ماں جی کبھی کبھی دعا دیا کرتی تھیں، اللہ راضی ہووی۔ ایک دن غور کیا تو احساس ہوا کہ اس سے بڑی دعا کوئی نہیں ہو سکتی۔ جس سے اللہ راضی ہو جائے اسے کیا چاہیے؟ بس پھر میں انتظار میں رہنے لگا کہ اماں کب یہ دعا دیں اور میں لپک کر آمین کہوں۔ کئی بار جی چاہا کہ انھیں بتاؤں کہ مجھے یہ دعا چاہیے۔ بس یہی دعا دیا کریں۔ مگر پھر سوچا کہ دعا تو وہ ہے جو دل سے نکلے۔ فرمائشی دعا کیا دعا ہوئی؟ بس پھر خواہش لیے پھرتا رہا۔ کان لگائے۔ دعائیں تو وہ ہر وقت دیتی تھیں۔ مگر یہ دعا کبھی کبھی۔ اور پھر میں آمین کہتا تو لگتا تھا کہ اب اللہ راضی ہو جائے گا۔ اطمینان ہو جاتا تھا۔ لیکن جب سے وہ گئی ہیں تب سے اللہ یاد بھی کم کم آتا ہے۔ آئے بھی تو دعا نہیں ہوتی۔ آمین نہیں ہوتی۔ شاید ناراض ہو گیا ہے۔
دنیا کی نعمتیں رنگا رنگ ہیں۔ مال نعمت ہے، اولاد نعمت ہے، محبت نعمت ہے، صحت نعمت ہے، عزت نعمت ہے، طاقت نعمت ہے۔ یہ سب ہیں اور ان کی قدر تب معلوم ہوتی ہے جب انسان انھیں کھو بیٹھتا ہے۔ مگر ایک نعمت اور ہے۔ اور وہ ایسی انوکھی ہے کہ جس کے پاس ہو اسی کو اس کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ جو محروم ہے اسے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کیسا بد نصیب ہے۔
اس نعمت کو علم کہتے ہیں!
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 18 فروری 2024ء
- ربط