امیدوں سے دلِ برباد کو آباد کرتا ہوں
مٹانے کے لیے دنیا نئی ایجاد کرتا ہوں
تری میعادِ غم پوری ہوئی اے زندگی خوش ہو
قفس ٹوٹے نہ ٹوٹے میں تجھے آزاد کرتا ہوں
جفا کارو مری مظلوم خاموشی پہ ہنستے ہو
ذرا ٹھہرو ذرا دم لو ابھی فریاد کرتا ہوں
میں اپنے دل کا مالک ہوں مرا دل ایک بستی ہے
کبھی آباد کرتا ہوں کبھی برباد کرتا ہوں
ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں ملاقاتوں کے بعد اکثر
وہ مجھ کو بھول جاتے ہیں میں ان کو یاد کرتا ہوں
خودی کی ابتدا یہ تھی کہ اپنے آپ میں گم تھا
خودی کی انتہا یہ ہے خدا کو یاد کرتا ہوں
بتوں کے عشق میں کھویا گیا ہوں ورنہ اے اخترؔ
خدا شاہد ہے میں اکثر خدا کو یاد کرتا ہوں