی دے سکو، یادرکھو اگر تم نے گواہی دینے سے انکار کیا تو تمھیں پہلے وارنٹ پر ہی حبس دوام کی سزا دے کر کالا پانی بھیج دیا جائے گا۔
اہل و عیال سے ملاقات
انبالہ جیل سے لاہور جانے کے لیے جب میں تیار ہوا، تو بیوی بچے ملاقات کے لیے جیل میں آئے، جس دن ملاقات ہوئی رمضان المبارک کا مہینہ اور میں روزے سے تھا، جیل سے باہر ایک کوٹھڑی میں بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی، میرا گیرو رنگ کا لباس، کمبل کا کرتہ اور پاؤں پابند زنجیر و سلاسل دیکھ کر میرے یہ اقرباء نہایت غمگین و افسردہ ہوئے، میں نے انھیں تسلّی دی اور ہر حال میں دامان ایمان و صبر، مضبوطی سے تھامے رکھنے کی تلقین کی، کوئی سال سوا سال کے بعدآج جب میں نے اپنے بیٹے محمد صادق کو دیکھا، تو وہ ایسا صحت مند تھا کہ میں اسے مشکل سے پہچان سکا، اس سے یہ میری آخری ملاقات تھی، اس کے بعد میں نے اسے دوبارہ اس دنیا میں نہیں دیکھا۔
لاہور جیل کی طرف روانگی
۲۲فروری ۱۸۶۵ء کو ہم لاہور جیل کی طرف روانہ ہوئے، جوگیانہ گیروا لباس زیب تن، کالا کمبل اوڑھے ہوئے بیڑی و ہتھکڑی کے زیور سے آراستہ وپیراستہ منزل در منزل اور کوچ در کوچ یہ قافلہ عشاق سوئے منزل رواں دواں تھا، چالیس چالیس قیدیوں پر مشتمل یہ قافلہ تھا، ایک دو گاڑیاں بھی ساتھ تھیں، سب پیدل چل رہے تھے، البتہ کوئی تھک جاتا تو اسے گاڑی پر سوار کر لیا جاتا، ورنہ سب کے سب پاپیادہ خلخال چھن چھناتے عجب شان بے نیازی سے چلے جا تے تھے، برس سوا برس کے بعد جو باہر کی ہوا کھائی تو طبیعت نہایت خوش ہوئی، راستے میں جو چاہتے خرید کر کھاتے جاتے تھے، سفر میں سب سے بڑی نعمت مولانا یحیی علی صاحب کی مصاحبت تھی، جس کے باعث سفر میں بھی دن عید اور رات شب برات ہو گئی تھی۔
قدرت کی کرشمہ سازیاں ملاحظہ فرمائیے کہ جس دن ہم نیاگیروا لباس پہن کر منزل اوّل سے روانہ ہوئے، مہاراجہ مہندر والی پٹیالہ کی برات اسی راستہ سے عین ہمارے سامنے سے گذرتے ہوئے بڑی دھوم دھام کے ساتھ جنوب سے شمال کو جا رہی تھی، سورج طلوع ہو رہا تھا، صبح کا سہانا وقت تھااور فروری کے آخر کے گلابی جاڑے تھے، ایک طرف سورج کی کرنوں میں برات کے سونا چاندی، تاش بادلہ اور ہیرہ مرصع کی چمک، دوسری طرف ہماری لوہے کی بیڑی اور ہتھکڑی کی دمک، ادھر دوشالوں اور کمخواب و بانات کا رنگ، ادھر ہمارے جوگیانہ لباس کی سرخی اور سیاہی کا ڈھنگ، ادھر ہاتھی اور گھوڑوں کی ہنکار، ادھر ہماری بیڑیوں اور ہتھکڑیوں کی جھنکار ایک دوسرے کے مقابل، اس دنیا فانی کی عزت و ذلّت اور مدارج کی کمی بیشی کا فرق عجب خوبی سے دکھلا رہی تھی، ممکن ہے اس وقت اس راجہ نے ہمیں بڑی چشم حقارت سے دیکھا ہو، لیکن میری ہندوستان واپسی سے بہت برس قبل وہ راہئ ملک بقا ہو گیا، وہ ملک بقا جس کی طرف امیر و فقیر دونوں اسی طرح خالی ہاتھ جاتے تھے، جس طرح اس دار فنا میں خالی ہاتھ آتے ہیں، افسوس کہ اس راجہ نے اس عروس دنیا سے بہت ہی کم فائدہ اٹھایا، جس کے لیے اس قدر دھوم دھام کا مظاہرہ کیا تھا۔
ہم جو ایک مدت دراز کے بعد جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں سے نکل کر باہر کھلی فضا میں پہنچے تو ہمیں بھی مہاراجہ پٹیالہ کے براتیوں سے کم خوشی نہ ہوئی ہوگی، ہم ہرنوں کی طرح چوکڑیاں بھرتے چلے جارہے تھے، جن قیدیوں کے پاس کچھ نقدی تھی، وہ راستے میں جو چاہتے خرید کر کھاتے اور خوشی مناتے ہوئے چلے جارہے تھے، ہم لدھیانہ، پھلور،جالندھر اور امرتسر ہوتے ہوئے لاہور پہنچ گئے، آخری منزل لاہور تھی، جب شالامار باغ کے سامنے پہنچے تو ہر ایک نے اپنا اپنا من بھر جو چاہا سو کھایا؛ کیونکہ جیل کی کال کوٹھڑیوں میں معمولی کھانے کے علاوہ اور چیزیں ملنی محال بلکہ جرم تھیں۔
تین بجے شام کے قریب ہم سنٹرل جیل لاہور کے دروازے پر پہنچے، دروازہ پر ہمارے چالان کے تمام قیدیوں کو ایک قطار میں بٹھا دیا گیا تھا، سب سے پہلے ایک کشمیری ہندو داروغہ آیا، جس نے ہم سب کو بغور دیکھااور کسی قدر افسوس بھی کیا، پھر ڈاکٹر گرے سپرنٹنڈنٹ جیل آئے، اس نے بھی سب سے پہلے ہمارا ملاحظہ کیا اور پھر بڑے غصّے سے حکم دیا کہ ان کے پاؤں میں ایک آڑا ڈنڈا بھی ڈال دینا چاہیے ؛ چنانچہ اس حکم کے صادر ہونے کے ساتھ ہی لوہار آہنی ڈنڈے لے کر حاضر ہوگئے، اور ہمارےدونوں پاؤں کے دونوں کڑوں کے درمیان ایک فٹ پانچ گرہ لمبا آڑا ڈنڈا ڈال دیاگیا، از راہ تعصّب یہ ڈنڈا ہمارے لیے ہی تھا، ورنہ جیل میں ہم نے اور کسی قیدی کے پاؤں میں نہیں دیکھا، اس ڈنڈے کی وجہ سے چلنا پھرنا اٹھنا بیٹھنا نہایت مشکل ہو گیااور رات کو پاؤں پسار کر سونا بھی نہایت محال تھا۔
سینٹرل جیل لاہور
اس جیل کے درمیان ایک برج تھا اور اس کے ارد گرد آٹھ علاحدہ علاحدہ بارکیں، صحن اوار کارخانۂ مشقت بنا ہوا تھا، سپرنٹنڈنٹ نے حکم دیا کہ اس مقدّمہ میں ملوّث تمام قیدیوں کو علاحدہ علاحدہ بارکوں یا نمبروں میں رکھو؛ تاکہ یہ ایک دوسرے سے ملنے نہ پائیں، اس دن دوستوں سے جدا ہونے کی اذیّت، آہنی ڈنڈے سے بھی بڑھ کر محسوس ہوئی، مجھے ان بارکوں میں سب سے زیادہ سخت نمبر اول میں لے گئے، لیکن تائید غیبی سے 6 بجے شام یہ حکم پہنچا کہ یہ قیدی انبالہ کی بیماری والی جیل سے آئے ہیں، لہذا انھیں دوسرے قیدیوں سے علاحدہ رکھا جائے ؛ تاکہ بیماری اس جیل میں نہ پھیلے۔
اس حکم کے بعد بارک نمبر ایک کو جہاں مجھے رکھا گیا تھا میرے تمام ساتھیوں کے لیے مخصوص کر دیا گیا، ہم سب دوستوں کے اس اجتماع پر بہت خوش ہوئے، اور حکمت الٰہی اور اس کے اسرار نہاں پر سجدۂ تشکر بجا لائے، اس بارک کا جمعدار چونکہ ایک مسلمان تھا، لہذا ہمیں کارخانۂ مشقت میں بھی کسی کام پر نہ لگایا گیا؛ بلکہ اللہ کا فضل شامل حال ہوا اور سپرنٹنڈنٹ نے خود مجھے اس نمبر کا منشی مقرّر کردیا، مگر وہ ڈنڈا جو غالبا کسی بڑے حاکم کے حکم سے تھا، بدستور زیب پا رہا، جب ہر روز صبح کے وقت سپرنٹنڈنٹ صاحب آتے اور مجھے ہر قیدی کی مشقت کا حساب دکھانا پڑتا تو مجھے ہرن کی طرح اچھل اچھل کر ان کے ساتھ رہنا پڑتا تھا۔
ایک قیدی کا اعلیٰ کردار
ایک دفعہ اتوار کے دن میں اپنے بستر پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک سپرنٹنڈنٹ صاحب ہمارے نمبر میں پہنچے، اور تمام قیدیوں کی تلاشی کا حکم دیا ۔ یکے بعد دیگرے سب کی تلاشی ہوئی۔ جب میرے بستر کی تلاشی ہوئی تو اس میں تھوڑا سا پسا ہوا نمک برآمد ہوا ور یہ ایسا قصور تھا کہ اس کی پاداش میں کوڑوں کی سزا ہوجایا کرتی تھی۔
جب یہ برآمد شدہ نمک سپرنٹنڈنٹ کے سامنے پیش ہوا، تو میں حیران تھا کہ کیا جواب دوں، ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ صندل نامی ایک مسلمان قیدی جو انبالہ جیل سے میرے ساتھ آیا تھا اور میری خدمت کیا کرتا تھا، کہنے لگا کہ یہ بستر اور نمک تو میرا ہے، مولوی صاحب کا نہیں، سپرنٹنڈنٹ نے پوچھا یہ کیسے ؟ اس نے کہا کہ حضور کے تشریف لانے سے پہلے میں اور مولوی صاحب پیشاب کرنے کے لیے بیت الخلاء میں گئے تھے کہ اسی اثنا میں آپ آگئے، ہم جلدی جلدی جو دوڑ کر آئے تو گھبراہٹ میں ایک دوسرے کے بستر پر بیٹھ گئے۔
سپرنٹنڈنٹ یہ بیان سن کر بہت ہنسا اور کہنے لگا کہ تم مولوی صاحب کو بچانا چاہتے ہو، اس کے بعد نمبر سے باہر جہاں کوڑے لگائے جاتے تھے، ہم دونوں کو لے گیا، دوسرے جن قیدیوں کے بستروں سے کچھ نکلا تھا، انھیں کوڑے لگنے شروع ہوئے، جب سب کو کوڑے لگ چکے تو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر صندل سے پوچھنے لگاکہ کیا یہ سچ ہے کہ یہ نمک اور بستر تمھارا ہے، مولوی صاحب کا نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں! نمک اور بستر تو میرا ہے آگے آپ کو اختیار ہے، یہ جواب سن کر اس نے ہم دونوں کو بری کر دیا، اور کچھ سزا نہ دی، اور صندل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ اچھا اگر تم مولوی صاحب کو بچانا چاہتے ہو تو ہم نے تم کو بھی معاف کردیا، آئندہ محتاط رہنا۔
کراچی کو روانگی
اکتوبر ۱۸۶۵ء کے آخری ایام تھے کہ قیدیوں کا ایک بڑا بھاری چالان کیا گیا، اور انھیں ملتان روانہ کرنے کے لیے بند و بست کیا جانے لگا، اور ایک ہتھکڑی دو دو قیدیوں کے ہاتھوں میں لگا دی گئی، میرے ساتھی نے مجھ سے یہ رعایت کی کہ میرا بایاں اور اپنا دایاں ہاتھ ہتھکڑی میں ڈلوایا۔
ہمارے مقدمہ کے فقط تین آدمی، یعنی میں، مولانا یحیی علی صاحب اور میاں عبد الغفار صاحب ملتان روانہ ہوئے، روانگی کے دن کیفیت یہ تھی کہ سینٹرل جیل سے لاہورریلوے اسٹیشن تک پاؤ ں میں بیڑی، سر پر بستر جسے ایک ہاتھ میں تھامے ہوئے اور دوسرے ہاتھ میں ہتھکڑی کی گلجورٹ، اس پر سپاہیوں کی ڈانٹ ڈپٹ مستزاد کہ جلدی کرو جلدی کرو، ورنہ ریل چھوٹ جائے گی، بہر کیف جب ہم اسٹیشن پر پہنچے تو ہمیں ریل کے ڈبوں میں بند کرکے دروازوں پر قفل چڑھا دیے گئے، اور راستہ میں دروازہ کو کہیں نہ کھولا گیا، گویا جانوروں یا مال کی طرح گاڑیوں میں بھر دیا گیا۔
ملتان میں
رات کے آٹھ بجے کے قریب ہم ملتان پہنچے، رات کی تاریکی میں سر پر بستر اٹھائے ہوئے اسٹیشن سے جیل کی طرف کشاں کشاں چل دیے، جہاں جانوروں کی طرح بے آب و دانہ بند کر دیے گئے، ہم دو دن ملتان جیل میں رہے، لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ شہر کدھر بستا ہے؟ بازار کہاں ہے؟
دو دن کے بعد ہمیں ملتان سے قریباً پانچ میل کے فاصلے پر دریاے سندھ کے کسی پتن یا گھاٹ سے اگنبوٹ میں سوار کیا گیا، اور اس میں قطار در قطار بٹھا دیا گیا، بیڑی، ہتھکڑی اور ڈنڈے تو پہلے سے زیب تن تھے، یہاں ایک بڑی موٹی آہنی زنجیر بھی ہماری بیڑیوں کے درمیان پھنسا دی گئی، جس کی وجہ سے اٹھنا بیٹھنا محال تھا، پاخانہ پیشاب بھی اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوئے کرتے رہے، اس وقت قریباً آدھا آدھا من لوہا ہمارے جسم پر تھا، اگرچہ دریاے سندھ ہمارے زیر پا ٹھاٹھیں مار رہا تھا، لیکن ہم اس قدر مجبور و بے بس تھے کہ وضو کرنے کی بھی توفیق نہ تھی، لہذا پڑے پڑے تیمّم سے نمازیں پڑھتے تھے، گو ہم یہاں جکڑے پڑے تھے، لیکن جیل سے نکل کر، دوستوں کی مصاحبت، آب دریا کی روانی اور آس پاس کے جنگلوں کی سرسبزی و شادابی کو دیکھ کر نہایت خوش تھے۔
اسی کیفیت میں پانچ چھ روز کے بعد کوٹری پہنچ گئے، راستے میں، سکھر، بھکر اور ٹھٹھے کے مشہور و معروف قلعے بھی دریاے سندھ کے کنارے نظر آئے، کوٹری کے سامنے دریاے سندھ کے دوسرے کنارے، سندھ کا مشہور شہر حیدرآباد بھی دیکھنے میں آیا، اسی دن کوٹری سے بذریعہ ریل کراچی پہنچ گئے، کراچی میں منشی اور کلرک بڑی بڑی اونچی ٹوپیاں اور ہندو مہاجن بڑی بڑی اونچی پگڑیاں پہنتے تھے۔
جب انبالا جیل سے روانہ ہوئے تو خیال تھا کہ انگریزی عملداری میں ہر جگہ اردو یا فارسی کا دفتر ہوگا اور ہم منشی گر ی میں کمال کی وجہ سے محرری کے کام میں رہ کر قید میں آرام سے رہیں گے۔ یہ خیال باطل اس قدر مسلط تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کا مطلق خیال نہ رہا اور اس کا احساس اس وقت ہوا، جب یہ دیکھا کہ اردو اور فارسی کا دفتر تو ملتان تک ہے۔
سندھ میں ہر جگہ دفتری زبان سندھی تھی، سندھی زبان کے حروف اگرچہ فارسی جیسے ہیں لیکن اس کے باوصف ہمارے لیے اس زبان کو سمجھنا نہایت دشوار تھا، گویا سندھ میں ہمارا شمار ناخواندہ لوگوں میں ہونے لگا اور وہ جو منشی گری کا غرور تھا یا غیراللہ پر بھروسہ تھا خود بخود ختم ہوگیا۔
کراچی جیل میں
کراچی جیل نسبتاً آرام دہ جیل تھی، یہاں پہنچتے ہی ہتھکڑی اور آڑے ڈنڈے سے نجات مل گئی فقط آہنی بیڑی زیب تن رہی، یہاں قیدیوں کو رات کے وقت بند بھی نہیں کرتے تھے، بلکہ انھیں اجازت تھی کہ کھلی فضا میں چٹائیوں پر جہاں چاہتے سو جاتے، پہریدار جیل کی فصیل پر گشت کرتے رہتے تھے۔ دو برس کے بعد یہاں پہلی مرتبہ دمکتے موتیوں سے جڑے سیاہی مائل نیلگوں آسمان کے نیچے سوئے، دیگر جیل خانوں کی نسبت یہاں قیدیوں کو نہایت عمدہ کھانا ملتا تھا۔ گھی سے چپڑی ہوئی گندم کی روٹیاں عمدہ ترکاری اور گوشت کا مناسب انتظام تھا، لیکن آرام کے یہ دن جیسے پلک جھپکتے گذر گئے۔
صبح سفر، شام سفر
ایک ہفتہ کراچی ٹھہرے، آٹھویں روز ہمیں بحری جہاز میں بوریوں کی طرح بھر کر بمبئی بھیج دیا گیا۔ بادبانی جہازوں اور سمندر کا نظّارہ ہم نے سب سے پہلے کراچی میں دیکھا، جہاز چونکہ بہت چھوٹا تھا اور قیدیوں کو تہہ خانے میں بھر دیا گیا تھا، اس لیے سب کی زبان پر تھا :
جائے تنگ است مردماں بسیار
وقنا ربنا عذاب النار
لنگر اٹھا کر جہاز ابھی تھوڑی دور سمندر میں گیا تھا کہ دریا کے تلاطم اور موجوں کی طغیانی کی وجہ سے ڈگمگانے لگا، جس سے قیدیوں کو قے اور متلی شروع ہوگئی، جگہ کی قلت کی وجہ سے ایک دوسرے کے اوپر ہی قے کی جارہی تھی، جس سے تکلیف میں اور اضافہ ہوگیا۔ جہاز میں کچھ مسلمان بھی سوار تھے جو قیدی نہیں تھے، انھوں نے ہمیں مولوی سمجھتے ہوئے بڑی تواضع کی، دو تین روز کے بعد بڑی مشکلات برداشت کرتے ہوئے ہم بمبئی کی بندرگاہ میں داخل ہوئے، وہاں میلوں تک ہزاروں جہاز کھڑے تھے بلکہ جہازوں کی کثرت کے باعث سمندر جہازوں کا جنگل معلوم ہو رہا تھا۔
جہاز سے اترے تو ہمیں بذریعہ ریل بمبئی کے جیل خانہ میں لے جایا گیا، جوکہ وہاں سے بارہ میل تھا۔ بمبئی میں پارسی مرد عورتیں بکثرت دیکھنے میں آئیں، یہ لوگ بڑے خوبصورت اور مالدار تھے اور آتش پرست زردشت کی امت سے تعلق رکھتے تھے۔ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ کی چڑھائی کے وقت ایران سے بھاگ کر ہندوستان کے اس حصہ میں آکر آباد ہوگئے تھے۔ جہاں تک ہمیں دیکھنے کا موقع ملا بمبئی شہر بھی ایک ٹاپو ہے، ایک بند باندھ کر اسے اسے بر اعظم ہند سے ملا دیا گیا ہے۔ بمبئی اور تھانہ کے درمیان سمندر بہتا ہے، اس کے پانی کو کھیتوں اور کیاریوں میں روک دیا جاتا ہے، سمندر کا نمکین پانی جب سورج کی حرارت سے خشک ہوتا ہے تو وہ خود بخود عمدہ نمک بن جاتا ہے، ریلوے لائن کے کنارے ہزاروں من نمک کے انبار لگے ہوئے تھے، ناریل کا درخت اور اس کا تازہ پھل بھی ہم نے پہلے پہل بمبئی میں دیکھا۔
بمبئی کی عورتیں اپنی ساڑھی کو ایسے باندھتی ہیں جیسے مرد دھوتی کو، یہاں کے ہندو بڑی بڑی پگڑیاں استعمال کرتے ہیں جو سر پر ایک ٹوکرے کی طرح رکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں، اس علاقے کی زبان گجراتی یا مرہٹی ہے، جب ہم ریل سے اتر کر تھانہ کے بازار میں جیل کی طرف پیدل جا رہے تھے تو ہمارے چند قیدی ساتھیوں نے کچھ مٹھائی کو دوکانوں کو لوٹ لیا اور بے محابہ مال مسروقہ کھانا شروع کردیا۔ دوکاندار انھیں قیدی سمجھ کر خاموش ہو رہے بلکہ بعض دوکاندار تو بہت خوش ہوئے اور انھوں نے قیدیوں کے منہ میں مٹھائی پڑنے کو بڑا پن سمجھا۔
تھانہ جیل
چلتے چلتے شام کے قریب ہم تھانہ جیل کے دروازہ پر پہنچے۔ جیل کیا مرہٹوں کے وقت کا ایک بڑا مستحکم اور مضبوط قلعہ تھا، جس کے چاروں طرف ایک بڑی گہری اور پختہ خندق بنی ہوئی تھی، جیل میں داخل ہوتے ہی ہماری تلاشی ہوئی اور ہم سب کے جوتے اتروا لیے گئے، جنھیں جاتے وقت بھی واپس نہ کیا گیا۔
سنا ہے کہ ایک دفعہ کسی دل جلے قیدی نے داروغہ جیل کو جوتے مارے تھے، جس کی وجہ سے یہاں یہ قانون بنا دیا گیا کہ کوئی قیدی جیل میں جوتا نہ پہنے بلکہ ننگے پاؤں رہے تاکہ کوئی دوبارہ ایسی نامعقول حرکت نہ کر سکے۔
رات کو ہمیں جوار کی دو دو روٹیاں اور تھوہر کی دال دے کر علاحدہ علاحدہ کوٹھڑیوں میں بند کردیا گیا، تائید الٰہی کے باعث دوسرے دن پنجابی قیدیوں کو گندم خور علاقے کے باشندے سمجھتے ہوئے گندم کی روٹیاں ملنے لگیں اور اس کے بعد تو یہ قانون بنا دیا گیا کہ پنجاب کے قیدیوں کو یہاں گندم ہی کی روٹی دی جائے گی، صبح ہوئی تو ہمیں پتّھر توڑنے کی مشقت دی گئی، جسے بمشکل تمام ایک دو دن کیا، ہمارے پہنچنے کے بعد یہاں دری بافی کا کام بھی شروع کردیا گیا، پنجابی قیدی اس کام کے مہتمم مقرر ہوئے انھوں نے مجھے اور مولانا یحیی علی صاحب کو دری بافوں کا استاد ظاہر کرکے اپنے ساتھ لے لیا اور اس طرح ایک مہینہ بڑے آرام سے گذرا۔
بمبئی کی طرح اس جیل میں بھی مرہٹی زبان کا دفتر تھا، اردو اور فارسی خواں یہاں بھی ناخواندوں میں شمار ہوتے تھے۔ کراچی اور تھانہ کے دفتروں کا حال دیکھ کر ہمیں یقین ہوگیا کہ اب باقی عمر ہم ناخواندوں میں شمار ہوں گے اور قلم پکڑنے کی نوبت شاید ہی کبھی آئے، اس جیل کا داروغہ ایک برہمن اور بڑا متکبر آدمی تھا مگر نائب داروغہ ابراہیم مسلمان تھا اور حتی المقدور ہماری بڑی تواضع کیا کرتا تھا، ایک مہینہ گزارنے کے بعد یہاں سے بھی کوچ کی تیاری ہوئی، اس مسلمان نائب داروغہ نے ہماری بھاری بیڑیاں اتروا دیں اور ان کی بجاے ہلکی بیڑیاں ڈلوا دی تھیں۔ ہندوستان کے جیل خانوں میں دیسی لوگون خصوصاً شریفوں کو بڑی مشکل ہے مگر کوٹ پتلون والے کی بڑی عزت ہے خواہ وہ یوروپین ہوں یا ہندوستانی باشندے، دونوں کو صاحب لوگوں کی طرح بڑا چین ہے۔
کالے پانی کو روانگی
جمنا جہاز 8؍ دسمبر سنہ 1865 ء کو بمبئی سے کالا پانی روانہ ہوا۔ یہ جہاز انگلینڈ کا بنا ہوا تھا، تمام عملہ بھی انگریزوں پر مشتمل تھا، جب جہاز نے لنگر اٹھایا تو عرشے پر کھڑے ہوئے تمام اسیران بلا نے مادر وطن پر آخری محبت بھری نظر ڈالی، کچھ قیدی ایسے بھی تھے جن کی محبت کا محور، گھر بار، کھیتی باڑی، ماں باپ، بہن بھائی اور اولاد تھی اور انھیں یہ خیال بھی شدّت سے ستا رہا تھا کہ وہ جیتے جی اپنے اعزا و اقارب، پیاروں، راج دلاروں اور سرسبز و شاداب کھیتوں کو بھی دیکھ سکیں گے یا نہیں؟ لیکن ان میں کچھ نیک بخت ایسے بھی تھے جن کے حاشیہ خیال اور قلب و نگاہ کے کسی گوشے میں بھی ان میں سے کوئی چیز نہ تھی۔ ان کی محبت کا مرکز و محور صرف وہ دعوت حق تھی، جس کے لیے انھوں نے اپنی ہر قیمتی سے قیمتی متاع کو قربان کردیا تھا، وہ اپنی کشتیاں جلا کر آرہے تھے، انھیں اس بات کی قطعا پروا نہ تھی کہ وہ ایک بھیانک جگہ جا رہے ہیں جہاں کے شب و روز نامعلوم کتنے کربناک ہوں گے۔ انھیں خیال تھا تو صرف اس تحریک کا جسے وہ خاک و خون میں تڑپ تڑپ کر سیراب کر رہے تھے، جب تک ساحل نظروں سے اوجھل نہ ہوا، قیدی اپنے اپنے خیالات میں گم سم حیرت کی تصویر بنے اسے تکتے رہے۔ جب نظروں سے اوجھل ہوگیا تو کتنے ہی دلوں سے اٹھنے والا دھواں، عارض کی زمہریر میں پہنچ کر پانی کے قطرات کی صورت اختیار کرگیا، اب وہ تھے، ان کے رخسار پر شبنم کے قطرات جیسے آنسو یا پھر چہار سو حدّ نظر تک پھیلا ہوا سمندر کا پانی۔ ان کے جذبات کی طرح سمندر بھی رفتہ رفتہ طغیانی رنگ اختیار کرتا گیا۔
دریا کو اپنی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو، یا درمیاں رہے
سمندر کی تلاطم خیزیوں کے باعث اکثر قیدی بیمار پڑ گئے، ایک بے چارہ پنجابی قیدی داغ مفارقت بھی دے گیا، ہم نے قاعدۂ شریعت کے مطابق اسے غسل دیا، کفن پہنایا اور نماز جنازہ پڑھ کر اس کی لاش کے ساتھ بہت سے پتھر باندھے اور اسے سمندر میں چھوڑ دیا، سیلون پہنچے تو سمندر کا تلاطم مزید شدّت اختیار کرگیا، سینکڑوں ٹن وزنی جہاز ایک ننھے سے بے مایہ گیند کی طرح پانی کی سطح تر اچھل رہا تھا، پہاڑ کی طرح دیو قامت اور بلند و بالا موجیں ایک طرف سے آتیں، کبھی دوسری جانب سے اور اسے بری طرح ہلا کر رکھ دیتیں، کبھی اوپر سے گذر جاتیں اور کبھی نیچے سے اور یوں معلوم ہوتا کہ جہاز ابھی غرق ہوجائے گا، خوف کے مارے لوگوں کا برا حال تھا، وہ چیخ چیخ کر خدا کو پکار رہے تھے، آخرکار کئی گھنٹے بعد طوفان تھما اور لوگوں کی جان میں جان آئی۔
34 ویں دن11؍ جنوری سنہ 1866 ء کو جہاز قبل از دو پہر پورٹ بلیر انڈمان پہنچ گیا۔ انبالہ سے لے کر انڈمان کے پانیوں میں داخل ہونے کی کل مدت 11 ماہ ہے، سینکڑوں چھوٹے چھوٹے ہرے بھرے جزیرے دور سے پھیلی ہوئی گہری سبز چادر کی طرح معلوم ہوتے تھے۔ اب ساحل بھی نظر آرہا تھا، قیدیوں کی ایک جماعت عرشے پر آکر کھڑی ہوگئی، دور سے سمندر کے کنارے کے کالے کالے پتھر ایسے معلوم ہوتے تھے جیسے بھینسوں کے جھنڈ کے جھنڈ پانی میں پھر رہے ہوں، ایک کشتی میں پورٹ بلیر کے محافظ آ پہنچے اور جہاز لنگر انداز ہوگئے، میں نے ایک ہندوستانی ملاح سے پوچھا کہ یہاں منشی اور محرروں کی بھی کچھ قدر ہے یا نہیں؟ اس نے قرینے سے معلوم کر لیا کہ یہ شخص منشی ہے، چنانچہ اس نے میری تسلی کے لیے مبالغہ آرائی کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے حاکم اور مالک تو منشی ہی ہیں۔ یہ مژدہ سن کر مجھے بھی کچھ تسلی ہوئی۔
جہاز لنگر انداز ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی بڑی کشتیاں پہنچ گئیں، تمام قیدیوں کو ان میں بٹھا کر انڈمان کے صدر مقام روس کی طرف روانہ کر دیا، ساحل سمندر پر ایک جم غفیر کھڑا تھا، وضع قطع سے سب لوگ پڑھے لکھے مولوی اور منشی معلوم ہوتے تھے، بیسیوں لوگ سفید فاخرانہ لباس زیب تن کیے ہمارے منتظر کھڑے تھے، ابھی ہم کشتی میں سوار ہی تھے کہ کنارے پر کھڑے ایک آدمی نے بلند آواز سے پوچھا :
“محمد جعفر اور مولوی یحیی علی صاحب بھی اس جہاز سے آئے ہیں؟”
“جی ہاں! وہ دونوں آئے ہیں” میں نے جواب دیا۔
یہ سننا تھا کہ وہ لوگ پانی میں کود پڑے اور ہم لوگوں کو ہاتھوں ہاتھ کشتی سے نیچے اتار لیا۔
مولانا احمد اللہ سے ملاقات
ساحل پر قدم رنجہ ہوتے ہی، سب سے پہلے یہ خبر ملی کہ مولانا احمد اللہ صاحب چھ ماہ قبل 15؍ جون سنہ 1865 ء کو یہاں پہنچ گئے تھے، یہ لوگ انھیں کے بھیجے ہوئے آئے تھے۔ آپ کو ہمارے آنے کی خبر دو روز پہلے پہنچنے والے جہاز کے ان قیدیوں نے دی تھی جو تھانہ جیل سے بمبئی تک ان کے ساتھ آئے تھے۔
مولانا احمد اللہ، انڈمان کے چیف کمشنر میر منشی سید اکبر زمان کے مکان پر مقیم تھے۔ بندرگاہ سے ہم سیدھے وہیں گئے، آپ کے ساتھ اور بھی کئی معززین منتظر تھے، ملاقات کا یہ نظارہ بہت رقت انگیز تھا، مصافحے اور معانقے کے بعد بیڑیاں کاٹ پھینکی گئیں۔ عمدہ لباس پہلے سے تیار کرا لیا گیا تھا، ہم نے گیروے کپڑے اتار دیے اور نہا دھو کر اسے زیب تن کر لیا، پھر دسترخوان بچھا دیا گیا، جس پر انواع و اقسام کے لذیذ کھانے چنے گئے تھے، تین برس بعد پہلی مرتبہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا، اگرچہ اسی تاریخ سے ہم قید سے رہا ہوگئے تھے اور پھر کبھی بارک، قیدیوں کا لباس یا قیدیوں کا کھانا نہیں دیکھا لیکن اس کے باوجود ہم اٹھارہ برس تک کالے پانی میں ملزموں ہی کی طرح رہے۔
اسی شام سے گھر گھر ہماری دعوتیں ہونے لگیں اور وہ وہ نفیس اور عمدہ کھانے کھلائے گئے کہ ہندوستان میں کبھی نصیب نہ ہوئے تھے، ہمار خیال تھا کہ اب ساری عمر جیل کا کھانا کھانا پڑے گا، لیکن اس قادر مطلق نے جب یہاں نعم البدل عنایت فرما دیا تو یہ خیال دل سے محو ہوگیا۔
جب اس جزیرے میں پہنچے تو دیکھا کہ ہزاروں قیدی مرد عورتوں کی پیشانیوں کو کھود کر ان کا نام، جرم، اور لفظ دائم الحبس کندہ کرایا ہوا تھا کہ وہ نوشتہ تقدیر کی طرح ساری عمر نہیں مٹ سکتا تھا لیکن مقام شکر ہے کہ ہمارے یہاں پہنچنے سے کچھ عرصہ قبل تمام عملداری سرکار میں یہ حکم موقوف کردیا گیا، ہم اس داغِ دائم الحبس سے محفوظ رہے۔
جزائر انڈمان
جزائر انڈمان خلیج بنگال کے مشرق میں ۹۲ درجہ ۴۷ دقیقہ طول شرقی اور ۴۳ دقیقہ عرض شمالی پر، کلکتہ سے چھ سو میل کی مسافت پر واقع ہیں، ایک ہزار جزیروں کا یہ مجموعہ ۱۷۴۶ میل کے رقبہ پر مشتمل ہے، علم طبقات الارض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی زمانہ میں یہ جزائر عظیم ایشیا سے ملے ہوئے تھے، اور پھر حوادث زمانہ اور سمندر کی موجوں کے باعث اولا تو براعظم ایشیا سے الگ ہو گئے، ثانیا ایک دوسرے سے بھی علاحدہ ہوگئے، اور چھوٹے چھوٹے ہزاروں جزیروں میں تقسیم ہو گئے۔
کلکتہ سے اگنبوٹ یہاں پانچ روز میں پہنچتا ہے، اور رنگون سے تین روز میں، مولین یہاں سے تین سو میل مشرق و شمال میں، سنگاپور چار سو میل مشرق و جنوب میں، نپانگ تین سو پچاس میل مشرق میں، نکوباریا ننکوڑی اسی میل جنوب میں، مدراس آٹھ سو میل مغرب میں اور لنکا آٹھ سو میل مغرب وجنوب میں واقع ہے، سب جزائر پہاڑ ہیں ہموار زمین بہت کم ہے۔
یہاں سب سے اونچا پہاڑ ماؤنٹ ہریٹ ہے، جو سطح سمندر سے ۱۱۱۶ فٹ اونچا ہے، یہاں میٹھے پانی کا کوئی ندی نالہ جاری نہیں ہے، موسم برسات میں بعض اونچے ٹیلوں سے پانی کے جھرنے بہا کرتے ہیں، لیکن ایام خشکی میں بند ہو جاتے ہیں، کنوئیں وغیرہ بکثرت پائے جاتے ہیں، پورٹ بلیر کے زیریں علاقے میں گندھک کا ایک پہاڑ ہے، جس سے ہر وقت آگ کے شعلے نکلتے رہتے ہیں۔
یہاں کے جنگلات میں خنزیر کے علاوہ اور کوئی چوپایہ، درندہ یا پرندہ نہیں ہے، لعاب ابابیل یہاں کا ایک عمدہ تحفہ ہے، جو قوّت باہ کے لیے ماہی سقنقور سے بھی بڑھ کر سمجھا جاتا ہے، اور سونے چاندی کی طرح بہت گراں ہوتا ہے، جنگلات میں ہزارہا قسم کی عمدہ اور پائیدار لکڑی موجودہے، اور ہمارے علاقہ کی لکڑی سے بالکل مختلف ہے، بید کئی قسم کا ہے اور اس کی لکڑی دیگر ممالک میں بطور تحفہ بھیجی جاتی ہے، کالی ناگنی کی طرح عقیق البحر کی چھڑیاں، ہزارہا قسم کی رنگ برنگ کی کوڑیاں اور طرح طرح کی سیپیاں یہاں کے سمندر سے نکلتی ہیں، اور دوسرے ملکوں میں بطور تحفہ بھیجی جاتی ہیں۔
پیداوار اور آب و ہوا
آم، املی، جامن، کٹھل، بڑہل، جائیپل اور پان و غیرہ گرم ملکوں کے درخت یہاں کے جنگلات میں خود بہ خوداگے ہوتے ہیں، جنگل کو صاف کرنے پچاس سو گاؤں آباد کیے گئے ہیں، ہر قسم کی ترکاری، گرم ملکوں کے پھل اور دھان، مکئی، جوار،مونگ، ماش اور نیشکر وغیرہ کثرت سے یہاں پیدا ہوتے ہیں، سرد ملکوں کے اناج، گندم اور چنا و غیرہ بالکل پیدا نہیں ہوتے، اس کا حکومت نے انتظام کر رکھا ہے کہ وہ کلکتہ سے گندم اور چنے وغیرہ لاکر سات پائی فی پونڈ یعنی سوا آنہ فی سیر کے حساب سے فروخت کرتی ہے، یہاں غلّے کا نرخ ہمیشہ ایک رہتا ہے اور اس ملک میں کبھی قحط بھی نہیں پڑتا۔
اس جزیرے کی آب و ہوا اتنی عمدہ اور صحت بخش ہے کہ روئے زمین پراس کی مثال نہیں ملتی، ہیضہ، چیچک، وبائی بخار اور آشوب چشم وغیرہ متعدی امراض یہاں بالکل نہیں ہوتے، بیس برس کے عرصہ میں ہم نے نہیں سنا کہ کوئی آدمی ان میں سے کسی بیماری میں مبتلا ہوا ہو، یہاں سر اور کپڑوں میں جوئیں بھی نہیں پڑتیں، اور نہ ہی پسّو اور مچھر جیسے موذی جانور ہوتے ہیں۔
خط استوا سے قریب ہونے کے باعث یہاں بارش بکثرت ہوتی ہے، اور دن رات برابر ہیں، سردی کی شدت ہوتی ہے نہ گرمی کی بلکہ سارا سال موسم معتدل رہتا ہے، دسمبر اور جنوری کی راتوں میں بھی صرف ایک چادر اوڑھنے کی ضرورت پیش آتی ہے، سرمائی کپڑوں کا بالکل دستور نہیں، کوئی رضائی بناتا ہے، نہ تلائی، روئی ہوتی ہے نہ دھنیا، خزاں ہے نہ بہار، بالکل سارا سال موسم معتدل رہتاہے، اور ۱۲ مہینے درخت بھرے بھرے رہتے ہیں، معلوم ہوتا ہے کہ اللہ حکیم و علیم نے موسموں کو یہاں جنگلیوں کی رعایت رکھتے ہوئے بنایا ہے، جوکہ ہمیشہ مادر زاد برہنہ رہتے ہیں، اگر گرمی سردی کی شدت ہو تو یہ برہنہ مخلوق خدا فوراً ہلاک ہو جائے۔
بارش تو اس کثرت سے ہوتی ہے کہ مئی سے دسمبر تک پورے آٹھ مہینے بادل برستے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ مکانوں کی چھتوں کو ڈھلوان دار بنایا جاتا ہے، ہمارے ہاں کی کچّی اور چپٹی چھتیں یہاں کی بارش کا ایک مہینہ بھی مقابلہ نہیں کر سکتیں، بارش تو موسلادھار ہوتی ہے، لیکن اولے پڑتے ہیں نہ کبھی آندھی آتی ہے۔
ان جزائر کے جنگلات نہایت گنجان اور دشوار گزار ہیں، ان میں درخت اتنے اونچے ہوتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، جب کسی درخت کو کاٹ کر گرایا جاتا ہے تو اس کی ڈالیوں اور شاخوں سے سینکڑوں گز زمین متاثر ہوتی ہے، یہاں کے سانپ اور بچھو میں زہر نہیں، لیکن کنکھجورے بہت زہریلے ہوتے ہیں۔
جنگلات میں زمانۂ قدیم سے ایک وحشی اور مادر زاد قوم آباد چلی آرہی ہے، مرد عورتیں بالکل کپڑا نہیں پہنتے، اور نہ ہی انھیں کپڑا میسّر ہے، ان کا ابھی تک صحیح حال بھی دریافت نہ ہو سکا کہ وہ کس ملک سے اور کب آکر یہاں سکونت پذیر ہوئے ہیں؟ ہمیشہ سے وحشی چلے آرہے ہیں یا کبھی مہذب بھی تھے، جیسا کہ مشہور تھا یہ جنگلی آدم خور نہیں ہیں، ان کے بدن پر بال بھی ہیں۔
انڈمان کی نو آبادی
سو برس کےقریب ہوئے ایک جہاز راں لیفٹیننٹ بلیر نے آکر یہاں سب سے پہلے لنگر ڈالا تھا، اسی وجہ سے اس جزیرہ کو پورٹ بلیر کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، اس وقت بھی سرکار نے تجویز کیا تھا کہ قیدیان حبس بعبور دریاے شور کو یہاں رکھا جائے گا، لیکن یہ جزیرہ آباد ہو کر آب و ہوا کے نا موافق ہونے کے باعث ۱۷۹۶ء میں پھر اجڑ گیا، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد سرکار کو پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ اسے آباد کیا جائے ؛ کیونکہ آزادی کی جنگ میں حصہ لینے والے کئی ہزار “باغیوں” کو جیل میں رکھنا ممکن نہ تھا؛ چنانچہ مارچ ۱۸۵۷ء سے “بغاوت” کے جرم میں ماخوذ قیدیوں کو یہاں بھیج کر اس جزیرہ کو دوبارہ آباد کر دیا گیا ہے۔
اصلی باشندے
شروع شروع میں جب قیدی یہاں آکر آباد ہوئے تو مدت تک جنگلی لوگوں نے سخت مخالفت کی ؛ چنانچہ انہوں نے یہاں کے پہلے سپرنٹنڈنٹ اور کمشنر، ڈاکٹر واکر کے عہد میں ایک بہت بڑی فوج طفر موج کے ساتھ ہدو اور ابرڈین پر حملہ کرکے بہت خون خرابے کیے تھے، لیکن اب وہ سرکار کی حکمت عملی اور ملائمت کے باعث فرمانبردار بن گئے ہیں اور جنگل یا بستی میں جہاں کہیں بھی ملتے ہیں، بڑی خاطر داری سے پیش آتے ہیں۔
ان لوگوں کا قد چار سے پانچ فٹ چار انچ تک لمبا ہے، شکل و صورت میں بالکل حبشیوں جیسے ہیں، سیاہ فام، گول سر، آنکھیں ابھری ہوئیں، سر پر بھیڑ کے سے بال، مگر نہایت مضبوط اور قوی، یہ ان کا حلیہ ہے، کل جزائر انڈمان میں ان کی۱۲ ذاتیں ہیں، ہر ذات کی زبان دوسری سے بہت کم ملتی ہے۔
مذہبی خیالات
یہ جنگلی اس بات کے قائل ہیں کہ خدا آسمان میں رہتا ہے، وہی ہر چیز کا خالق ہے اور سب سے بڑا ہے، وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، آسمان میں اس کا نہایت عمدہ اور نفیس محل ہے، اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا، اسی کے گھر سے پانی برستا ہے، بجلی کا شعلہ اور کڑک بھی اسی کے پاس سے آتی ہے، موت بھی اسی کے حکم سے ہوتی ہے، بھلائی اور رزق بھی وہی دیتا ہے، ان جنگلیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ چانا پالک اس کی بیوی ہے اور اسے بھی فنا نہیں اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا ہوئی ہے، اس کا کام ہے کہ سمندر میں مچھلیاں پیدا کرے ،وہی مچھلیوں کو آسمان سے گراتی ہے۔
یہ لوگ شیطان کے بھی قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سب برے کام شیطان کراتا ہے، مگر وہ کہتے ہیں کہ شیطان دو ہیں: ایک زمین کا جس کا نام ارم چوگلا ہے، جب زمین پر کوئی ناگہانی موت سے مر جاتاہے، تو یہ سمجھتے ہیں کہ ارم چوگلا نے مار ڈالا ہے، ایک سمندر کا شیطان ہے، جس کا نام جورو ونڈا ہے، جب کوئی ڈوب کر مر جاتا ہے، تو کہتے ہیں کہ اس کو جورو ونڈا نے مار ڈالا ہے۔
یہ لوگ فرشتوں کے بھی قائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ مذکر مؤنث دونوں جنس سے ہیں، جنگل میں رہتے ہیں اور انسانوں کی حفاظت کرتے ہیں، یہ لوگ بھوت پریت کے بھی قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں کچھ اختیار نہیں ہے، یہ لوگ خدا تعالی یا کسی دوسری چیز کی قطعاً عبادت نہیں کرتے۔
یہ لوگ طوفان نوح کے بھی قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ زمین پر ایسا طوفان آیا تھا کہ ساری دنیا ڈوب گئی تھی اور ان کے بزرگ ایک کشتی بنا کر اس میں سوار ہو گئے تھےاور ایام طوفان میں بہت دنوں تک اس کشتی میں سوار رہے، جب طوفان ختم ہوا تو وہ کشتی جزائر انڈمان کے پہاڑوں میں سے کسی ایک پہاڑ میں آکر رک گئی تھی۔
سماجی زندگی
یہ لوگ دو سے زیادہ گنتی نہیں جانتے، جب دو سے زیادہ کسی چیز کی گنتی کرنی ہو تو انگلیوں پر شمار کرتے ہیں، یہ ہمیشہ مادر زاد برہنہ رہتے ہیں، البتہ عورتیں اندام نہانی پر ایک چھوٹا سا کپڑا ڈال لیتی ہیں، مرد عورتیں جسم کے کسی حصہ پر بال رکھنے کے قائل نہیں، جسم کے تمام بالوں کو بوتلوں کے ٹکڑوں کے ساتھ تراش ڈالتے ہیں۔
ان کے یہاں شادی بیاہ بھی نہایت سیدھے سادے طریقے پر ہوتے ہیں، شادی کے وقت دولہا اور دلہن دونوں کو گیرو رنگ کی چربی سے رنگ دیا جاتا ہے، شادی کے موقع پر قوم کے تمام افراد جمع ہوتے ہیں، اجتماع میں ایک آدمی بطور قاضی نظر آتا ہے، وہی دولہا کو اٹھاکر دلہن کےپاس لے جاتا ہے اور دولہا کے سامنے بہت سے تیر و کمان رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان سے شکار کرکے اپنی عورت کی پرورش کرنااور پھر وہی شخص بلند آواز کے ساتھ کہتا ہے، “اَب اِک”یعنی لے جاؤ یہ تمھاری بیوی ہے، یہ کہنے کے بعد عقد پختہ ہو جاتا ہےاور پھر تا حیات دونوں کے ہاں طلاق ہے نا جدائی، شادی کے بعد ان کے ہاں زنا بھی نہیں ہے۔
بچے کی پیدائش کے موقعہ پر بھی عورتیں پردے کی ضرورت محسوس نہیں کرتیں؛ بلکہ مردوں کے سامنے ہی بچوں کو جنم دیتی ہیں، پیدائش کے بعد ایک عورت پتوں کے ساتھ مکھیوں کو دور کرتی ہے؛ جبکہ ایک دوسری عورت نال کاٹ کر بچے کو گود میں لے کر بیٹھ جاتی ہے، پہلے دن بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلاتی ہے، لیکن دوسرے دن سے بچے کی ماں دودھ پلانے لگ جاتی ہے، وضع حمل کے فوراً بعد زچہ چلنےپھرنے لگ جاتی ہے، جنگل کی ہر چیز کھاتی پیتی ہے، ان کے ہاں کسی قسم کے پرہیز کا قطعاً رواج نہیں، بچہ جب چلنے پھرنے کے قابل ہو جاتا ہے، تو نیرکٹھ اس کا پہلا کھیل ہوتا ہے۔
ان لوگوں کا گھر بالکل چھوٹا سا ہوتا ہے، صرف چار کھمبے کھڑے کر کے ان پر پتے ڈال لیتے ہیں اور ایک چند روزہ آسرا بنا لیتے ہیں، ان کے گھروں میں جا کر دیکھو تو میاں بیوی کے علاوہ اور کوئی چیز نظر نہ آئے گی، تیر کمان ان کی اصل جائیداد بلکہ جان ہیں۔
یہ لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیاں بھی بنا لیتے ہیں، جن کے ذریعہ ایک جزیرہ سے دوسرے جزیرہ تک آتے جاتے ہیں، یہ اپنے مردوں کی کھوپڑیاں بھی ساتھ ساتھ لیے پھرتےرہتے ہیں، کسی دوسرے جزیرہ سے جب کوئی مہمان ان کے ہاں آتا ہے، تو اسے پہلے گھر سے تھوڑے سے فاصلہ پر بیٹھنا پڑتا ہے گھر والے اسے وہاں کھانا پہنچاتے ہیں، کھانا کھانے کے بعد وہ جس گھر میں چاہتا ہے،چلا جاتا ہے، پھر سب اس سے مل کر روتے ہیں۔
یہاں کے باشندے کھیتی باڑی بالکل نہیں کرتے اور نہ اناج کھاتے ہیں، ان کا کھانا مچھلی، سمندر کے کیڑے مکوڑے اورکچھوے وغیرہ ہیں، آگ پر نیم بریاں کر کے نمک مرچ کے بغیر کھاتے ہیں، بعض درختوں کی جڑیں، پھلیاں، پتے، سور کا گوشت اور شہد بھی ان کی خوراک میں شامل ہے۔
غوطہ زنی کے یہ بچپن سے عادی ہوتے ہیں، اس فن میں شاید دنیا کی کوئی قوم بھی سبقت نہ لے جا سکے، یہ بلا کے تیر انداز ہوتے ہیں، ان کا نشانہ بہت ہی کم خطا ہوتاہے، ان لوگوں میں کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہیں ہوتا، خون نکالنے ہی کو ہر مرض کا علاج تصور کیا جاتا ہے، جب کوئی بیمار ہوتا ہےتو وہ خود یا س کا کوئی عزیز نہایت بے دردی اور اناڑی پن سے بوتل کے ٹکڑوں سے زخم کرکے خون نکال دیتا ہے۔
جب کوئی مر جاتا ہے تو اسے ایک ٹوکری میں رکھ کر اس کے گھٹنوں کو مروڑ کر اس کی چھاتی پر لاکر باندھ دیتے ہیں، سارے اعضاء کو درخت کے چھلکوں سے کس دیتے ہیں اور پھر قبر کھود کر اس میں گاڑ دیتے ہیں، قبر کے نزدیک آگ جلاتے رہتے ہیں، ایک دو ماہ بعد اس کی قبر کھود کر اس کا ماتم کیا جاتا ہے اور اس کی ہڈیوں کو سب عزیز آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں اور پھر انھیں حرز جان سمجھ کر ہمیشہ اپنے پاس رکھتے ہیں، کبھی کبھی لاشوں کو گاڑنے کے بجاے مچان پر رکھ دیا جاتا ہے، یا درختوں کی شاخوں پر لٹکا دیا جاتا ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی نیست و نابود ہو جاتا ہے، یہ دوبارہ زندہ ہونے، جزا سزا اور آخرت کے قائل نہیں ہیں۔
یہ لوگ ناچنے گانے کے شوقین ہیں، مگر ناچنے گانے کے آلات سے یکسر نا آشنا، ان لوگوں کا کوئی مذہب نہیں، ان میں کسی مذہبی سردار یا رہنما کا بھی کوئی تصور نہیں، اس کے باوجود اخلاق، آدمیت، دیانت داری اور راست بازی کے اوصاف کے ساتھ متصف ہیں۔
ابتدا میں یہ لوگ روپیہ پیسہ کی قدر و قیمت سے ناواقف تھے، اگر کوئی شخص دیتا تو لے لیتے اور پھر دیکھ بھال کر زمین پر پھینک دیتے تھے، مگر اب تو بہت لالچی ہو گئے ہیں اور راہ گیروں سے پیسہ پیسہ کا سوال کرتے ہیں۔
ان کی عمر بہت کم ہوتی ہے، لڑکیاں جلد بالغ ہو جاتی ہیں اور تیس سال کی عمر میں تو بہت بوڑھی ہو جاتی ہیں، بہت عرصہ ہوا دودھ ناتہ نامی ایک شخص نے ایک جنگلی عورت سے شادی کی تھی، مگر رہائی ہو جانے کے باعث اس بے چاری کو یہیں چھوڑ کر ہندوستان چلا گیا تھا۔
۱۸۵۸ء سے ۱۸۶۵ء تک ان جزائر کی آب و ہوا سمّ قاتل تھی، جس کو زخم ہوجاتا تیسرے روز سڑ جاتا اور چوتھے روز مر جاتا، زخم کیا ہوتا گویا پیغام اجل ہوتا، جب آبادی یہاں شروع ہوئی تو ان دنوں مرض اسکروبی (scorbutus)بھی بڑے زور سے پھیلا ہوا تھا، یہ ایک جہازی بیماری ہے، جس سے منہ پک جاتا ہے، پنڈلیاں سخت پتھر ہو جاتی ہیں اور آدمی مر جاتا ہے، اس مرض میں مبتلا ہو کر یہاں ہزاروں آدمی راہیِ آخرت ہوئے۔
خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پہنچنے سے ایک سال قبل یہاں کی تمام بیماریاں ختم ہو گئی تھیں ، اب تو آب و ہوا کی خوبی کے اعتبار سے یہ جزیرہ رشک کشمیر تھا، جہاں بیس برس تک ہمارےسر میں درد بھی نہ ہوا اور قید کی زندگی بڑے آرام و راحت کے ساتھ بسر ہوئی۔
بیماری کی کثرت اور آبادی کے نئے ہونے کی وجہ سے ابتدا میں انگریزوں نے قیدیوں کے لیے بڑے نرم قوانین رکھے تھے اور ان سے اچھا سلوک کرتے تھے لیکن جب آب و ہوا اچھی ہو گئی اور آبادی بھی بڑھ گئی تو کالا پانی کے لیے ایسے ایسے سخت قوانین بنائے گئے کہ الامان و الحفیظ، ہم جس زمانہ میں پہنچے آب و ہوا تو عمدہ ہو گئی تھی لیکن ابھی تک قانون میں سختی کے احکام جاری نہیں ہوئے تھے، اس وجہ سے ہمیں پہنچتے ہی ان جزائر کے عام قوانین کے مطابق عہدے، تنخواہیں اور آرام و آسائش کی سہولتیں میسر آگئی تھیں۔
ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ قانون میں سختی کی جانے لگی، حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نئے قیدیوں کو حکم تھا کہ دس برس تک سخت مشقت کریں، بھنڈارے سے کھانا کھائیں، وردی کا کپڑا پہنیں، بارک میں رہیں اور انھیں کسی قسم کی سہولت مہیا نہ کی جائے ؛ چنانچہ قانون انڈمان مجریہ ۱۸۷۶ء سے ایک فقرہ بطور مثال لکھتا ہوں:
’“سزا حبس بعبور دریاے شور کا مطلب یہ ہےکہ قیدیوں سے سخت سے سخت مشقت لی جائے اور کھانے پینے کو صرف اس قدر دیا جائے کہ جسم و جان کا رشتہ قائم رہ سکے۔”
مگر اس میں خیریت کا پہلو یہ تھا کہ ان قوانین کا اطلاق صرف نئے قیدیوں پر ہوتا تھا، ہم پرانے زندانی ان سے مستثنی قرار دیے جاتے تھے۔
جنگ آزادی کے قیدی
میں نے یہاں آکر دیکھا کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی بدولت یہاں بیسیوں راجے، نواب، زمیندار، مولوی،مفتی، قاضی، ڈپٹی کلکٹر، منصف، صدر امین، صدر الصدور، رسالہ دار اور صوبے دار و غیرہ سنت یوسفی ادا کر رہے ہیں۔
نسلی امتیاز
وہ معزز ہندوستانی جن کے آگے سینکڑوں ہزاروں نوکر تھے، انھیں بھی سیاہ رنگت اور ہندوستانی باشندے ہونے کی وجہ سے دوسرے چوہڑے اور چماروں کی طرح موٹا جھوٹا کھانا دیا جاتا اور عام لوگوں کے ساتھ ان سے بھی مشقت لی جاتی تھی، مگر یوروپین گورے ؛ بلکہ اکثر دوگلے کالے کلوٹے بھی فقط کوٹ پتلون کے شرف یا عیسائی کلمہ پڑھنے کی وجہ سے پلٹن کے گوروں کے ہمراہ کھانے اورکپڑے کے مستحق سمجھے جاتے تھے، ان کے رہنے کے لیے الگ بنگلے اور خدمت کے لیے بلا تنخواہ نوکر مامور تھے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ جس گورے یا دوگلے کو لائسنس مل جاتا اس کو تو پچاس روپیہ ماہوار تک نقد تنخواہ بھی ملتی تھی۔
۱۸۷۹ء میں ایک نیا عبرت انگیز واقعہ پیش آیا، جسے دیکھ کر لوگوں کو رونا آتا تھا اور وہ یہ کہ اس سال ایک بدبخت راجہ رگن ناتھ پوری جس کے لیے مدت تک اخباروں نے بھی سر پھوڑا تھا، قید ہو کر کالاپانی پہنچا، چہرے کی رنگت کے سیاہ ہونے کے باعث سے وہ بے چارہ عام چوہڑے چماروں کے ساتھ کھانا کھاتا اور مشقت کرتا تھا، جب نازک مزاجی کے سبب مشقت نہ کر سکتا تھا تو جیل، بیت اور چکی پیسنے کی سزا پاتا، آخر کار ان صدموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جیل میں چل بسا۔
انہی دنوں مسٹر لیمٹیر نامی ایک کرانی بھی یہیں پہنچا، جو کراودھ سے قید ہو کر آیا تھا، وہ بھی اگرچہ رنگ کا کالا تھا، لیکن کوٹ پتلون پہننے اور یوروپ کا باشندہ ہونے کے باعث گوروں کے ساتھ عمدہ کھانا کھاتا تھا، رہنے کے لیے اسے ایک الگ مکان مل گیا، جس میں عیش و آرام کا سب سامان تھا، مشقت کے بجاے اس پر یہ انعام کیا گیا کہ اسے ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں کلرک لگا دیا گیا، چونکہ یہ کمبخت راجہ اور خوش نصیب کرانی یہاں بیک وق پہنچے تھے، اس لیے اس اختلاف سلوک اور طرفداری کو دیکھ کر ہر ایک کی آنکھیں اشکبار تھیں۔
ملازمت
ہمارے انڈمان پہنچنے کے ایک ہفتہ بعد کا واقعہ ہے کہ سراوک کے راجہ بروکس نے اپنی مدد کے لیے کچھ قیدیوں کو طلب کیا ؛ چنانچہ حکومت ہند کے جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے پچاس قیدیوں کو جن میں سے اکثر منشی اور جمعدار وغیرہ تھے، راجہ بروکس کے پاس بھیج دیے، ان قیدیوں کے جانے کی وجہ سے کئی عمدہ عمدہ عہدےخالی ہو گئے تھے، اخبارات کے ذریعہ اور مولانا احمد اللہ سے ان لوگوں کو میری قابلیت کا علم ہوچکا تھا، اس لیے اللہ کے فضل سے جہاز سے اترتے ہی مجھے سپرنٹنڈنٹ اور چیف کمشنر کی کچہری میں محرر سیکشن وار یا نائب میر منشی مقرر کر دیا گیا، رہنے کے لیے ایک مکان اور خدمت کے لیے ایک تنخواہ دار نوکر بھی مل گیا، آزاد بندوں کی طرح جہاں چاہتا رہتا اور جہاں چاہتا جاتا، مطلق روک ٹوک نہ تھی۔
شادی خانہ آبادی
جب میں یہاں پہنچا تو میرا عالم شباب تھا، عمر کی ستائیسویں منزل میں تھا، عمر کے اس حصہ میں مجرد رہنا دینی و دنیوی قباحتوں سے خالی نہ تھا، اس لیے پہلے تو میں نے ارادہ کر لیا کہ اپنے ملک سے اپنی بیوی کو بلالوں، لیکن قانون اس سلسلہ میں مانع تھا، پھر میں نے چند ماہ بعد ایک نو آمدہ کشمیری عورت سے شادی کر لی، جو کہ نہایت کمسن تھی اور کسی بلائے ناگہانی میں گرفتار ہو کر یہاں پہنچی تھی، میرے حبالۂ عقد میں آنے کے بعد بڑی دیندار اور خدمت گزار بن گئی۔
میں نے یہاں آکر محسوس کیا کہ ہر وہ چیز جو ہندوستان میں مجھ سے چھوٹی تھی، اللہ تعالی نے اس کا نعم البدل عطا فرمانا شروع کردیا، جن لوگوں نے میری دشمنی پر کمر باندی تھی، وہ ایک ایک کرکے تباہ و برباد ہو گئے، حتی کہ جب میں ہندوستان آیا تو ہر شخص حسب مدارج اپنی اپنی سزا حاصل کر چکا تھا۔
مولانا عبد الرحیم
زمانۂ قید میں ۲۵ دسمبر ۱۸۶۷ء کو میں جزیرۂ پرسوپرنس پینٹ میں تھا کہ مولانا عبد الرحیم صاحب بھی انڈمان پنچ گئے، پہلے تو آپ کو گھاٹ منشی مقرر کیا گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد آپ کو ہسپتال میں محرر مقرر کر دیا گیا، نو برس تک سرکاری کام کرنے کےبعد انہوں نے بزازی کی دوکان کھولنے کا ٹکٹ لے لیا، جب رہائی ہوئی تو اس وقت بھی اسی پیشۂ دوکانداری سے منسلک تھے۔
تین مہلک حادثے
سمندر کے کنارے آباد ملکوں، جہاز کے ملازموں اور سیاحوں کو اکثر بحری آفات میں مبتلا ہونا پڑتا ہے، جن سے ہندوستان کے آدمی سراسر نا واقف ہیں، کالے پانی میں بھی ہر سال بہت سے آدمی اور کشتیاں سمندر کی نذر ہو جایا کرتی ہیں، اس بیس سال کی مدت میں مجھے بھی بارہا ان آفات کا سامنا کرنا پڑا، مگر عین ڈوبنے کے وقت جب چاروں طرف سے ناامید ہو کر اللہ رب العزت کی طرف رجوع کرتا، تو وہ رب قدیر مجھے فوراً بچا لیتاتھا، ان بہت سی آفتوں میں سے جن میں یہ خاکسار وقتاً فوقتاً مبتلا ہو کر بچتارہا، صرف تین واقعات کا اختصار کے ساتھ ذکر کرتا ہوں۔
ایک مرتبہ میں روس سے جزیرۂ پرسوپرنس پینٹ کی طرف جا رہا تھا کہ پرسو پرنس پینٹ کے نزدیک پہنچ کر ایک ایسا طوفان باد وباراں شروع ہوا کہ کشتی ڈگمگانے لگی اور ڈوبنے کے بالکل قریب تھی کہ موج کے ایک تھپیڑے نے اسے پل سنگ کے نزدیک کر دیا، اس وقت میں اور ایک دو دوسرے مسافر مستعدی سے پل پر کود پڑے، ابھی ہمارے پاؤں پل پر لگے ہی تھےکہ ایک موج نے کشتی کو اس زور سے دے مارا کہ کشتی ریزہ ریزہ ہو گئی اور مسافر سخت زخمی ہو گئے۔
اسی طرح ایک مرتبہ ابرڈین سے روس جاتے وقت بھی بالکل اسی طرح کے حادثہ سے دوچار ہونا پڑا، اس حادثہ میں بھی موجیں کشتی کو پل پر دے مارنا چاہتی تھیں کہ ہم کود کر پل پر جا کھڑے ہوئے، تھوڑی دیر بعد کشتی پل سے ٹکرائی اور اس کے پرزے اڑ گئے، اکثر مسافر مجروح ہوئے اور بڑی مشکل سے ڈوبنے سے بچے۔
ایک تیسری مرتبہ ہماری کچہری کا سارا عملہ کشتی میں سوار ہو کر ابرڈین کوجا رہا تھاکہ عین وسط میں ایک سخت طوفان آیا کہ سب لوگ ناامید ہو گئےاور موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا سمجھنے لگے، بارش اور ہوا بھی بڑے زور سے تھی، نزدیک کوئی کنارہ تھا نہ فریاد رس، اندھیرا ایسا شدیدتھا کہ ہاتھ کو ہاتھ دکھائی نہیں دیتا تھا، اچانک کشتی کا مکان بھی ٹوٹ گیا اور کشتی پانی سے بھر گئی الغرض کوئی چارۂ کار ہی باقی نہ رہااور سب راستے مسدود ہو گئے تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس فریاد رس سے داد رسی کی جائے جو سب درماندہ لوگوں کے ٹوٹے ہوئے دلوں کا سہارا ہے، میں نے اپنے خدا سے لو لگائی، میں نے اپنے آقا کے دروازے پر دستک دینا شروع کردی، میں نے اپنے مولا کے سامنے دست سوال دراز کردیا، ابھی دعا ختم نہ کی تھی کہ اچانک ہمارے پاس ایک بڑی کشتی نمودار ہوئی، جس میں سردار بگھیل سنگھ سپرنٹنڈنٹ پولیس سوارتھے، انہوں نے ہمیں اس تباہ حال صورت میں دیکھ کر جھٹ پٹ اپنی کشتی میں لے لیااور اللہ کے فضل سے کشتی صحیح سلامت کنارے تک پہنچ گئی، اس واقعہ سے “أمن یجیب المضطر إذا دعاہ” کی ایسی تفسیر سمجھ میں آئی، جو آج تک کوئی واعظ، کوئی خطیب اور کوئی مفسّر نہ سمجھا سکا۔
جنوری ۱۸۶۸ء میں خاکسار کا جزیرۂ ہدد میں تبادلہ ہو گیا اور وہاں اسٹیشن محرر مقرر ہو گیا، ۲۰ فروری ۱۸۶۸ء کو روس میں مولانا یحیی علی صاحب راہئ فردوس ہوئے، میں ان سے بہت فاصلے پر جزیرۂ ہدو میں مقیم تھا، مجھے ان کی بیماری کی اطلاع بھی نہیں تھی، مگر تقدیر عین اس وقت مجھے روس لے گئی جب ان کا جنازہ بالکل تیار تھا اور نماز پڑھنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، ہمارے مقدمے کے کئی آدمی ان کی تجہیز و تکفین میں شریک ہو گئے تھے۔
میری بیوی مولانا یحیی علی صاحب سے مرید تھی اور ان سے بہت محبت رکھتی تھی، اسے ان کی وفات سےبہت زیادہ صدمہ پہنچا؛ چنانچہ مولانا مرحوم کی وفات کے سوادو مہینے بعد وہ نیک بخت بھی ۳۰ اپریل ۱۸۶۸ء کو راہئ فردوس ہو گئی، میرا ہندوستان سے قیدہوکر جانا گویا اس بی بی کے خاتمہ بخیر کی تمہید تھا۔
تجارت
اس بیوی کی وفات کے بعد میں نے سب زیور وغیرہ فروخت کرکے تین سو روپے دہلی میں اپنی بیوی کے پاس بھیج دیے؛ تاکہ وہ جوتے اور دیگر سامان خرید کے میرے پاس بھیج دے؛ کیونکہ ان دنوں پورٹ بلیر میں دہلی کا مال تگنے چوگنے دام میں فروخت ہوتا تھا، مگریہ مال زیادہ تر راستہ میں ضائع ہو گیا، دہلی سے روانہ ہونے کی تاریخ سے دو برس بعد گل سڑ کر تھوڑا سا مال ۱۸۷۰ء کو میرے پاس پہنچا، جس سے مجھے صرف ایک سو بچاس روپے وصول ہوئے اور ایک سو پچاس روپے کا خسارہ ہوا۔
اس یک صد و پچاس روپے کو بھی جب میں نے کلکتہ سے مال منگوانے کے لیے ایک دوست کے پاس بھیج دیا، تو بنگالی بابؤوں نے مخبری کرکے وہ ہنڈی پکڑوادی ؛ کیونکہ سرکاری ملازم ہونے کی حیثیت سے تجارت نہیں کر سکتا تھا، میں نے مال ایک سوداگر کے نام سے منگوایا تھا اور ہنڈی ایک ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کی طرف سے تھی، طلب مال کے لیے خط میری طرف سے لکھا ہوا تھا، خط بمعہ ہنڈی پکڑا گیااور چیف کمشنر کے پاس پیش ہوا اور یہ میری سزا کے لیے کافی تھا، مگر اللہ تعالی نے اپنے فضل سے مجھے اور ہنڈی دونوں کو بچا لیا، وہ سوداگر جس کے پاس ہنڈی بھیجی گئی تھی، رقم وصول کرکے کلکتہ سے فرار ہوگیا، الغرض اللہ تعالی کو یہ منظور نہ تھا کہ میں تجارت کروں، لہذا اس کے بعد کبھی تجارت کا ارادہ نہ کیا۔
بیوی کا انتقال
اس بیوی کی وفات کے بعد دو برس تک مجرد رہا، جزیرہ ہدو جہاں میری ملازمت اور قیام تھا، عورتوں سے بھرا ہوا تھا، بہت سی عورتوں نے مجھے شکار بھی کرنا چاہا، مگر حفاظت غیبی شامل حال رہی اور اللہ تعالی نے مجھے ہلاک نہ ہونے دیا، گو اپنے عہدہ کی وجہ سے رات دن مجھے ان فاحشوں سے ملنا پڑتا تھا اور طرح طرح کے سرکاری کام لینے پڑتے تھے کہ وہ اکثر میرے گھر بھی آتی جاتی تھیں اور مجھے شکار کرنے کی کوشش بھی کرتی تھیں لیکن جسے خدا رکھے اسے کون چکھےّ؟
میں نے یہ کیفیت دیکھی تو اپنی بیوی کو پانی پت سے پھر بلانا چاہا، لیکن وہ راضی نہ ہوئی اور جب اس نے اپنی رضا کا اظہار کیا تو حاکم وقت نے میری درخواست نامنظور کردی، اس لیے میں نے مجبوراً کسی نیک عورت سے شادی کرنے کا ارداہ کر لیا، اور بارگاہِ الٰہی میں التجا کی کہ اے اللہ جیسے تجھے پسند ہو، پردۂ غیب سے اس کا انتظام فرمادے اور کسی نیک بخت سے میرا سنجوگ کرادے، ابتداء میں تو بعض دوستوں کے مشورہ سے یکے بعد دیگرے دو پنجابی مسلمان عورتوں سے میرے نکاح کی بات چیت شروع ہوئی، مگر طرفین کی رضا مندی اور کسی ظاہری مانع نہ ہونے کے باوجود بات خود بخود موقوف ہو گئی، اس وقت تو معلوم نہ ہو سکا کہ یہ بیل کیوں نہ منڈھے چڑھ سکی؟ لیکن بعد میں جب دوسرے دو آدمیوں سے ان کی شادی ہوئی تومعلوم ہوا کہ وہ صحیح کردار کی مالک نہ تھیں، میں اس حفاظت غیبی پر شکر الٰہی بجا لایا۔
دوسری شادی
ضلع الموڑہ کی برہمن قوم سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو عورت ان دنوں نئی نئی قید ہو کر کالاپانی آئی اور ہدو میں عورتوں کی بارک میں اسے رکھا گیا، وہ نہایت خوش چلن اور حیادارعورت تھی، مگر ہندو دھرم میں نہایت متعصب، کسی مسلمان عورت کے نزدیک کھڑا ہونا یا اس کے کپڑوں کو چھونا بھی اسے گوارا نہ تھا، بارک کی مسلمان عورتیں تو اس کے تعصب کی وجہ سے تنگ آگئ تھیں۔
میں نے ایک دن بر سبیل تذکرہ اس سے کہا کہ اگر تو مسلمان ہو جائے تو دنیا وآخرت دونوں میں تیرے لیے یہ بہتر ہوگا اور دوزخ کی آگ سے بھی تجھے نجات مل جائے گی، میری بات سن کر اس نے نہایت حیرت کا اظہار کیا، لیکن اسے کیا خبر تھی کہ روز اوّل سے میرے بچوں کی والدہ ہونا، اس کے مقدر ہو چکا تھا، شاید یہی وجہ تھی کہ باوجودیکہ وہ کوہستان کے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہوئی، جہاں اب بھی مسلمانوں کا نام ونشان نہیں، لیکن وہ ہمیشہ شرک اور بت پرستی سے بیزار رہی، گو اسے بھی اس بیزاری کا سبب معلوم نہ تھا، اس کی وضع قطع اور عادات و اطوار کو دیکھ کر ایک جوتشی برہمن نے اس کی والدہ کو یہ کہہ دیا تھا کہ یہ لڑکی تم سے جلدی جدا ہو جائےگی۔
اپریل ۱۸۶۸ء میں جب میری کشمیری بیوی فوت ہوئی، انہی ایام کا تذکرہ ہے کہ اس برہمن عورت پر ایک ناگہانی مقدمہ ہو گیا، جس کے باعث یہ گرفتار ہو گئی، اس اجمال کی مختصر سی تفصیل یہ ہے کہ ایک لڑکی میری اس ہونے والی بیوی کے ساتھ ایک بےآباد کنوئیں کے قریب کھیل رہی تھی، اتفاق سے اس لڑکی کا پاؤں پھسلا اور وہ کنوئیں میں گر کر سخت مجروح ہو گئی، اگرچہ اس میں میری بیوی کا قطعاً کوئی قصور نہیں تھا، لیکن ان دونوں لڑکیوں کے والدین کے درمیان سخت عداوت تھی، لہذا انہوں نے اسی دیرینہ عداوت کی بناء پر اس بے گناہ پر اقدام قتل کا کیس کر دیا، قانونی طور پر یہ مقدمہ اگرچہ اس لائق تو نہ تھا کہ اسے حبسِ دوام کی سزا دی جائے، مگر اس حکیم و قدیر کو اسے میری بیوی بنانا منظورتھا، لہذا اسے اس جرم کی پاداش میں پورٹ بلیر پہنچا دیا۔
گرفتاری کی پہلی شب ہی تھی کہ اس نے بوقتِ سحر خواب میں ایک نورانی چہرہ بزرگ مسلمان کو دیکھا، جس نے اسے ٹھوکر مار کر کہا: “اٹھو نماز پڑھواور دعا کرو، تمھارے لیے قید ہونا بہتر ہے”۔ اس نے ایسی صورت کا کبھی کوئی انسان دیکھا تھا اور نہ نماز و دعا کے الفاظ سے آشنا تھی، گھبراکر بیدار ہوگئی، محافظین میں سے ایک مسلمان سپاہی سے خواب بیان کرکے تعبیر پوچھی تو اس نے کہا کہ تو اس قید میں ضرور مسلمان ہو جائےگی۔
اس وقت یہ تعبیر اس کی طبع نازک پر نہایت گراں گذری اور اسے بالکل غیر ممکن معلوم ہوئی، مگر قبولیت ازلی اور تعبیر رؤیائے حقہ کی بنا پر اس نے میری پیشکش کو قبول کر لیا اور مسلمان ہو کر میرے ساتھ شادی کرنے پر آمادہ ہوگئی۔
اتفاق سے انھیں دنوں رمضان المبارک جلوہ فگن ہو گیا، رمضان کی 27 تاریخ کو میں نے بڑے دھوم دھام سے ایک تقریب کا اہتمام کیا اور اسے مسلمان بنا لیا، جب اس نے ارکان اسلام اور نماز وغیرہ کے مسائل کو بخوبی سیکھ لیا تو میں نے حاکم وقت کو مطلع کرکے ۱۵ اپریل ۱۸۷۰ء کو اس سے شادی کر لی، صدہا آدمیوں نے اس تقریب سعید میں شرکت کی اور خوبی قسمت کی بات یہ کہ حضرت مولانا احمد اللہ صاحب نے خطبہ نکاح پڑھا تھا، دوسرے دن بڑی شان و شوکت سے دعوت ولیمہ کا انتظام کیا گیا، جس میں بہت سے احباب نے شرکت فرمائی۔
اس بیوی کے بطنِ اطہر سے اللہ تعالی نے مجھے دس بچے عطا فرمائے، جن میں سے آٹھ بچے اس وقت تک بقید حیات ہیں، یہ بیوی پورٹ بلیر سے میرے ساتھ ہندوستان بھی واپس آئی، اس نے گذشتہ بائیس برس نہایت حسن رفاقت، اطاعت اور عصمت کے ساتھ بسر کیے ہیں اور توحید و توکل میں بھی یہ بیوی لاثانی ہے۔
چند خطوط
پورٹ بلیر پہنچ کر میں حاجی محمد شفیع صاحب انبالوی کو وقتاً فوقتاً چند خطوط بھی لکھے، جن میں آرام و آسائش کے ساتھ زندگی بسر کرنے، شادی اور ملازمت کا ذکر کیا تھا، کچھ خطوط ان لوگوں کو بھی بھیجے جو بے قصور مسلمانوں کو پھنسا کر نیم رہائی کی شکل میں ذلّت کی زندگی بسر کر رہے تھے، انھیں حسرت میں مبتلا کرنے کے لیے میں نے اپنی راحت اور تائید الٰہی کا مبالغہ آمیز الفاظ میں ذکر کیا، لیکن ان میں سے کسی خط کا بھی جواب نہ آیا۔
اسی اثنا میں مجھے معلوم ہوا کہ کسی نے سرکار کی خیر خواہی کے لیے وہ خطوط گورنمنٹ ہند کو پہنچادیے اور ان پر خوب بحث ہوئی، حتّی کہ سپرنٹنڈنٹ پورٹ بلیر سے بھی صحیح کیفیت کے متعلق استفسار کیا گیا، اگر اللہ کا فضل شامل حال نہ ہوتا، حکام پورٹ بلیر میرے لیے بطور وکیل نہ جھگڑتے اور مراعات کا سلب کر لینا پورٹ بلیر کے قاعدۂ عام کے خلاف نہ ہوتا تو میرے لیے سخت مشقّت کا حکم ہو جانا کچھ بعید نہ تھا، یہ اللہ کا خاص فضل ہی تو تھا، یہ اس کی طرف سے تائید غیبی ہی تو تھی کہ جان لارنس بہادر گورنر جنرل مجھ جیسے غریب قیدی سے سخت مشقت لینے کا متمنی ہو اور مجھے سزا بھی سخت مشقت تا حیات کی مل چکی ہو، لیکن اللہ تعالی ایسے سخت جھمیلوں کے باوجود مجھے سخت مشقت سے بچا لے۔
اللہ کی طرف سے ایک فضل یہ بھی تھا کہ جب ہم پورٹ بلیر پہنچے تو اس وقت یہاں کے سب حاکم مدراس کے تھے، وہ ۱۸۵۷ء کے معرکہ اور وہابیوں کی بغاوت سے واقف نہ تھے، اس لیے ان کے دل صاف اور سینے خالی از تعصب تھے، انہوں نے میرے ساتھ نہایت حسن سلوک کا مظاہرہ کیا؛ بلکہ ہماری خوش چلنی، خوش اخلاقی اور عمدہ کارگزاری کے باعث ۱۸۵۷ء کے دیگر قیدیوں کی نسبت زیادہ مراعات سے نوازا۔
جب پہلی مرتبہ داکٹر ہنٹر نے مرچ نمک لگا کر ہمارے مقدمہ کو رسی سے سانپ اور رائی سے پہاڑ بناکر پیش کیا اور لکھ دیا کہ وہابی اور باغی کے ایک ہی معنی ہیں اور بنگال کور کے صاحب لوگ اس جزیرہ میں آنے لگے تو ہم آلام و مصائب کا تختۂ مشق بن گئے، راہ چلتے ہماری طرف اشارے کیے جاتے اور وہ ہمیشہ اس گھا ت میں رہتےکہ انھیں کب کوئی موقع ملے کہ قانونی حیلہ کی آڑ میں ایذا رسانی کے درپے ہوجائیں، لیکن جب خدا تعالی جیسے محافظ حقیقی کی حفاظت نصیب ہو تو کون ہے جو تکلیف پہنچا سکے؟ میں نے بارہا خدا کی نصرت کا مشاہدہ کیا کہ جب کوئی در پے تکلیف ہوا تو محافظ حقیقی نے مدد اور اعانت کا ایسا سامان کر دیا کہ دشمن منہ تکتے رہ گئے۔
ایک جھوٹا مقدمہ
سپرنٹنڈنٹ کرنیل مین کے عہد میں ایک بڑے یورپین افسر کی تحریک سے میرے خلاف اعانت تصرف بے جا کا جھوٹا مقدمہ کر دیا گیا، جس کی وجہ سے کرنیل مین جیسا بے تعصب حاکم بھی مجھ سے برافروختہ ہوگیا اور اس نے مجھے بذریعۂ سمن فوراً عدالت میں طلب کر لیا، اس وقت بہت سے دوستوں نے مشورہ دیا کہ جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنا جائز ہے، لہذا تم لا علمی کا اظہار کر کے اپنی جان بچا لو، میں نے دوستوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا: “کچھ بھی ہو میں تو سچ بولوں گا”۔
جب مقدمہ پیش ہوا تو سب سے پہلے مجھے طلب کیا گیا اور کرنیل صاحب نے میرے بیانات قلمبند کرنا شروع کر دیے، میں نے صحیح طور پر حرف بہ حرف بیان کر دیا کہ میرے سامنے مسٹر ہیوڈ اوورسیر مدعا علیہ نے مسمّی حمید خاں جمعدار مدعی کی جائیداد جہاں جہاں پائی، بطور خود ضبط کر کے نیلام اور فروخت کردی اور اس کا زر ثمن خود کھا گیا، میں محرر اسٹیشن ہونے کی وجہ سے اس کے ہمراہ ضرور تھا۔ میرا بیان اس قدر ہوا ہی تھا کہ مسٹر ہیوڈ سے تمام رقم حمید خاں مدّعی کو دلا دی گئی، اور ہیوڈ کو جو کہ چھ سو روپیہ ماہوار کا اوورسیر تھا، ملازمت سے بر طرف کرکے ان جزائر سے بدر کر دیا گیا، میں اپنے سچ کی برکت سے صاف بری ہو کر گھر چلا آیا۔
ان ہی ایام یعنی جنوری ۱۸۶۹ء میں لیفٹیننٹ پراتھرو جو اس وقت کرنیل اور قائم مقام چیف کمشنر پورٹ بلیر ہیں، کالے پانی میں اسسٹنٹ ہو کر آئے تھے۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر جھگڑا
اپریل ۱۸۷۹ء میں جب عید الاضحی آئی تو ہم نے ایک بیل خریدا او دستور کے مطابق قربانی کا ارادہ کیا، مگر قربانی کے وقت بلوہ کرکے ہندؤوں نے ہم سے بیل چھین لینا چاہا، مگر ہمارے ساتھیوں نے ان کے حملہ کو غیر واجبی قرار دیتے ہوئے بیل دینے سے انکار کر دیا، ہندو حسب عادت بڑے جوش و خروش میں تھے، ہم نے عین اس وقت بیل کو قربان کردیا، سب ہندو بیل کی قربانی کے ساتھ ہماری قربانی کرنے کے لیے ہمارے سروں پر مسلّح ہو کر کھڑے تھے، ہم مسلمان صرف چار پانچ تھے ؛جبکہ ہندو دوسو سے بھی زیادہ تھے، اتنی قلیل جماعت کے لیے یہی قرین مصلحت تھا کہ وہ اتنی کثیر اور پرجوش جماعت کا مقابلہ نہ کریں، مگر مذہبی جوش اور ادائے فرض نے ہمیں بھی مجبور کردیا تھا، جب ہندؤوں کے سامنے بیل ذبح ہوا اور اس کی گردن سے خون کے فوارے بہ نکلے تو انہوں نے بڑا بلوہ کیا اور شور و شغب کے ساتھ آسمان کو سر پر اٹھا لیا، ممکن تھا کہ دس بیس لاشے خاک و خون میں تڑپ جاتے، مگر پولیس اور اوورسیر کے جلد پہنچ جانے کے باعث کشت وخون کی نوبت نہ پہنچی۔
ہندوؤں کی سازشیں
مقدمہ کچہری میں چلنے لگا، ہندو بڑے مالدار، صاحب اقتدار اور حکام کے منہ چڑھے ہوئے تھے،لیکن پراتھرو صاحب کی کوشش اور امداد سے ہم لوگ بچ گئے ؛ میرے میرے خیالات اور سمجھ بوجھ کی کیفیت جو اب ہے، اگر اس وقت بھی یہی ہوتی تو میں بیل کے بجاے بکرے کی قربانی کو ترجیح دیتا اور صدہا آدمیوں کے دلوں کو نہ دکھاتا ؎
مباش در پے آزار و ہرچہ خواہی کن
کہ در شریعت ما غیر ازیں گناہے نیست
قربانی کے اس واقعہ کے بعد پورٹ بلیر کے سب ہندو آپس میں متفق ہوگئے کہ خواہ ہزاروں روپیہ خرچ ہو جائے ہم محمد جعفر کو سخت سزا دلا کر چھوڑیں گے، انہوں نے ساز باز کرکے مونگا لال محرر کو جو میرے ماتحت تھا، اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اسٹیشن کے حساب میں تغیرو تبدّل کرکے میرے خلاف چوری اور غبن کا دعوی دائر کردے؛ چنانچہ اس نے نیلام کے ایک حساب میں جو میری معرفت ہوا تھا، کمی بیشی کرکے سو روپیہ کا غبن میرے ذمہ لگا دیا، فارسی اور انگریزی دونوں حسابوں سے ان رقوم کی تصدیق کراکے بہت سے گواہ بھی بنا لیے، اگرچہ ضلع دار کو اس کی خفیہ رپورٹ ہو گئی تھی، مگر ابھی تک مجھے اس کارروائی کا قطعاً علم نہ تھا۔
آخر کار ایک دن اوورسیر نے میرے گھر اچانک چھاپا مارا اور سرکاری حساب کتاب سے متعلق تمام کتابیں اپنی گرفت میں لے لیں، میں نے سمجھا شاید میرے قتل کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں، جب مجھے صحیح صورت حال کا علم ہوا اور پتہ چلا کہ دوسرے دن اس کیس کی تحقیق بھی ہو رہی ہے، تو میں نے کسی نہ کسی طرح اپنی زیرِ حراست کتابوں کو ایک گھنٹہ کے لیے حاصل کرکے اور اس ایک گھنٹہ میں جعل سازی کی اس کارروائی کو ملیامیٹ کرکے جو ایک مہینہ میں تیار ہوئی تھی، اپنا حساب ٹھیک کردیا۔
دوسرے دن جزائر انڈمان کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پراتھرو صاحب کے زیر صدارت اجلاس میں تحقیقات شروع ہوئی، جب مدعیوں کی نشاندہی کے مطابق کتابوں میں حساب دیکھا گیا، تو وہ بالکل درست نکلا اور اس میں سر مو فرق نہ تھا، پراتھرو صاحب چونکہ چند روز پہلے قربانی کےمقدمہ میں ہمیں بری کر چکے تھے، اس لیے انہوں نے فوراً کہ دیا کہ یہ مقدمہ اس قربانی والے مقدمہ کے باعث محض عداوت اور دروغ گوئی پر مبنی ہے، اس نے مونگا لال کو چھ ماہ کی سخت قید اور ایک ہندو ریٹر کو ایک درجن کوڑوں کی سزادی اور مجھے بری کردیا۔
ہندو غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے، انہوں نے کورٹ میں کھڑے کھڑے مجھ پر ایک دوسرا الزام چوری کا بھی لگا دیا، تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ مونگالال نے سزا پانے کے بعد ہاتھ باندھ کر پراتھرو صاحب سے عرض کیا: “حضور کچھ میری عرض ہے”۔ صاحب نے کہا: “کہو! کیا ہے؟” اس نے کہا کہ حضور نے محمد جعفر کو بازار بنوانے کے لیے لکڑی کے جو سرخ تختے دیے تھے، اس نے انھیں اپنے گھر میں استعمال کر لیا ہےاور ان سے گھر کے دروازے، تخت پوش اور صندوق بنوالیے ہیں، اگر حضور اسی وقت تکلیف گوارا فرمائیں تو میں وہ سب چیزیں محمد جعفر کے گھر سے پکڑوا سکتا ہوں۔
مونگا جب یہ بیان دے رہا تھا تو میں سر جھکائے خداوند تعالی سے دعا کر رہا تھا کہ اس آفت سے بچانا بھی تیرا ہی کام ہے، وہ سب چیزیں مرے گھر میں موجود تھیں اور اگر حاکم مجھ سے پوچھتا تو اثبات میں سر ہلانے کے سوا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا، مگر اس مقلب القلوب کی قدرت کاملہ کرشمہ سازی بغور سننے کے قابل ہے کہ مونگا کے جواب میں پراتھرو نے کہا کہ وہ تختہ تو ہم نے اسے دیا ہے، تمھیں مخبری کرنے کا کیا حق ہے، نکل جاؤ کمبخت میری عدالت سے اور مجھ سے فرمایا کہ تم گھر جاؤ اور آئندہ کے لیے ہوشیار رہو!
۱۸۶۹ء کا ذکر ہے کہ میرے گھر میں ہدو اسٹیشن کے قیدیوں کی تنخواہ کا مبلغ پانچ سو روپیہ موجود تھا، ایک رات گھر کی کھڑکی توڑ کر ایک چور اندر گھس آیا، میرے پلنگ کے نیچے جلتی ہوئی بتی کو اس نے گل کر دیا، رقم ایک چھوٹے سے صندوقچہ میں تھی جو کہ میری پائینتی کے پاس رکھا ہوا تھا، میں گہری نیند سو رہا تھا، میرا نوکر مراد بھی ایک دوسری کوٹھڑی میں سو رہا تھا، الغرض چور کے راستہ میں کوئی چیز بھی مانع نہ تھی، وہ مال سمیٹ کر جانے کے لیے پر تول رہا تھاکہ اچانک میری آنکھ کھل گئی، میں نے اندھیرا دیکھ کر اور کچھ آہٹ پاکر اپنے خادم مراد کو آوازیں دینا شروع کر دیا، چور خالی ہاتھ اور نامراد ہو کر فوراً بھاگ گیا اور اللہ رب العزت نے میری عزت رکھ لی، اگرسرکاری روپیہ چوری ہو جاتا تو اس میں بظاہر سخت خرابی اور بربادی تھی۔
مارچ ۱۸۷۰ءمیں میں نے ایک صد پچاس روپے کی ایک ہنڈی مسڑاسٹراپ اکسٹرااسسٹنٹ کمشنر کے طرف سے منشی غلام نبی کے نام کلکتہ بھیجی تھی، جس کے ذریعے میں اپنی شادی کے لیے بعض ضروری سامان منگوانا چاہتا تھا اور مال بھی ایک دوسرے تاجر کے نام سے منگوانا تجویز کیا تھا؛ کیونکہ میں سرکاری ملازم تھا، مجھے ہنڈی بھیجنے کا اختیار تھا، نہ مال منگوانے کا، یہ سب ناجائز کارروائی مخفی طور پر کی جا رہی تھی۔
جب میں نے خط مع ہنڈی ڈاک میں ڈالا تو میرے دشمن ہندؤوں کوبھی کسی ذریعہ سے اس کی خبر ہو گئی، انہوں نے کرنیل مین چیف کمشنرکو مخبری کرکے اس خط اور ہنڈی کو پکڑوا دیا اور ان کا منصوبہ یہ تھا کہ زرِ ہنڈی کی ضبطی کے علاوہ مجھےسزا بھی دلائی جائے، مجھے جب خط اور ہنڈی کے پکڑے جانے کا علم ہوا تو میں نے فوراً اپنے خدا کے دروازے پر دستک دی اور عرض کیا کہ اے اللہ! اس مشکل سے نجات بھی تو ہی دے سکتا ہے، دعا کے بعد پراتھرو صاحب کے پاس جا کر میں نے سارا حال کہ سنایا اور کہا کہ یہ بھی درحقیقت اسی قربانی والے واقعہ کی وجہ سے عداوت کا نتیجہ ہے، پراتھرو نے کہا: فکر نہ کرو میں کرنیل مین سے ملاقات کرکے صورت حال دریافت کروں گا، الغرض پراتھرو صاحب کرنیل مین کی کوٹھی پر گئےاور ان سے ملاقات کرکے میری ہنڈی اور خط دونوں واپس لے آئے اور مجھے دے دیے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ہندو تمھارے دشمن ہیں، تم ہوشیار اور چوکنّا رہا کرو۔
مولانا محمد حسن انڈمان میں
اگست ۱۸۷۰ء میں میرا جزیرۂ ہدو سے روس تبادلہ ہو گیا، مئی ۱۸۷۱ء کو جب میں جزیرۂ روس میں تھا، مولانا محمد حسن صاحب ہماری ملاقات کے لیے پٹنہ سے پورٹ بلییر آئے اور ایک مہینہ رہ کر واپس وطن تشریف لے گئے۔
ایک دن جب مولانا بڑے ذوق و شوق سے کشتی میں سوار ہو کر مولانا احمد اللہ صاحب کی ملاقات کے لیے روس سے ویپر جا رہے تھے، تو راستہ میں کشتی طوفانِ بادو باراں میں پھنس گئی، قریب تھا کہ گرداب میں ڈگمگاتے ہوئے ڈوب جائے، مولانا کو کشتی کے ڈوبنے کی بجاے زیادہ افسوس یہ تھا کہ مولانا احمد اللہ صاحب کی زیارت نصیب نہ ہو سکے گی، لیکن یہ فقط آزمائش تھی، چند جھونکوں کے بعد طوفان تھم گیااور مولانا بخیریت ویپر پہنچ گئے اور مولانا احمد اللہ صاحب سے شرفِ ملاقات حاصل کیا۔
ہماری گرفتاری کے بعد انگریزوں نے مولانا محمد حسن کو بھی پھنسا کر کالے پانی بھیجنا چاہا تھا، مگر اللہ کے فضل سے وہ محفوظ رہے، لیکن اللہ تعالی نے انھیں اس طرح بھی کالے پانی بھیج کر اور مصائب بحری میں مبتلا کرکے اسیران کالا پانی کے اجرو ثواب میں شریک کردیا۔
مارچ ۱۸۷۱ء میں چیف کمشنر کرنیل میں ریٹائرڈ ہو گئے اور وہ پنشن پا کر ولایت چلے گئے، اکتوبر ۱۸۷۱ء میں جنرل اسٹوارٹ (جو آخر میں ہندوستان کے جنگی لاٹ بھی ہو گئے تھے) چیف کمشنر بن کر انڈمان آئے، اسی کے عہد میں لارڈ میو صاحب بہادر کے حکم سے پورٹ بلیر کے قیدیوں کے لیے بھنڈار کا کھانا مقرر ہوا اور لارڈ میو کا بنایا ہوا وہ قانون بھی جاری ہوا، جس کے باعث پورٹ بلیر کی قید ہندوستان اور ولایت کے جیل خانوں سے بھی زیادہ سخت ہو گئی۔
لارڈ میو انڈمان میں
اسی سپرنٹنڈنٹ کے عہد میں ۸ فروری ۱۸۷۲ء کو ہندوستان کے گورنرجنرل لارڈ میو قتل کیے گئے، اس کی مختصر سی تفصیل یہ کہ ۸ فروری ۱۸۷۲ء کو لارڈ میو سات بجے کے بعد چار اگنبوٹوں میں جزیرۂ انڈمان آئے، لارڈ صاحب کے ساتھ صدہا یورپین مرد عورتیں تھیں، جو ان جزائر کی سیر و سیاحت کے لیے آئی تھیں، ۸ بجے کے بعد گورنر صاحب اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ پورٹ بلیر کے صدر مقام جزیرۂ روس کی طرف چل پڑے، جب روس پہنچے تو انھیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی، جب سلامی دی جا رہی تھی تو جزیرہ کے گھاٹ پر ہزاروں مرد عورتیں آزاد اور قیدی اس منظر کو دیکھنے کے لیے موجود تھے، لارڈ صاحب ٹاپو سے اترنے کے فوراً بعد روس کے بازار آئی لینڈ کی طرف متوجہ ہو گئے، اور بازار، اسکول، ہسپتال، قیدیوں کی بارکیں اور جنگی پلٹن کی بارکیں دیکھنے کے بعد انڈمان کے چیف کمشنر کے بنگلہ پر چلے گئے، وہاں کھانے پینے اور تھوڑا سا آرام کے بعد گورا بارک دیکھنے کے لیے چلے گئے، پھر اپنے اگنبوٹ کو دیکھتے ہوئے ویپر چلے گئے، جہاں بدمعاش قیدیوں کو رکھا جاتا ہے، ویپر کے ملاحظہ کے بعد جزیرۂ چاٹم میں چلے گئے۔
جزیرۂ چاٹم، روس اور ویپرکے درمیان مونٹ ہریٹ کے قریب واقع ہے، یہاں ایک دخانی آرا گھر بھی ہے، لارڈ صاحب نےیہاں سرخ لکڑی کے ایک تختہ کو بہت پسند کیا، چاٹم کی سیر کرتے ہوئے لاٹ صاحب کے دل میں آیا کہ مونٹ ہریٹ کو بھی ملاحظہ کرنا چاہئے، وقت نا مناسب ہونے کی وجہ سے پرائیویٹ سکریٹری اور چیف کمشنر نے بڑے اصرار سے کہا کہ آج مونٹ ہریٹ نہیں جانا چاہئے، لیکن لاٹ صاحب نہ مانے؛ بلاکہ صحیح الفاظ میں یوں کہنا چاہئےکہ موت نے انھیں نہ ماننےدیا۔
لارڈ میو کا قتل
چاٹم سے سوار ہوکر جب ہوپ ٹون پہنچے، جو کوہ ہریٹ کے زیریں علاقے میں آباد ہے، تو وہاں شیر علی ایک آفریدی قیدی چھری لیے ہوئے مدّت دراز سے اس انتظار میں کھڑا تھا کہ کب یہاں سے کسی افسر کا گذر ہواور وہ اسے چھری کا نشانہ بناکر آتش انتقام کو سرد کرے، جب لارڈ صاحب کی کشتی ہوپ ٹون پہنچی تو وہ بھی اپنی چھری چھپائے ہوئے ان کے ہمراہ ہو گیا، راستہ میں اس کا کوئی داؤ نہ چلا اور لارڈ صاحب خیریت کے ساتھ پہاڑ پر پہنچ گئے، غروب آفتاب کا وقت قریب تھا، لارڈ میو صاحب نے وہاں بیٹھ کر سمندر میں غروب آفتاب کا نظارہ دیکھا اور کہا کہ ایسا خوبصورت منظر میں نے زندگی بھر نہیں دیکھا تھا، جب کافی اندھیرا چھا گیا تو مشعلوں کی روشنی میں نیچے اترنے لگے، اس وقت چاروں طرف پولس کا مسلّح پہرا تھا، چیف کمشنر، پرائیوٹ سکریٹری بدن سے بدن ملائے ہوئے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، علاوہ ازیں دوسرے بیسیوں افسر بھی ان کے آگے پیچھے چل رہے تھے، اور لارڈ صاحب خیریت سے ہوپ ٹون کے گھاٹ تک پہنچ گئے، جب گھاٹ کے قریب کھڑی ہوئی گاڑی کے نزدیک پہنچے، تو چیف کمشنر اجازت لے کر کسی ضرورت کی وجہ سے پیچھے چلے گئے، لارڈ صاحب اور پرائیوٹ سیکریٹری خراماں خراماں جا رہے تھے، جب گاڑی کے قریب پہنچے تو شیر کی طرح کود کر اس نے لارڈ صاحب کو چھری سے دو ایسے کاری ضرب لگائے کہ وہ لڑکھڑا کر سمندر میں جا گرے، اس گڑبڑ میں تمام مشعلیں بھی گل ہو گئیں، لیکن ایک دوسرے قیدی نے جرات سے کام لیتے ہو قاتل کو پکڑ لیا، ورنہ وہ شاید دو چار اور کو بھی زخمی کرتا، لارڈ صاحب کو سمندر سے نکال اسی گاڑی پر لیٹا دیا گیا، مشکل سے ایک دو باتیں ہی کرنے پائے تھے راہئ ملک عدم ہو گئے۔
شیر علی تختہ دار پر
قاتل سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ اقدام کیوں کیا؟ اس نے جواب دیا : “خدا کے حکم سے” پھر پوچھا گیا: “کیا تمھارا کوئی اوربھی شریک ہے؟” “خدا میرا شریک ہے”، اس کا جواب تھا۔ تحقیقات کے بعد بنگال ہائی کورٹ کے فیصلہ کے مطابق قاتل کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔
قاتل شیر علی ضلع پشاور کا افغان تھا، اس نے بتایا کہ ۱۸۶۹ء سے میرا ارادہ تھا کہ کسی بڑے انگریز افسر کو ماروں گا، اسی مقصد کے پیش نظر میں نے کئی سال سے یہ چھرا تیار کر رکھا تھا، ۸؍فروری ۱۸۷۲ء کو جب لارڈ صاحب آئے اور انھیں توپوں کی سلامی دی گئی تو میں نے چھرے کو دوبارہ تیز کیا اور سارا دن تاک میں رہا کہ کب اس ٹاپو میں پہنچوں، جس میں لارڈ صاحب مجھے ملیں، مگر مجھے رخصت نہ ملی، شام کے وقت جب میں مایوس ہو گیا تو تقدیر لارڈ صاحب کو میرے گھر لے آئی، پہاڑ پر بھی لارڈ صاحب کے ساتھ گیا تھا اور ساتھ ہی واپس آیا، لیکن کہیں موقع میسر نہ آسکا، پھر میں گاڑی کی آڑ میں آکر چھپ گیا، اور یہاں میری دلی مراد پوری ہو گئی۔
یہ شخص گو ضعیف الجثہ، پست قد اور بد صورت تھا، لیکن بڑا شہ زور اور دلیر تھا، تختۂ دار پر لٹکتے وقت بالکل ہراساں نہ تھا؛ بلکہ بآواز بلند قیدیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا: “بھائیو! میں نے تمھارے دشمن کو مار دیا ہے، تم گواہ رہو کہ میں مسلمان ہوں”، پھر وہ کلمہ پڑھنے لگا اور کلمہ پڑھتے پڑھتے ہی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
اس ادنی درجہ کے قیدی کے ہاتھوں لارڈ صاحب کا قتل قدرت الٰہی کا ایک نمونہ تھا، ورنہ کہاں گنگو تیلی اور کہاں راجہ بھوج، جب پیام اجل آپہنچا تو یہ صدہا محافظ، مسلح پولیس اور حفاظت کا دیگر ان گنت سامان کچھ کام نہ آیا، وہ جو چاہتا ہےسو کرتا ہے، اس کی قدرت میں کسی کو دخل نہیں۔
اس واقعہ سے ایک ماہ قبل ایک اور پشاوری افغان نے چیف جسٹس نارمن کو اسی طرح کلکتہ میں چھرے سے قتل کردیا تھا، اب چاہیے تو یہ تھا کہ ان وحشت ناک اور عبرت انگیز واقعات کے بعد انگریز پٹھانوں کے دشمن ہو جاتے، لیکن میں نے دیکھا کہ صاحب لوگ پہلے کی نسبت انگریزوں کی دو چند خاطر داری کرنے لگ گئے اور پٹھانوں کے بجاے بد نصیب وہابیوں کو اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنانے لگ گئے، آہ! مارنے والے سے ہر کوئی ڈرتا ہے اور غریب پر ہر کوئی شیر ہو جاتا ہے۔
ایشری پرشاد کی سازش
اس سے زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے کہ لارڈ صاحب کے اس قتل کے بعد ملپٹ صاحب کمشنر پولیس کلکتہ اور لالہ ایشری پرشاد ہمارے پرانے دوست جو ہم پر الزام لگا کر سارجنٹ سے ڈپٹی کلکٹر ہو گئے تھے، اور چند نامی گرامی پولیس افسر ہندوستان سے یہ عزم لے کر پورٹ بلیر پہنچے کہ ہم اس مقدمہ میں وہابیوں کو ضرور پھنسا دیں گے، لیکن اللہ کے فضل سے اس وقت پورٹ بلیر میں جنرل اسٹوارٹ اور پراتھرو ایسے ہوشیار اور بیدار مغز افسر موجود تھے، جو ہمارے حالات، چال چلن، اس قتل کی کیفیت اور قاتل کے حالات سے بخوبی واقف تھے، اس وجہ سے اس مرتبہ ایشری پرشاد کو ناکام واپس لوٹنا پڑا، ورنہ اس نے آتے ہی جھوٹے گواہ بنانا شروع کر دیے، جنرل اسٹوارٹ کو جب معلوم ہوا تو اس نے کہا: ہم ان وہابیوں سے بخوبی واقف ہیں، لہذا جھوٹی شہادتوں پر مبنی ایسی ناجائز کارروائی اپنے علاقے میں ہم ہرگز ہرگز نہ ہونے دیں گے، اللہ رب العزت نے ہمیں اس ناگہانی آفت سے محفوظ رکھا اور اصل مجرم ہی سزا یاب ہوا۔
انگریزی زبان کی تعلیم
لارڈ میو کے قتل تک میں انگریزی زبان سے بخوبی واقف ہو چکا تھا، ۱۸۷۲ء میں ایک انگریزی خواں لام سروپ کی ترغیب سے میں نے انگریزی زبان سیکھنی شروع کر دی تھی اور ایک سال کی محنت ہی سے مجھے لکھنے، پڑھنے اور بولنے میں خوب مہارت ہو گئی تھی، فرصت کے لمحات میں لوگوں کو اردو، فارسی اور ناگری زبانیں سکھایا کرتا تھا، یہی وجہ تھی کہ ان سے کثرتِ اختلاط کے باعث میری انگریزی کی استعداد بہت بڑھ گئی، اس وقت وہاں کاتبوں کی قلت تھی، لہذا سرکاری ملازموں کو عرائض نویسی اور اپیل نویسی وغیرہ کی بھی ممانعت نہ تھی، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بھی عرضی و اپیل نویسی کا شغل جاری رکھا اور جب انگریزی میں لکھنے کی استعداد پیدا ہو گئی تھی، تب سے انگریزی میں لکھنا شروع کردیا تھا، اس سے علمی استعداد میں ترقی کے علاوہ ہزاروں روپے کا مادی فائدہ بھی ہوا؛ چنانچہ انگریزوں کی معلمی اور عرائض نویسی سے سو روپیہ ماہوار بخوبی کما لیتا تھا، کالاپانی میں میرے علاوہ اور کوئی مسلمان انگریزی خواں نہ تھا، اس لیے میں نے اس علم کی بدولت مسلمانوں کے بعض بڑے بڑے اہم مقدمات میں ان کی بہت مدد کی، بڑی بڑی آفتیں اور مصیبتیں دور کرائیں اور بہت نفع پہنچایا، جسے مدت مدید اور عرصۂ بعید تک فراموش نہ کیا جا سکے گا، میری انگریزی دانی کی وجہ سے جن کی پھانسی موقوف ہو گئی اور جان بچ گئی، وہ تو تازیست اس احسان کو نہ بھولیں گے، یہ بات بھی تعجب انگیز ہے کہ جس دن میری رہائی کا حکم پہنچ کر مشہور ہوا، اسی دن سے سرکاری ملازموں کے لیے عرائض نویسی کی قطعی طور پر ممانعت ہوگئی اور اب تو یہ کیفیت ہو گئی تھی کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بھول کر بھی عرضی لکھ دیتا تو اسے ملازمت سے فوراً برخاست کر دیا جاتا، معلوم ہوتاتھا کہ اللہ تعالی کی دیگر نوازشات کی طرح یہ اجازت بھی خاص میرے ہی لیے تھی۔
انگریزی سیکھ کر میں نے بڑے بڑے کتب خانوں کی سیر کی، ہر علم و ہنر کی صدہا کتابوں کا مطالعہ کیا، دنیا کی کوئی زبان ایسی نہ ہوگی، جس کی صرف و نحو انگریزوں نے نہ لکھی ہو، کوئی ملک ایسا نہ ہوگا، جس کی تاریخ تاریخ نہایت شرح و بسط کے ساتھ انگریزی میں نہ وہ، انگریزی زبان علوم و فنون کا سرچشمہ ہے، جو یہ زبان نہیں جانتا وہ حالات دنیا سے بخوبی واقف نہیں ہو سکتا، اس زبان کے سوا کمانے کے لیے آج کوئی آلۂ زر نہیں ہے۔
جس طرح یہ زبان دنیوی فوائد کے لیے نہایت مفید ہے، اسی طرح دین کے لیے مضر بلکہ سمّ قاتل ہے، کوئی جوان لڑکا جس نے پہلے قرآن و حدیث اور سلوکِ راہِ نبوت میں مہارت حاصل نہ کی ہو، وہ انگریزی زبان سیکھ کر مختلف علوم و فنون کا مطالعہ کرے تو پرلے درجہ کا بے حد آزاد، بے دین اور ملحد ہو جائے گا اور پھر اس کا سنورنا محال ہی نہیں ناممکن ہوگا۔
مغربی علوم کا ملحدانہ اثر
صرف انگریزی زبان کا سیکھنا مضر نہیں بلکہ ضرر رساں بات یہ ہے کہ علوم و فنون کی ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، جو انبیا کی تعلیم کے خلاف ہیں، خصوصاً جو لوگ اصول دین کی واقفیت نہیں رکھتے ان کے دل میں تو مغربی علوم و فنون کے مطالعہ سے تشکیک کے ایسے کانٹے پیدا ہو جاتے ہیں جو کبھی نہیں نکل سکتے، اس مرض یا دل کی موت کے باعث عبادت سے بھی بہت غافل ہوجاتے ہیں، گو ظاہری طور پر اسلام کے لاکھ دعوے کریں، لیکن درحقیقت وہ اسلام سے منہ موڑ چکے ہوتے ہیں، میرا اپنا حال کچھ اس طرح کا ہوگیا کہ میری نماز تہجد یک قلم چھوٹ گئی حالانکہ یہ بچپن سے میرا معمول تھا، رات کو معمول کے مطابق بیدار تو ہو جاتا، لیکن دو بجے سے فجر تک چارپائی پر بیٹھا رہتا، ہمت نہ پڑتی کہ وضوء کرکے نماز شروع کردوں، اسی طرح جمعہ اور باجماعت نماز ادا کرنے میں بھی غفلت کا شکار ہونے لگا، حتیّ کہ قرآن و حدیث کے پڑھنے اور سننے کا بھی وہ شوق نہ رہا جو کبھی تھا، رمضان المبارک میں بھی قرآن مجید کی تلاوت بہت گراں کزرنے لگی، ایک وقت تھا کہ ہاتھ اٹھا کر گھنٹوں دعائیں مانگا کرتا، مگر اب کیفیت یہ ہوگئی کہ چار کلمے بھی زبان سے نہ نکلتے تھے کہ ہاتھ خود بخود نیچے گر جاتے، فرض نماز پنجگانہ ادا تو کرتا تھا مگر یہ کام مجھے پہاڑ سے بھی زیادہ سخت معلو م ہوتا، قریب تھا کہ میں فرض نماز روزہ کو بھی جواب دے دوں، ان کے عبث ہونے اور ترک کر دینے کے دلائل بھی شیطان نے مجھے سکھانے شروع کر دیے تھے۔
قرآن مجید کے تین پارے مجھے حفظ تھے، ان میں سے آخری چند صورتیں یاد رہ گئیں، باقی سب بھول گیا، صدہا حدیثیں یاد تھیں، وہ بھی گویا دل سے کسی نے دھو ڈالیں، ان برے عقائد اور اعمال سے میرے دل پر زنگ لگنا شروع ہو گیا، حتی کہ میرا دل مریض ہو گیا اور پھر تو نوبت بایں جارسید کہ دل پر نزع کی کیفیت طاری ہوگئی اور قریب تھا کہ دل مردہ ہو جائے اور اس پر طرہ یہ کہ اس حالت میں شیطان میرے دل میں ایسی ایسی وجوہات منقش کرتا، جن کی وجہ سے میں اپنی اس حالت کو سب سے بہتر جانتا اور سمجھتا تھا کہ جنت میں جانے کے لیے صرف کلمہ طیبہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کافی ہےاور یہ سب تکالیف شرعیہ بے فائدہ ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ گاہے گاہے حق تعالی کی طرف سے شیطان کی ان سازشوں کے متعلق بھی مجھے القاء کیا جاتا، لیکن اس کے باوجود دل ملحدوں اور دہریوں کے دلائل کی طرف مائل ہوجاتا تھا، الغرض مجھ میں اور کفر میں صرف چند انگشت کا فرق باقی رہ گیا تھا، یہ کیفیت ایک دو دن نہیں؛ بلکہ عرصۂ دراز تک رہی، شاید سابقہ اعمال صالحہ کا اثر تھا کہ مجھے اپنی اس ہلاکت آفریں کیفیت کا احساس ضرور تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ احساس جب شدت اختیار کرجاتا تو میرے منہ سے بے اختیار دعائیں بھی نکلتی تھیں کہ “اے آنکھ والے! مجھ اندھے کا ہاتھ پکڑ”۔
آخر کار اللہ کی رحمت کادریا جوش میں آیا اور میری توبہ کے سامان فراہم ہو گئے، ہوا یہ کہ خاکسار دسمبر ۱۸۸۰ء میں ایک شدید دنبل کے عارضہ میں مبتلا ہوکر سخت بیمار پڑ گیا، جس کے باعث سب کھانا پینا چھوٹ گیا، ڈیڑھ مہینے تک اس دنبل سے سیروں پیپ جاری رہی، پانچ ہفتہ تک ہسپتال میں پڑا رہا، مرنے میں کوئی دقیقہ باقی نہ رہ گیا تھا دوست آشنا سب مایوس ہو گئے، اس حالت میں میں نے گڑگڑا کر اللہ کے دروازے پر دستک دی اور اپنی حالت سے منفعل ہوکر سچی توبہ کی اور عہد کیا کہ اس بیماری سے شفا پاتے ہی نماز تہجد شروع کردوں گا اور قرآن و حدیث کا مطالعہ بھی کیا کروں گا۔
مجھے اسی وقت سے قبولیت دعا کے آثار نظر آنے لگے، دل کی حالت پلٹ گئی اور اللہ کی رحمت کا دریا ٹھاٹھیں مارتا ہوا نظر آنے لگا، بھولا ہوا قرآن و حدیث اور ادعیہ ماثورہ یاد آنے لگیں، نماز اور دعا میں بھی لذت و حلاوت محسوس ہونے لگی، اس کیفیت کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہ بیماری تو محض میری اصلاح اور تربیت کے لیے تھی، ہسپتال سے واپس آکر پھر از سر نو قرآن و حدیث کا مطالعہ شروع کردیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں میری حالت پہلے سے بھی اچھی ہو گئی۔
میں نے محسوس کیا کہ جس قرآن و حدیث کے پڑھنے سے طبیعت گھبراتی اور ثقیل ہوتی تھی اور ایک دو آیت پڑھنا بھی محال اور دشوار ہوتا تھا، اب دن بھر بیٹھ کر پڑھتا ہوں اور اس سے طبیعت کو سرور اور دل کو لذت نصیب ہوتی ہے اور وہ دعا جس کے لیے ہاتھ اٹھانا محال تھا، اب گھنٹوں مانگنے سے بھی سیر نہیں ہوتا، اس کیفیت میں مجھ پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ عبادت اور اطاعت کی توفیق دینا بھی اللہ کا فضل ہے، جس کو چاہے دے، جس کو چاہے نہ دے۔
مجاہدین اور سرکار ہند
مجاہدین کے خلاف سرکار ہند کی پالیسی نہایت معادندانہ تھی، ۱۸۶۳ء میں وہابیوں کی گرفتاری کی جو آگ تھانیسر میں روشن ہوئی تھی، وہ تیز ہوتی گئی اور ہر طلوع ہونے والا سورج اس کی تیزی کا پیام لے کر افق پر نمودار ہوتا، ہمارے ہندو اور بعض مسلمان بھائی اس آگ کو بجھانے کے بجاے اس میں تیل اور تارپین ڈال کر بڑھاتے گئے، آخر کار ڈاکٹر ہنٹر نے اس جلتی ہوئی آگ پر ہزاروں من ولایتی بارود اور مٹی کا تیل ڈال دیا اور ہماری سرکار کو یہاں تک بھڑکایا کہ اس نے صادق پور پٹنہ کے وہابیوں کے ان مکانات کو نہ صرف پیوند زمین کردیا؛ بلکہ زمین سے ان کی بنیادوں کو کھدواکر دور پھنکوادیا، جن میں اسی قافلۂ حرّیت کے لوگ ٹھہرا کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود بھی سرکار کی آتش انتقام سرد نہ ہوئی۔
پٹنہ اور بنگال میں گرفتاریاں
۱۸۷۲ء کے آخر تک پٹنہ اور بنگال میں بے گناہوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری رہا، امیر خاں سوداگر چرم اور مولوی تبارک علی کے علاوہ دیگر بے شمار آدمی پٹنہ میں دھر لیےگئے، مولوی امیر الدین صاحب کو پٹنہ اور ایک بوڑھے شخص ابراہیم منڈل کو اسلام پور سے گرفتار کرایا گیا اور اپنے معمولی اور پرانے گواہوں سے اپنی مرضی کے مطابق شہادت حاصل کرکے ان بے چارے مظلوموں کو سوئے کالا پانی روانہ کر دیا گیا۔
حکومت نے اپنا تمام خرچ امیرخاں کی جائیداد فروخت کرکے حاصل کر لیا، اگرچہ اسے بھی حبس دوام کی سزادی گئی تھی، لیکن چار سال بعد مفت کا احسان کرکے اسے چھوڑ دیا اور اس غریب کی ضبط کی ہوئی جائیداد میں سے ایک پائی بھی اسے واپس نہ کی، ذرا غور فرمائیے کہ اگر امیر خاں اتنا بھاری مجرم تھا جیسا کہ مقدمہ کی مثل ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے تواسے چار برس بعد کیوں رہا کردیا گیا؟ اور اگر وہ قصور وار نہیں تھا؛ جیساکہ اس کی رہائی سے معلوم ہوتا ہے تو اتنے شدید اہتمام سے اس غریب کی جائیداد فروخت کرکے اسے پابند زنجیر و سلاسل کرنے کا کیا جواز تھا؟
مارچ ۱۸۷۲ء میں مولوی تبارک علی صاحب اور مولوی امیر الدین صاحب ہمارے پاس کالا پانی پہنچ گئے، قانون جدید کے جاری ہونے کی وجہ سے ان بے چاروں کو ایک مدت تک سخت مشقت کرنا پڑی، پھر اللہ کا فضل ہوا اور مولوی تبارک علی صاحب اسٹیشن محرر اور مولوی امیر الدین صاحب معلّم مدرسہ مقرر ہوگئے، دس برس قید کاٹنے کے بعد لارڈ رپن کے حکم سےہمارے ساتھ ہی رہا ہو گئے، گو ایّام قید کم تھے، لیکن مشقت کی سختی کی وجہ سے گویا ہمارےبرابر ہو گئے تھے۔
جب دس برس تک بھی وہابیوں کی قید وبند کا یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو میں اپنے برے اعمال کو یاد کرکے بہت کڑھا کرتا تھا کہ یہ آگ میرے گھر سے نکلی اور میری بد اعمالیوں کی وجہ سے دس برس تک تمام ہندوستان میں جلتی رہی اور ہزارہا علماء و شرفاء اس مصیبت میں مبتلا ہوئے، اے کاش! مجھ سا منحوس اور بدبخت پیدا نہ ہوتا یا بچپن ہی میں مرجاتا تو مسلمانوں پر یہ آفت نہ ٹوٹتی ؎
چو از قومے یکے بے دانشی کرد
نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را
مارچ ۱۸۷۲ء میں جس جہاز میں مولوی تبارک علی اور مولوی امیر الدین آئے تھے، اسی جہاز سے میاں عبد الغفار کی بیوی اور دو بچے بھی بحکم سرکار کالا پانی پہنچے، میاں عبد الغفار نے چیف کمشنر پورٹ بلیر کے ذریعہ گورنمنٹ سے درخواست کی تھی کہ ان کے بیوی اور بچوں کو ہندوستان سے بلا دیا جائے، گورنمنٹ بنگال شکریہ کی مستحق ہے کہ اس نے ایسے “باغی” کے بیوی بچّوں کو اپنے خرچ پر کالاپانی بھیج دیا۔
اتنے شدید غیض وغضب سے مسلسل دس برس تک وہابیوں کے دھڑا دھڑ گرفتارکرکے دریا برد کرنے سے انگریزی سرکار کا مقصد یہ تھا کہ ان فرزندان توحید کا ہندوستان کی سرزمین سے قلع قمع کرکے ہمیشہ کے لیے انھیں بیخ بن سے اکھاڑ پھینکا جائے، لیکن جسے خدا رکھے اسے کون چکھے، میں نے کالا پانی سے واپس آکر دیکھا کہ جب میں ہندوستان سے رخصت ہوا تھا تو سارے پنجاب میں وہابی عقیدے کے دس مسلمان بھی نہ تھے، لیکن اب دیکھتا ہوں کہ پنجاب کا کوئی شہر، قصبہ، گاؤں ایسا نہیں، جس میں چوتھائی حصہ وہابی نہ ہوں، جو امام محمد اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے معتقد ہیں اور یوماً فیوماً دیوانوں اور فرزانوں کی یہ جماعت ترقی کر رہی ہے، یورپ میں پراٹسٹنٹ فرقہ پر جب عتاب نازل ہوا تو کوئی عذاب، شکنجہ، سولی، پھانسی، جلاوطنی اور آگ ان کے راستہ میں رکاوٹ نہ بنی، یہی کیفیت یہاں تھی،تجربہ سے ثابت ہے کہ کسی فرقہ کی ترقی کو روکنا اور اس پر تشدد کرنا اس کی ترقی اور جاہ و جلال کا سب سے مضبوط سبب ہوا کرتا ہے۔
دور کیوں جائیں، تھوڑے دنوں کی بات ہے کہ جب سکھ فرقہ پیدا ہوا اور اس نے بال و پر نکالنے شروع کیے تو مغلوں نے ان کے نیست و نابود کرنے کے لیے کیا کیا نہ کیا، مگر خدا کے بڑھائے کو کون گھٹا سکتا ہے، آخر وہی سکھ ہیں جنہوں نے پشاور سے دہلی تک مغلوں کی سلطنت چھین لی اور سو برس تک جلال و اقبال سے حکومت کی ،ادھر دکن میں مرہٹوں کا یہی حال تھا، جتنا روکا اتنا ہی بڑھتے گئے، خدا تعالی کی حکمت بالغہ میں دست اندازی کرنا، اپنے لیے ہلاکت کے سامان فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
اولاد
۱۲ اپریل ۱۸۷۲ء کو میری بڑی لڑکی پیدا ہوئی، اس کا عقیقہ بڑی دھوم دھام سے کیا گیا، مولوی امیر الدین صاحب اور مولوی تبارک علی صاحب جن کو یہاں پہنچے ہوئے صرف پندرہ روز ہوئے تھے، انہوں نے بھی اس دعوت عقیقہ میں شرکت فرمائی، اس کے بعد میری دوسری لڑکی پیدا ہوئی، محبت کے مارے میں نے اس کا نام اپنی ہندوستان والی لڑکی کے نام پر رکھا، اس کا عقیقہ بھی پہلے کی طرح بڑی دھوم دھام سے کیا گیا، اس کے بعد تیسرا لڑکا ۲۶ نومبر ۱۸۷۵ء کو پیدا ہوا، اس کا نام بھی میں نے اپنے ہندوستان کے لڑکے کے نام پر محمد صادق رکھا۔
اس لڑکے کی پیدائش کے وقت ایک عجیب سر الٰہی ظاہر ہوا، جو غالباً میری تسلی کے لیے تھا، وہ یہ کہ جس دن یہ لڑکا کالاپانی میں پیدا ہوا، اسی دن بلکہ اسی وقت میرا بڑا لڑکا محمد صادق پانی پت میں فوت ہوا تھا، جب اس کی وفات کی خبر پہنچی، تو میں نے اس کا نعم البدل اور اس کا ہم نام اپنے پاس پاکر صبر و شکر کیا اور اس کی والدہ کو بھی اس کے نعم البدل اور ہم نام مل جانے کی خبر لکھ بھیجی۔
ہنٹر کی کتاب
جب میں نے انگریزی سیکھی تو ڈاکٹر ہنٹر کی کتاب Our Indian Muslmans دیکھنے کا بڑا شوق پیدا ہوا، توبڑی مشکل سے سات روپے میں کلکتہ سے ایک نسخہ منگوایا، یہ کتاب کا دوسرا ایڈیشن تھا، جب میں نے کتاب کا مطالعہ کیا تو دیکھا کہ ایک مقام پر ڈاکٹر ہنٹر نے بڑی لمبی چوڑی تمہید باندھ کر لکھا، اگر سرکار نے ترحم خسروانہ سے کام لیتے ہوئے وہابیوں کو کبھی کالاپانی سے رہا بھی کردیا تو وہ اپنی اس رہائی کو اللہ جل جلالہ کی جانب سے سمجھتے ہوئے جب واپس ہندوستان آئیں گے تو انگریزی حکومت کے لیے پہلے کی نسبت زیادہ تخریب و بربادی کا موجب ہوں گے، سرکار کا تعصّب اور غصہ دیکھ کر ہم تو پہلے ہی رہائی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، یہ زہر آمیز مضمون پڑھ کر رہی سہی امید بھی جاتی رہی۔
جب گورنمنٹ ہند نے ان دائم الحبس قیدیوں کی رہائی کا حکم جاری کیا، جنہیں قید ہوئے بیس سال گذر چکے تھے، تو ہمارے کیس کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا، اس سب سے بڑھ کر نا امیدی اس وقت ہوئی جب ۱۸۸۱ء میں خود ڈاکٹر ہنٹر گورنر جنرل ہند کے مصاحب مقررہوئے، ہم نے خیال کیا کہ جس شخص کی کتاب پڑھ کر دانا سے دانا انگریز گمراہ ہو جاتا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارا دشمن ہو جاتا ہے تو محکمۂ گورنری میں اس کی موجودگی کیا کیا گل نہ کھلائے گی۔
رہائی کی امیدیں
لیکن بایں ہمہ غیبی طور پر دل میں الہام ہوا کہ ہم جلد رہا ہو کر ہندوستان جا رہے ہیں؛ چنانچہ میں نے مولوی انوار الاسلام اور حافظ محمد اکبر پانی پتی کو خطوط بھی لکھ دیے تھےکہ میں جلد ہندوستان آیا چاہتا ہوں۔
جون ۱۸۷۶ء میں خاکسار کا پورٹ بلیر کے جنوبی حصہ ابرڈین میں تبادلہ ہوگیا اور وہاں میں اپنے پرانے آقا اور شاگرد میجر پراتھرو صاحب ڈپٹی کمشنر کا میر منشی مقرر ہوا اور رہائی و روانگی کی تاریخ تک اسی عہدے پر متعین رہا۔
پراتھرو نے میری اعانت سے پورٹ بلیر کے لیے آئین کی کتاب بھی لکھی، جو گورنمنٹ کی منظوری کے بعد مشتہر کی گئی، اس کا اردو ترجمہ بھی میں نے کیا تھا اور وہ بھی چھپ چکا ہے، اسی صاحب نے میری چودہ برس کی کار گزاریوں اور جانفشانیوں پر نظر توجہ کرتے ہوئے میری رہائی کے لیے گورنمنٹ ہند کو بڑی دھوم دھام سے ایک رپورٹ بھیجی، اس رپورٹ پر رہائی تو کیا ہوئی، البتہ سیکریٹری ہوم ڈپارٹمنٹ اس قدر ناراض ہوئے کہ تازیست رہائی ناممکن ہوگئی اور دوبارہ کسی افسر کے لیے میری رہائی کی رپورٹ کرنے کا حوصلہ ہی باقی نہ رہا، ۱۸۸۰ء کے آخر میں مولانا عبد الرحیم کے صاحبزادے مولانا عبد الفتاح صاحب اپنے والد ماجد کی ملاقات کے لیے پورٹ بلیر پہنچے اور کوئی سال بھر رہنے کے بعد واپس چلے گئے، مولانا عبد الرحیم صاحب نے اپنے بیٹے کو ایک درخواست لکھ کر دی، جو ان کی بیوی کی طرف سے لکھی گئی تھی، یہ درخواست اپریل ۱۸۸۲ء میں گورنر جنرل ہند کے نام ارسال کی گئی، درخواست میں بیان کیا گیا تھا کہ:
“میرے شوہر پر کوئی بھاری قصور ثابت نہ ہوسکا تھا، اس لیے جب مقدمہ سیشن جج اور چیف کورٹ میں پیش ہوا تو کہا گیا تھا کہ عبد الرحیم نے اگر نیک چلنی کا ثبوت دیا تو مقدمہ پر نظر ثانی کی جائےگی، مگر اب تو ۱۴ کے بجاے ۱۸ برس ہو چکے ہیں، میں نے اس کی جدائی میں بہت تکلیف اٹھائی ہے اور وہ بھی بہت بوڑھا ہو گیا ہے، لہذا سرکار کو چاہیے کہ اس کے مقدمہ کی مثل ملاحظہ کرنے کے بعد اسے رہائی بخش دے”۔
اس درخواست کے ملاحظہ کرنے کے بعد لارڈ پن نے مثل مقدمہ طلب کیا، نیز پنجاب اور بنگال کی گورنمنٹ سے رائے طلب کی کہ اگر ان وہابیوں کو رہا کردیا جائے تو اس میں کچھ قباحت تو نہیں؟ لوکل حکام کی آراء کے انتظار کےلیے مقدمہ کو آئندہ سال کے آغاز تک ملتوی کردیا گیا۔
یہ درخواست صرف مولانا عبد الرحیم صاحب کے لیے تھی اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا قصور بھی نہ تھا، انھیں تو صرف فرضی مفسدوں کی اولاد ہونے کے جرم کی پاداش میں گرفتار کیا گیا تھا اس لیے ہمیں صرف ان کی رہائی کا انتظار تھا، اس ذریعہ سے اپنی رہائی کا تو گمان بھی نہ تھا، خصوصاً اس صورت حال میں جب کہ ان دنوں بنگال کور کے سب صاحب لوگ پورٹ بلیر میں جمع ہوگئے تھے اور ہم سے نہایت تعصّب سے پیش آتے تھے۔
۱۸۸۱ء میں پیری اور ضعف کی وجہ سے مولانا احمد اللہ صاحب کی حالت زیادہ ہی قابل رحم ہو گئی تھی، اس وقت آپ کی عمر ۸۰ سال کے قریب تھی، انہوں نے اپنی حالت زار کے پیش نظر کلکتہ میں مقیم اپنے صاحبزادے مولانا محمد یقین صاحب کو بلانا چاہا اور پورٹ بلیر کے قاعدۂ عام کے مطابق یہ ملاقات جائز اور درست تھی اور سینکڑوں بیٹے اپنے اپنے باپ سے آکر مل گئے تھے، مگر صرف اس وجہ سے کہ احمد اللہ وہابی ہے، ان کی یہ درخواست مسترد کردی گئی۔
اس اثنا میں میں نے بھی بطور امتحان ایک درخواست بھیجی کہ محمد رشید میرے حقیقی برادر زادہ کو میرے پاس پورٹ بلیر آنے کی اجازت دی جائے، یہ درخواست بھی سراسر منظوری کے قابل تھی،مگر صرف اس وجہ سے کہ سائل وہابی ہے، درخواست مسترد کر دی گئی۔
مولانا احمد اللہ کا انتقال
جب مولانا احمد اللہ صاحب نہایت کمزور اور چراغ سحری ہوگئےتو مولانا عبد الرحیم صاحب نے اس کی حالت بیان کرکے حکام کو لکھا کہ میں ان کا قریبی رشتہ دار ہوں، ویپر میں ان کی خدمت کرنے والا کوئی نہیں، لہذا انھیں ابرڈین میں میرے گھررہنے کی اجازت دی جائے، یہ درخواست جس کے پڑھنے سے سنگ دل سے سنگ دل انسان کا دل بھی موم ہو سکتا تھا، محض اس وجہ سے مسترد کردی گئی کہ احمد اللہ اور عبد الرحیم دونوں وہابی ہیں، ان کے ساتھ یہ رعایت نہیں ہوسکتی۔
جب مولانا موصوف کی حالت نہایت پتلی ہوگئی اور انگریزوں کا تعصّب شدّت اختیار کرتا گیا تو مولانا عبد الرحیم نے یہ درخواست کی انھیں رات کو ویپرمیں مولانا کے پاس رہنے کی اجازت دے دی جائے، بڑی رد و کد اور بحث کے بعد یہ درخواست منظور ہوئی اور مولانا عبد الرحیم کو ۲۰ نومبر کو شام کے وقت ایک تحریری پاس ملا اور اسی رات ۲۱ نومبر ۱۸۳۱ء، ۲۸ محرم ۱۲۹۸ھ شب دو شنبہ کو ایک بجے مولانا موصوف کی روح اس جسم قید درقید کو چھوڑ کر فردوس بریں پرواز کر گئی، نوّر اللہ مرقدہ و برّد مضجعه۔
مولانا کی وفات کے وقت ان کا ایک ملازم ان کے پاس ہسپتال میں موجود تھا، مولانا کئی روز سے بیہوشی کے عالم میں تھے، لیکن وفات کے وقت آپ نے آنکھ کھول کر “إلا اللہ مالك الملك”آخری کلمہ زبان سے ادا فرمایا اور اپنے اللہ کو پیارے ہوگئے۔
۲۱ تاریخ کو آٹھ بجے صبح ہمیں ابرڈین میں آپ کی وفات کی اطلاع ہوئی تو ہم سب بہت سے احباب کے ساتھ کے ساتھ نو بجےویپر پہنچ گئے، میں چونکہ ضلع کچہری میں منشی تھا، اس لیے ضلعدار کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا تھا، حکام کے تعصّب کی وجہ سے اجازت کا ملنا بھی محال تھا، لیکن آپ کی تجہیز و تکفین میں شرکت کرنا بھی ضروری تھا، اس لیے میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے اجازت کے بغیر ہی ویپر چلا گیا اور ایک درخواست بھیج دی کہ میں مولانا احمد اللہ صاحب کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لیے ویپر جارہاہوں، لہذا میری آج کی غیر حاضری کو معاف فرمادیا جائے۔
ویپر پہنچ کر ہم نے انگریزی حکام سے یہ درخواست بھی کر دیکھی کہ ہمیں اجازت بخشی جائے کہ مولانا احمد اللہ صاحب کی لاش کو ابرڈین لے جاکر ان کے حقیقی بھائی مولانا یحیی علی صاحب کی قبر کے متصل دفن کردیں، یہ درخواست بھی مسترد کر دی گئی تو مجبوراً غسل اور نماز جنازہ کے بعد ڈنڈاس کینٹ کے گور غریباں میں جو کہ وہپر سے تھوڑی دور ہے، انھیں سپردِ خاک کردیا گیا۔
اپنے ان بیس سالہ تجربات سے یہ بھی سیکھا کہ جب کبھی بھی میں نے کسی حاکم یا افسر پر بھروسہ کیا اور خدا کی طرف توجہ نہ دی تو میرے اللہ نے اسی خیالی معاون کے ہاتھ سے مجھے ایذا پہچانے کا بند و بست کر دیا، مگر جب میں نے اس خیال سے تائب ہو کر، اس ذات وحدہ لاشریک کی طرف رجوع کیا تواس نے میری مدد فرمائی اور آفت سے نجات بخشی اور جو لوگ پہلے سے میرے دشمن تھے اور جن سے میں ڈرتا تھا، انہی کو میری مدد اور پشت پناہی کے لیے کھڑا کر دیا۔
خدا تعالی کو یہ کسی طرح بھی منظور نہیں ہے کہ میں اس کی طرف سے غافل ہو کر غیر اللہ کی طرف رجوع کروں، وہ رب العزت ہمیشہ مارمار کر اور تنبیہ کرکے مجھے شرک سے بچاتا، اور اپنی طرف رجوع کراتا رہا ہے۔
ستمبر ۱۸۸۲ء میں میری بیوی نے پانی پت سے خط لکھا کہ میری بڑی لڑکی جوان ہوگئی ہے تمھاری رہائی کی امید پر آج تک اس کی شادی کا ارادہ بھی نہیں کیا تھا، تمھاری جلد رہائی کی اب بظاہر کوئی شکل نظر نہیں آتی، اگر آپ اجازت دیں تو کسی جگہ اس کی شادی کا بند و بست کردیا جائے، نیز اس کار خیر کے لیے آپ کچھ ضروری خرچ بھی بھیج دیں، میں نے حکم رہائی کی تاریخ سے اڑھائی ماہ قبل ۱۴ اکتوبر ۱۸۸۲ء کو زیور اور پارچہ جات کے علاوہ تین سو روپے نقد بھی پانی پت بھیج دیے اور اپنی بیوی کو لکھا کہ تم کسی دیندار مسلمان سے اس لڑکی کی شادی کردو۔
جب میرا بھیجا ہوا مال اسباب اور خط پانی پت پہنچا تو اس کی شادی میں میرے شامل نہ ہونے کی وجہ سے خوشی کے بجاے ان لوگوں میں غم کی لہر دوڑ گئی، میری بیوی اور لڑکی تو رو رو کر یہ دعائیں کرتی تھیں کہ “اے قادر کریم! اس کو بھی اس شادی میں شریک کر”۔
رہائی
اس وقت تک میری رہائی کا بظاہر کوئی سامان نہ تھا، مگر اس مستجاب الدعوات نے اسی دم ان کی فریاد کو شرف قبولیت سے نوازا، ۳۰ دسمبر ۱۸۸۲ء کو کسی درخواست، سعی و کاوش یا سفارش کے بغیر میری رہائی ہوگئی اور مجھ سے بھی پہلے پانی پت میری بیوی کو اس کی اطلاع دی گئی، اب جو میری رہائی کا زمانہ قریب آیا تو ہر وقت اپنی رہائی کا منتظر رہتا تھا اور اس ملک کے تحفے تحائف جمع کرکے چلنے کے لیے بالکل تیار ہو گیا، اگرچہ بہت سے لوگ میرے مقدمہ اور محکمۂ گورنری کی کارگزاری کو دیکھ کر میری اس تیاری پر تعجب کا اظہار کیا کرتے تھے، آخر کار ۲۲ جنوری ۱۸۸۳ء بروز دو شنبہ مہارانی انگبوٹ یہ حکم لے کر پہنچا کہ وہابی کیس میں بجرم بغاوت جس قدر آدمی قید ہیں، سب کو رہا کرکے ہندوستان روانہ کر دیا جائے، ان کی لوکل گورنمنٹ ان کی سکونت کے لیے معقول بندو بست کرے گی، جب یہ حکم وہاں پہنچا تو میرے علاوہ مولانا عبد الرحیم صاحب، میاں عبد الغفار، مولانا تبارک علی، مولانا امیر الدین اور میاں مسعود گل اس مقدمہ کے چھ آدمی وہاں موجود تھے ؛ چنانچہ سب کی رہائی ہوگئی۔
اخبارات کے ذریعہ ہندوستان میں جب یہ خبر مشہور ہوئی تو اسلامی حمیت کے پیش نظر مسلمانوں کی تمام اسلامی انجمنوں اور مجلسوں نے لارڈ رپن کے اس ترحم خسروانہ کا بذریعۂ میموریل شکریہ ادا کیا، جیسے ہماری گرفتاری پر تمام ہندوستان میں کہرام مچ گیا تھا، ویسے ہی اب گھر گھر خوشی اور شکرانہ کی مجلسیں منعقد ہوئیں اور لارڈ رپن کی مداحی اور شکر گذاری سے ہماری زبان اور قلم کبھی قاصر نہ رہے گا، جس کی اولو العزم اور ترحمانہ پالیسی کے باعث ہمیں پھر سے ہندوستان دیکھنا نصیب ہوا۔
اسی عرصہ میں میرے ایک پرانے شاگرد کپتان ٹمپل نے جو میری رہائی کے وقت کیمپ انبالہ میں مجسٹریٹ تھے، میری رہائی کی خبر سن کر مجھے لکھا کہ اگر تم میرے پاس رہنا قبول کرو تو میں گورنمنٹ سے اجازت لے کر تمھیں اپنے پاس بلا لیتا ہوں، میں نے اس پیام کو تائید غیبی سمجھ کر فوراً قبول کر لیا، انہوں نے گورنمنٹ پنجاب سے اجازت حاصل کرکے اور خود میرے ضامن بن کر نگرانی کی تمام شرائط کو موقوف کردیا۔
روانگی کے انتظامات
جب میری رہائی کا حکم پورٹ بلیر پہنچا تو میری چھوٹی بیوی جو کہ حبس دوام میں گرفتار تھی، اسے ابھی قید ہوئے فقط چودہ برس ہوئے تھے، اس لیے اسی انگبوٹ میں گورنمنٹ کو اطلاع دی گئی کہ جب تک محمد جعفر کی بیوی رہا نہ ہوگی، وہ ہندوستان نہیں جا سکتا اور اپنی رہائی کا حکم پاتے ہی میں نے بھی گورنمنٹ پنجاب کو لکھا کہ یہاں میرا نہایت عمدہ گھر موجود ہے، میں سو روپیہ ماہوار کا ملازم ہوں، ہندوستان میں میرا گھر ہے اور نہ دراور غالباً یہاں آنے پر حکام پنجاب بھی مجھے ناجائز طور پر تنگ کیا کریں گے اور مجھے قیدی سمجھ کر کوئی ملازمت بھی نہ دیں گے، اس وجہ سے مجھے امید ہےکہ آپ اجازت دیں گے کہ میں وقتاً فوقتاً ہندوستان جاکر اپنے بیوی بچوں کو دیکھ آیا کروں،اگرچہ چیف کمشنر صاحب نے پورٹ بلیر میں میری نیک چلنی اور عمدہ کارگزاری کو دیکھ کر سفارش کر دی تھی کہ محمد جعفر کے لیے خاص طور پر سرکاری وظیفہ مقرر کیا جائے؛ تاکہ ہندوستان میں اس کی گذر بسر ہو سکے، لیکن گورنمنٹ پنجاب نے میری اس درخواست کو نامنظور کرکے جبراً مجھے اور میرے بیوی بچوں کو ہندوستان بلایا اور ساتھ ہی یہ وعدہ کیا کہ تمھیں پنجاب میں ملازمت دی جائے گی۔
۳ مارچ ۱۸۸۳ء کو مولانا عبد الرحیم، میاں عبد الغفار، مولانا امیر الدین اور مولانا تبارک علی سوئے ہندوستان روانہ ہوئے اور بخیریت تمام اپنے اپنے گھر پہنچ گئے، اس کے بعد ۲۸ اپریل ۱۸۸۳ء کو میاں مسعود بھی چلے گئے اور فقط میں اکیلا اپنی بیوی کی رہائی کے حکم کے انتظار میں رہ گیا، یکم مئی ۱۸۸۳ء کو میری بیوی کی رہائی کا حکم بھی آگیا، مگر اس وقت میری بیوی چھ ماہ سے امید سے تھی اور سمندر میں طوفانی موسم شروع ہوچکا تھا، اس لیے میں نے نومبر ۱۸۸۳ء (محرم ۱۳۰۱ھ) تک پورٹ بلیر میں رہنے کی اجازت حاصل کرلی، اس مدت میں میں نے اپنے گھر کا سامان فروخت کرنا شروع کردیا اور اونے پونے بیچ دیا۔
تعصّب کی انتہا
اکتوبر ۱۸۸۳ء میں میں نے چاہا کہ اپنے چوبی گھر کو مسجد بناکر فی سبیل اللہ وقف کردوں، سب مسلمان جو بغیر مسجد کے تکلیف اٹھاتے تھے اس خواہش سے بہت خوش ہوئے، مگر ڈپٹی کمشنر ہرچ صاحب نے از راہ تعصّب یہ رپورٹ بھیج دی کہ یہ شخص وہابی ہےاور مسجد بھی وہابیوں کے قبضے میں رہے گی، لہذا مسجد بنانے کی اجازت نہ دی جائے، اس طرح وہی تعصّب وہابیت اس کار خیر میں مانع ہوا۔
انڈمان کا انتظام حکومت
جیساکہ میں نے پورٹ بلیر میں اپنی آمد کا تذکرہ کرتےہوئے یہاں کے جغرافیہ اور قدیم باشندگان کے حالات بیان کیے تھے، اسی طرح اس مقام پر پورٹ بلیر سے روانگی کے ذکرسے قبل ساکنانِ پورٹ بلیر کے قوانین اور طرزِ زندگی پر کچھ روشنی ڈال کر اس جزیرے سے رخت سفر باندھتا ہوں۔
یہ جزیرہ دوسرے جزیروں کی طرح گورنمنٹ کی مستقل مملکت ہے، چیف کمشنر صاحب کو اختیار ہے جو قانون چاہے بنائے، جسے چاہے دیوانی فوجداری اختیارات کا قلم دان سونپ دے، چیف کمشنر ہی یہاں کاسیشن جج بھی ہےاور اس کا حکم حکم ناطق ہے، اس کے بعد اپیل نہیں ہو سکتی، صرف مقدمات پھانسی کے لیے گورنر جنرل کے اجلاس کونسل کی اجازت ضروری ہے، دیگر سب امور میں خواہ دیوانی ہوں یا فوجداری چیف کمشنر ہی ہائی کورٹ کے فرائض سر انجام دیتا ہے، چیف کمشنر کی اجازت کے بغیر یہاں سے کوئی مسافر، جہاز یا مال و اسباب نہیں گذر سکتا، چیف کمشنر صدر مقام روس میں رہتا ہے اور اس کی تنخواہ تین ہزار روپیہ ماہوار ہے۔
یہ جزیرہ جنوبی و شمالی دو ضلعوں میں تقسیم ہے، جنوبی ضلع کا صدر مقام ابرڈین ہے اور شمالی ضلع کا چاٹم، دونوں ضلعداروں کے ماتحت دوسرے بہت سے اسسٹنٹ اور کمشنر کام کرتے ہیں، ۱۸۵۸ء کی ابتدا سے لے کر اب تک اس سٹیلمنٹ کے دستور العمل اور قواعد میں بے شمار دفعہ تبدیلی ہوئی ہے اور ہمیشہ زیادہ سے زیادہ سختی کرنے کی کوشش کی جاتی ہےاور کیفیت یہ ہے کہ ؎
ہر کہ آمد براں مزید کرد
قیدیوں کے لیے قوانین
ہر سال دو ہزار قیدی ہندوستان سے قید کرکے یہاں بھیجے جاتے ہیں، اس وقت یہاں چودہ ہزار کے قریب قیدی موجود ہیں، جہاز سے اتر کر جب ایک مہینہ ہوجاتا ہے تو ان کی بیڑیاں کاٹ دی جاتی ہیں، یہاں جیل خانے نہیں بنائے گئے؛ بلکہ قیدیوں کو بارکوں میں قیدی افسروں کے ماتحت رکھا جاتا ہے، ہندوستان کی جیلوں کی طرح یہاں بھی قیدیوں سے دن بھر سخت مشقت لی جاتی ہے، دو وقت کھانا دیا جاتا ہےاور رات کو بارکوں میں ہی سلایا جاتا ہے، بارکوں کی حفاظت کے لیے قیدی افسروں کے علاوہ اور کوئی پولیس یا جنگی پلٹن نہیں ہوتی، الغرض قیدیوں کی حفاظت، نگرانی اور تقسیم کار وغیرہ سب قیدی افسروں کے سپرد ہے، جو سرپر لال دوپٹہ اور گلے میں چپڑاس ڈال کر رہتے تھے اور اپنے اپنے مدارج کے مطابق حکومت سے تنخواہ بھی وصول کرتے ہیں۔
نئے قیدیوں کو بھی بشرط نیک چلنی تین چار برس کے بعد تنخواہ ملنے لگتی ہے، تنخواہ پانے کے بعد یہ قیدی بھی پٹے والے افسر مقرر ہوجاتے ہیں، دس برس نیک چلن رہنےکے بعد ہر قیدی ٹکٹ کا مستحق ہو جاتا ہے، ٹکٹ پانے والا قیدی بارک سے آزاد ہوجاتا ہےاور اسے اجازت حاصل ہوتی ہے کہ جس شہر یا بستی میں چاہے سکونت اختیار کرےاور جو چاہے کسب معاش کا طریقہ اختیار کرکے کمائےاور کھائے۔
قیدیوں کی پچاس ساٹھ کے قریب بستیاں بھی موجود ہیں، ان میں نمبردار، پٹواری اور چوکیدار سب قیدی ہیں، جو قیدی کھیتی باڑی کرنا چاہیں، انھیں گاؤں میں سرکار کی طرف سے پندرہ بیگے زمین مفت مل جاتی ہے، تین برس تک محصول بھی معاف رہتا ہے؛ بلکہ کبھی کبھی حکومت نقدی، بیل اور خوراک کی صورت میں بھی مدد کرتی ہے، جو لوگ حلوائی، نانبائی یا نائی وغیرہ کے طور پر کام کرنے کے لیے ٹکٹ حاصل کرتے ہیں، انھیں بھی کبھی کبھی حکومت کی طرف سے امداد مل جاتی ہے، اس قسم کے ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد قیدی آزاد ہو تا ہے کہ جو چاہے کرے۔
قیدی عورتیں ایک الگ جزیرہ میں لیڈی افسروں کے ماتحت بارکوں میں رکھی جاتی ہیں، جب تک بارک میں رہتی ہیں زناکاری کی پوری پوری روک تھام کی جاتی ہے، عورتوں کوبھی بارک میں پسائی اور سلائی وغیرہ کی مشقت کرنا پڑتی ہے، عورتوں کو پانچ سال بعد آزادی کا ٹکٹ دے دیا جاتا ہے، لیکن جوان عورتیں جب تک شادی نہ کر لیں، انھیں ٹکٹ حاصل کرنے کے بعد بھی بارک سے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔
پانچ برس کی مدت گذرنے کے بعد عورت کواختیار ہوتا ہے کہ وہ جس مرد سے چاہے شادی کرلے، لیکن مردوں میں سے صرف انھیں شادی کی اجازت ہوتی ہےجو ٹکٹ حاصل کرچکے ہوں، جو آدمی شادی کرنا چاہے وہ عورتوں کے جزیرے میں جاکر کسی عورت کوپسند کر لیتا ہے، اور اسے کچھ دے دلا کر شادی پر راضی کر لیتا ہے اور جب دونوں راضی ہو جاتے ہیں، تو انھیں اپنی رضامندی اور محبت و موافقت سے مل کر رہنے کا اقرار نامہ لکھ کر چیف کمشنر کو دینا پڑتا ہے، اس کے بعد بیوی اپنے خاوند کے گھر چلی آتی ہے۔
ٹکٹ والے قیدی ملک سے اپنےبیوی بچوں کو بھی بلا سکتے ہیں، جب کوئی قیدی بیس برس تک نیک چال چلن رہے تو اس کی رہائی بھی ہو جاتی ہےاور اسے اختیار ہوتا ہے، چاہے یہاں رہے، چاہےاپنے وطن مالوف چلا جائے، ٹکٹ حاصل کرنےوالے قیدیوں کو اختیار ہوتا ہے کہ حلال کمائی سے خواہ لاکھوں روپیہ جمع کر لیں، لیکن ٹکٹ سے قبل اسے اپنے پاس رکھنے یا کسی دوسرے کے پاس جمع کرانے کی اجازت نہیں ہوتی، بارک کے ایام میں قیدی ایک سال یا تین مہینے بعد ایک خط اپنے گھر بھیج سکتے ہیں اور ایک خط اپنے وطن سےوصول کرسکتے ہیں۔
مختلف زبانیں
پورٹ بلیر ایک ایسی جگہ ہے جہاں چینی، برہمی، ملائی،سنگلی، جنگلی،نکوباری، کشمیری، پشتونی، ایرانی، عربی، حبشی، پارسی، پرتگیز، امریکی، انگریز ڈین اور فرنچ اور اسی طرح ہندوستان کے تمام ضلعوں اور شہروں کے مثلاً بھوٹیا، نیپالی، پنجابی، سندھی، گجراتی، اہل برج، آسامی، تہلی، بندیلکھنڈی، اوڑیا، تلنگی، مرہٹے، کرناٹکی، مدراسی، ملیالم، گونڈ، بھیل، بنگالی،گول اورسنتھال وغیرہ ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔
یہ لوگ آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں تو اپنی اپنی زبان میں گفتگو کرتے ہیں، لیکن بازار اور کچہریوں کی زبان یہاں بھی ہندوستانی ہے، ہر ملک کا باشندہ یہاں آکر خود بخود ہندوستانی زبان سیکھ جاتا ہے ؛ کیونکہ اس زبان کے بغیر یہاں گزارا ممکن نہیں، میرے خیال میں روئے زمین پر اور کوئی ایسا خطّہ نہ ہوگا، جہاں اس قدر کثیر قومیں آباد ہوں، یہاں چالیس کے قریب مختلف قوموں کے افراد رہ رہے ہیں، شان الٰہی سےیہاں ایک ایسا میلہ اور مجمع لگا رہتا ہے کہ روئے زمین پر کسی دوسری جگہ اس کی مثال ملنی مشکل ہے، جب کوئی بنگالی مرد اور مدراسی عورت یا بھوٹیا مرد اور پنجابی عورت علی ہذا القیاس دو مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والا جوڑا شادی کرتا ہے تو خاوند اپنی بیوی اور بیوی اپنے خاوند کی زبان سے نا آشنا ہوتی ہے، تکرار اور لڑائی کے وقت جب وہ ایک دوسرے کو اپنی مادری زبان میں گالی دیتے ہیں اور فریق ثانی کچھ نہیں سمجھتا تو ایک عجیب سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے، جب کسی تقریب شادی وغیرہ پر ملک ملک کی عورتیں جمع ہو کر اپنی اپنی بولی میں گاتی، اپنی وضع پر ناچتی کودتی اور اپنے اپنے ملک کا لباس زیب تن کرتی ہیں تو یہ منظر بھی دید کے قابل ہوتا ہے۔
مختلف اقوام اور ان کی معاشرت
یہاں قوم کی پابندی، جو ہندوستان کی پرانی بیماری ہے، یک قلم متروک ہو گئی، مسلمان مرد خواہ کسی ذات کا ہو، ہر مسلمان عورت سے بلا روک ٹوک شادی کر سکتا ہے،اسی طرح ہندؤوں میں بھی ہندو ہونا کافی ہے، ایک ذات کا ہونا ضروری نہیں، برہمنوں کے گھروں میں پاسنیں اور جاٹوں کے گھروں میں برہمنیاں موجود ہیں۔
یہاں ٹھگ وہ ٹھگ ہیں اور چور وہ ہیں کہ آنکھوں کا کاجل چرالیں، یہاں شعبدہ باز، بازی گر، بہروپئے، بھنڈیلے، نقال، ہجڑے، نٹ، طوائف، میراثی گویئے اور ہر فن کے نیک وبد موجود ہیں، نیک اور اچھے لوگوں کا بھی یہ حال ہے کہ کوئی جزیرہ ایسا نہیں جس میں مولوی، پنڈت اور درویش موجود نہ ہوں۔
مدراسی اور بنگالی سوکھی مچھلی بھی بڑے مزے سے کھاتے ہیں، اس سوکھی مچھلی کو جس سے سڑے ہوئے چمڑے کی سی بو آتی ہے، عمدہ سے عمدہ گوشت پر ترجیح دیتے ہیں، اسی طرح یہاں برما اور چین کے لوگ پینی کھاتے ہیں، مچھلیوں کو پیپوں میں بھر کر سڑانے سے جب ان میں کیڑے پڑ جاتے ہیں تو ان کیڑوں اور سڑی مچھلیوں کو کوٹ کر پینی بنائی جاتی ہے، اس میں ایسی بدبو ہوتی ہے کہ ہم لوگ ہوا کے رخ ایک میل پر بھی اس کی بدبو برداشت نہیں کر سکتےمگر برما اور چین کے لوگ اسے ہر عمدہ کھانے پر گرم مصالحہ کے طور پر چھڑک کر کھاتے ہیں اور بڑے شوق سے کھاتے ہیں، جب انھیں پینی مل جائے تو سمجھتے ہیں دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت مل گئی۔
طوائف کی عام دوکانیں گو یہاں نہیں، لیکن اکثر عورتیں ایسی بے حیا اور فاحشہ ہیں کہ کسبیوں کو بھی ان سے شرم آتی ہے۔
تجربہ سے معلوم ہوا کہ ہر کسی کو اپنی وضع، رسم، بولی، لباس اور خوراک پسند ہے، جنگلی اپنے جنگل میں رہنے، ننگ دھڑنگ چلنے پھرنے اور کیڑے مکوڑے کھانے کو ہماری قبا اور دوشالوں اور زردہ و پلاؤ پر ترجیح دیتے ہیں، ہمارے کھانوں سے ان کو قے ہونے لگتی ہے، ہمارے کپڑے پہننے سے انھیں تکلیف ہوتی ہے جیسے ہمیں ننگا رہنے سے، برما اور چین کے لوگ ہمارے گھی کے پکوان کو دیکھ کر ناک بند کرلیتے ہیں، ہمارے قلیے، قورمے اور پلاؤ کے بگھار سے عربوں کا دماغ پراگندہ ہو جاتا ہے، انگریز ہمارے عطر کو نہیں سونگھ سکتے، الغرض بچپن سے زبان اور ناک جس چیز کی عادی ہو جاتی ہے، اسے صرف وہی پسند ہے۔
الوداعی ضیافت
۹ نومبر ۱۸۸۳ء کو جب میں رخت سفر باندھنے کو تھا تو میں نے ایک عام دعوت کرکے اپنے سب دوستوں کو اس میں مدعو کیا، دعوت نامہ کی پیشانی پر میں نے لکھا تھا کہ:
“یہ خاکسار اٹھارہ برس کے قیام کے بعد اب بظاہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان جا رہا ہے، امید ہے آج میرے تمام کرم فرما جن کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں، قدم رنجہ فرما کر خاکسار کے ساتھ آخری ماحضر تناول فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں گے”۔
جس کسی کو بھی یہ دعوت نامہ موصول ہوا بلا تکلف چلا آیا، یہ دعوت میرے گھر پر میرے روانہ ہونے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے، قبل از دو پہر ہوئی تھی، میری جدائی کی وجہ سے حاضرین میں سے ہر ایک کی آنکھوں سے اشک جاری تھے، بہت سے احباب اس مجلس میں کچھ تقریر بھی کرنا چاہتے تھے، مگر دو لفظ کہنے کے بعد ہر کسی کی ہچکی بندھ جاتی تھی، میں خود بھی ایک نصیحت آمیز لمبی چوڑی تقریر کرنا چاہتا تھا لیکن ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا اور دل کے ارمان دل ہی میں رہ گئے۔
مولانا لیاقت علی الہ آبادی
اس دن اتفاق سے جمعۃ المبارک تھا، تناول طعام اور مولانا لیاقت علی کے ساتھ آخری نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد گاڑیاں تیار کھڑی تھیں، میں لواحقین کے ساتھ سوار ہو کر روس چلا آیا، صدہا مرد عورتیں مجھے روس تک الوداع کرنے میرے ساتھ آئیں، جب چار بجے شب بیوی بچوں کے ہمراہ کشتی پر سوار ہوا تو بے شمار خلقت خوشی اور رنج کے ملے جلے جذبات کے ساتھ زار زار رو رہی تھی۔
اس وقت بیوی اور آٹھ بچے میرے ساتھ تھے اور آٹھ ہزار کے قریب میرے پاس جائیداد تھی، اس وقت میں اس کیفیت پر نہایت تعجب کا اظہار کر رہا تھا کہ جب 11 جنوری ۱۸۶۶ء کو اسی گھاٹ پر جہاز سے اترا تھا تو میں نے لنگوٹی باندھ رکھی تھی اور تن تنہا، اور اب جب کہ اس رنج اور محن کی جگہ سے جا رہا تھا تو بیوی، آٹھ بچے اور آٹھ ہزار روپے کی جائیداد میرے پاس تھی، قدرت الٰہی کی کرشمہ سازی ملاحظہ فرمائیے کہ حکام دنیا نے مجھے بے خانماں کرکے سخت سزا کے لیے یہاں بھیجا تھا مگر اس حاکم حقیقی نے جس کے قبضۂ تصرف میں دنیا و مافیہا کا انتظام ہے دشمنوں کے ہاتھ سے میرے ساتھ کتنے اچھے سلوک کرائے۔
یہ جہاز جس پر سوار ہونے کے لیے میں تیار تھا، بالکل اسی جگہ کھڑا تھا جہاں وہ جمنا جہاز لنگر انداز ہوا تھاجس پر میں آیا تھا، اس دن صبح کے وقت جہاز سے اترا تھا اور آج شام کو سوار ہو رہا تھا، میں نے اس جزیرہ میں زندگی کی اٹھارہ بہاریں بسر کیں، لیکن آج یہ سب کچھ مجھے ایک خواب معلوم ہور ہاتھا اور چشم تصور سے یہاں محسوس ہو رہا تھا گویا آج ہی صبح جہاز ے اترا تھا اور شام کو سوار ہو رہا ہوں۔
میں نے چلنے سے چند روز پہلے زاد راہ کے سوا اپنی کل جائیداد شرعی حصوں کے مطابق اپنی دونوں فیملیوں پر تقسیم کردیں اور خود دولت دنیا سے سبکدوش ہوگیا، اب میری ذاتی جائیداد چند کتابوں اور چند جوڑے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہیں۔
ہندوستان کو روانگی
شام کے پانچ بجے کے قریب ہم نے مہارانی انگبوٹ پر سوار ہو کر ایک جگہ ڈیرہ ڈال لیا، اس جہاز پر ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے رہائی حاصل کرنے والے مرد عورتیں، یوروپین اور ہندوستانی مسافر بھی سوار تھے،موسم نہایت خوشگوار اور سمندر پر سکون تھا، موجیں تھیں اور نہ تلاطم، اس دن محرم کی دس تاریخ تھی، چودہویں صدی شروع ہو گئی تھی، غروب آفتاب کے وقت جہاز نے لنگر اٹھایا اور چشم پرآب کے ساتھ ہم نے جزائر انڈمان کو خیر باد کہ کر پیچھے چھوڑنا شروع کردیا۔
اب را ت شروع ہو گئی تھی، چاندنی رات میں سمندر کی لہروں کا نظارہ بڑا فرحت بخش تھا، دوسرے دن جہاز جزیرۂ کوکو میں پہنچ گیا، دو دن بعد کچھ بارش بھی ہوئی جس سے مسافروں کو قدرے تکلیف کا سامنا کرنا پڑا، مگر جب جہاز تھوڑا سا اور آگے چلا گیا تو بارش تھم گئی اور تکلیف رفع ہو گئی۔
علی رضا نامی ایک مشہور تاجر نے جہاز پر ہماری خوب خاطر تواضع کی، دونوں وقت عمدہ کھانا، گوشت، مچھلی، چائے، کافی، برف، ہر قسم کے پھل اور مٹھائیاں ہمارے لیے لاتا، الغرض یہ سفر بڑے ہی راحت و آرام کے ساتھ طے ہوا۔
جب بارش کی وجہ سے سب مسافر تتّر بتّر کانپ رہے تھے، اس وقت رہائی پاکر جانے والے مسافر نور الدین کی عورت کو درد زہ شروع ہوا، اس حالت میں زچہ پانی کانپ رہی تھی، اس کے ہاں پلوٹھے بچے نے جنم لیا اور اس دن تو بیچاری کو مشکل سے دال بھات ملا ہوگا، مگر اسے یا اس کے بچے کو کوئی تکلیف نہ ہوئی، بلکہ دونوں صحیح سالم اور تندرست تھے۔
کلکتہ
جب جہاز کلکتہ بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا، اس نومولود بچے کی عمر صرف دو دن ہوگی، اس کی والدہ بچے سمیت دندناتی ہوئی جہاز سے اتری اور پھر اس کے خاوند نے کلکتہ سے لاہور کا ٹکٹ لیا اور زچہ و بچہ خوش و خرم لاہور روانہ ہوگئے، سمندر میں جنم لینے کی وجہ سے بچے کا نام بھی سمندر ہی رکھا گیا۔
چارد ن اور چار را ت کے سفر کے بعد اللہ کے فضل سے ہم ۱۳ نومبر ۱۸۸۳ء (۱۴ محرم ۱۳۰۱ھ) کو کلکتہ پہنچ گئےتھے، وہاں چینا باڑہ میں مولانا عبد الرحیم صاحب کے برادر مولانا عبد الرؤف صاحب کے گھر رہے، وہاں سے تیسری رات نو بجے ریل پر سوار ہوئے اور کلکتہ سے الہ آباد، کانپور، علی گڑھ اور سہارنپور کا منزل بہ منزل ٹکٹ لیتے ہوئے ۲۱ نومبر ۱۸۸۳ء کو بوقت ۹ بجے شب انبالہ کے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔
انبالہ
کلکتہ سے دو سپاہی اور ایک نائک ہمارے اہل و عیال اور مال کی حفاظت کے لیے بطور اردلی انبالہ تک ہمارے ساتھ آئے تھے، انڈمان میں چونکہ ساراسال موسم معتدل رہتا تھا، اس لیے انہوں نے پہلے کبھی گرمی سردی کو نہ دیکھا تھا، ہم چونکہ نومبر کے آخر میں کلکتہ میں آئے تھے، اس لیے سردی سے انھیں قدرے تکلیف بھی ہوئی، لیکن پھر آہستہ آہستہ عادی ہو گئے۔
ہر موسم میں جگہ جگہ کا پانی اور طرح طرح کے پھل کھانے کی وجہ سے میرے بیوی بچوں کی طبیعت نہایت شاداں و فرحاں تھی، پورٹ بلیر سے انبالہ تک کا سفر نہایت خوشگوار رہا، ہر دن عید اور رات شب برات کی کیفیت رہی۔
ایک دن وہ تھا کہ ہم 2۲ فروری ۱۸۶۵ء کو انبالہ جیل سے زیور آہنی جوگیانہ لباس اور گلیم سیاہ سے آراستہ و پیراستہ ہوکر انبالہ پولیس کے زیر حراست مغرب کو روانہ ہوئے تھے، اور بڑے آلام و مصائب کا تختۂ مشق بنتے ہوئے گیارہ ماہ میں انبالہ سے کالاپانی پہنچے تھے اور ایک دن یہ ہے کہ ہم بڑے آرام و آسائش کے ساتھ دریائی سفر طے کرکے کلکتہ پہنچے اور وہاں سے ریل کے اسپیشل درجہ میں بلا شرکت غیرے اپنے ہی دس افراد پر مشتمل خاندان کو لے کر انبالہ آئے، نقد و جنس اور عمدہ لباس کو دیکھ کر ہم نواب معلوم ہوتے تھے، پورٹ بلیر سے ٹھیک گیارہ دن بعد انبالہ پہنچ گئے۔
میری اس کیفیت، شان، اولاد اور مال و منال کو دیکھ کر لوگ تعجب کا ظہار کرتے تھے، دوست خوش تھے اور دشمن ناخوش، راستہ میں جہاں بھی اترتا تو ہر شہر کے مسلمان میرا نام سن کر میری ملاقات کے لیے دیوانہ وار دوڑتے چلے آتے تھے اور میری کیفیت دیکھ کر کہتے تھے کہ اللہ جل جلالہ بڑا قادر ہے، وہ سب کچھ کر سکتا ہے، جو بھی میری حالت سے واقف تھا، وہ کہتا تھا کہ تمھارا اس ملک میں اس شا ن سے آنا مردے کے زندہ ہونے سے کم نہیں، جو اس کرامت کو دیکھ کر ایمان نہ لائے وہ دل اور آنکھوں دونوں کا اندھا ہے۔
ذرا غور فرمائیے! یہاں مجھ سے ایک بیوی چھوٹی تھی، کالاپانی میں دوبیویاں عنایت ہوئیں، یہاں دو بچے چھوٹے تھے وہاں آٹھ مرحمت ہوئے، اسی طرح مال و اسباب اور نقد و جنس ہر ایک کا اللہ تعالی نے مجھے نعم البدل عنایت فرمایا، جیساکہ حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے:
وَآتَینَاہ أَہلَه وَمِثْلَهمْ مَعَهمْ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَذِکرَى لِلْعَابِدِینَ [الأنبیاء: 84]
یہ آیت میرے اوپر بھی من و عن صادق آتی ہے مگر میرے اس قصہ سے جو آیات الٰہی میں سے ایک بڑی روشن آیت ہے، صرف عابدین و صالحین ہی کو عبرت ونصیحت ہو سکتی ہے، منکرین و منافقین کو نہیں۔
انبالہ
دوسرے دن فجر کے وقت ہم انبالہ شہر پہنچے اور وہاں کے حکام سے اجازت لے کر اپنے آقاے قدیم کپتان ٹمپل صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب میں کپتان ٹمپل کے بنگلہ پر گیا تو وہ دوڑ کر میرے ملنے کے لیے باہر آئے اور اندر لے جاکر مجھے موڑھے پر بٹھایا اور نہایت تسلّی و تشفّی کی اور فرمایا کہ آج سے بیس روپے ماہوار تنخواہ آپ کو اپنی جیب سے دیا کروں گا اور آپ کی ملازمت کے لیے بھی جلد ہی کوئی اچھا انتظام کروں گا۔
کپتان ٹمپل کی کوشش سے بہت سے انگریز مجھ سے پڑھا کرتے تھے، میرے یہاں پہنچنے سے سوا برس بعد تک کپتان نے پچاس روپیہ ماہوار کا میرے لیے انتظام کردیا تھا، اپریل ۱۸۸۶ء کو جب وہ یہاں سے گئے تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا؛ بلکہ پولیس نے میری نگرانی شروع کردی اور مجھ پر سختی بھی بڑھا دی گئی۔
انبالہ پہنچنے کے بعد جب میں نے اپنے اس بیس سالہ سفر کی ہندوستان کے نقشہ کی مدد سے پیمائش کی تو معلوم ہوا کہ انبالہ سے براستہ لاہور و بمبئی کالاپانی تک اور کالاپانی سے براستہ کلکتہ انبالہ تک سات ہزار میل مسافت بنتی ہے اور اس سفر میں ہندوستان کے بعض شمالی اضلاع کو چھوڑ کر تقریباً پورے ملک کا طواف ہو گیا، انبالہ کے صدر بازار میں میں نے ایک مکان کرایہ پر لے لیا اور اہل و عیال سمیت اس میں سکونت اختیار کر لی۔
دہلی
جب گھر کے لیے سب ضروری سامان خرید لیا تو ۱۱ دسمبر ۱۸۸۳ء کو ایک ہفتہ کی رخصت لے کر بذریعہ ریل دہلی گیا، وہاں ایک رات رہ کر دوسرے دن بذریعۂ یکّہ پانی پت پہنچا، اتفاق کی بات ہے پورے بیس برس قبل جب میں پانی پت سے دہلی کی طرف بھاگ گیا تھا تو اس وقت بھی دسمبر کی ۱۳ تاریخ تھی اور آج جب بیس برس بعد واپس آیا تو دسمبر کی ۱۳ تاریخ ہی تھی، وہی سڑک وہی موسم اور وہی تاریخ دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ میں آج صبح ہی بیوی بچوں کو چھوڑ کر دہلی گیا تھا اور آج ہی واپس آیا ہوں۔
پانی پت
مغرب کی نماز کے بعد پانی پت میں اپنے گھر پہنچا، میری بیوی اور لڑکے مجھے دیکھ کر باغ باغ ہو گئے، فرار کے دن جو بچہ چند دن کا تھا، اب بیس برس کا ہو چکا تھا، پانچ دن ٹھہرنے کے بعد براستۂ کرنال تھانیسر چلا گیا اور ایک رات اور چند گھنٹے تھانیسر میں قیام کرنے کے بعد پھر انبالہ لوٹ آیا۔
جس جس شہر میں بھی یہ عاجز گیا، ہزاروں خلقت میری آمد کی خبر سن کر میری ملاقات کے لیے آتی تھی، تھانیسر میں تو اس قدر اژدہام خلائق ہوا کہ میں اس رات سو بھی نہ سکا اور جگہ کی تنگی کی وجہ سے بہت سے لوگ میری ملاقات سے محروم رہ گئے، انبالہ میں تو کئی مہینوں تک دور دراز سے آنے والے لوگوں کا تانتا بندھا رہا، لوگ میرے منہ کو دیکھ کر خدا کی قدرت پر تعجب کرتے تھے۔
تھانیسر
۱۳ دسمبر ۱8۶۳ء کو جب میں نے تھانیسر سے قدم اٹھایا، اس پر زوال شروع ہو گیا، بیس سال میں آبادی ساتویں حصہ سے بھی کم رہ گئی، مکانات منہدم ہو گئے، گلی کوچے مسدود ہوگئےاور انسانوں کے بجاے بندروں نے کھنڈرات کو اپنا مسکن بنانا شروع کردیا، لیکن خدا تعالی نے قرائن سے مجھے معلوم کرادیا کہ یہ شہر پھر دوبارہ نہایت دھوم دھام سے آباد ہوگا۔
تھانیسر میں میں نے اپنے مولد و مسکن پر جاکر مالک مکان سے جو اس وقت اس میں آباد تھا، منّت سماجت کرکے یہ اجازت چاہی کہ مستورات کو کسی ایک کمرہ میں الگ کردو اور مجھے مکان کے اندرونی قطعات کی زیارت کر لینے دو، مالک مکان نے مجھے پہچان لیا، نہایت اخلاق سے پیش آیا اور اس نے مجھے اندر آنے کی اجازت دے دی، اس جگہ بھی مجھے قدرت الٰہی یاد آئی کہ جس مکان کو میں نے ہزاروں روپے صرف کرکے تعمیر کیا تھا، اس میں اجازت کے بغیر ایک قدم بھی نہیں رکھ سکتا، خدا سے امید ہے کہ وہ اس مکان کو قبول کرکے اس کے بجاے مجھے آخرت میں مکان عنایت فرمائے گا، اب اللہ تعالی کے چند انعامات کا تذکرہ کرکے بیس سالہ سرگذشت کو ختم کرتا ہوں۔
انعامات الٰہی
اللہ تعالی کا مجھ پر سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ تاریخ قید سے لے کر آج تک میں جہاں اور جس جگہ رہا، اس نے مجھے اپنے سایۂ عاطفت میں رکھا، بیس برس میں ایک دن بھی مشقّت کرنے کی نوبت نہ آنے دی، کالاپانی پہنچنے سے پہلے ہی اس نے میری راحت کے سامان فراہم کر دیے تھے، وہاں پہنچتے ہی مجھے ایک بڑا سرکاری عہدہ مل گیا، کالاپانی پہنچنے سے فقط چار پانچ سال قبل ان جزائر کا آباد ہونا، پورٹ بلیر کے قیدیوں کے قوانین میں نرمی و آسانی، ہمارے پہنچنے سے قبل جنگل کی صفائی اور مہلک امراض کا خاتمہ، بیس برس تک بڑے آرام و آسائش سے زندگی بسر کرنا اور ایسی مایوس کن جگہ سے حکام بالا کے تعصّب کے باوصف شان و شوکت اور مال و اولاد کے ساتھ صحیح و تندرست بلکہ پہلے سے بھی بہتر حالت میں واپس آنا، یہ سب میرے مولا کے مجھ پر احسانات نہیں تو اور کیا ہیں؟
ہندوستان واپس آنے کے بعد آب و ہوا کی سخت تبدیلی کے باوصف میرے بچے تندرست ہیں بلکہ یہاں آکر اللہ تعالی نے مجھے دو اور بچے بھی عطا فرمائے، حالانکہ دوسرے لوگوں کے بچّے جو کالاپانی سے آئے تھے یہاں آکر بہت کم بچے، اس علاقہ میں جب بھی کوئی متعدی مرض پھیلتا ہے، میرا گھر محفوظ رہتا ہے، میرے یہاں پہنچنے کے بعد یہاں بارش وباراں بھی بکثرت ہونے لگ گئی ہے اور غلّہ بھی نہایت ارزاں ہو گیا ہے۔
جب بیس برس بعد میری رہائی ہوئی تو تقاضائے بشریت کے مطابق مجھے بھی یہ فکر دامن گیر تھا کہ ہندوستان جا کر کہاں رہوں گا اور کیا کروں گا؟ کیونکہ تھانیسر میں میرے مکانات اور اراضی وغیرہ کو حکومت نے بحق سرکار ضبط کرکے نیلام کر دیا تھا اور ضلع انبالہ کے حکام ہمارے وہی پرانے رفیق تھے جنہوں نے کالاپانی بھیجا تھا، اس تردّد اور انتشار کے وقت میں اس قادر کریم اور مقلب القلوب نے کپتان ٹمپل کے دل میں میرے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے، وہ میری واپسی کے ابتداء میں جبکہ ہر انگریز میری صورت سے متنفر تھا، میری طرف سے مدّتوں بطور وکیل لڑتا رہا اور اس نے روزگار وغیرہ کی طرف سے بھی مجھے فارغ البال کردیا۔
ریاست ارنولی میں ملازمت
جب ٹمپل صاحب یہاں سے تبدیل ہو کر چلے گئے تو انہوں نے میری درخواست کے بغیر خود بخود ریاست ارنولی میں میرے لیے معقول روزگار کا بند و بست کرادیا، جہاں میں اب تک بڑے آرام و آسائش کے ساتھ ملازمت کر رہا ہوں، یہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے محض غیبی طور پر میرے روزگار اور آسائش کے سامان غیرمسلموں کے ہاتھوں فراہم کرا دیے ؛ حالانکہ بظاہر ان سے ہمدردی کی کوئی توقع نہ تھی۔
مکمّل آزادی
ہندوستان واپس آنے کے بعد پولیس کی جو نگرانی متعیّن ہوئی تھی، وہ کپتان ٹمپل نے اپنی ذمہ داری اور ضمانت سے موقوف کرادی تھی، کپتان کی تبدیلی کے بعد بغیر کسی سفارش کے محض اللہ کے فضل سے ۶ فروری ۱۸۸۸ء کو سیکریٹری گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے چٹھی نمبر ۱۸۸ موصول ہوئی، جس میں ہر قسم کی پابندی اور نگرانی کے خاتمہ کا اعلان تھا؛ حالانکہ میرے دیگر پانچوں اصحاب سجن مولانا عبد الرحیم وغیرہ سے ابھی تک نگرانی موقوف نہیں کی گئی۔
اللہ تعالی کے فضل سے اب میں بالکل آزاد ہوں، جہاں چاہوں رہوں اور جو چاہے روزگار اختیار کروں، کاروبار کے سلسلہ میں ہمیشہ لاہور اور کلکتہ آتا جاتا رہتا ہوں، ریاست ارنولی کے مقدمہ کی پیروی کے لیے ولایت بھی جانا چاہتا ہوں اور ارادہ ہے کہ ان شاءاللہ ڈاکٹر ہنٹر اور دیگر موافق و مخالف انگریزوں سے ملاقات کرکے اس قدرت الٰہی کا ان سے اعتراف کراؤں گا۔
جب میں انبالہ کچہری کے اس مقام کو دیکھتا ہوں، جہاں مجھے پھانسی کاحکم سنایا گیا تھا، یا جب انبالہ جیل کے پاس سے نکلتا ہوں، جہاں ڈیڑھ برس تک پس دیوار زنداں پابند زنجیر و سلاسل رہا، یا ان سڑکوں پر گذرتا ہوں، پھانسی کاحکم سنانے کے بعد جن سے ہوتے ہوئے جیل خانہ لے گئے تھے تو قدرت الٰہی کو دیکھ کر میرا دل ہل جاتا ہے اور خیال کرتا ہوں کہ جس دن مجھے پھانسی کا حکم سنایا گیا، کسے گمان تھا کہ کبھی میں ان مقامات اور سڑکوں پر بے روک ٹوک چل سکوں گا، ہر گز ہرگز نہیں، کسی فرد بشر کو بھی یہ گمان نہ تھا۔
یہ فقط اس ربّ قدیر کا کام ہے کہ اس نے زمانے کے یہ سب گرم و سرد تماشے دکھا کر پھر اپنے نالائق اور مغرور غلام کو اس ملک میں دوبارہ آباد کردیا ہے اور پہلے کی نسبت وہ چند لوگوں کی آنکھوں میں معزز اور ممتاز بنا دیا ہے، و ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاءُ۔
خاتمہ
اس قصّہ کو فقط ایک کہانی یا ایک فوجداری مقدمہ کا ترجمہ ہی نہ سمجھو؛ بلکہ یہ قصّہ تو آیات الٰہی میں سے ایک بڑی روشن آیت ہے، خداوند تعالی قرآن مجید میں ایسے ہی قصوں کے متعلق فرماتے ہیں:
لَقَدْ کانَ فِی قَصَصِهمْ عِبْرَةٌ لِأُولِی الْأَلْبَابِ [یوسف: 111]
ان کے قصے میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔
اور یہ میں نے زیب داستان کے لیے سپرد قلم نہیں کیا؛ بلکہ ارشاد خداوندی:
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّك فَحَدِّثْ [الضحى: 11]
اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا کی تعمیل ہے۔
میں نے اللہ ربّ العالمین جل جلالہ و عم نوالہ کے جملہ انعامات ظاہری و باطنی کو نہایت اختصار کے ساتھ لکھ کر آپ کے سامنے پیش کردیا ہے، اب آخر میں یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس محنت و مشقت اور تکالیف قید کو ریا سے پاک کرکے قبول فرمالے اور قارئین کرام کو اس قصّہ سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین اللّٰھم انا نجعلك فی نحورهم و نعوذ بك من شرورهم۔
اراکین مجلس ادبیات عالیہ
اردو کے مخلص، سچے اور بے لوث خادم جنھوں نے اردو ادب عالیہ کی یونی کوڈ سازی میں اپنا تعاون پیش کیا
آصف انظارندوی،کانپور
ابو ذر قوی،لکھنؤ اسامہ احمد ندوی، بھٹکل اسامہ نفیس، لکھنؤ اقبال احمد ندوی،سہرسا الشفاء انعام الحق ندوی، بھٹکل اوشو، مشرقِ وسطیٰ ایس ایس ساگر تفسیر حسین، دہلی ثقلین حیدر، دہلی ثمرین زارا جاسمن، کراچی راشد مرتضیٰ، سیتامڑھی سحر عرف محمل ابراہیم رشیدہ رومی سفیان الحسینی،لکھنؤ سمعان خلیفہ ندوی،بھٹکل سمیع اللہ خاں، کوکن سیما علی شعیب گناترا |
شفیع اللہ خان، بالاپور
شمشاد، سعودی عرب صابرہ امین طلحہ نعمت عاطف علی،سعودی عرب عبد الحمید اطہرندوی، بھٹکل عبد الرحمن، دہلی عبد الرؤوف عبدالصمد چیمہ عبد القادر، بھوپال عبد اللہ نیموی، بیگوسرائے عبد المعید خاں ندوی، ممبئی عبید رضا، پنڈی گھیپ عزیر فلاحی، بھوپال عطاء اللہ سنجری،کیرالا علقمہ فضل الرحیم، دہلی فیصل انس، حیدرآباد فرحت کیانی فرید الحسن، کراچی قرۃ العین اعوان گل یاسمیں، اسکینڈی نیویا
|
لا ایلما
محب علوی، لاہور محمودالرحمن، دیوبند میر عابد علی، میدک محمد عاکف، بھٹکل محمد شاہد خان، لکھنؤ محمد اکرم قاسمی، ناگپور محمد راشد ندوی، امراؤتی وصی اللہ، بہرائچ محمد ندیم ندوی، امراؤتی ملک احمد ندوی، لکھنؤ محمد عامر ندوی، ودیشا محمد ابان، بھٹکل محمد محسن خاں ندوی، کلکتہ محمد زید، بہرائچ محمد اطہرندوی، مالیگاؤں محمد عمر، انگلستان محمد عدنان اکبری نقیبی مومن فرحین مقدس، انگلستان ماہی احمد نور وجدان |