پاکستان میں پنجاب پر دوسرے صوبوں کے استحصال کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب سے نفرت یا بغاوت میں پاکستان سے نفرت یا بغاوت کے معانی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسی بالا دستی اور زبردستی کے باوجود میرے خیال میں پاکستانی پنجاب محض ایک بناوٹی، کھوکھلا اور مصنوعی وجود ہے۔ پنجابی ہونے کے ناتے جب میں ہندوستانی اور پاکستانی پنجاب کا موازنہ کرتا ہوں تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے اور بسنے والا پنجابی بہت گھاٹے میں رہا ہے۔ میری زبان اکیسویں صدی میں بھی ایک معیاری رسم الخط سے محروم ہے۔ میری دھرتی کی کوکھ سے جنم لینے والا منشی اردو بولنا چاہتا ہے اور افسر انگریزی۔ میں دھوتی باندھوں، صافہ رکھوں اور کھسا پہنوں تو میرا بھائی مجھے گنوار سمجھ کر ہنستا ہے۔ میری اولاد جس مٹی سے پیدا ہوتی ہے اس میں دفن ہونے کو ننگ سمجھتی ہے۔ میرے باپ دادا کی تہذیب اور ثقافت کو میرے باپ دادا کے وطن میں ڈھونڈنا ناممکن ہو گیا ہے۔ میرا پنجاب کاغذ کا پھول ہے۔ بظاہر اس کے مرجھانے کا کوئی امکان نہیں مگر بباطن اس کے امکانات کی دنیا ہی مرجھائی ہوئی ہے۔
ادب سے تعلق کو ڈیڑھ دہائی سے اوپر کا عرصہ ہو چلا۔ اس دوران میں قسم قسم کے ہزار ہا لوگوں سے واسطہ رہا ہے۔ ان میں شاعر بھی تھے، ادیب بھی، ادب کے طلبہ بھی، ناقد بھی، اساتذہ بھی، سیدھے سادے پڑھنے والے بھی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جن شخصیات کے ذوق نے مجھے سب سے متاثر کیا ان کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے۔ وہ خواتین نہیں جو ادب کے منظر نامے پر شاعرہ، ناقدہ یا ادیبہ کی حیثیت سے نمایاں ہیں۔ بلکہ وہ جو خاموش قاری ہیں۔ گھروں میں بیٹھی کتابیں پڑھا کرتی ہیں۔ یا بعض ایسی جو استاد ہیں۔ بچوں کو پڑھاتی ہیں۔ یا پھر خاص طور پر وہ جنھیں رسمی تعلیم کا موقع نہیں ملا اور انھوں نے اس محرومی کی کسر خود پڑھ پڑھ کر نکال دی۔
یہ سچ ہے کہ ان کا مزاج عموماً تحقیقی نہیں ہوتا مگر وجدانی اور ذوقی سطح پر میں نے اکثر خواتین کو مردوں سے بہت بلند پایا ہے۔ عربی، فارسی، پنجابی، اردو اور انگریزی ادبیات میں تبحر کے وہ نظارے دیکھے ہیں کہ یقین نہیں آیا کہ یہ کوئی عورت ہے۔ حافظہ خواتین کا مشہور ہے۔ بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں برمحل اشعار، اقتباسات اور حکایات مردوں میں آج کل شاید ہی کسی کو مستحضر ہوں مگر یہ خیر سے سوتے میں بھی سنا سکتی ہیں۔ پھر بعض جو شوقیہ شعر کہتی ہیں وہ ایسے سادہ، پراثر اور تر ہیں کہ آدمیوں کے منہ سے نہیں سنے۔ زبان کی باریکیوں سے واقف بےشک کم دیکھی ہیں مگر مطالعۂ ادب اور شعر فہمی میں ایک سے بڑھ کر ایک۔ ارتکاز کی قوت بھی شاید عورتوں کو مردوں سے زیادہ ودیعت ہوئی ہے۔ گہرا مطالعہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا مرد جہاں محض نظر ڈال کر گزر جاتے ہیں یہ وہاں ڈوب کر رہ جاتی ہیں۔ ایک ایک سطر قلب و روح پر نقش ہوتی جاتی ہے اور پھر تمام عمر اس کا پرتو نظر آتا رہتا ہے۔
- کیفیت نامہ
- 4 اگست 2022ء
- ربط