ایک تاریخی ناول: واجد علی اخترؔ شاہِ اودھ کی ولی عہدی کا سچا واقعہ
باب ١
اگلا مذاق اگلی سے وہ گفتگو کہاں
پہلے تھی جس کی دھوم وہ اب لکھنؤ کہاں
یوں تو کوئی مقام کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں کہیں انقلاب روزگار نے اپنا تصرف نہ کیا ہو، لیکن لکھنؤ زمانے کے زبردست ہاتھوں سے کچھ ایسا تہ وبالا ہوا کہ آج تک سنبھلنا تو سنبھلنا اپنی اجڑی ہوئی حالت قائم رہنا دشوار ہے، وہ گھرانے جو اپنے عہد حکومت میں صرف دو گھڑی دلچسپی کے لیے لاکھوں صَرف کردیتے تھے، آج ایک شمع مزار اور دست دعا کے محتاج تیر و تار کوٹھری (قبر) میں پڑے ہوئے قیامت کا انتظار کر رہے ہیں:
پڑے ہوئے ہیں تہِ خاک خسروانِ جہاں
نہ وہ شکوہ نہ وہ اقتدار باقی ہے
اب نہ وہ رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں، نہ انجمن آرائی کا خیال ہے، نہ تعمیر باغ کی فکر نہ صحبت نشاط کی آراستگی کی آرزو؛ خوابِ مرگ سے ایسی محبت ہوگئی ہے کہ آغوشِ لحد میں عروسِ خلوت کو گلے لپٹائے پڑے ہیں، چونکنا یا ہوشیار ہونا کیسا ، کروٹ لینا تک محال ہے۔
یہ سب گردشِ فلکی ہے جو ہمارے پیشِ نگاہ ہے لیکن ان مرنے والوں کے وہ واقعات جو ان کی فراخ دلی اور حوصلہ مندی کے گواہ ہیں اور یوں ہی ہمیشہ درخشاں رکھیں گے ہندوستان میں بچہ بچہ کی زبان پر ہیں، شہر لکھنؤ کے بڑے امام باڑے، عظیم الشان مسجدیں، فلک شکوہ مکانات، نمونہ بہشت باغات وغیرہ ہنوز ان کی پرانی شان و عظمتِ شکوہ و سطوت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہاں وہ عمارتیں جن پر انقلاب کا قبضہ ہو چکا ہے ، اپنی شکستہ حالی سے تصویر عبرت بنی ہوئی ہیں۔
خیر یہ تو دنیا کا دستور ہی ہے جو سلف سے ہوتا آیا ہے اور برابر یوں ہی جاری رہے گا۔ ہم ناظرین کو اس زمانے کی تصویر کھینچ کر دکھانا چاہتے ہیں جب حضرت ثریا جاہ محمد امجد علی شاہ لکھنؤ کے تخت پر جلوہ افروز تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ حضرت محمد علی شاہ رحلت کر چکے ہیں، لکھنؤ شباب پر ہے، ہر فن کے کامل دربار میں جمع ہیں، بچے بوڑھے جوان سب ہی پرلطف زندگی بسر کر رہے ہیں، شہر میں ہن برس رہا ہے، خصوصاً وارث تخت و تاج ہونہار شاہزادہ خورشید حشمت مرزا محمد واجد علی کی بزم آرائی اور شوقینی کا آوازہ کوچہ و بازار میں گونج رہا ہے، دن رات محفل عیش و سرور گرم رہتی ہے، اربابِ نشاط کی چاندی ہے، روپیہ ٹھیکریوں کی طرح بے غل و غِش اڑ رہا ہے۔
ہم جس رات کا احوال قلمبند کرنا چاہتے ہیں وہ برسات کی اندھیری رات ہے، آسمان پر کالی کالی گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، ننھی ننھی بوندیاں پڑ رہی ہیں، ٹھنڈی ٹھنڈی دل خوش کن ہوا کے جھونکے چل رہے ہیں جس سے عجیب فرحت ناک کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ اس وقت حضور باغ پر بلا کا جوبن پھٹ پڑا ہے۔ چاروں طرف روشنی کا اہتمام ہے، مرغان زمزمہ سنج درختوں پر نغمہ سنجی کر رہے ہیں، طاؤسان زریں قبا پر و بال کھولے باغ میں ادھر ادھر ناچتے پھرتے ہیں، گلزار کی روشوں پر لکہ ابر آب باشی کر رہا ہے، بارہ دری میں محفل عیش و نشاط منعقد ہے۔ مسند پر شاہزادہ والا تبار مرزا ولی عہد بہادر، ان کے گرد مصاحبین حلقہ کیے ہوئے بیٹھے ہیں، چنور بردار بھاری بھاری کار چوبی پوشاکیں پہنے ہوئے چنور مرصع کار ہلا رہے ہیں۔ ناچ گانے کا شغل جاری ہے، ہر شخص اس محفل میں جو چوتھی کی دلہن کی طرح سنواری گئی تھی، جوش انبساط میں عیش عشرت کی داد دے رہا ہے بقول شاعر:
اگر فردوس بر روئے زمیں است | ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است |
ہنوز یہ صحبت اسی طرح جاری تھی کہ ناگاہ چوبدار نے جرنیل صاحب مرزا سکندر حشمت بہادر کی تشریف آوری کی خبر دی جس سے تھوڑی دیر کے لیے بدنظمی پھیل گئی۔ ہر شخص برائے تعظیم و استقبال کھڑا ہو گیا، ولی عہد بہادر تا پائیں فرش پیشوائی کے لیے گئے اور اپنے چھوٹے بھائی جرنیل صاحب کو مسند پر اپنے پہلو میں جگہ دی، حُضّار محفل قاعدے سے بیٹھ گئے، رقص و سرود شروع ہوا۔
جرنیل صاحب: فی الواقع اس طوائف کی تعریف جس قدر سنی تھی صحیح ہے، مگر آج میرے یہاں وزیرن نامی ایک طوائف جو قصائی کے پل پر رہتی ہے آئی تھی، حقیقت میں اس کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے۔ حسن و خوبی میں یکتا، گانے بجانے میں بے مثل و بے نظیر، علم صحبت سے واقف۔
ولی عہد (بیتابانہ): آہ بھائی تم نے بڑا غضب کیا جو اُسے میرے یہاں نہ لائے۔
جرنیل صاحب: میں اسے ضرور خدمت والا میں حاضر کرتا لیکن اس وقت وہ میرے سامنے ناچ گا کر بہت خستہ ہو گئی ہے، ان شاء الله پھر کسی روز دیکھا جائے گا۔
اس گفتگو کے اختتام پر ولی عہد بہادر کے چہرے سے افسردگی کے آثار نمایاں ہوئے۔ چونکہ ہمارا ہیرو روز اول سے عیش پسند و جلد باز دل اپنے پہلو میں لایا ہے، اسے اتنی تاب کہاں ایک مہ جبیں رقاصہ کی تعریف سن کر صبر و تحمل سے کام لے۔ اس ذکر کے بعد اس کا دل نادان بچے کی طرح مچلنے لگا، یہ جو بزم جو اندر کے اکھاڑے کی حقیقت نہ سمجھتی تھی نظروں میں خار ہو گئی اور وہ بیتاب ہو کر جرنیل صاحب سے کہنے لگا۔
ولی عہد: اگر آج وہ رقاصہ یہاں نہیں آسکتی تو کل تو کوئی عذر مانع نہ ہوگا۔
جرنیل صاحب: ان شاء الله کل ضرور تعمیل ارشاد ہوگی۔
دو پہر رات گذر چکی تھی، جلسہ برخاست ہوا۔ جرنیل صاحب اپنی دولت سرا تشریف لے گئے اور عاشق مزاج مرزا ولی عہد بہادر دل پر چوٹ کھائے ہوئے اپنی آرام گاہ میں آئے۔ اگرچہ تمام عیش و آرام کے اسباب جمع تھے، لیکن جرنیل صاحب کی زبانی کسی بربادکن صبر و شکیب کی تعریف سن کر دل بے چین ہو رہا تھا، کسی طرح نیند نہ آتی تھی اور رات ختم نہ ہوتی تھی، پریشانی سے الجھن اور الجھن کے ساتھ دل کی سوزش زیادہ ہو رہی تھی۔ الغرض تمام شب انتہا کی تکلیف اٹھانے کے بعد نور سحر ظاہر ہوا، انھوں نے مسہری سے اٹھ کر فریضہ سحری ادا کیا اور وظیفہ و تلاوت کلام اللہ میں مصروف ہوئے۔
باب٢
پھر کسی کے ظلم سہنے کا ہوا ہے دل کو شوق
پھر ہوئی ہے مجھ کو فکر عاشقی تھوڑی بہت
وہی خوفناک اور تاریک رات، اسی طرح سناٹا اور سکوت لیکن آج حضور باغ پر قیامت کی بہار ٹوٹ پڑی، رَوِشوں میں ٹھاٹھر بندی کی گئی ہے، جابجا بلوری کنول نصب ہیں، درختوں کے تنوں میں شال باف اور لچکا لپٹا ہوا ہے۔ روشنی کی کثرت سے تیر و تار شب میں روز روشن کی کیفیت پیدا ہے۔ صفائی سے باغ کی سڑکوں پر ایک پتہ تک نہیں نظر آتا ہے، فوارے سر اٹھا کر فلک چھو لینے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ باغبان سرخ بانات کی وردیاں اور ہاتھوں میں سونے کے کڑے پہنے ہوئے باغ کی دیکھ بھال میں مصروف ہیں، چوبدار طلائی نُقرئی عصا لیے کارچوبی وردیوں سے مزین اپنے فرض منصبی کی تکمیل پر آمادہ و مستعد نظر آتے۔ ایک طرف ہرکاروں اور داروغۂ ارباب نشاط میں آہستہ آہستہ کچھ گفتگو ہو رہی ہے، بارہ دری عروس نو کی طرح آراستہ و پیراستہ ہے، فرش فروش جھاڑ کنول، مردنگین فانوس الغرض آرائش کی تمام چیزیں مہیا ہیں، جلسہ عیش و طرب جمع ہے، صدر میں مرزا ولی عہد بہادر، دائیں بائیں خواص مصاحبین اور زہرہ جبینان ہند بیٹھے ہیں، لیکن آج مرزا ولی عہد بہادر کی مشتاق نظریں بار بار در کی جانب بڑھ جاتی ہیں، لبوں پر مہر سکوت ہے، مصاحبین لاکھ لاکھ کوشش کرتے ہیں اس افسردگی اور خموشی کو ظریفانہ مذاق سے دفع کریں مگر خدا جانے کون ایسا خیال ہے جو انھیں کسی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا۔
یہاں کی یہ حالت بہت دیر تک رہی اور خدا جانے کب تک یہ افسردگی اور سکوت قائم رہتا اگر چوبدار جرنیل صاحب کی آمد کی خبر نہ دیتا۔ اِدھر تو چوبدار نے مژدۂ جاں بخش سنایا، اُدھر مرزا ولی عہد بہادر مع مصاحبین و رفقا پیشوائی کے واسطے تا پائین فرش اٹھ کر آئے اور مرزا سکندر حشمت بہادر کو اپنے برابر مسند پر بٹھایا اور بعد معمولی صاحب سلامت و مزاج پرسی گفتگو ہونے لگی۔
ولی عہد: کل جس امر میں گفتگو ہوئی تھی اس کی کیا ٹھہری؟
جرنیل صاحب: حاضر ہے۔
ولی عہد: پھر بلوانے میں کیا دیر ہے۔
جرنیل صاحب: صرف آپ کی اجازت درکار تھی۔
اس کے بعد جرنیل صاحب نے آہستہ سے ایک شخص کے کان میں کچھ کہا، اس نے فوراً ایک چوبدار کو حکم دیا جو طائفہ حضور جرنیل صاحب بہادر کے ہمراہ آیا ہے اسے تیار ہونے کا حکم دیا جائے، جس کی فوراً تعمیل کی گئی۔
تھوڑی دیر کے بعد اٹھارہ یا انیس برس کی نہایت حسین و خوبصورت عورت جس کا رنگ کندن کی طرح دمک رہا تھا، اودی اطلس کا پائجامہ سرخ مصالحہ دار پہنے، کامدانی کا آنچل پلودار ڈوپٹہ اوڑھے بصد ناز و انداز دل عشاق پائمال کرتی ہوئی خراماں خراماں چلی آتی ہے، پیچھے پیچھے سازندے ساز و سامان سے درست ہمراہ ہیں۔
ہمارا ہیرو جو ایک روز قبل تعریف سن کر بے چین ہو گیا تھا، اس کے انتظار میں ہمہ تن چشم تھا، اب جو اس قتالہ عالم سے نگاہ چار ہوئی تو فوراً تیر نظر اپنا کام کرگیا، ہر چند دونوں ہاتھوں سے دل و جگر سنبھالا لیکن زبان سے آہ نکل گئی، اگر صحبت میں ہم چشموں کا مجمع نہ ہوتا تو یہ نوگرفتار محبت حالتِ بیخودی میں ضرور داستان شروع کردیتا، یہ تو کہیے خیریت گذری جو حجاب نے لبوں پر مہر سکوت لگا دی۔ خدا نہ کرے کسی کو کسی سے محبت ہو جائے۔ اس وقت کا عالم دیکھنے کے قابل ہے، مرزا ولی عہد بہادر کی للچائی ہوئی نظریں گل رخسار تابان پر مثل بلبل بےتاب نثار ہو رہی ہیں، کبھی نظروں ہی نظروں سے اہل محفل کی نگاہیں بچا کر مصحف رخ کے بوسے لیے جاتے ہیں۔ گاہ وہی نظریں جو ابھی روئے مصفا پر جمی ہوئی تھیں، بخوف نظر زمین کی طرف جھک گئیں، مگر ہائے رے بیتابی معاً دل بے قرار میں ہوک پیدا ہوئی اور نظربازی کے ذریعہ سے سوز محبت کا اظہار ہونے لگا۔
اِدھر تو ہمارا ہیرو نئی نئی محبت کے مزے دل ہی دل میں اٹھا رہا ہے، حُضّار جلسہ مؤدب بیٹھے ہیں اور یہ بربادکن صبر و شکیب حکم کی منتظر کھڑی ہے۔ یہ حال دیکھ کر جرنیل صاحب نے مجرا شروع کرنے کا حکم دیا:
حسن کیا کم تھا جو آئینہ کی کھولی قلعی
ایک حیرانی زیادہ ہوئی حیرانوں پر
(اختر شاہ اودھ)
اُدھر تو وہ زہرہ مثال مشتری تمثال ناچ میں مصروف ہے، ادھر مرزا ولی عہد بہادر کی آنکھوں سے اشک جاری ہیں۔ حاضرین محفل اگرچہ کچھ نہ کچھ روز ایسی کیفیت کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے، لیکن اس وقت کی بیتابی اور گریہ بے اختیار دیکھ کر متحیر ہوئے یا الہی یہ کیا ماجرا ہے جو ولی عہد بہادر ایسے بے چین ہیں۔ جرنیل صاحب الگ دل ہی دل میں اس معاملہ پر غور کر رہے ہیں، کچھ سمجھ میں نہیں آتا آخر ایک مصاحب نے دست بستہ عرض کیا۔
مصاحب: کیوں حضور شب بخیر مزاج کیسا ہے، اس وقت چہرے پر کچھ افسردگی پائی جاتی ہے۔
ولی عہد (ضبط کرکے): کچھ نہیں طبیعت آپ ہی آپ گری پڑتی ہے۔
جرنیل صاحب: مناسب ہو تو آرام فرمائیے، شب بھی نصف سے زائد گذر چکی ہے اور خدا نا کردہ طبیعت بھی کسی قدر ناساز ہے۔
مصاحبین (متفق ہو کر): انسب ہے، حضور نے نہایت معقول رائے دی، قبلہ عالم روز دوپہر کو آرام فرمانے کے عادی ہیں، آج تمام دن آرائش باغ میں مصروف رہے اور اتنی رات آگئی، ابھی تک آرام نہیں فرمایا ، اسی سبب سے دشمنوں کی طبیعت کسل مند ہو گئی۔
ولی عہد (کچھ سوچ کر): اچھا جلسہ برخاست، ہم آرام کریں گے۔
حاضرین جلسہ اٹھ کر اپنے اپنے مکان سدھارے، مرزا ولی عہد بہادر حرم سرا میں داخل ہوئے مگر خلافِ معمول چُپ چُپ،بیگمیں متحیر کیا ماجرا ہے اگر چہ مزاج کی کیفیت سے واقف ہیں تاہم اتنا بے قرار کبھی نہ دیکھا تھا۔ اب جو یہ حالت دیکھی پریشان ہوگئیں، ایک دوسرے سے دریافت حال کرنے لگیں۔ ادھر مرزا ولی عہد بہادر سر جھکائے ہوئے خاص کمرے میں تشریف لے گئے جہاں پھولوں میں بسی ہوئی مسہری آغوشِ عاشق کی طرح ان کا انتظار کر رہی تھی۔ ہمارا ہیرو اسی طرح لبوں پر مہر سکوت لگائے ہوئے مسہری پر (آرام کرنا کیسا) بے تحاشا گر پڑا۔ اس کے پہلو میں دل مضطر طائر نیم بسمل کی طرح تڑپ رہا تھا، آنکھوں میں تصویر جاناں رقص کر رہی تھی، کچھ دیر پہلے جو دلکش منظر پیش نظر تھا ابھی تک وہی سماں ہے، کبھی بزم خیال میں کوئی زہرہ صفت مشتری خصال بصد ناز و انداز اس کی طرف مخاطب ہے، جس کے ہر اشارے پر صدہا بجلیاں گر کر دل بیتاب کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہیں، کبھی کسی پری تمثال کے پاؤں کے گھنگرو کی صدا صور اسرافیل پر خندہ زن ہے۔ کیا عجب ہے جو لحد کے بے خبر سونے والے بھی انگڑائیاں لینے لگے ہوں، کبھی ناچ میں پر مِلو کے ٹکڑے دلوں کو پائمال کیے ڈالتے ہیں اور اس نو گرفتار مصیبت کی زبان سے اُف اُف نکل جاتا ہے، اشک حسرت رخساروں سے ڈھل ڈھل کر گل تکیہ پر گر رہے ہیں جس سے تمام تکیہ تر بتر ہے۔ خدمت گزارانِ خاص غمگین صورت بنائے ہوئے خاموش بیٹھے ہیں لیکن مالک کی بے چینی سے خود بھی مبتلائے رنج ہیں، کسی میں دم مارنے کی تاب نہیں لیکن ان عورتوں میں ایک مُسِن عورت جس کا رنگ گندم گوں مائل بسرخی ہے اور رخسار پر ایک سیاہ تل سویدائے دل کی طرح نمایاں ہے۔ بظاہر وضع قطع سے ان عورتوں کی سردار معلوم ہو تی ہے، چہرے سے شرافت و نجابت آشکار ہے۔ قاعدہ بتاتا ہے سرکار ولی عہد بہادر میں سرفراز ہے اور بہت کچھ رسوخ رکھتی ہے۔ اس نے مسہری کے قریب آکر آہستہ آہستہ پاؤں دبانا شروع کیے۔ اس تدبیر سے اس قدر ضرور ہوا کہ مرزا ولی عہد بہادر نے اپنی روتی ہوئی لال لال آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا، چونکہ اس عورت کو مرزا ولی عہد بہادر سے دلی محبت تھی لہذا ان سے فوراً دونوں ہاتھوں سے چٹ چٹ بلائیں لے کر عرض کیا۔
نجم النسا (یہ اس عورت کا نام ہے): جان عالم! میں آپ کے قربان ہوجاؤں کیا بات ہے جو کل سے حضور کو افسردہ خاطر دیکھتی ہوں ،برائے خدا کچھ اس لونڈی سے اشارہ ہو آخر وہ نگوڑی کونسی فکر ہے جس نے رات کی نیندوں کا چین کھو دیا، نہ تو وہ مزاج عالی کی کیفیت ہے نہ کسی بات کی طرف رجحان ہے۔ خدا کی قسم اگر رات کا دن اور دن کی رات ہو جائے جب بھی کنیز حضور کی اطاعت و فرمانبرداری سے دست بردار نہ ہو مگر مجبور ہوں سرکار کا باعث کلفت نہیں کھلتا۔ للہ اپنی جوانی کے تصدق میں کچھ زبان مبارک سے ارشاد فرمائیے۔
ولی عہد (ٹھنڈی سانس لے کر): آہ اے نجم النسا کیا بتاؤں جو دل کا حال ہے، میری طبیعت سے تم خوب واقف ہو۔ آج ایک قتالہ عالم نے خنجر ابرو سے دل دو نیم کر دیا، قوت صبر جاتی رہی۔ جس طرح ممکن ہو میرے درد کا علاج کرو ورنہ بلائے فراق میرا کام تمام کر دے گی۔
نجم النسا: خدا کے لیے جان عالم ایسی دل خراش باتیں نہ کیجیے جو کنیز کا کلیجہ پھٹ جائے، آخر یہ لونڈی غلام کس روز کے واسطے ہیں۔ حضور پتہ بتائیں، میں خود اس کے مکان پر جا کر کسی نہ کسی طرح راضی کر کے لے آؤں گی۔
ولی عہد ( خوش ہو کر): ہاں ہاں مجھے تم سے ایسی ہی امید ہے، میں جانتا ہوں تم میری خیر خواہ ہو۔
نجم النسا: یہ حضور کی ذرہ نوازی ہے جو کنیزوں کی نسبت ایسا فرماتے ہیں، ہم لوگ اپنی خوش نصیبی پر جس قدر فخر و ناز کریں کم ہے۔ خدواند عالم نے ہمیں ایسا خلیق و عزیز پرور آقا عطا فرمایا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔
ولی عہد: میں باتوں میں تمھیں اس کا پتہ بتانا بھول گیا۔ کل مرزا سکندر حشمت جب محفل میں آئے تو باتوں باتوں میں ایک طوائف وزیرن نامی بی جان کی لڑکی کا ذکر کیا بلکہ بہت تعریف و توصیف کی، از بسکہ میں موسیقی کا شوقین ہوں اس لیے مجھے اس کا اشتیاق ہوا اور ان سے فرمائش کی مجھے بھی اس کا ناچ دکھاؤ۔ لیکن اس روز تو انھوں نے یہ کہہ دیا آج وہ میرے سامنے مجرا کر کے بہت خستہ ہو گئی ہے ان شاء اللہ کل حاضر کروں گا۔ چنانچہ آج وہ اس کو لائے، واقعی میں نے کبھی ایسا حسین و خوش وضع معشوق نہیں دیکھا۔ کمال تو یہ ہے کہ علاوہ حسن صورت کے ناچ میں بے مثل و بے نظیر ہے۔ میں نے جب سے اسے دیکھا ہے گھڑی بھر کے لیے وہ خیال دل سے نہیں جاتا، وہی پیارا پیارا نقشہ آنکھوں میں سمایا ہوا ہے۔
نجم النسا: حضور نے یہ نہیں دریافت فرمایا اس کا مکان کہاں ہے۔
ولی عہد: جرنیل صاحب نے اثنائے گفتگو میں قصائی کے پل پر مکان بتایا تھا۔
نجم النسا: اب حضور متفکر نہ ہوں، لونڈی بہت جلد یہ کام کر دے گی اور اسے کسی نہ کسی تدبیر سے خدمت عالی میں حاضر کرے گی۔
آدھی رات ہو چکی تھی۔ ان باتوں کے بعد مرزا ولی عہد بہادر نے آرام فرمایا۔ نجم النسا اپنے پلنگ پر جاکر لیٹیں لیکن دل ہی دل میں کہتی تھیں مجھے کون سا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو مفید مطلب ہو۔ ولی عہد بہادر کی عاشقانہ طبیعت روز بروز ترقی کرتی جاتی ہے، بندگان عالی ان حرکتوں سے ناراض ہیں، اکثر ممانعت کی ہے یہ مانتے نہیں، ملازموں کی مفت خرابی ہوگی، ادھر ان کی بے چینی بھی باعث تکلیف ہے۔ الغرض اسی طرح کے خیالات دماغ میں گونجا کیے اور بہت دیر تک کروٹیں بدلا کی، آخر برسات کی ٹھنڈ میں دل خوش کن ہوا نے لوریاں دے دے کر اسے بھی سلا دیا۔
باب ٣
کہنے جاتے ہیں پریشانیٔ خاطر ان سے
جو نہیں جانتے کیا شے ہے پریشان ہونا
قصائی کا پل لکھنؤ کا ایک محلہ ہے جو چوک سے بہت قریب ہے، شاہی زمانے میں بہت آباد تھا لیکن غدر کے بعد جہاں اور محلوں پر وبال آیا وہاں یہ بھی تباہ اور ویران ہو گیا اور ابھی تک غیر آباد پڑا ہے۔ مکانات منہدم ہو گئے، پُل اب تک باقی ہے جسے زمانہ گذشتہ کی یادگار سمجھنا چاہیے۔
ہم جس زمانہ کا حال لکھ رہے ہیں اس زمانے میں یہ محلہ بھرا پرا تھا۔ یہاں ایک مکان دو منزلہ جو حقیقت میں چو منزلہ تھا دکھائی دیتا ہے، اس کا ایک وسط کا کمرہ ایشیائی ساز و سامان سے بہت اچھی طرح سجا ہوا ہے۔ ایک جانب مسہری لگی ہے جس میں سرخ جالی دار کامدانی کا پردا پڑا ہے، مسہری سے ملحق ادنی غالیچہ بچھا ہوا ہے، ایک گاؤ اور پہلو کے دو تکیے رکھے ہیں، قالین کے سامنے دو اگالدان ایک پاندان رکھا ہے۔ صدر میں ایک کمسن حسین و خوبصورت عورت بیٹھی ہوئی پان لگا رہی ہے، اس کے برابر ایک مُسِن عورت بیٹھی ہے جس کی صورت سے غیظ و غضب کے آثار نمایاں ہیں۔ پہلو کی جانب دو ڈھاڑی بیٹھے ہیں ایک کے سامنے طبلہ بائیں کی جوڑی رکھی ہے دوسرا سارنگی ملا رہا ہے۔ اگر ہماری نگاہیں قصور نہیں کرتی تو ہم کہہ سکتے ہیں یہ وہی عورت ہے جو مرزا ولی عہد بہادر کی سرکار میں جرنیل صاحب کے ہمراہ حاضر ہو چکی ہے۔ ہمارا خیال صحیح ہے کیونکہ اس کی نائکہ ڈھاڑیوں سے وہیں کے متعلق کچھ باتیں دریافت کر رہی ہے۔
بی جان: کیوں مراد خان (وزیرن کا استاد) کل ولی عہد بہادر کے یہاں کیسا مجرا ہوا، کچھ پسند بھی آیا یا نہیں۔
مراد خان: آپ کے قدموں کی قسم بیوی ایسا نایاب مجرا ہوا کہ سب مان گئے۔
الہیا خان (طبلہ نواز): مجھے تو وہاں کا رنگ بے رنگ معلوم ہوتا ہے۔
بی جان: یہ کیا؟
الہیا خان: میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جب بی وزیرن مجرا کر رہی تھیں تو ولی عہد بہادر کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور پھر تو بے چینی اس قدر بڑھی کہ محفل ہی برخاست ہو گئی۔
مراد خان: اگر بی وزیرن ولی عہد بہادر کی نظروں پر چڑھ گئیں تو چاندی ہی چاندی ہے۔
بی جان: خدا نہ کرے ایسا ہو، میری بچی تو گویا قید ہو جائے گی۔
الہیا خان: یہ آپ کیا کہتی ہیں، جو لوگ ولی عہد بہادر کی سرکار میں ہیں، انھیں دیکھیے کس قدر روپیہ پیدا کر رہے ہیں۔
مراد خان: سننے میں آیا ہے صاحب عالم کے کئی محل ہو چکے ہیں اور ان کے عزیز و اقارب خوب خوب ہتے صاف کر رہے ہیں۔
بی جان: یہ سب کچھ ہے لیکن مجھے اپنی وزیرن کا خیال ہے یہ کڑھے گی ورنہ کیا روپیہ کسی کو برا معلوم ہوتا ہے۔
الہیا خان: یہ خیال ہی خیال ہے، وہاں اچھا کھائیں گی ، اچھا پہنیں گی تو کیوں گھبرانے لگیں، لیکن بی وزیرن جان صاحب ہمیں نہ بھولیے گا ولی عہد بہادر سے سفارش کر دیجیے گا۔
وزیرن: دل و جان سے، وہ وقت تو آنے دیجیے۔
یہاں یہی گفتگو تھی کہ ایک نوجوان شخص جو بظاہر شریف مگر نہایت مفلوک الحال تھا، کمرے میں داخل ہوا اور سلام کرکے کہنے لگا۔
شخص: داروغہ صاحب یہاں تشریف لانا چاہتی ہیں، پردے کا انتظام کردیا جائے۔ مجھے اطلاع کرنے کے لیے بھیجا ہے۔
بی جان: کون داروغہ صاحبہ؟
شخص: نجم النسا بیگم صاحبہ جو مرزا ولی عہد بہادر کی سرکار میں زنانخانے کی داروغہ ہیں۔
بی جان (متعجبانہ لہجہ میں): شاہی داروغاؤں کا میرے یہاں کیا کام؟
شخص: مجھے خوب یاد ہے جس مکان کا پتہ دیا ہے وہ یہی مکان ہے احتیاطاً آپ اپنا نام بتا دیجیے۔
بی جان: میرا بی جان نام ہے اور یہ جو بیٹھی ہیں انھیں وزیرن کہتے ہیں۔
شخص: بس بس بہت ٹھیک ہے میں یہیں بھیجا گیا ہوں۔
بی جان (کچھ سوچ کر): اچھا تم کہہ دو شوق سے تشریف لائیں، گھر سے پردہ ہو جائے گا۔
اس قدر گفت وشنید کے بعد وہ شخص چلا گیا اس کے جانے کے بعد یہاں جو بات چیت ہوئی وہ یہ ہے۔
مراد خان: مبارک ہو، لیکن لالچ آکر بے سمجھے بوجھے نہ گر پڑنا۔
بی جان: واہ واہ مجھے کہتے ہو کس ترکیب سے بات چیت کرتی ہوں سن کے سکتا ہی تو ہو جائے، کوئی میرا پیٹ چھوٹا ہے جو ذرا میں بھر جائے، ہزاروں کے وارے نیارے ہوں گے۔
الہیا خان: بی وزیرن جان اگر مناسب ہو تو آپ جھوٹ موٹ اپنی والدہ کی نظر بچا کر داروغہ صاحبہ پر ولی عہد بہادر سے اپنا عشق ظاہر کر دیجیے گا۔
بی جان: تم دیکھو تو میں کس طرح اس کام کو کرتی ہوں۔ میں تو ولی عہد بہادر کی ملازمت سے انکار کر دوں گی اور وزیرن کو سکھا دوں گی، یہ ہر شخص سے اپنی مجبوری ظاہر کرے اور کہے کہ اماں مجھے وہاں نہیں جانے دیتیں، ولی عہد بہادر یہ خبریں سن کر زیادہ بیتاب ہوں گے۔ جب اشتیاق خوب زیادہ بڑھ جائے گا تو جو کہوں گی وہی ہوگا۔ اس میں شک نہیں وزیرن کی آزادی چھن جائے گی لیکن روپیہ خوب ملے گا۔
مراد خان: واللہ مان گئے تم بھی بڑی چالاک ہو۔ اس ترکیب سے ولی عہد بہادر تو خیر بچے ہی ہیں، بڑے بڑے گھاگ مار کھا جاتے ہیں۔
یہاں یہی ذکر تھا کہ وہی شخص جو تھوڑی دیر قبل آیا تھا آکر کہنے لگا:
شخص: سواری آگئی۔
یہ سن کر دونوں ڈھاڑی اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے، یہاں صرف بی جان اور وزیرن رہ گئیں۔ جب پردہ ہو گیا تو وہی مسن عورت برقع اوڑھے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔ صاحب سلامت مزاج پرسی کے بعد وزیرن کے پاس بیٹھ گئی۔
بی جان : بیگم آپ نے کیوں تکلیف فرمائی، جو ضرورت تھی اپنے آدمی سے کہلوا بھیجتیں۔
نجم النسا: تکلیف کیسی، ہمیں تو مالک کی بے چینی دور کرنے میں راحت ہے۔ جرنیل صاحب کے ہمراہ تمھاری صاحبزادی ہماری سرکار میں آئی تھیں، ماشاء اللہ بہت اچھا مجرا کیا، صاحب عالم بہت تعریف کرتے تھے، مجھ سے کئی دفعہ ان کا تذکرہ کیا، اگر اس کا سلسلہ وہاں ہو جائے تو بہت اچھا ہے۔
بی جان: جی ہاں اگر ایسا ہو تو اس کی خوش قسمتی میں کوئی شک نہیں مگر ابھی نہیں۔
نجم النسا: اگر یہ خیال ہے تو بہت بڑی غلطی کرتی ہو، بلکہ یوں کہو بھرے خزانے پر لات مارتی ہو۔
بی جان: پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹیں کان اور وہ روپیہ کس کام کا جو ہمارا دل خوش نہ ہوا۔ علاوہ بریں ابھی ہماری لڑکی کمسن ہے۔ (کچھ سوچ کر) داروغہ صاحبہ معاف کیجیے گا، مجھے وزیرن کے استاد سے ایک ضروری بات کہنا تھی جو ان سے کہنا بھول گئی۔ اجازت ہو تو جا کر کہہ آؤں کہیں ایسا نہ ہو وہ چلے جائیں، وزیرن آپ کے پاس رہے گی۔
نجم النسا جو دل میں دعائیں مانگ رہی تھی یہ بلا دفعان ہو تو وزیرن کا عندیہ دریافت کروں اس معاملہ میں اس کا کیا خیال ہے، اس ظالم نے تو صاف صاف انکار کر دیا۔ ان باتوں کا لحاظ کرکے اس نے کہا
نجم النسا: تم شوق سے جاؤ، میں نہیں چاہتی میری وجہ سے تمھارا حرج ہو۔
یہ سن کر بی جان اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعد جو بات چیت ہوئی وہ یہ ہے۔
نجم النسا: تم ہماری سرکار پر خدا جانے کیا جادو کر آئی ہو کہ وہ ہر وقت تمھارا ذکر خیر کیا کرتے ہیں، کسی وقت بھی تمھاری یاد نہیں بھولتے، انتہا درجہ یہ ہے کہ ناچ رنگ کی صحبتیں یک قلم موقوف ہیں۔
وزیرن جان: میں کیا عرض کروں سوا اس کے کہ وہ غریب پروری فرماتے ہیں، خدا جانتا ہے میرا بھی ہر وقت ان کے دیکھنے کو جی چاہتا ہے لیکن اما جان سے مجبور ہوں، خدا جانے انھیں کیا کد ہوگئی ہے اگر میں وہاں کا نام لیتی ہوں تو سیکڑوں صلواتیں سناتی ہیں، وہ اتنی بھی روادار نہیں کہ میں وہاں کا تذکرہ کروں۔
نجم النسا: آخر اس کی کوئی وجہ بھی معلوم ہے یا بے سبب بد ظنی ہے ۔
وزیرن: انھیں خیال پیدا ہو گیا ہے کہ اگر میں وہاں جاؤں گی تو وہ مجھے اپنے گھر ڈال لیں گے۔
نجم النسا: میں نے مانا کہ ان کا خیال صحیح ہے تو اس میں کیا برا ہے، آخر تمھیں کسی کے پاس نوکر رکھوائیں گی بس یہی سمجھ لیں کہ لڑکی نوکر ہے۔ ہماری سرکار اس قدر فیاض ہیں کہ دور دور سے لوگ اسی آرزو میں یہاں آتے ہیں حضور ولی عہد بہادر کی نگاہ پڑ جائے ،خیر یہ تو ان کا خیال ہے تم بتاؤ تمھارا کیا قصد ہے؟
یہ کلمات سن کر وزیرن کچھ اس ادا سے خاموش ہو گئی جس سے صاف ظاہر تھا کہ اسے ولی عہد بہادر سے دلی محبت ہوگئی ہے اور عین تمنا ہے کہ ان کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل کرے مگر مجبور ہے ذرا بھی اپنا اختیار نہیں، اس کے چہرے کا اتار چڑھاؤ، رنگ کا دم بدم تغیر وتبدل صاف بتا رہا ہے کہ ابھی ابھی کسی کا نام سننے سے دل پر چوٹ پڑی، آنکھوں سے آنسو بھی ڈبڈبا آئے۔ یہ حالت دیکھ کر نجم النسا کہنے لگی بیٹا میں تمھاری ماں کے برابر ہوں اور یہ قسم کہتی ہوں کہ تمھارا راز کسی سے نہ بیان کروں گی، جو سچ بات ہے بتا دو۔ بھئی وعدہ کرتی ہوں کہ تمھاری مرضی کے موافق کام کروں گی، میں اس وقت ولی عہد بہادر کی بھیجی ہوئی صرف تمہاے ہی پاس آئی ہوں۔
وزیرن (شرمائی ہوئی غمگین ادا سے): آپ نے ایسی دلجوئی اور شفقت سے کیا راز دریافت کیا کہ مجبوراً مجھے بھی تمام کچا چٹھا بیان کرنا پڑا۔ اصل یہ ہے تالی دونوں ہاتھ بجتی ہے، میری دلی تمنا ہے کہ ان کی خدمت میں حاضر ہوں مگر اماں سے مجبور ہوں؛ آپ خوب جانتی ہیں کہ میرا کوئی بس نہیں ورنہ ابھی وہاں سر آنکھوں سے چلتی اور اب تو میری کرب و بے چینی میں کچھ اور زیادتی ہو گی کیونکہ ان کے اضطراب کا حال آپ کی زبانی سن لیا ہے۔
یہ کہہ کر اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو بھر آئے لیکن بی جان کے خوف سے ضبط کر کے پان بنانے لگی۔ اتنی دیر میں بی جان بھی آگئی جو مصلحتاً اٹھ کر چلی گئی تھی، اب نجم النسا بیگم کو زیادہ کلام کرنے کا موقع نہ تھا لہذا وہ ان لوگوں سے رخصت ہو کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئیں۔
باب ٤
کیا اسی قابل تھے ہم اے آسمان کینہ جو
اس قدر درماندگی آسودگی تھوڑی بہت
(خنجر لکھنوی)
میر محمد مہدی ایک مرد سادات بتیس تینتیس برس کے سرخ و سفید آدمی تھے جو عہد حضرت ثریا جاہ محمد امجد علی شاہ میں تمندار تھے۔ ان کی طینت میں کسی قدر غرور بھی شامل تھا، جس کی وجہ سے اپنے عہدہ مقررہ سے علاحدہ کر دیے گئے۔ آدمی پاک باطن و صاف دل تھے اور امین الدولہ بہادر نواب امداد حسین خان کے یہاں دخیل تھے، اس سبب سے سرکار ولی عہد بہادر میں انھوں نے سعی کر کے داروغگی پر ملازم رکھوادیا۔ از بسکہ یہ نئے نئے ملازم ہوئے تھے اس لیے حضور ولی عہد بہادر کے مزاج سے کما حقہ آگاہ نہ تھے نہ کبھی ولی عہد بہادر نے ان سے التفات کیا۔ اگر چہ ان کی دلی تمنا تھی کہ مثل دیگر اشخاص کے سرکار میں کامل دسترس حاصل کریں مگر جب تک کوئی ذریعہ نہ ہو اپنے مقصد میں کامیاب ہونا دشوار ہے، وہی حال ان کا تھا۔ چونکہ ان کے طالع بد دفع ہو چکے تھے اور اقبال مندی نے عروج کا راستہ صاف کر دیا تھا، اتفاق سے حضور ولی عہد بہادر کا دل وزیرن طوائف کی طرف مائل ہوا۔ یہ تو ظاہر ہی ہے دولتمند کو ذرا سی تکلیف بڑی سے بڑی تکلیف معلوم ہوتی ہے کیونکہ وہ شخص جس نے آنکھ کھول کے بجز عیش و عشرت کے کچھ نہ دیکھا ہو بھلا وہ انتظار اور فراق کی سخت یا پریشان کر دینے والی گھڑیاں کیونکر صبر کر کے بسرکر سکتا ہے، وزیرن ایک پیشہ ور عورت تھی اس نے اشتیاق زیادہ کرنے کی غرض سے یہ طریقہ نکالا:
لعل دشوار بدست آید ازان ست عزیز | آبگینہ ہمہ جا یا بی ازان بے محل ست (سعدیؒ) |
یہ ہی وجہ تھی جو ولی عہد بہادر کا اشتیاق دن بدن زیادہ ہوتا جاتا تھا اور اسی طرح ایک مہینہ کا زمانہ گذر گیا لیکن مفید مطلب کوئی صورت نہ نکلی۔ نوجوان رئیس کے لیے سخت مصیبت کا سامنا تھا نہ وہ ناچ و رنگ کی صحبتیں تھیں نہ مصاحبوں میں بیٹھ کر ہنسی دل لگی۔ رات دن ولی عہد ہیں اور پلنگ ہے، لبوں پر مہر سکوت لگی ہوئی۔ یہ سامان میر مہدی نے دیکھ کر ایک روز اپنے دل میں خیال کیا بغیر اس کام کے انجام دیے ہوئے فلاح نہیں، قسمتوں سے یہ موقع ہاتھ آیا۔ مناسب یہی ہے حضور ولی عہد بہادر کا منشا دریافت کرکے کسی طرح وزیرن کو یہاں لے آؤں، اس خیال کے آنے سے ذرا خاطر جمع ہوئی اور انھوں نے موقع پا کر ایک روز ولی عہد بہادر سے عرض کی:
جان عالم میں دیکھتا ہوں حضور کچھ دنوں سے افسردہ خاطر ہیں، نہ تو وہ ناچ رنگ کی صحبتیں ہیں نہ ہنسی دلگی، ہر وقت منہ لپیٹے مسہری پر آرام فرمایا کرتے ہیں، کاش کچھ زبان مبارک سے ارشاد فرمائیں تو غلام کوشش کرے۔ قسم ہے پروردگار عالم کی میری جان بھی اگر کام آوے تو بہت خوشی سے حضور کے قدموں پر نثار کردوں۔ للہ اپنی افسردگی کا باعث ظاہر فرمائیے، غلام سے یہ حالت دیکھی نہیں جاتی۔
ولی عہد: واقعی تم نے بہت صحیح اندازہ کیا، ایک ماہ کا عرصہ ہوا میری طبیعت کچھ ایسی پریشان ہے جو پلنگ پر پڑا رہنا خوش آیا، میں تمھاری ہمدردی سے بہت خوش ہوا، جو شریفوں کا شیوہ ہونا چاہیے وہی تم نے برتا، آج کل میرا ستارہ گردش میں ہے جسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔
میر محمد مہدی: حضور جو فرمائیں بجا درست ہے، اکثر صدقہ دینے سے ستاروں کی خرابیاں رفع ہو جاتی ہیں، حضور کچھ ارشاد فرمائیں کیا عجب ہے اس کا تدارک غلام کے ذریعے سے ہو جائے۔
ولی عہد: تمھاری سچی ہمدردی اور دلجوئی مجھے مجبور کر رہی ہے میں اپنا پورا کچا چٹھا سنادوں، میرے دل کو یقین ہے تم سے اپنی داستان بیان کرنے میں مَیں اپنے دلی مقصد میں کامیاب ہو جاؤں گا، تمھیں یاد ہوگا جرنیل صاحب کے ہمراہ ایک حسینہ و جمیلہ نو عمر طوائف یہاں آ کر ناچی گائی تھی۔
میر محمد مہدی: غلام کو بخوبی یاد ہے، فی الواقع وہ علاوہ حسن و جمال کے اپنے فن میں بھی عدیم المثال ہے ۔
ولی عہد: ہاں ہاں تم نے بہت ٹھیک کہا، وہی میری قاتل ہے، اسی کی ادا نے میرا صبر و شکیب چھین لیا، ہائے اسی کے عشوہ و ناز نے دل بے چین کردیا۔ جب سے اسے دیکھا ہے کسی بات یا کسی شغل میں دل نہیں لگتا، ہر وقت یہی دل چاہتا ہے اس پری جمال کو اپنے سامنے بٹھا کر نظارۂ جمال کیا کروں، میں اچھی طرح جانتا ہوں میرا دل حسن پرست ہے لیکن اس سے پہلے میری حالت کبھی ایسی نہ ہوئی تھی۔
میر محمد مہدی: بندگان عالی متفکر نہ ہوں، ہم لوگ کس دن کے لیے پرورش پاتے ہیں، حضور جلسۂ عیش و عشرت میں مشغول ہوں، غلام بہت جلد کسی تدبیر سے اسے خدمت والا میں حاضر کرے گا لیکن اعلیٰ حضرت دو چار روز اور صبر سے کام فرمائیں کیونکہ جب تک کوئی معقول تدبیر ذہن نشین نہ ہو اس کی ماں بی جان کا راضی ہونا محال ہے۔
باب ۵
کب بجھائے سے بجھا سوزِ محبت اے رشک
لاکھ چھینٹے دیے لیکن تپشِ دل نہ گئی
(خنجر لکھنوی)
ہم جس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں اُن دنوں میں دو عورتیں گانے والی امن و امان جو رئیس فرخ آباد کے یہاں اسی فن کی بدولت عزت و افتخار حاصل کر چکی تھی کسی بات سے رنجیدہ ہو کر لکھنؤ وارد ہوئیں اور کسی ذریعہ سے سرکار ولی عہد بہادر میں ملازم ہو گئیں، یہ دونوں بہنیں کسی قدر سن دراز تھیں لیکن فن موسیقی میں پوری پوری صلاحیت رکھتی تھیں، یہی وجہ تھی جو سرکار ولی عہد بہادر سے سرور محفل خطاب عنایت ہوا اور از بسکہ دونوں فطرتًا چالاک تھیں، اس لیے بہت جلد ولی عہد کے مزاج میں دخیل ہو گئیں؛ انتہا یہ ہوئی کہ ولی عہد بہادر نے اپنی زبان سے بہن کہا۔ ان کی اطاعت و فرمانبرداری مزاج دانی اس حد کی تھی ادھر ولی عہد بہادر نے دل میں کچھ خیال کیا ادھر یہ دونوں اور نجم النسا بیگم سمجھ گئیں، اسی خوش سلیقگی اور دور اندیشی کے سبب سے ولی عہد بہادر بغیر ان کی صلاح و مشورے کے کوئی کام نہ کرتے تھے۔ فی الحال وزیرن طوائف کا معاملہ درپیش اور گل نوخیز بوستان محبوبی کا عشق ولی عہد بہادر کے دل میں ترقی پر تھا، کوئی گھڑی کوئی ساعت وہ پیاری صورت اور اس کی یاد ان کے دل سے نہ جاتی تھی، یہ حال امن و امان نے بھی دیکھا اسی روز سے اسی فکر میں لگیں، کسی طرح ولی عہد بہادر سے ان کا دلی احوال دریافت کرکے اس میں سعی و کوشش کرنا چاہیے، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایک روز موقع پا کر ان دونوں بہنوں نے تمام و کمال حال دریافت کرلیا اور اس کی سعی میں مصروف ہوئیں، علی الخصوص ولی عہد بہادر کے دل بہلانے کو سب پر مقدم رکھا۔ جس روز یہ لوگ انھیں زیادہ فکر مند پاتے عاشقانہ غزلیں ٹھمریاں گا کر آتش عشق ٹھنڈی کرتے۔ قاعدہ ہے جب دل چوٹیلہ ہوتا ہے تو طبیعت اشعار عشق انگیز و درد آمیز کی طرف مائل ہوتی ہے، یہی حال ولی عہد بہادر کا ہے، بات بات پر کلام عاشقانہ زبان پر لاتے، کبھی ٹھمریاں تصنیف کرکے امن و امان کو دیتے کہ تم انھیں گاکر میرا غم غلط کرو۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ آفتاب عالم تاب نصف منزل ختم کر چکا ہے، ولی عہد بہادر کے زنانے مکان کے ایک کمرے میں چند خواصیں، امن و امان، داروغہ نجم النسا بیگم صاحبہ اپنے اپنے مقام پر مؤدب بیٹھی ہیں، صدر کی جانب مسند پر گاؤ سے لگے ہوئے مرزا ولی عہد بہادر جلوہ گر ہیں، سامنے ستار رکھا ہے، ایک ٹھمری جو حال میں تصنیف کی گنگناتے جاتے ہیں اور وجد کے عالم میں جھوم رہے ہیں، بڑی بڑی بادامی آنکھوں میں اشک بھرے ہیں، لیجیے اب انھوں نے امن و امان کی طرف خطاب کرکے کہا۔
ولی عہد: میں نے ایک ٹھمری تصنیف کی ہے، تم اس کی دھن بنا کر سناؤ۔
امن و امان (یک زبان ہو کر): ارشاد ہو، ہم ابھی دھن بنا کر حضور کو سنادیں۔
ولی عہد:
پہلے آستائی سن پھر انترہ پھر یاد کرلینا آستائی
سن او گوئبان سیان رہے واہو دیس
نجم النسا: قربان جاؤں جان عالم کیا خوب ٹھمری تصنیف فرمائی ہے۔
ولی عہد (کسی قدر مسکرا کر): یہ سب دل کی چوٹ کا اثر ہے، جس نے کچھ روز سے بےچین کر رکھا ہے۔
اتنی دیر میں امن و امان نے اس ٹھمری کی دھن بنا کر گانا شروع کیا۔ ایک تو ہمارے ہیرو کے دل پر محبت کی چوٹ لگی ہوئی تھی، دوسرے ان کی درد آمیز آواز سے گانے نے کچھ ایسا اثر کیا قوت صبر رخصت ہو گئی، بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، بے چارے ملازم ایک گوشہ میں مؤدب بیٹھے ہوئے اپنے مالک کا ساتھ دے رہے ہیں، یہ حالت پوری ایک ساعت تک رہی پھر ولی عہد بہادر نے قلم و دوات منگا کر اپنے دلی جذبات کو اس طرح نظم کرنا شروع کیے۔
غزل
میری زبان سے پوچھو مزا محبت کا
یہ خوب جانتی ہے ذائقہ محبت کا
پڑا ہے پاؤں میں اب سلسلہ محبت کا
بتوں کے دل کو مزا دے خدا محبت کا
ہماری موم دلی کا اثر نمایاں ہو
بتوں کے دل کو مزا دے خدا محبت کا
بچے گی جان حزیں کس طرح رقیبوں سے
رہے گا یوں ہی اگر سامنا محبت کا
کھنچاؤ کرکے کیا قتل ایک عالم کو
اگال دے کے دیا خوں بہا محبت کا
برا ہی ہوتا ہے انجام کار عاشق حسن
کچھ اچھا نام نہیں ہے دلا محبت کا
جہاں کی سنگدلی بے وفائی تم میں ہے
ہمارا قلب تو ہے آشنا محبت کا
بندھے ہیں دوش و سر دست و پا و گردن و دل
اسیر زلف ہوں میں مبتلا محبت کا
نصیب فتح ہو یا ہو مجھے شکست اخترؔ
خدا بچائے، ہوا سامنا محبت کا
جب غزل تصنیف ہو چکی تو ایک نقل داروغہ ارباب نشاط کو عنایت ہوئی عمدہ گانے والوں کو دی جاوے آج سرکار سنیں گے، ایک نقل امن و امان کو مرحمت ہوئی تم یاد کر کے سنانا کیونکہ تم میری پسند کی موافق دھن بناتی ہو۔
باب ٦
ایک صاف صاف بات کی تصریح کیا ضرور
صورت سے آشکار ہے سائل کی آرزو
(خنجر لکھنوی)
جھٹپٹا وقت ہے، چراغ جل چکے ہیں، لکھنؤ کے ہر گلی کوچہ سے لوگ نکل نکل کر چوک کی طرف جا رہے ہیں۔ شام اودھ کے فقرے سے کون ایسا ہے جو واقف نہیں، جس طرح صبح بنارس مشہور آفاق ہے، اسی طرح صوبہ اودھ کی شام سرور افزا ہے۔ نوجوان امیرزادوں کا زرق برق پوشاکیں انوکھی وضع تراش خراش اپنی آپ نظیر ہے۔
جس زمانے کا ہم ذکر کرتے ہیں وہ زمانہ بھی عجیب زمانہ تھا، لکھنؤ دار السرور بنا ہوا تھا، روپیہ مینہ کی طرح برس رہا تھا، انتہا یہ تھی کہ تین روپیہ کا ملازم سینکڑوں روپیہ صرف کردیتا تھا۔
اس وقت ایک شخص گھوڑے پر سوار کشمیری محلہ کی طرف سے درگاہ جاتا ہوا دکھائی دیا۔ جانے والا تھوڑا راستہ طے کرنے پایا تھا کہ ایک شخص اس جانب سے آتا ہوا نظر آیا، جب سوار کے قریب پہنچا تو بڑے تپاک سے سلام کیا جس کے جواب میں سوار بھی سلام کر کے گھوڑے سے اتر پڑا۔
سوار: اس وقت میں بہت اچھی ساعت سے گھر سے نکلا تھا جو تم سے ملاقات ہوگئی، اگر تم کسی ضرورت سے نہ جاتے ہو تو گھر واپس چلو میں تم سے بہت ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔
شخص: کیوں خیر تو ہے۔ جب سے تم مرزا ولی عہد بہادر کی سرکار میں ملازم ہوئے اس روز سے دکھائی نہیں دیتے، ہمیں خیال تھا شاید غریبوں سے ملنے جلنے میں کسر شان ہے۔
ناظرین اب تو شاید آپ نے اس سوار کو پہچانا، یہ وہی ہمارے پرانے شناسا داروغہ میر محمد مہدی ہیں، یہ اس وقت یہاں کس ضرورت سے آئے ہیں یہ انھیں کی گفتگو سے معلوم ہوجائے گا۔ دوسرے شخص ادھیڑ مگر قوی الجثہ میر قدرت علی داروغہ مذکور کے لنگوٹیے یار یا کمسنی کے رفیق ہیں، یہ امین الدولہ بہادر کے یہاں ملازم ہیں کیونکہ نواب مذکور رحم دل تھے اس لیے کچھ پرسش نہ کرتے تھے اور صرف یہ مہینے میں دو چار مرتبہ سلام کر کے تنخواہ وصول کر لیا کرتے تھے۔ باقی تمام وقت دوستوں میں صرف کرتے تھے۔ آج بہت روز کے بعد جو پرانے دوستوں میں ملاقات ہوئی، شکوہ و شکایت کے دفتر کھل گئے گئے۔
میر محمد مہدی (بعد شکوہ و شکایت کے): اچھا اب مکان واپس چلو تو میں کچھ مفید مطلب گفتگو کروں۔
اتنا کہنے کے بعد یہ دونوں پھر درگاہ کی طرف واپس چلے، یہاں درگاہ کے قریب ایک چھوٹا سا مکان جو کہنہ ہونے سے خدا کی یاد میں سرنگوں تھا، استرکاری جھڑ جھڑ کر گر گئی تھی، گلی ہوئی اینٹیں نکل آئی تھیں اور زبان حال سے دعا کر رہی تھیں کہ اے معبود ہمارے مالک ناداری دور کر ایک مرتبہ پھر لباس نو پہن کر اپنے مالک کی صفائی مزاج کا باعث ہوں۔
ہمارے دونوں دوست مکان میں داخل ہوئے اور بیٹھ کے کمرے میں جہاں بوریہ کا فرش تھا، ایک طرف مداریہ حقہ رکھا ہوا تھا دوسری طرف ایک ٹھلیہ پر آبخورہ رکھا تھا جس کی دیکھ بھال اور صفائی نہ ہونے سے گرد جم گئی تھی۔ ایک طرف ٹوٹا ہوا کونڈا راکھ سے بھرا ہوا تھا اور اس کے اوپر کچھ کوئلے پڑے تھے، اسی کے پاس ایک سکورے میں تمباکو اور دست پناہ رکھا تھا، طاق پر دیا سلائی کی ڈبیا اور ایک بوسیدہ پنکھا سہولت کار کے لیے موجود تھا۔ یہ دونوں وہاں بیٹھ گئے۔ میر قدرت علی نے جیب سے افیون کی ڈبیا اور ایک پیالی نکالی، ٹھلیہ سے تھوڑا سا پانی لے کر افیون گھولنا شروع کی جب وہ گھل کر تیار ہو گئی تو ذائقہ لے لے کر پی۔ ان کاموں سے فراغت پاکر داروغہ میرمہدی کی طرف مخاطب ہوئے۔
میر قدرت علی: معاف کرنا تمھیں بڑی تکلیف ہوئی۔ آج میں افیون پینا بھول گیا تھا اس وجہ سے ہاتھ پاؤں ٹوٹ رہے تھے، جمائیاں بھی برابر آ رہی تھیں اگرچہ ابھی نشہ نہیں ہوا تاہم تسکین ضرور ہوگئی۔
میر محمد مہدی: ہاں یہ سب عادت سے تعلق رکھتا ہے۔
میر قدرت علی: تم نے کس کام کے لیے یہاں آنے کی تکلیف اٹھائی۔
میر محمد مہدی: کیا بتاؤں کیا کام ہے تم پر مجھے اعتماد ہے اس لیے ایک رائے لینا چاہتا ہوں۔
میر قدرت علی: ضرور کہو تمھارے سر عزیز کی قسم میں کسی کام میں عذر نہ کروں گا خواہ کیسا ہی ہو۔
میر محمد مہدی: میں اپنا مطلب بیان کرنے کے قبل اتنی درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ بہت ہی سمجھ بوجھ کر اُس کام کو کرنا اور اس راز سے کسی کو آگاہ نہ کرنا کیونکہ میری آئندہ زندگی کی تمام امیدیں اس سے وابستہ ہیں، خدانخواستہ ذرا بھی اونچ نیچ ہوئی تو میں کہیں کا نہ رہوں گا۔
میر قدرت علی: استغفر اللہ! میری جانب سے یہ بد گمانی خدا کی قسم اپنا سر کاٹ کر پھینک دوں اگر دل میں کبھی تمھاری طرف بدی کا خیال آئے۔
میر محمد مہدی: ہماری سرکار میں ایک روز جرنیل صاحب بہادر کے ہمراہ وزیرن نامی ایک طوائف جو قصائی کے پل پر رہتی ہے، مجرے کے واسطے آئی تھی، ولی عہد بہادر اس سے محبت کرنے لگے۔ امیر آدمی ضبط و صبر کیا جانیں، ایک ماہ ہوا جب سے ہر وقت چپ چپ رہتے ہیں نہ ناچ رنگ میں دل بہلتا ہے، نہ ہنسی مذاق میں دلچسپی ہے۔ یہ حالت دیکھ کر میں نے عرض کیا جان عالم خدا حضور کو صحیح و سالم رکھے کیوں اس قدر غمگین رہا کرتے ہیں اور اسی طرح ہمدردی کی بہت سی باتیں کیں کی انھوں نے بھی تمام و کمال واقعہ بیان کر دیا۔ مجھے یقین کامل ہے یہ کام میرے ہاتھ سے ہو جائے تو ان کے دل میں بہت کچھ رسوخ ہو، اسی بنا پر ان سے وعدہ کر لیا۔ جب اس مقدمہ پر غور کیا تو بہت سی مشکلیں نظر آئیں اسے سرکار میں لے جانا تو آسان ہے مگر قبلۂ عالم کو خبر ہوگئی تو بہت خرابیاں ہوں گی، مختصر یہ ہے سوچتے سوچتے یہ تدبیر ذہن میں آئی کہ تمھاری معرفت نواب امین الدولہ بہادر کے کانوں تک صاحب عالم کی عشق کی داستان پہنچوا دوں، شاید وزیرن کی ماں داد بیداد کرے تو وہ اپنے ہی مقام پر رفع دفع کر دیں قبلۂ عالم تک خبر نہ ہو لیکن تم ان سے اس طرح بیان کرنا کہ ولی عہد بہادر کا پیغام نہ ثابت ہو۔
میر قدرت علی: لاحول ولا قوۃ میں سمجھا تھا کوئی پیچیدہ معاملہ ہوگا، اتنی سی بات کے واسطے یہ طول مگر ایک بات سمجھ میں نہیں آتی وزیرن طوائف ہے اسے جو روپیہ دے گا اسی کی لونڈی ہو جائے گی پھر ولی عہد بہادر کیوں اس قدر متفکر و پریشان ہیں۔ ہزار دو ہزار دے کر اُسے پھسلا لیں۔
میر محمد مہدی: روپیہ پیسہ کی کوئی بات نہیں، اس کی ماں بڑی چلتی پرزہ ہے اس نے کسی ذریعہ سے معلوم کرلیا ہے کہ ولی عہد بہادر وزیرن کے لیے بہت بے قرار ہیں، پس پاؤں پھیلا دیے، ہزاروں نخرے کرتی ہے کہتی ہے میری لڑکی فالتو نہیں جو ولی عہد بہادر کے یہاں بھیج دوں، اب اسے دھوکا دے کر لے جانے کی کوئی تدبیر نہیں سمجھ میں آتی، ہاں اس کارروائی کے بعد دس پانچ ہزار دے کر راضی نامہ لکھوا لیں گے، لیکن دوراندیشی بہت اچھی چیز ہے شاید وہ صلح نہ کرے اس لیے قبل ہی سے بندوبست ہو جانا بہتر ہے۔
میر قدرت علی: میں بخوبی سمجھ گیا ہوں، تم اطمینان رکھو سب باتیں طے کرکے اسی وقت تم سے کہوں گا۔
میر محمد مہدی: اگر میری مرضی کے موافق سب کام ہو گئے تو یاد رکھو سرکار ولی عہد بہادر سے کچھ نہ کچھ تمھارا وظیفہ مقرر ہو جائے گا کیونکہ میں ان سے ضرور بیان کروں گا میرے لنگوٹئے یار میر قدرت علی نے اس کار خاص میری بہت مدد کی۔
میر قدرت علی (ترش رو ہو کر): میں اپنی منفعت کے لیے اس کام میں نہیں پڑا، صرف تمھاری دوستی کا خیال ہے جو مجھے اس طرف مائل کررہا ہے۔
میر محمد مہدی: تم بھی عجیب گول آدمی ہو، اتنا سن آیا مگر عقل نہ آئی۔ کیا یہ کلمے تمھیں لالچ دلانے کو کہے گئے تھے، میری خواہش ہے تم اور میں ایک جگہ رہیں، جس طرح ایام طفولیت میں مَیں اور تم ساتھ کھیل کود کر بڑے ہوئے اسی طرح یہ زمانہ بھی گزاریں۔
میر قدرت علی: معاف کرنا، پہلے میں تمھارا مطلب نہ سمجھا تھا۔ میر محمد مہدی دوسرے روز ملنے کا وعدہ کرکے رخصت ہوئے اور اپنے گھوڑے پر سوار پر ہو کر قصائی کے پل کی طرف روانہ ہوئے۔
انھیں تو راہ میں چھوڑیے، اب وزیرن طوائف کے یہاں چل کر دیکھنا چاہیے وہاں کیا رنگ ہے۔
رات کے نو بج چکے ہیں راستوں کی چہل پہل کسی قدر کم ہے یا تو وہ نوجوان راستہ چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو اپنا گراں بہا وقت شاہدانِ بازاری کی صحبت میں بسر کرتے ہیں یا وہ لوگ ہیں جنھیں کوئی خاص وجہ کوچہ گردی پر مجبور کرتی ہے، باقی اپنے اپنے مکانوں کو جا چکے ہیں۔ وزیرن طوائف کے مکان میں معمول سے کسی قدر زائد روشنی ہے، کمرے میں فرش بھی اُجلا ہے، صدر میں نہایت نفیس قالین بچھایا گیا ہے۔ وزیرن جان پر تو قیامت کا جوبن ہے، گلابی اطلس کا پائجامہ جس میں اسی کی گوٹ، اس پر بانکڑی ٹکی ہے، سبز کمخواب کا شلوکہ، کریب کا آنچل پلو دار دوپٹہ مارے ڈالتا ہے۔ عاشق مزاج لوگ تو خیر زاہد صد سالہ بھی دیکھے تو درود پڑھنے لگے۔ خدا داد حسن جوانی، اس پر طرہ جامہ زیبی۔ ایک طرف سازندے ساز و سامان سے درست بیٹھے ہیں، بی جان انتظام خانہ داری میں مصروف ہیں۔
مراد خان (وزیرن سے): تم بھی عجیب مزاج کی ہو خواہ مخواہ شام سے بلوا کر بٹھا لیا نہ کوئی آتا ہے نہ جاتا ہے۔
وزیرن: ابھی ابھی نواب کا چوبدار آیا تھا حضور یہیں تشریف لاکر مجرا دیکھیں گے، اسے گئے ہوئے دیر ہوئی اب آتے ہی ہوں گے۔
الہیا خان: نو بج گئے اگر آنا ہوتا تو اب تک آجاتے۔
وزیرن: تم نا سمجھی کی بات کرتے ہو کوئی رئیس اتنے سویرے آئے گا جو وہی چلے آئیں۔
مراد خان: شاید گیارہ بارہ بجے آئیں۔
یہاں یہی ذکر تھا جو ایک چوبدار نے آکر وزیرن سے کہا۔
چوبدار: نواب صاحب کی طبیعت ناساز ہو گئی ہے آج تشریف نہ لائیں گے، آپ کے ہرجے کے روپیے دے دیے ہیں اور کل گھر پر یاد فرمایا ہے۔
یہ کہہ کر جیب سے دو اشرفیاں نکال کر وزیرن جان کی نذر کیں۔
وزیرن (اشرفیاں لے کر): اس کی کیا ضرورت تھی، میری طرف سے نواب صاحب کی خدمت میں آداب تسلیمات عرض کرنا اور کہہ دینا حضور کا مزاج پوچھا ہے۔
چوبدار: میں ابھی عرض کر دوں گا۔
وزیرن (روپیہ دے کر): لو اس کی مٹھائی کھانا۔
چوبدار (روپیہ لے کر، سلام کرکے): تو کل صبح میں پھر حاضر ہو کر یاد دلاؤں۔
وزیرن: تم کیوں تکلیف کرو مکان معلوم ہی ہے۔
اتنا کہہ کر انھوں نے ایک گلوری اسے دی، وہ سلام کر کے رخصت ہوا۔ اسے گئے ہوئے کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ ہمارے پرانے شناسا داروغہ میر محمد مہدی صاحب کمرے کے دروازے میں داخل ہوئے اور بعد صاحب سلامت قالین پر ایک طرف بیٹھ گئے، انھیں دیکھ کر بی جان بھی یہیں آ بیٹھی۔
بی جان: کہیے داروغہ صاحب کدھر بھول پڑے۔
میر محمد مہدی: عرصہ سے آپ کی ملاقات کا اشتیاق تھا، کثرت کار سے فرصت نہ ہوئی یہ تو کہیے کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا، بی وزیرن جان کے ناچ گانے نے ہمارے سرکار پر بہت بڑا اثر کیا۔ مجھے حکم ہوا ہے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر مجرے کا بیعانہ پیش کروں۔
بی جان (مسکرا کر): یہ فرمائیے آ نا بھی ہوا تو اپنے مطلب سے۔
میر محمد مہدی: آپ جانتی ہیں محکوم ہمیشہ بے بس ہوتا ہے، ہاں فرمائیے اس وقت آپ لوگ میرے ہمراہ چل سکتے ہیں۔
بی جان: یہ تو ہمارا پیشہ ہے لیکن آج نواب کجن صاحب تشریف لانے والے ہیں۔
دیکھیے استاد لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں، ان سے کھچڑی کا روپیہ نہ لے چکی ہوتی تو کوئی عذر نہ تھا۔
میر محمد مہدی: آج فرصت نہیں تو کل کے بارے میں کیا فرماتی ہیں۔
بی جان: کل بھی ان کے گھر پر مجرا کرنا ہے۔
میر محمد مہدی: پرسوں تو فرصت ہے۔
بی جان: برسوں کی بابت میں ابھی نہیں بتا سکتی۔
میر محمد مہدی: اس سے ظاہر ہوتا ہے آپ کو وہاں جانا پسند نہیں۔
بی جان: آپ جو چاہیں خیال فرمائیں۔
میر محمد مہدی: دیکھیے بی جان صاحبہ آپ بڑی غلطی کر رہی ہیں جو ایسی سرکار چھوڑے دیتی ہیں، دوستانہ رائے دیتا ہوں، آپ ولی عہد بہادر کی خوشی کر دیجیے خدا جانتا ہے نہال ہو جائے گا، لکھنؤ میں کوئی طوائف آپ کے مقابلے کی نہ نکلے گی۔
میری سمجھ میں نہیں آتا آپ کیوں انکار کرتی ہیں، روپیہ، پیسہ، عزت، حرمت، حکومت ایسی کونسی چیز ہے جو ہمارے سرکار میں نہیں، دور دور فیاضی کا آوازہ ہے غالبا آپ بھی واقف ہوں گی۔
خدا گواہ ہے میں نے اس سرکار سے بہتر خلیق و غریب پرور رحم دل سرکار نہیں دیکھی، بے واسطہ ہزاروں آدمی پرورش پا رہے ہیں، للہ ایسا نایاب موقع ہاتھ سے نہ جانے دیجیے۔
بی جان: جس قدر آپ نے بیان کیا بہت کم ہے میں اس سے بہت زیادہ سمجھتی ہوں، لیکن میر صاحب میرے ایک ہی اولاد ہے اور وہاں جو گیا پھر اس کا نکلنا دشوار ہے، یہ کیونکر ہو سکتا ہے میں روپیہ کے واسطے اپنی لڑکی ہاتھ سے کھو دوں۔
میر محمد مہدی: یہ صرف آپ کا خیال ہے، ولی عہد بہادر ایسے سنگدل نہیں جو آپ کی لڑکی کو آپ سے چھڑا لیں گے، انھیں بھی تو قبلۂ عالم کا خوف ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے اگر انھیں ضد دلائی جائے گی تو غصہ کی حالت میں جو حرکت کر بیٹھیں تعجب نہیں۔
بی جان: یہ نہیں ہو سکتا وہ رعایا پر صریحاً تشدد کریں اور بندگانِ عالی خبر نہ لیں، غریبوں بیکسوں کی فریاد کے لیے ہر وقت در دولت کھلا رہتا ہے، خدا قبلۂ عالم کو ایک سو تیس برس تک زندہ سلامت رکھے رعیت کا بہت خیال فرماتے ہیں۔
میر محمد مہدی: مجھے اس سے کچھ بحث نہیں، جو میری دوستی کا مقتضا تھا وہ کرچکا اب آپ جانیں آپ کا کام جانے۔
اس قدر گفتگو کے بعد داروغہ میر محمد مہدی غصہ میں بھرے ہوئے اٹھے، صاحب سلامت کرکے خاص مکان کی طرف روانہ ہوئے۔
باب ۷
کیا خبر تھی کہ محبت کا یہ ہوگا انجام
بے سبب قیدی زندان بلا ہو جانا
رات کا وقت ہے، مرزا ولی عہد بہادر کے خاص مکان میں حسبِ معمول روشنی وغیرہ ہو رہی ہے لیکن وہ جلسے جو دل بستگی کے لیے ہوا کرتے تھے، نہیں معلوم ہوتے؛ نہ سارنگی کی سریلی صدائیں کان میں آتی ہیں نہ طبلے بائیں کی گھن گرج آوازوں سے مکان گونجتا ہے، جہاں جنت کی قمریاں اپنی دلکش شیریں آوازوں سے ہر وقت دل لبھایا کرتی تھیں اسی مکان میں آج خاموشی کا عالم ہے، جس قدر شاگرد پیشہ لوگ ہیں اپنے اپنے ٹھکانوں پر ساکت بیٹھے ہیں، نشست کے کمرے میں بالکل سناٹا ہے، ہاں چند آدمی دکھائی دیتے ہیں، ایک تو داروغہ حال میر محمد مہدی جنھیں سرکار ولی عہد سے امیر الدولہ بہادر کا خطاب عنایت ہوا اور دو شخص اور ہیں، بہاؤ الدولہ غلام علی اور اکبر الدولہ میر اکبر علی یہ دونوں مرزا ولی عہد بہادر کے پرانے رفیقوں میں سے ہیں، جو باب عالی کی طرف سے جداگانہ خدمتوں پر سرفراز ہیں، بہاؤ الدولہ بہادر تو بھر ماروں کی پلٹن کی کمیدانی پر معمور ہیں۔
اکبر الدولہ دیوان خانہ سلطانی کے پیشکار ہیں، آج امیر الدولہ بہادر میر محمد مہدی کی زبانی ولی عہد بہادر کے عشق کی داستان سن کر مزاج پرسی کے واسطے حاضر ہوئے ہیں، لیکن ولی عہد بہادر کو درد ہجر سے فرصت کہاں جو باہر آئیں، یا یہ ہو کہ ملازموں نے خوف کی وجہ سے ان لوگوں کی حاضری کی خبر نہ کی ہو، بہرحال ولی عہد بہادر اس صحبت میں موجود نہیں، ان لوگوں میں کچھ آہستہ آہستہ گفتگو ہو رہی ہے، جو بخوبی سمجھ میں نہیں آئی، ہاں جس قدر ہم سن سکے ہدیہ ناظرین ہے۔
امیر الدولہ: میں نے خواجہ سرا سے کہلوا تو بھیجا ہے خدا ہی ہے جو اس وقت سرکار برآمد ہوں۔
بہاؤ الدولہ: اماں کچھ مفصل حال بیان کرو کس سے ولی عہد بہادر کو عشق ہوا، وہ کون خوش نصیب عورت ہے۔
اکبر الدولہ: سنا ہے وزیرن طوائف کی طرف طبیعت مائل ہے۔
امیر الدولہ: جی ہاں ہے تو طوائف لیکن بلا کی ہوشیار ہے۔ بظاہر تو وہ یہاں آنے کی بالکل روادار نہیں، کل میں خود اس کے مکان پر گیا تھا ایسی ایسی باتیں کیں میرے ہوش اڑ گئے، مجھے تو سیدھی انگلیوں سے گھی نکلتے معلوم نہیں ہوتا۔
بہاؤ الدولہ: اگر یوں نہ آئے تو زبردستی لے آئیں گے، بھلا اس کی مجال ہے ولی عہد بہادر یاد فرمائیں اور وہ حیلہ بازی کرے۔
امیر الدولہ: یہ سچ ہے لیکن قبلہ عالم کو خبر ہو جائے تو کیا ہو۔
اکبر الدولہ: اس کا انتظام پہلے ہی سے کر لیں گے۔
امیر الدولہ: میں نے تھوڑا بہت بندوبست کر لیا ہے۔
بہاؤ الدولہ: کیا بندوبست کیا ہے میں بھی سنوں۔
امیر الدولہ: میر قدرت علی کی معرفت نواب امین الدولہ بہادر کو اس بات پر راضی کر لیا ہے اگر ان سے بی جان وزیرن کی ماں داد فریاد کرے تو کچھ شنوائی نہ کریں اور جہاں تک ممکن ہو قبلہ عالم کو خبر نہ ہونے پائے۔ یہ بھی سنا ہے سرکار نے مصاحب السلطان اور حبیب السلطان کی معرفت خود بھی نواب صاحب کو پیغام بھیجا ہے، انھوں نے منظور بھی کر لیا ہے لیکن کوئی مفید صورت نہیں نکلی؛ شاید انھوں نے سرکار کے بہلانے کے واسطے منظور کرلیا ہو۔
اکبر الدولہ: جہاں یہ سب ہے وہاں یہ بھی ہوگا امین الدولہ بہادر کو جو ولی عہد بہادر کا بہت پاس و لحاظ ہے اور کیوں نہ ہو آخر انھوں نے پڑھایا ہے۔
بہاؤ الدولہ: میرا خیال ہے اگر تم لوگوں کی طرف سے وزیرن کے یہاں لانے میں زیادتی سے کام لیا جائے گا تو امین الدولہ بہادر کچھ تعرض نہ کریں گے۔
امیر الدولہ: بہت صحیح ہے میرا بھی یہی خیال ہے مگر دیکھا چاہیے اونٹ کس بل بیٹھتا ہے۔
یہاں یہی ذکر تھا کہ چوبدار نے آکر اطلاع دی حضور ولی عہد بہادر تشریف لاتے ہیں، یہ خبر سن کر سب لوگ مؤدب ہو کر تعظیم کے واسطے سر و قد کھڑے ہو گئے، جب ولی عہد بہادر آکر مسند پر جلوہ افروز ہوئے تو جھک کر فراشی سلام کر کے اپنے اپنے مقام پر بیٹھ گئے، کچھ دیر یہاں سکوت کا عالم طاری رہا تھوڑی دیر کے بعد اس طرح سلسلہ کلام شروع ہوا۔
بہاؤ الدولہ: شب بخیر حضور عالی! مزاج کیسا ہے، دیکھتا ہوں حضور بے حد لاغر ہوگئے ہیں، چہرہ بھی پژمردہ نظر آتا ہے۔
ولی عہد بہادر (ٹھنڈی سانس بھر کر): کیا کہوں کس مصیبت میں گرفتار ہوں بس یہ سمجھ لو حضرت دل کی بدولت جو کچھ نہ ہو کم ہے۔
اکبر الدولہ: ہم لوگوں نے ابھی ابھی امیر الدولہ بہادر کی زبانی تھوڑی بہت کیفیت سنی، سخت صدمہ ہے۔ آخر حضور کیوں اس قدر متفکر ہیں، ذرا صبر سے کام لیں ہم لوگ ان شاءاللہ حضور کی مطلب براری کے واسطے جان لڑادیں گے، حضور اس طرح بے قرار و بے تاب ہوں گے تو ہم سے کچھ نہ ہو سکے گا۔
ولی عہد بہادر (آنسو پوچھ کر): مجھے تم لوگوں سے ایسی ہی امید ہے جیسا کہ تم کہتے ہو مگر کیا کروں دل بے قابو ہوا جاتا ہے۔
نہ مانتا دل بے تاب کا کہا لیکن
پہ کیا کروں کہ طبیعت پہ اختیار نہ تھا
امیر الدولہ: جان عالم! خدا کا واسطہ ایسے مایوسانہ کلام زبان سے نہ نکالیے، غلاموں کے دلوں میں اتنی طاقت نہیں جو متحمل ہو سکیں، حضور کو ہرگز اس طرح بے تاب و بے قرار ہوکر گریہ و زاری نہ چاہیے۔
مشکلیں نیست کہ آسان نہ شود
مرد باید کہ ہراسان نہ شود
خدا نے چاہا تو حضور کی معشوقہ پری چہرہ و صاحب جمال کو بہت جلد حضور کے پہلو میں بٹھادیں گے، چندے ضبط و تحمل کرنا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ان باتوں کی خبر قبلۂ عالم کو ہو جائے یا بی جان خود در دولت پر داد فریاد کرے اور پرچے اعلی حضرت کی نظر سے گزریں تو بنا بنایا کھیل بگڑ جائے۔
ولی عہد: تم لوگ جو کہتے ہو میری خیرخواہی کے لیے کہتے ہو لیکن میں بھی اپنے بس میں نہیں ہوں۔
اکبر الدولہ: حضور! ہم کو ایک ماہ کی اجازت عطا فرمائیں تاکہ ہم لوگ پوری جانسوزی دکھا سکیں، اس کے بعد حضور کو اختیار ہے جو طریقہ ذہن مبارک میں آئے اس پر کاربند ہوں۔
ولی عہد: خیر تمھاری خاطر سے ایک ماہ تک اور دل پر صبر کی سل رکھے لیتا ہوں لیکن دیکھو میرے درد دل کے علاج میں کوتاہی نہ کرنا، جس قدر عجلت سے کام لیا جائے بہتر ہے، اب میرے دل میں غم اٹھانے کی طاقت نہیں۔
باب ۸
یو نہیں جو گرم بازاری رہے گی آہ سوزاں کی
جلادیں گے اسیرانِ محبت کنج زنداں کو
اندھیری رات ہے، بارہ بج چکے ہیں، ہر گلی کوچہ میں سناٹا پھیلا ہوا ہے، سوائے چوکیداروں کی (یا علی حیدر) کی آواز یا ان جنگلی کتوں کی صدائیں جو گلی کوچوں میں مارے مارے پھرا کرتے ہیں کسی قسم کی چہل پہل نہیں۔ اس وقت قصائی کے پل پر ایک عورت سر سے پاؤں تک سیاہ چادر اوڑھے ہوئے اور دو مرد ادھر ادھر آتے ہوئے دکھائی دیے، ان کی رفتار سے معلوم ہوتا ہے کوئی اہم معاملہ درپیش ہے جو انھیں گلی کوچوں کی ٹھوکریں کھلوا رہا ہے، ورنہ یہ وقت جو پروردگار نے اپنے بندوں کی آسائش کے واسطے بنایا ہے، ان لوگوں کا یوں در بدر پھرنا کیا معنی۔ آخر کار یہ لوگ رفتہ رفتہ اس مکان تک پہنچ گئے جو حور منزل یعنی وزیرن کے رہنے کا گھر ہے، یہاں پہنچ کر یہ سب ٹھٹک کر کھڑے ہوگئے اور آپس میں کچھ سرگوشیاں ہوئیں پھر وہی سیاہ پوش عورت آہستہ آہستہ دروازے کی طرف بڑھی، اس کے ہمراہی مرد ادھر ادھر ہو گئے۔ اس نے دروازے کے قریب پہنچ کر آہستہ سے اسے دھکا دیا جو فوراً کھل گیا اور یہ مکان میں داخل ہو کر جس کمرے میں وزیرن آرام کرتی تھی پہنچ گئی۔ یہاں روشنی بالکل کم تھی، وزیرن سفید دلائی اوڑھے پلنگ پر خواب ناز میں مشغول تھی۔ یہ عورت آہستہ سے وزیرن کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی، اس حرکت سے وزیرن کی آنکھ کھل گئی، اس نے فوراً اپنے منہ سے دُلائی کا آنچل ہٹا کر خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا، ہائے کمسنی بھی کیا چیز ہے، ایک سیاہ پوش کو دیکھتے ہی ڈر سے تمام جسم کانپنے لگا، عجب نہ تھا جو وہ گھبرا کر چیخ اٹھتی۔ سیاہ پوش عورت اس کے خوف سے خبردار ہو گئی اور اپنا برقع اتار کر کہنے لگی۔
عورت: ڈرنا نہیں، میں ہوں نجم النسا بیگم اس وقت ہمارے سرکار بہت بے چین ہیں، تمھاری خیریت دریافت کرنے کو بھیجا ہے۔ مجھے بہت ڈر تھا کہ بی جان وہاں ہوں گی شکر ہے میرا خیال غلط نکلا وہ اس وقت کہاں گئی ہیں؟
وزیرن: استاد کے یہاں خدائی رات ہے میری طبیعت سست تھی اس لیے وہ وہاں گئی ہیں ایک بجے تک واپس آئیں گی۔
نجم النسا: میری خوش قسمتی میں شک نہیں، کسے امید تھی تم سے تنہائی میں باتیں کرنے کا موقع ملے گا۔ تم سے ضروری باتیں کرنا ہیں اگر غور سے سنو اور جواب دینے کا وعدہ کرو تو کہوں۔
وزیرن: فرمائیے۔
نجم النسا: دیکھو بیٹا تم ماشاءاللہ سمجھدار ہو، ایسی نایاب سرکار ہاتھ سے نہ جانے دو، روپیہ پیسہ، عزت، حرمت، صورت، سیرت، شان و شوکت، حکومت سبھی تو خدا نے ولی عہد بہادر کو عطا کیا ہے، تمھاری ماں کی آنکھوں پر پردے پڑے ہیں، خدا جانے کیوں وہاں بھیجنے سے انکار کرتی ہیں اور اس سے وہ انکار کرتی ہیں اگر ان کے مزاج میں ضد آجائے تو قیامت ہو جائے، جب چاہیں حکومت کے زور سے طلب کرلیں گے لیکن اللہ رکھے ان میں ایسی عادت نہیں جو جبر و ظلم کریں۔
وزیرن (ٹھنڈی سانس بھر کر): آپ بہت سچ فرماتی ہیں، اس میں ان کا کچھ قصور نہیں یہ سب میری قسمت کا کرشمہ ہے آپ مثل بزرگوں کے شفقت فرماتی ہیں اس لیے میں دلی راز کہے دیتی ہوں مجھ سے قسم لے لیجیے جب سے آپ کے سرکار کو دیکھا آج تک کبھی نیند بھر کے نہیں سوئی۔ کیا کروں اما جان پر اختیار نہیں بےبس ہوتی ہوں، منہ لپیٹ کر پڑ رہتی ہوں یا چپکے چپکے آنسو بہا کر دل ٹھنڈا کرلیتی ہوں۔ آپ ہی فرمائیے اس کے علاوہ کیا کر سکتی ہوں۔
نجم النسا: واقعی تمھاری حالت پر افسوس ہوتا ہے میں تمھاری ماں کو اتنا سنگ دل نہ جانتی تھی۔ تم دیکھو تو کیا ہوتا ہے ولی عہد بہادر کی خوشی نہ ہو غیر ممکن ہے، رہا بی جان کا راضی ہونا یہ خوشی سے نہ منظور کریں گی تو کوئی اور کارروائی کی جائے گی۔
وزیرن: اے ہے خدا کے لیے میری اماں جان کو کوئی تکلیف نہ دی جائے، ان کا مجھ پر بہت بڑا حق ہے۔ رہیں ایسی ناسمجھی کی باتیں یہ ان کے سن کا باعث ہے، للہ کوئی ایسی تدبیر کیجیے کہ انھیں بھی اذیت نہ ہو اور ولی عہد بہادر کا بھی کام ہو جائے۔
نجم النسا: حقیقت میں تم فخر خاندان ہو، جس کی ماں ایسی پست خیال ہو اس کی لڑکی ایسی بامروت خدا کی شان ہے، خیر میں تمھاری خاطر سے اتنا کر سکتی ہوں کہ تمھاری ماں تمام عمر مصیبت نہ جھیلنے پائے گی لیکن دس پندرہ روز ضرور تکلیف اٹھانا پڑے گی کیونکہ وہ خوشی سے راضی نہ ہوں گی اور تمھارا وہاں جانا لازمی ہے جب تم وہاں پہنچ جاؤ گی تو وہ آزاد ہو جائیں گی۔
وزیرن: ہائے غضب کیا وہ قید کی جائیں گی۔
نجم النسا: ہاں میں تمھیں ان باتوں کی اطلاع دینے آئی ہوں، ہمارے سرکار تمھاری مرضی کے خلاف کوئی کارروائی کرنا نہیں چاہتے۔ مناسب ہو تو تم اپنی ماں کو سب نشیب و فراز سمجھا کر راضی کر لو، تمھیں ایک مہینے کی مہلت دی جاتی ہے میں یہاں زیادہ آ جا نہیں سکتی تمھاری ماں ناراض ہوتی ہیں، اس وقت وہ یہاں ہوتیں تو خدا جانے میرا کیا دھاڑا کرتیں۔
وزیرن: خیر ایک مرتبہ اور دل کڑا کر کے انھیں سمجھاؤں گی، خدا کرے راضی ہو جائیں۔
یہاں یہی ذکر تھا کہ ایک آدمی لالٹین لیے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے بی جان مکان میں داخل ہوئیں، نجم النسا کو دیکھ کر غصے سے چراغ پا ہو گئیں اور ڈانٹ کر کہنے لگیں۔
بی جان: میں نہیں سمجھتی میرے یہاں سرکاری داروغاؤں کا کیا کام جو یہ لوگ رنڈیوں کے مکان میں بارہ بارہ ، ایک ایک بجے رات کو آیا کرتے ہیں۔ آخر اس آمد و رفت سے کیا منشا ہے، کیا میری لڑکی کو مجھ سے چھڑانا چاہتے ہیں، اگر یہی مطلب ہے تو میں در دولت پر دہائی دوں گی کہ ہمیں ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں کیا وجہ ہے جو یہ لوگ ہمارے یہاں آدھی رات پچھلے پہر آیا کرتے ہیں۔
نجم النسا یہ ہنگامہ سن کر بہت گھبرائیں لیکن کیا کرتیں، وقت ہی ایسا تھا جو خون کے گھونٹ پی کر چپ ہوجانا پڑا، ادھر بی جان کا غصہ بڑھتا ہی گیا آخر یہ بعجلت تمام اس کے گھر سے نکل کر بے نیل مرام سرکاری ڈیوڑھی کی طرف روانہ ہوئیں۔ خاص مکان میں مرزا ولی عہد بہادر شب فراق سے گھبرا گھبرا کر گریہ و زاری میں مصروف تھے، کبھی شبیہ یار سے شکوۂ جفا تھا کبھی اپنی قسمت سے گلہ، کبھی چرخ جفاکار کے جور و ستم کی شکایت کبھی دل بے قرار سے بیزاری، الغرض یہ امید و بیم کی کشمکش میں تھے کہ نجم النسا سرجھکائے ہوئے غمگین سامنے آئیں۔ اس وقت یہ مایوسی کی مجسم تصویر تھیں، چہرے سے حزن و ملال ہویدا تھا، ہاتھ پاؤں غصے سے کانپ رہے تھے، ولی عہد بہادر یہ حال دیکھ کر پریشان ہو گئے۔
ولی عہد: کہو کیا خبر لائیں، تم اس وقت نہایت مضطرب و پریشان نظر آتی ہو کیا سبب ہے جلدی بیان کرو۔
نجم النسا: آہ جان عالم اپنی رسوائی کس زبان سے بیان کروں۔
ولی عہد: استغفر الله، تمھیں کون رسوا کر سکتا ہے میرے ہوتے ہوئے کس کی مجال ہے جو تمھاری بدنامی کے درپے ہو۔
نجم النسا: پیر و مرشد بجا فرماتے ہیں، اب تو میں بیان کرتے ہوئے اور زیادہ ڈرتی ہوں ایسا نہ ہو حضور غصہ میں ایسا حکم دے دیں جس سے میری اتنے دنوں کی محنت رائیگاں ہو۔
ولی عہد: نہیں نہیں تم شوق سے بیان کرو، میں تمھاری مرضی کے خلاف کوئی امر نہ کروں گا۔
نجم النسا: میں اس وقت وزیرن کے گھر گئی تھی، اتفاق سے اس کی ماں بی جان مراد خان کے یہاں رت جگے میں گئی تھی، اتفاق سے گھر میں صرف وزیرن یا دو ایک نوکر رہتے ہیں، وزیرن کے پاس جا کر بیٹھی تو دیکھا وہ بھی حضور کی محبت میں سرگرم آہ و نالہ ہے، اس کی دلی منشا ہے کسی طرح حضور کا وصل ہو لیکن بےچاری اپنی ماں سے مجبور ہے، میں اس سے بہت دیر تک مفید مطلب گفتگو کرتی رہی نا گاہ اس کی ماں خونخوار شیرنی کی طرح ڈکارتی ہوئی آج گئی اور اس قدر شور و غل مچایا کہ مجھے ایک لمحہ بھی ٹھہرنا دشوار ہو گیا اور اسی طرح ترساں و لرزاں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی۔
ولی عہد (غضبناک ہو کر): اس کی یہ مجال ہوئی کہ تمھیں سخت و سست کہا، میں ابھی امیر الدولہ کو حکم دیتا ہوں فوراً جا کر ان دونوں کو حضور میں حاضر کرے۔
نجم النسا: پیر و مرشد! ابھی عتاب نہ فرمائیں میں وزیرن کو بہت ڈرا آئی ہوں، یقین ہے وہ اپنی ماں کو لالچ یا خوف سے اس بات پر راضی کرے گی کہ وہ حضور کی مرضی کے موافق کاربند ہو۔
ولی عہد: نہیں نہیں، سیدھی طرح سے وہ راہ پر آتے نظر نہیں آتی، واقعی میں نے غلطی کی جو اب تک اس کی خوشی کا منتظر رہا۔
نجم النسا: خدا کا واسطہ جان عالم میرا بنا بنایا کام نہ بگاڑیے، میں نے بڑی کوشش سے اس قدر رسوخ پیدا کیا ہے، وزیرن میرے کہنے پر عمل کرنے لگی ہے مجھے یقین ہے وہ ضرور اپنی ماں کو خوف خداوندی سے ڈرا کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوگی، حضور ایک مہینہ لونڈی کی خاطر سے ضبط وصبر میں گذاریں اس کے بعد جو طریقہ ذہن مبارک میں آئے اختیار کریں، ایسا نہ ہو جلد بازی میں حضرت ثریا جاہ کو اطلاع ہو جائے تو لاکھ کا گھر خاک ہو جائے اور بجز کف افسوس ملنے کے کچھ ہاتھ نہ لگے گا۔
ولی عہد: خیر تمھاری خوشی سے ایک مہینہ اور دل پر جبر کرتا ہوں۔ تم لوگوں کو لازم ہے جانفشانی کا طریقہ اختیار کرو خوب کان کھول کر سن لو جب تک میری محبوبہ میرے پہلو میں نہ ہوگی مجھ پر خواب و خور حرام ہے، کیا عجب ہے جو کسی روز غم جدائی سے اپنی جان شیریں تلف کردوں پھر تمھیں سوا کف افسوس ملنے کے کوئی چارہ نہ ہوگا۔
باب ۹
خاک ہو سکتا نہیں تدبیر سے
آدمی مجبور ہے تقدیر سے
گرمیوں کا زمانہ، دوپہر کا وقت، لو کی شدت سے تمام جسم میں آگ لگی ہوئی ہے، امیروں کو روپیہ کے زور سے موسم گرما میں گلابی جاڑوں کی گلابی کیفیت حاصل ہے، بڑے بڑے زمین دوز تہ خانے بنے ہوئے ہیں، یہاں خس کے پردے جو برابر پانی سے تر کیے جاتے ہیں پڑے ہیں؛ ہاں وہ غریب جو بے چارے مفلوک الحالی سے پریشان ہو کر تمام دن لگاتار محنتوں کے بعد شام کو پیٹ بھرنے کے لیے تھوڑا بہت پا جاتے ہیں ان سے گرمی کا لطف نہ پوچھیے، آفتاب کی حدت سے رنگ سنولا گیا ہے، پسینہ کا یہ حال ہے جیسے ابھی نہا کر آئے ہوں، نہ تو انھیں شورے میں جھالا ہوا پانی میسر ہے نہ بڑے بڑے خس خانوں میں آرام سے بیٹھنا نصیب ہے، اگر آرام لینے کے لیے سو گئے تو جمعدار نے نصف مزدوری کاٹ لی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچوں کو ذرا ظہور کھلا کر خود تمام رات فاقہ کیا۔ یہ رفتار زمانہ ہے جسے واقعتاً نظریں روز مشاہدہ کرتی ہیں۔ اب ہم مطلب کی طرف رجوع ہوتے ہیں، اس وقت بی جان کے مکان میں ایک کمرے میں خس کی ٹٹیاں لگی ہیں جنھیں ایک آدمی نے وقتاً فوقتاً پانی سے تر کر رکھا ہے۔ اس کمرے میں چار شخص ہیں جس میں ایک تو خود بی جان ہیں، دوسری وزیرن اور باقی دو شخصوں میں ایک مراد خان دوسرے الہیا خان جو آپس میں کسی خاص معاملہ کی نسبت گفتگو کر رہے ہیں جو ان کی گفتگو سے ظاہر ہو جائے گا۔
وزیرن: امی جان! کل رات کو آپ نے بڑا غضب کیا جو اس طرح نجم النسا کو ڈانٹا۔
بی جان: بیٹا! ابھی تم بچہ ہو، ان باتوں کو کیا جانو۔ روپیہ پیدا کرنے کی یہی تدبیریں ہیں، اس طرح رئیس کے دل پر رعب چھا جاتا ہے اور وہ ایک روپیہ خرچ کرنے والا ہوتا ہے تو دس روپیہ خرچ کرتا ہے۔
وزیرن: یہ سچ ہے لیکن ولی عہد بہادر کے آدمی کو ناراض کرنا اچھا نہیں، کل نجم النسا صاف صاف کہہ گئیں کہ سب بندوبست ہو گیا ہے، ولی عہد بہادر اس وقت کچھ سپاہی بھیج کر تمھاری ماں کو گرفتار کرنے والے تھے لیکن میں نے بہت نشیب و فراز دکھا کر انھیں اس حرکت سے باز رکھا صرف اس لیے کہ تم سے محبت ہو گئی ہے لہذا تم اپنی ماں کو سمجھا بجھا کر راضی کردو ورنہ ان کے واسطے مفر کی صورت نظر نہیں آتی، وہ پوری باتیں بھی نہ کرنے پائی تھیں کہ آپ آ گئیں اور انھیں ایسا آڑے ہاتھوں لیا کہ وہ بے چاری اپنی جان بجا کر بھاگیں۔
مراد خان (وزیرن کی باتیں سن کر): جناب بی جان صاحبہ! خدا نظر بد سے بچائے، ماشاءاللہ آپ کی صاحبزادی نہایت دور اندیش اور عقلمند ہیں، واقعی اس وقت جس قدر باتیں انھوں نے کہیں سب آپ کے لیے مفید ہیں کیونکہ ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے، آپ کی کشیدگی اور ولی عہد بہادر کے اشتیاق کی حد ہو گئی، اب زیادہ کھنچنے سے یہ اندیشہ ہوا ہوتا ہے کہیں ایسا نہ ہو ولی عہد بہادر کی طبیعت میں اشتعال پیدا ہو جس کا نتیجہ آپ کے واسطے بہت تکلیف دہ ہے۔ میری رائے میں اب آپ جس قدر روپیہ طلب کیجیے گا آپ کو بے عذر مل جائے گا، پھر کیا وجہ ہے جو ایسا اچھا موقع ہاتھ سے دیا جائے۔ میں نے ابتدا میں آپ کی رائے سے اتفاق کیا تھا تھا اور اب وقت و مصلحت کے لحاظ سے وزیرن جان کی صلاح ہے کہتا ہوں، شاید آپ کا خیال یہ ہو ولی عہد بہادر گھر ڈال لیں گے تو یہ خیال ہی خیال ہے۔
بالفرض ایسا ہی ہوا تو کوئی نقصان نہیں، میں نے سنا ہے وہ پری خانہ بنانے والے ہیں جہاں جوان جوان کمسن عورتیں علم موسیقی حاصل کرنے کے لیے رکھی جائے گی، اس کام کے واسطے ہم لوگوں کا موجود ہونا لازمی ہے۔ وزیرن سے ہمیں یہ بھی امید ہے وہ اپنی تعلیم کے واسطے ہمیں کو ملازم رکھے گی اور ہم پر آپ کو کافی اطمینان ہے۔ دوسرے جب چاہے آپ خود آ جا سکتی ہیں، آپ کے واسطے ممانعت یا روک ٹوک نہ ہوگی، روپیہ پیسہ کی کمی نہیں سچ تو یہ ہے کہ آپ کی خوش نصیبی میں کلام نہیں خواہ آپ اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیں۔
بی جان: میں اچھی طرح سمجھتی ہوں۔ اس وقت کی باتوں نے گونہ فکر میں ڈال دیا ہے، خیر اس معاملے کو اچھی طرح سوچ سمجھ لوں تو کوئی رائے قائم کروں۔
مراد خان: آپ کو لازم ہے بہت جلد اپنے دل سے کوئی نہ کوئی فیصلہ کر لیجیے، وقت ہاتھ سے نکل جائے گا تو بجز افسوس کچھ حاصل نہ ہوگا۔
باب ١٠
وصل چاہا جو کسی کا تو غم ہجر ملا
میرے معبود یہ تاثیر دعا کیسی ہے
صبح کا سہانا وقت ہے، آفتاب عالمتاب افق مشرق سے ظاہر ہو کر اپنی نورانی شعاعوں سے کرۂ زمین کو منور کر رہا ہے، علی الخصوص دریا کا سماں قابل دید ہے، سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں پانی میں گر گر کر عجب دلکش سین پیدا کر رہی ہیں، چھوٹی چھوٹی لہروں کا بے تابانہ مچل مچل کر آغوش ساحل سے ٹکرانا خالی از کیفیت نہیں۔
دریائے گومتی کے کنارے جو شاہی عمارت چتر منزل کے نام سے مشہور ہے اپنی شاہی شان و شوکت کے علاوہ کمین کو بھی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔ اس قصر کی سجاوٹ و آراستگی کا کیا ذکر، جو لوگ آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں آج تک دل ہی دل میں مزے اٹھاتے ہیں۔
اس وقت چتر منزل کے ایک کمرے میں مرزا ولی عہد بہادر لیٹے ہوئے خیال یار سے ہمکلام ہیں، کبھی بے وفائی کا شکوہ ہوتا ہے، کبھی اس بھولی بھولی شرمیلی تصویر کو گلے لگا کر حسرت وصل نکالی جاتی ہے، واقعی کسی عاشق کے دل سے تصور کا مزا پوچھیے۔
نہ پوچھیے کہ تصور میں لطف کیا کیا ہیں
کسی کو اپنے گلے سے لگائے بیٹھے ہیں
کبھی فلک کج رفتار کی گردشوں کا رونا رویا جاتا ہے اور اپنی ناکامی پر کف افسوس ملتے ہوئے بے اختیار زبان سے نکل جاتا ہے:
جہاں میں خوب ملی دادِ خستگی ہم کو
ہزاروں تیر ستم دل پہ کھائے بیٹھے ہیں
کبھی چشم یار کے بوسہ لے لے کر اس کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہوتے ہیں، کبھی تیر نظر کی مدح سرائی کی جاتی ہے:
کچھ اپنے تیر نظر کی تمھیں خبر بھی ہے
جگر فگار کلیجہ دبائے بیٹھے ہیں
کبھی ہجر اور اپنے دیدۂ بے خواب کا حال آٹھ آٹھ آنسو رلواتا ہے اور یہ مضطرب ہو کر دل جگر سنبھالنےلگتے ہیں، جب دل زیادہ بے تاب ہوتا ہے تو اٹھ کر ٹہلنے لگتے ہیں اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھیں ہاتھوں سے مل مل کر کہتے ہیں:
آشنائے درد میٹھی نیند کیونکر سو سکے
تلخی فرقت سے پاس آنے میں گھبراتی ہے نیند
کبھی دل بے تاب کو نصیحت کی جاتی ہے، بہلانے کے واسطے اپنے نفس سے خطاب ہوتا ہے:
کیوں مرے جاتے ہو دو دن کے لیے اے خنجرؔ | رفتہ رفتہ یہ مصیبت بھی گذر جائے گی |
کبھی نوجوانی برباد ہونے کا قلق ہوتا ہے اور آسمان کی طرف دیکھ کر حسرت ناک لہجہ میں یہ شعر پڑھ دیتے ہیں:
کچھ نہ پوچھو غم ایام جوانی خنجرؔ
یہ زمانہ بھی مصیبت سے بسر ہوتا ہے
اس دار بے ثبات میں کسی کو قیام نہیں جو کل تھا آج نہیں ہے، آج ہے کل نہ ہوگا، وصل کے بعد ہجر اور رنج کے بعد راحت ہونا لازمی ہے۔ اس حالت میں آہ و زاری کرنا یا تڑپنا تلملانا آپے سے گذر جانا سوائے نادانی کے کیا کہا جا سکتا ہے، دل مضطر کا اضطراب بے کار، آہ بے اثر کا سلسلہ بے سود ان باتوں میں بجز ضرر فائدہ نہیں۔
کب تک آہ بے اثر کا سلسلہ
لیجیے منہ کو کلیجہ آگیا
کبھی دل کا طوطے کی طرح آنکھیں پھرا کر غیر کا طرفدار ہوجانا یاد آ آ کر بے چین کردیتا ہے، لیکن واہ رے محبت دل کسی قدر بے مروت لاپروائی کرے ، انھیں اس کی خوشی کا ویسا ہی خیال ہے جیسا ہمیشہ تھا، اس کے صدمہ فراق میں آنسوؤں کا سلسلہ قطع نہیں ہوتا، سچ ہے:
جس کا بچھڑا ہو کوئی یہ درد اس سے پوچھیے
او دل غم دوست تجھ کو اب کہاں پائیں گے ہم
کبھی اپنے دل کی الجھن کے ساتھ زلف پریشان کا خیال دماغ میں پیدا ہو کر سودائی بنا دیتا ہے اور یہ ٹھنڈی سانس بھر کر حالت جنوں میں کہنے لگتے ہیں:
وہ کیا جانیں کسی کے خاطر ناشاد کی الجھن
جنھیں فرصت نہیں آرائش زلف معنبر سے
ناگاہ حضرت عشق کی نہ کٹنے والی مصیبتوں کا خیال آگیا اور اب ان کے چہرے سے مایوسی کے آثار نمایاں ہوگئے، اگرچہ ان کا شاداب و خوبصورت چہرہ گل کی طرح گردِ ملال و صرصرِ غم سے پژمردہ ہو رہا تھا لیکن اس سوہانِ روح خیال نے غضب ہی کیا یا تو مسہری پر پڑے پڑے تڑپ رہے تھے یا بے قرار ہو کر دل و جگر سنبھالتے ہوئے اٹھ بیٹھے، بڑی بڑی بادامی آنکھوں میں مثل دُرِبے بہا آنسو بھر آئے، طفل اشک مچل مچل کر دامن پر گرنے لگے جن کو پہلے ہی سے دست جنون نے چاک کر رکھا تھا، اب سوکھے ہوئے ہونٹوں کو پھر جنبش ہوئی اور عجب دلخراش لہجہ میں یہ شعر زبان سے نکلا:
عشق کے حال سے ہوتے جو عدم میں واقف
بھول کر بھی نہ کبھی رخ سوئے عالم کرتے
اس شعر نے زخمی دل کے ساتھ تیغ و خنجر کا کام کیا، کئی بار درد آمیز آواز سے پڑھا پھر خود بخود کہنے لگے، میں پہلے آگاہ نہ تھا اب ضرور واقف ہوگیا، واقعی عشق تو بہت اچھی چیز ہے لیکن اس کا ساتھی فراق اور اس کی تکلیفیں حد برداشت سے باہر ہیں۔ یہ تو اچھی طرح معلوم ہوگیا مجھے دنیا ئے ناپائیدار سے وصال یار کی حسرت لے کر جانا پڑے گا، پھر کیا وجہ ہے جو اپنے زبان و دل کو زحمت دوں۔ عمر کی بے وفائی بھی معلوم ہے ایک روز مرنا ضرور ہے، مناسب وقت یہی ہے ہجر یار میں جان شیریں گنوا دوں، نام ہوگا اور آئے دن کے جھگڑے بکھیڑوں سے بھی نجات مل جائے گی، بس بس بہت ہی مناسب تدبیر ہے۔
کوچ کا سامان مہیا کیجیے
موت کا پیغام خنجر آ گیا
بس بس اے تماشائے عالم اسباب! میرے سامنے سے دور ہو، اے ہوس وصل یار! تو بہت پیاری چیز ہے لیکن مجھے معاف کر میں اب تیری خواہش نہیں کر سکتا، اے خیال دل ربا! خدا حافظ، اے میرے رفیق اے غمگسار! آخری سلام آج اختر تیری خدمتوں کا شکر گذار ہو کر ناشاد و نامراد سفر آخرت کرتا ہے، اچھا رخصت وقت بہت کم رہ گیا مجھے اپنے کام میں عجلت ہے۔
اتنا کہہ کر ہمارا نوجوان ہیرو اٹھ کھڑا ہوا اور ایک تپنچہ لے کر منزل کی چھت پر جو لب دریا واقع تھی اور گلزار منزل کے نام سے موسوم تھی چڑھ گیا، چاروں طرف سے دروازے بند کر لیے اور قصد کیا خودکشی کرکے دفتر عشاق میں اپنا نام لکھوالے، ناگاہ داروغہ نجم النسا بیگم تلاش کرتی ہوئی یہاں پہنچ گئیں اور روزنِ در سے جھانک کر بے اختیار اپنا سر دروازے کی چوکھٹ پر دے مارا اور پکار کر کہا اے جان عالم! خدا رسول کے واسطے پہلے میری ایک عرض سن لیجیے، اس لونڈی کو بے موت نہ ماریے، یہ کہہ کر کچھ اس بے قراری سے رونا شروع کیا کہ ہمارے ہیرو نوجوان اپنے درد دل کو بھول گیا اور فوراً آواز دی “کہو کیا کہنا چاہتی ہو”۔
نجم النسا: خدا کا واسطہ تپنچہ اپنے ہاتھ سے پھینک دیجیے، جان دینے کے ارادے سے دست بردار ہو جیے، میں حضور کی مطلوبہ کو آج ہی شام کو لا کر آپ کے پہلو میں نہ بٹھا دوں تو پھر آپ کو اختیار۔
ولی عہد: آہ اے نجم النسا! تم میرے دل کی کیفیت سے واقف نہیں ورنہ اس طرح جھوٹی تسلیاں دے دے کر نہ بہلایا کرتیں۔
نجم النسا: خدا کی قسم جان عالم اگر آج میں اپنا وعدہ پورا کرنے میں قاصر رہوں تو اپنے ہاتھوں سے اپنا سر کاٹ کر حضور کے قدموں پر ڈال دوں گی۔
ولی عہد (کچھ سوچ کر): خیر ایک دن اور تمھاری خوشی سے ضبط کروں گا۔
نجم النسا: ابھی ابھی بہاؤالدولہ گھوڑے پر سوار ہو کر بی جان کے یہاں گئے ہیں، جس طرح ہوگا اسے راضی کر کے شام کو خدمت والا میں حاضر کریں گے۔
باب ۱۱
رحم آیا ان کو میرے حال پر
کچھ دنوں اب تو یہی عالم رہے
جھٹ پٹا وقت ہے، شہر میں تاریکی دور کرنے کی غرض سے چراغ روشن ہوتے جاتے ہیں، جوانان نوخیز بناؤ سنگار میں مصروف ہیں، عشاق حسرت نصیب جنھوں نے دن بھر تڑپ تڑپ کر بسر کی اس وقت آرزوئیں پوری ہونے کے خیال میں پھولے نہیں سماتے، کسی کو محو آرائش دیکھ کر جو آئینہ سے زیادہ حیران ہیں ان آرائشوں کا مزا تو ان بےتاب دلوں سے پوچھیے جو ایک مدت تک شوق وصل میں تڑپا کیے ہیں اور بڑی بڑی تکلیفوں کے بعد کسی سنگدل کو مائل رحم دیکھ کر کس ارمان کے ساتھ اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جب ان کے دلوں کو بےچین کر دینے والی آرزوئیں حال زار پر ترس کھا کر نکلنے والی ہیں۔ ہائے محبت بھی کیا چیز ہے جو کسی طرح چین ہی نہیں لینے دیتی، کوئی دل و دماغ ایسا نہیں جو اس کے خیال اور سودے سے خالی ہو۔ ہاں فرق اتنا ہے ایک فراق کے درد سے بلک بلک کر رو رہا ہے، دوسرا وصل کی روح افزا مسرتوں سے مثل گل نوخیز کھلا جاتا ہے۔ کوئی تصور میں معشوق سے بہ گریہ و زاری عرض تمنا کرنا چاہتا ہے لیکن شبیہ اغماز سے منہ پھیر لیتی ہے، کوئی اپنی آرام جان کو بغل میں لیےہوئے لطف زندگانی اٹھا رہا ہے، کوئی حیا سے سمٹا جاتا ہے، کسی کادست گستاخ بڑھ بڑھ نہال شباب سے ثمر تمنا چن رہا ہے۔ یہ طریقہ ہستی یا گردش لیل و نہار ہے۔ اب ہم پھر اصل مطلب کی طرف رخ کر تے ہیں، اس وقت بی وزیرن جان کے مکان میں حسب معمول سب سامان درست ہے لیکن خود وزیرن جان پر بلا کا جوبن ہے، روزانہ سنگار سے کہیں زیادہ بناؤ ہوا ہے، مسی سرمہ کنگھی چوٹی سے درست مثل عروس نو بہار ہیں،چمپیٔ پوشاک کچھ اس دلفریبی سے پہنی گئی ہے ممکن ہی نہیں کوئی چنبیلی طبیعت والا دیکھے اور پھڑک نہ جائے؛ ان سب پر طرہ زیورات گراں بہا سے آراستہ ہونا۔ اگرچہ شعرا نے سادگی کو بہت پسند کیا ہے اور کہہ گئے ہیں:
نہیں محتاج زیور کا جسےخوبی خدانے دی
کہ دیکھو خوشنما لگتا ہے کیسا چاند بن گہنے
(ذوق دہلوی)
اسی مضمون کوحضرت امیر مینائی لکھنوی بھی کیا خوب نظم فرما گئے ہیں:
خود جوانی ہے جوانی کا سنگار
سادگی زیور ہے اس سن کے لیے
یا حضرت سیف جہاں پوری ارشد تلامذہ جناب جلال لکھنوی فرماتے ہیں:
یہ نکھ سکھ کی درستی بھی عجب انمول زیور ہے
پہن کر سادہ جوڑا ہائے وہ ان کا سنور جانا
لیکن حسن کے لیے زیور وہی کام دیتا ہے جو تیغ جوہر دار کے لیے صیقل ، کوئی مانے یا نہ مانے ہم تو اس وقت وزیرن جان کو رشک حوران بہشتی تصور کرتے ہیں۔
ناظرین حیران ہوں گے کہ آج ان کے حسن و آراستگی کی تعریف تو اس قدر لکھی لیکن یہ نہ بتایا کس لیے یہ بناؤ سنگار ہوا ہے، خیر سن لیجیے ہمارے ہیرو کی وہ دلی تمنائیں جو کئی ماہ سے برابر دل کے قیدخانے میں گھٹ رہی ہیں آج نکلنے والی ہیں، بہاؤ الدولہ بہادر نے درمیانی انکار کو اپنی چالاکی سے مٹا دیا اور ایک ماہ کی تنخواہ تین ہزار روپیہ دے کر بی جان کو راضی کر لیا۔ ولی عہد بہادر کے یہاں جانے کی تیاریاں ہیں جو آج اس قدر آرائش کی گئی۔ اب تو ناظرین بخوبی سمجھ گئے، ان کو یہاں چھوڑیے اب مرزا ولی عہد بہادر کی خبر لیجیے، وہاں کیا کیا سامان ہو رہے ہیں، اس وقت ان کے درد عشق اور دم بدم بڑھنے والے شوق وصل کی کیا حالت ہے۔ ہم ان باتوں کا فیصلہ خود ناظرین کی دوراندیشی پر چھوڑتے ہیں کیونکہ ایک بے تاب عاشق کا شوق وصل لکھنے کی قدرت قلم میں نہیں۔ بقول شاعر:
وعدۂ وصل چوں شود نزدیک
آتش شوق تیز تر گردد
آرائش کا ذکر کرنا ہی فضول ہے، حاکم وقت کا نور نظر جو کچھ کرسکتا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں، ہمیں صرف اس رنگیلے طبیعت والے عاشق کا سنگار دکھانا منظور ہے جو ہدیۂ ناظرین ہے۔ اس وقت ہمارا عاشق تن ہیرو تاج مروارید سر پر، قبائے ولی عہدی برمیں پہنے ہو ئے آٹھ لڑیوں کا دست بند جس میں بڑے بڑے گوہر آب دار پروئے ہوئے ہیں، ہاتھوں میں گلے میں بیش بہا موتیوں کے مالے، بازوؤں پر پتے کے نورتن بندھے ہوئے، سرخ اطلس کا پائجامہ جس کی ہرسیون پر موتی ٹانکے گئے ہیں، جامہ مطلا جس پر جابجا موتیوں کے چاند بنے ہوئے ہیں زیب جسم ہے۔ ہاتھ میں تیغ جوہردار، آنکھوں میں سرمہ دنبالہ دار دبا ہوا حسن کو بھڑکا رہا ہے، کپڑوں میں حنا کا عطر ملا ہوا جس کی بھینی بھینی خوشبو دماغ کو معطر و تازہ کر رہی ہے، سچ تو یہ ہے اس کی آنکھوں سے خمار شباب اور ماتھے سے جوانی کا ولولہ نمایاں ہے، پرپیج زلفیں عارض مصفا پر پڑی ہوئی ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے شام صبح سے گلے مل رہی ہے۔
بکھر کر آگئیں زلفیں جو ان کے روئے روشن پر
شب تاریک کو میں نے ہم آغوش سحر جانا
(خنجر لکھنوی)
امیر الدولہ بہادر خدمت میں حاضر ہیں، اور کسی کے آنے کی اجازت نہیں۔ شوق اور خوشی کا یہ حال ہے ایک مقام پر قرار نہیں، فرط انبساط سے ادھر ادھر ٹہل رہے ہیں کبھی گھبرا کے امیر الدولہ سے دریافت کیا جاتا ہے، کیوں امیر الدولہ ابھی تک اس آرام جان کے نہ آنے کا کیا سبب ہے، تم تو بیان کرتے تھے بہاؤ الدولہ کے کہنے سننے سے اس کی ماں راضی ہوگئی۔ ہائے اتنی تاخیر میرے لیے زہر سے کم نہیں۔
امیر الدولہ: حضور! ابھی وقت بھی تو کچھ ایسا نہیں آیا ہے، اب آتے ہی ہوں گے۔ غلام نے ابھی چوبدار طلبی کے واسطے روانہ کیا ہے وہ ان لوگوں کو لے کے آتا ہی ہوگا۔
ولی عہد: تمھیں میرے دل کا حال کیا معلوم، اب تو ایک ایک لمحہ ایک ایک سال معلوم ہوتا ہے۔
امیرالدولہ: بجا ہے پیر و مرشد! حضور نے فراق کی سختیاں اٹھانے کے بعد جو مژدہ وصل سنا ہے اس لیے اشتعال کی کثرت ہے، تھوڑا عرصہ بھی پہاڑ معلوم ہوتا ہے۔
یہاں یہی ذکر تھا کہ چوبدار نے وزیرن جان کی آمد کی نوید روح افزا سنائی جس کے سننے سے مرزا ولی عہد بہادر کی بانچھیں کھل گئیں اور انتظار کی تکلیفوں سے اترے ہوئے چہرے پر خوشی سے سرخی آ گئی، اضطراب دل نے کسی طرح بیٹھنے نہ دیا۔ یہ بے تاب ہو کر اس کی پیشوائی کو دوڑے، راہ میں ملاقات ہوئی، انھوں نے جھپٹ کر وزیرن جان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور خلوت کدہ میں تشریف لائے، وہی خلوت کدہ جو آغوش تمنا کھولے ہوئے نہایت حسرت و آرزو سے کسی کا منتظر تھا، رشک پرستان معلوم ہونے لگا۔
اب ہماری مشتاق نظروں کے سامنے عاشق و معشوق میں راز و نیاز، پیار محبت کی باتیں ہونے لگیں، کسی کو شوق وصل بے چین کر رہا ہے، کوئی ڈوپٹے کے گوشے میں منہ چھپائے ہوئے سمٹا سمٹایا ایک طرف سرنگوں بیٹھا ہے، کسی کا دست شوخ گستاخانہ بڑھتا ہے اور کوئی نازک نازک ہاتھ اٹھا کر اس بے ادبی کی سزا اس طرح دیتا ہے کہ عاشق دل و جگر تھام کر رہ جاتا ہے۔ ہائے! وصل بھی عجب خوشنما چیز ہے، صرف ایک رات کے لیے عاشقان ناز بڑی بڑی جاں گسل تکلیفوں کا سامنا کرتے ہیں، اکثر تو یوں ہی نا شاد و نامراد حسرت وصل لیے دنیا سے اٹھ گئے، ہاں جن خوش نصیبوں کو یہ مبارک گھڑی دیکھنا نصیب ہوئی وہ بھی کچھ زیادہ نہیں ہوئے،بلکہ اس حال میں شکوہ فلک سنایا گیا:
وصل کی شب اور اتنی مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے
(امیر مینائی لکھنوی)
پیارے ناظرین! ہم اس شب کا حال زیادہ نہیں لکھ سکتے، بس اتنا کافی ہے جس طرح پر ارمان عاشق فراق کی ناگوار سختیاں اٹھانے کے بعد وصل کا مبارک اور دلچسپ سماں دیکھ کر جس طریقہ سے اپنے معشوق سے ملتا ہے وہی حالت ہمارے ہیرو اور ہیروئن کی تھی، کبھی شکوہ ہجر یا شکایت گردش چرخ ہوتی تھی، کبھی ارمان نکلتے ہوئے دیکھ کر درگاہ مسبب الاسباب میں شکر کیا جاتا تھا، کبھی شمع جمال یار پر مثل پروانہ نثار ہوتے تھے، کبھی سنگدلی اور بے نیازی سے ڈرا کر التجا کی جاتی تھی کہ ہم رحم کے قابل ہیں ظلم سہنے کی طاقت نہیں۔ الغرض تمام رات یوں ہی تمام ہوئی اور چرخ نیلی جس نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی رنگ بدلنے لگا یعنی غازۂ نور سحر ظاہر ہوا اور امیر الدولہ نے پس پردہ آ کر آواز دی۔
امیر الدولہ: قبلۂ عالم بیدار ہو جیے نماز سحر کا وقت آگیا، آسمان پر سپیدۂ سحری نمایاں ہے۔
اس آواز نے جو سلوک ہمارے ہیرو کے ساتھ کیا وہ تو اس کا دل ہی خوب جانتا تھا مگر ہاں جو ہماری نظروں نے دیکھا حوالۂ قلم کرتے ہیں۔ جیسے ہی یہ آواز وصل یار کا لطف اٹھانے والے معزز ولی عہد بہادر نے سنی رنگ رخ متغیر ہو گیا، بے تاب دل کو سنبھال کر آہ سرد بھری اور آنکھوں میں آنسو بھر کر وزیرن جان سے اس طرح سلسلۂ کلام شروع کیا۔
ولی عہد: آہ کہ جلد یہ شب گذر گئی، ابھی افسوس میرے سب ارمان اسی طرح دل میں رہ گئے، دیکھیے اب کب خدا تمھاری صورت دکھاتا ہے۔
وزیرن: نہ رات چھوٹی ہوئی، نہ وقت سے پہلے ہم لوگ جگائے گئے۔ قاعدہ ہے خوشی کی گھڑیاں بہت جلد گذر جاتی ہیں۔
ولی عہد: افسوس تو یہی ہے۔ اتنا بڑا پہاڑ سا دن کیوں کر کاٹے کٹے گا، دیکھو خدا کے لیے آج بہت سویرے چلی آنا۔ تمھیں ذرا بھی تاخیر ہوگی تو میرا کام تمام ہو جائے گا۔
وزیرن: خدا نہ کرے، صبح صبح ایسی بری بری باتیں زبان سے نکالنا اچھا نہیں، مجھے خود گھر میں قرار نہ آئے گا تمھارے کہنے کی کیا ضرورت ہے۔
اتنی گفتگو کے بعد وزیرن جان سوار ہو کر اپنے عشرت کدہ سدھاریں اور ہمارا بے تاب ہیرو حمام سے فراغت کرکے فریضۂ سحری میں مشغول ہوا۔
باب ۱۲
کہنا جو تھا وہ کہہ چکے لگ جاؤ اب گلے
اچھی نہیں ہے کشتۂ ہجر ان سے چھیڑ چھاڑ
بہار کا موسم، ننھی ننھی بوندوں کا پڑنا عجب دلکش منظر ہے، علی الخصوص ان نوجوان جہاں کے واسطے جو کسی شرمگیں نازنین کے وصل کا مزا اٹھاتے رہے ہوں، بجلی کی چمک سے کسی کمسن کا سہم کر چھاتی سے چمٹ جانا مسیحائی سے کم نہیں، زبان سے کچھ نہ کہا جاتا ہوگا لیکن دل ہی دل میں دعائیں تو ضرور مانگی جاتی ہوں گی کہ کاش بجلی برابر چمک کر دلی آرزوؤں کے نکلنے کا موقع دیتی رہے۔
یہی سماں ہم ناظرین کو دکھانا چاہتے ہیں، اس وقت قصر سلطانی میں تخلیہ کی صحبت رنگیلی طبیعت والے مرزا ولی عہد بہادر مع اپنی معشوقہ طناز کے جلوہ گر ہیں، مصاحبت میں امیر الدولہ بہادر اور اکبر الدولہ بہادر حاضر ہیں، مزے مزے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
ولی عہد (وزیرن سے): اب تو ہمیں دن بھر تم سے جدا رہنا بہت ہی شاق گذرتا ہے، کوئی صورت ایسی ہوتی کہ یہ جدائی دفع ہو جاتی۔ دو تین مہینے ہوگئے تم شب کو چلی آتی ہو اور دن کو چلی جاتی ہو، آخر یہ نامناسب طریقہ کب تک قائم رہے گا۔
وزیرن: میں تمھاری خوشی کرنے کو ہر طرح موجود ہوں لیکن اپنی والدہ سے مجبور ہوں، وہ میرا تمھارے گھر میں رہنا پسند نہیں کرتیں۔
ولی عہد: کیوں آخر کوئی وجہ تو ہونا چاہیے۔
امیر الدولہ: پیر و مرشد! غلام نے جہاں تک دریافت کیا یہی معلوم ہوا بی جان سے کسی کمبخت نے کہہ دیا ہے جب ولی عہد بہادر کسی کو اپنے گھر بٹھا لیتے ہیں تو اس کے اعزا کو اس کے پاس آنے جانے سے قطعاً منع کردیتے ہیں۔
بہاؤ الدولہ: آپ نے بہت صحیح خبر سنی ہے، مجھ سے خود بی جان نے یہی خیالات ظاہر کیے تھے۔
امیر الدولہ: استغفر الله! ہماری سرکار ظالم نہیں جو ماں سے بیٹی کو علاحدہ کرے۔ ایسا خیال کرنا بھی حماقت ہے۔
وزیرن: ہاں اگر انھیں پورے طور سے اطمینان ہوجائے گا میں ان سے علاحدہ نہ کی جاؤں گی تو وہ بخوشی آپ کا کہنا منظور کرلیں گے۔
ولی عہد: میں بسر و چشم ان سے قول و اقرار کرنے کو موجود ہوں، انھیں میری طرف سے ایسے لغو شکوک بے جا ہیں۔
وزیرن: یہی خیالات ایسے تھے جن کی وجہ سے میں نے اور تم نے اتنے دن تڑپ تڑپ کر بسر کیے۔ حقیقت میں تمھاری صفت وثنا میں نہیں کرسکتی، تمھارا جو جی چاہتا وہ سلوک ہمارے ساتھ کرسکتے تھے مگر واہ رے عدل وانصاف اپنے اوپر تکلیف اٹھائی لیکن غریب آزاری سے نفرت ہی رہی۔
امیرالدولہ: سبحان اللہ کیا بات فرمائی ہے۔ واللہ سمجھداری اسی کا نام ہے، اگر اتنی عقل آپ کی والدہ میں ہوتی تو جان عالم کو جفاکشی نہ کرنا پڑتی۔
ولی عہد: سب صاحبوں کی راۓ ہو تو بی جان کو ابھی بلا کر اس معاملے کی بابت گفتگو چھیڑی جائے اور کسی نہ کسی طرح ان کو راضی کیا جائے۔
بہاؤ الدولہ: پیر و مرشد کی رائے بہت صائب ہے، جو کچھ طے پانا ہو ابھی طے پا جائے تو بہتر ہے۔
اکبر الدولہ : پہلے وزیرن جان کا عندیہ دریافت کرنا ضروری ہے۔
امیر الدولہ: آپ بھی عجیب آدمی ہیں، اے حضرت! جان عالم کے فرمانے سے بھلا انھیں انحراف ہو سکتا ہے۔ (وزیرن سے مخاطب ہو کر) آپ ہی فرمائیے، میں صحیح عرض کرتا ہوں یا غلط۔
وزیرن: نہیں نہیں آپ کا خیال بہت صحیح ہے۔ (ولی عہد کی طرف اشارہ کرکے) جو ان کی خوشی میری مرضی ؏
راضی ہیں ہم اسی میں، تیری رضا ہو جس میں
بہاؤ الدولہ: سبحان الله! واہ واہ آپ موزوں طبع بھی ہیں، اچھا مصرع پڑھا، واللہ طبیعت خوش ہو گئی۔
اکبر الدولہ: دل پھڑک گیا۔ واقعی سچ ہے جس دل کو شعر و سخن کا مزا نہیں وہ دل نہیں پتھر کا ٹکڑا ہے، جس میں حس کی قدرت نہیں۔
ولی عہد: خیر یہ سب باتیں تو اپنے اپنے موقع سے ہوتی رہیں گی، پہلے موجودہ مقدمہ مکمل ہونا چاہیے۔
امیر الدولہ: میں ابھی چوبدار کو دوڑاتا ہوں، وہ اپنے ساتھ ہی بی جان کو لے آئے گا اور یہیں حضور کے سامنے سب گفتگو ہوجائے گی۔
بہاؤ الدولہ: ہاں ہاں مناسب وقت یہی ہے۔
اتنی گفتگو کے بعد امیر الدولہ اس صحبت سے اٹھ کر باہر چلے آئے اور ایک چوبدار کو حکم دیا ابھی جاکر اپنے ہمراہ بی جان کو لا کر سرکار ولی عہد بہادر میں حاضر کرے، جس کی فوراً تکمیل کی گئی۔ ایک گھنٹہ بعد بی جان حاضر ہو گئیں، اب جو گفتگو ہوئی وہ ہدیۂ ناظرین ہے۔
بہاؤ الدولہ: دیکھو بی جان تمھیں اسی غرض سے یہاں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا ہے کہ جان عالم تم سے ایک خواہش رکھتے ہیں جو ابھی ابھی بیان کی جائے گی، لیکن پہلے چند باتوں کا طے پا جانا ضروری ہے، تمھاری لڑکی کو ہماری سرکار میں ملازم ہوئے دو تین ماہ کا عرصہ ہو گیا، اس مدت میں کوئی بات بھی ایسی ہوئی جو تمھاری یا ان کی مرضی کے خلاف ہو؟
بی جان: خدا حضور ولی عہد بہادر کی عمر ایک سو تیس برس کی کرے ، یہاں کس چیز کی کمی ہے ایک سے ایک اچھا کھانا، کپڑے، نفیس زیورات، بیش بہا روپیہ پیسہ، اللہ رکھے سبھی کچھ ہے، میں کیونکر جھوٹ کہہ دوں کہ کوئی تکلیف ہوئی۔
بہاؤ الدولہ: اور جب تمھارا جی چاہا تم بھی اپنی لڑکی کے ہمراہ مجرے کے واسطے حاضر ہوئیں، یہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہوئی۔
بی جان: بالکل نہیں۔
بہاؤ الدولہ: اکثر ایسا بھی ہوا کہ بی جان دن کو بھی یہیں رہیں۔
بی جان: ہاں۔
بہاؤ الدولہ: دیکھو تم نے جس قدر باتیں بیان کیں سب تمھارے اگلے خیالات کے برعکس تھیں۔
بی جان: بے شک پہلے لوگوں نے مجھ کو بہکایا لیکن اب تو وہ خیال بالکل نہیں۔
بہاؤ الدولہ: اچھا تو اب سنو جس غرض سے تم یہاں بلائی گئی ہو وہ یہ ہے کہ ہمارے سرکار کو وزیرن جان سے محبت ہوگئی ہے، وہ چاہتے ہیں وزیرن جان یہ ذلیل پیشہ ترک کرکے بیگموں کے رتبہ پر پہنچائی جائیں، اب تمھاری کیا مرضی ہے۔
بی جان (کچھ سکوت کے بعد): حضور خوب جانتے ہیں سوائے اس کے اور کوئی لڑکی بھی میرے نہیں ہے اور اللہ رکھے یہی روٹیوں کا سہارا ہے، جب یہ میرے پاس نہ ہوگی تو کھاؤں گی کیا۔
بہاؤ الدولہ (مسکرا کر): تم کھانے کا کچھ ذکر نہ کرو، اگر تمھارا دل چاہے اپنی لڑکی کے پاس رہو، اگر یہ منظور نہ ہو تو اپنے گھر پر رہو ، سو روپیہ ماہوار مقرر کردیا جائے گا، جب دل چاہے بے تکلف یہاں چلی آیا کرنا اور اپنی لڑکی کو دیکھ جایا کرنا۔
بی جان: میرا تو سہارا ہو گیا لیکن دیگر متعلقین کا کیا حشر ہوگا وہ تو مر ہی جائیں گے۔
بہاؤ الدولہ: سو روپیہ ماہوار ان سب پر بھی تقسیم کردیا جائے گا، لو اب تو خوش ہوئیں یا ابھی کچھ اور خواہش ہے۔
بی جان: خدا سرکار کو زندہ سلامت رکھے، میں تو ہر طرح خوش ہوں، اصل میں تو لڑکی کا خوش ہونا لازم ہے۔
ولی عہد( ہنس کر ): تمھیں اپنی لڑکی سے کیا مطلب، تمھارا سب ٹھیک ہوگیا۔
بی جان: واہ حضور! میرا کیا میں تو بھیک مانگ کر پیٹ پال سکتی ہوں لیکن یہ ایسا تھوڑی کر سکتی ہے۔
بہاؤ الدولہ: تم گھبراؤ نہیں، جان عالم نے مذاق سے کہا ہے، تمھیں معلوم نہیں جس سے وہ محبت کریں گے اسے تکلیف دیں گے۔
بی جان: ہاں ان باتوں پر مجھے منظور ہے۔
کامیابی کا فقرہ سن کے ولی عہد بہادر کے چہرے سے خوشی کے آثار نمایاں ہوئے۔ اسی وقت پانچ ہزار روپیہ وزیرن جان کے سر سے چھوا کر اس کی ماں کے حوالے کیا، دو سو روپیہ ماہوار مع پر وائیوں کے مقرر ہوا۔ بہاؤ الدولہ، اکبر الدولہ، امیر الدولہ، نجم النسا بیگم کو بہت سا زر و مال انعام ہوا۔ بی وزیرن جان کو زیورات، بیش بہا نفیس نفیس کپڑے اور ایک مکان مع ساز و سامان کے مرحمت ہوا۔
ولی عہد بہادر کو ان سے غایت درجہ محبت تھی اور وہ چاہتے تھے محل میں کوئی بیگم وزیرن جان کا مقابلہ نہ کرسکے، لہذا ویسا ہی ہوا۔ مثل مشہور ہے جسے پی چاہیں وہی سہاگن۔
محل میں کسی بیگم کا اتنا عروج نہیں ہوا جس قدر وزیرن کا چاہ پیار کیا گیا۔ یہ محض بیگم ہی کے رتبہ پر نہیں رہیں، اس سے ترقی کرکے محل کے مرتبہ پر پہنچائی گئیں اور نواب نگار محل صاحبہ خطاب پایا۔ ان کا عملہ اپنے تمام ہمعصروں سے بڑھا چڑھا رہا ہے۔ خواجہ سرا، ترک سوار، پیادہ سپاہی، خدمت گار خواصین، باری داریاں، مغلانیاں، محل داریں سیکڑوں ملازم ہوئیں۔ ولی عہد بہادر ہر وقت نازبرداری کو موجود۔ ادھر کسی چیز کی طرف ان کا رجحان ہوا فوراً موجود کردی گئی، جدھر ان کی نظر پڑی ولی عہد بہادر بھی اسی طرف پھر گئے۔ انھوں نے اپنے متوسلین ومتعلقین کی سعی کرکے سرکار ولی عہد بہادر سے رعایتی وظیفے مقرر کرادیے جو گھر بیٹھے تنخواہیں پانے لگے اور عیش و آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ فقط