عشق میں بو ہے کبریائی کی
عاشقی جس نے کی خدائی کی
ہم سری مت صبا سے کر اے آہ
تو نے بھی کچھ گرہ کشائی کی
لے چلے ہم قفس سے اے صیاد
خاک میں آرزو رہائی کی
روزِ محشر تلک نہ آخر ہوں
داستانیں شبِ جدائی کی
جس میں یارانِ بزم ہوں محظوظ
یوں بقاؔ میں غزل سرائی کی