انسان کی اکثر تخلیقات انسان سے بہتر ہیں۔ مگر زیور جیسی خوبصورت، اوزار جیسی مضبوط، ہتھیار جیسی طاقت ور، اینٹ جیسی دیر پا، کھیتی جیسی مفید، شراب جیسی نشاط انگیز، نشتر جیسی زندگی بخش، بستر جیسی محفوظ، برج جیسی قد آور، قلعے جیسی عظیم، بجلی جیسی تیز رفتار اور مشین جیسی مستعد ایجادات کے باوجود اس کی تقدیر وہی ہے جو تھی۔ مصنوعی ذہانت کیا کر لے گی؟
دنیا میں اتنی کہانیاں ہیں کہ کہنے سننے والے ان سے کم ہیں۔ وہ کہانیاں ہیں جو لوگ کہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں۔ سنتے ہیں اور سننا چاہتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی لگتا ہے کہ کہانی وہ نہیں جو کہی جاتی ہے۔ کہانی تو وہ ہے جو نہ کہی جاتی ہے نہ سنی جاتی ہے۔ نہ کہی جا سکتی ہے نہ سنی جا سکتی ہے۔ میں نے زندگی میں بارہا کسی لمحے ٹھٹک کر غور کیا ہے کہ لوگ جسے واقعہ سمجھ رہے ہیں واقعہ وہ ہے ہی نہیں۔ واقعہ تو اس کے پیچھے ہے۔ کہانی اور ہے۔ اور زیادہ گہری ہے۔ مگر نہ کوئی کہتا ہے نہ کہنا چاہتا ہے۔ یا کہنا چاہتا ہے تو کہہ نہیں پاتا۔ شاید اسی کو مایا کہتے ہیں۔ جو ہے وہ نظر نہیں آتا اور جو نظر آتا ہے وہ نہیں ہے۔
کہانی کہانی کے پردے میں ہے۔ ایک پردہ کہ پردہ بھی نہیں اور اٹھایا بھی نہیں جاتا۔ جس کسی نے چاہا کہ اٹھائے وہ یا تو کہانی میں کھو گیا یا آپ کہانی ہو گیا۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 6 فروری 2022ء
- ربط