آ دیکھ مہر اپنے کرم کی لگی ہوئی
ہر دل پہ ایک چوٹ ہے غم کی لگی ہوئی
اعمال نامہ ہاتھ میں پہلے ہی درج ہے
ہر ہر لکیر سرخ قلم کی لگی ہوئی
میں انتظار کر تو رہا ہوں مگر حضور
ہے زندگی کو موت کی دھمکی لگی ہوئی
دکھ بیچتے ہیں لوگ محبت کے نام پر
قیمت ہے ایک ایک الم کی لگی ہوئی
ساقی نے مسکرا کے دکھائی فقیر کو
لمبی قطار اہلِ حرم کی لگی ہوئی
ایک آدھ ہی تجلی ادا کی ہوئی نصیب
اس پر بھی چھاپ تیرے ستم کی لگی ہوئی
کر تو وفا رہا ہے مگر با وفا نہیں
ہے فکر بے وفا کو بھرم کی لگی ہوئی
راحیلؔ ہم یونہی نہیں نکلے بہشت سے
پیچھے اجل ہے پچھلے جنم کی لگی ہوئی