پرانی بات ہے۔ ہمارے ہاں ایک خاتون نے لڑکیوں کو انگریزی بول چال سکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ کسی نکتے پر بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ یہ تو آپ نے اپنی طالبات کو غلط بتایا ہے۔ بولیں، مجھے پتا نہیں تھا۔ میں نے کہا، تو آپ کو کہہ دینا چاہیے تھا کہ مجھے نہیں معلوم۔ پتا کر کے بتاؤں گی۔
وہ کچھ حیران ہوئیں، کچھ خفا۔ کہنے لگیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں استاد ہوں۔
بعض اوقات ہمیں یہ وہم ہو جاتا ہے کہ دوسرے ہمیں بہت عالم سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ہر بات کا جواب ہم خواہ مخواہ خود پر فرض کر لیتے ہیں۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے۔ قہر تب ہوتا ہے جب دوسروں کو بالکل گدھا بھی سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سادہ سی حقیقت بعض لوگوں کی سمجھ میں عمر بھر نہیں آتی کہ کوئی بشر عالمِ مطلق ہو سکتا ہے نہ جاہلِ مطلق۔ کسی کے پاس مکمل علم نہیں اور ہر کسی کے پاس تھوڑا بہت علم ہے۔ غالباً اسی لیے باری تعالیٰ نے ہمیں جو دعا سکھائی ہے وہ یہ ہے کہ اے میرے پروردگار، میرے علم میں اضافہ فرما۔ یہ نہیں کہ مجھے علم عطا فرما۔
اب اساتذہ شکوہ کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے طلبہ کو بگاڑ دیا ہے۔ کہیں چوک جائیں تو فوراً فون نکال کر منہ پر مارتے ہیں کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ یہ رویہ بےشک نہایت غلط بلکہ گستاخانہ ہے۔ طلبہ کو ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مگر میں خود استاد ہونے کے ناتے کہتا ہوں کہ اساتذہ اپنی جگہ بہت بڑے مجرم ہیں۔ وہ اپنے تئیں عالمِ کل سمجھتے ہیں اور شاگردوں کو ایک دم کاٹھ کے الو۔ یہ کوئی جرم نہیں کہ استاد کو کسی بات کا پتا نہ ہو۔ مگر یہ سخت جرم ہے کہ وہ پتا نہ ہونے کے باوجود اینڈی بینڈی باتیں کر کے طلبہ کو گمراہ کرے۔
اللہ میرے بزرگوں پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے۔ والدِ مرحوم کہا کرتے تھے کہ گنواروں کا بچہ بھی کوئی صحیح بات کرے تو اسے تسلیم کرو۔ اور صرف کہتے نہیں تھے، اس اصول پر سختی سے کاربند بھی تھے۔ میرے محسن، میرے استاد، حاجی رب نواز صاحب مد ظلہٗ ہمیں میٹرک میں پڑھاتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ کسی سوال کے جواب میں فرمایا، مجھے علم نہیں۔ کل بتاؤں گا۔ پھر اگلے روز پڑھ کر، کھنگال کر، چھان پھٹک کر آئے اور بتایا۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!