زندگی سے نباہ کیا کہنے
پھر کہو واہ واہ کیا کہنے
حسن سے رسم و راہ کیا کہنے
اتنے دلکش گناہ کیا کہنے
ان کو اور اپنی چاہ کیا کہنے
لگ گئی میری آہ کیا کہنے
منہ سے کہنے کی بات تھی ہی نہیں
ہائے ان کی نگاہ کیا کہنے
کون کہتا ہے چھوڑ دوں اس کو
واہ رے خیر خواہ کیا کہنے
ظالموں کا تو خیر کیا کہنا
کہہ رہے تھے گواہ کیا کہنے
مانگتا ہے پناہ عشق سے دل
اور ان کی پناہ کیا کہنے
داد دیتا ہوں حسن کو راحیلؔ
دل اور ایسا تباہ کیا کہنے