چیل کووں نے پڑھے مرثیے گلزاروں کے
آشیانے ہی بڑی دور تھے مکاروں کے
معجزے اب کے گداؤں ہی کو مطلوب نہیں
منتظر اہلِ کرم بھی ہیں چمتکاروں کے
بکتے ہیں آج بھی لوگوں کے جگر کے ٹکڑے
گاہک اچھے تھے مگر مصر کے بازاروں کے
حال پر اہلِ گلستاں کے خدا رحم کرے
اب تو صیاد ہیں بچے بھی چڑیماروں کے
دادِ فرہاد تھی بڑھیا کی زباں کی آری
کٹ گیا دل تو چلو دن کٹے بیگاروں کے
اے کہنمردہ ستاروں کی خردیافتہ دھول
سجدہگاہیں بھی ہیں ذرات میں سیاروں کے
محتسب سے نہ بنی ہے نہ ٹھنی ہے اپنی
اور ہیں دوست بھی دشمن بھی گنہگاروں کے
دل کے بازار میں بھی آگ لگی ہے راحیلؔ
بھاؤ پڑتے ہوئے دیکھے ہیں بڑے پیاروں کے