Skip to content

کیفیت نامہ

9 اپریل 2022ء

20:09

سیاست سے کسی قدر دلچسپی عمران خان کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ اس شخص کے خلوص اور دیانت کا خیال اب بھی دل میں قائم ہے مگر سوچتا ہوں کہ سیاست کم از کم ہمارے ملک میں شرفا کا کام نہیں۔ ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں تک کی عزت داؤ پر لگوانے کا یارا ہو تو آدمی انتخاب لڑے۔ کمینوں کے ساتھ کمینہ اور سفلوں کے ساتھ سفلہ ہو جانے کا ذوق پایا ہو تو پارلیمان میں آئے۔ اپنی اور دوسروں کی آبرو پانی کر سکے تو تقریریں اور جلسے کرے۔ مکاری اور چالبازی میں یدِ طولیٰ رکھے تو کرسی پر بیٹھے۔ اور بےشک عمران خان نے یہ سب کیا ہے۔

مشہور قصہ ہے کہ غالبؔ نوکری کے لیے انگریز افسر کے ہاں گئے تھے۔ جب وہ ان کے نوکر ہونے کے خیال سے استقبال کو نہ آیا تو یہ کہہ کر پلٹ آئے کہ گورنمنٹ کی ملازمت باعثِ زیادتئ اعزاز سمجھتا ہوں نہ یہ کہ بزرگوں کے اعزاز کو بھی گنوا بیٹھوں۔

میں ہرگز نہیں کہتا کہ ایسے غیرت مند اور وضع دار جی صرف اگلے وقتوں میں پائے جاتے تھے۔ شریف النفس اور کریم الطبع لوگ ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ آج بھی ہیں۔ بس سیاست نہیں کرتے۔

راحیلؔ فاروق

پنجاب (پاکستان) سے تعلق رکھنے والے اردو ادیب۔

Prevپچھلا کیفیت نامہ
اگلا کیفیت نامہNext

تبصرہ کیجیے

اظہارِ خیال

کیفیات

چھوٹی چھوٹی باتیں۔ جذبات، کیفیات، احساسات اور خیالات۔ سماجی واسطوں پر دیے جانے والے سٹیٹس (status) کی طرح!

آپ کے لیے

پرانی بات ہے۔ ہمارے ہاں ایک خاتون نے لڑکیوں کو انگریزی بول چال سکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ کسی نکتے پر بات ہوئی تو میں نے ان سے کہا کہ یہ تو آپ نے اپنی طالبات کو غلط بتایا ہے۔ بولیں، مجھے پتا نہیں تھا۔ میں نے کہا، تو آپ کو کہہ دینا چاہیے تھا کہ مجھے نہیں معلوم۔ پتا کر کے بتاؤں گی۔

وہ کچھ حیران ہوئیں، کچھ خفا۔ کہنے لگیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں استاد ہوں۔

بعض اوقات ہمیں یہ وہم ہو جاتا ہے کہ دوسرے ہمیں بہت عالم سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ہر بات کا جواب ہم خواہ مخواہ خود پر فرض کر لیتے ہیں۔ یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے۔ قہر تب ہوتا ہے جب دوسروں کو بالکل گدھا بھی سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ سادہ سی حقیقت بعض لوگوں کی سمجھ میں عمر بھر نہیں آتی کہ کوئی بشر عالمِ مطلق ہو سکتا ہے نہ جاہلِ مطلق۔ کسی کے پاس مکمل علم نہیں اور ہر کسی کے پاس تھوڑا بہت علم ہے۔ غالباً اسی لیے باری تعالیٰ نے ہمیں جو دعا سکھائی ہے وہ یہ ہے کہ اے میرے پروردگار، میرے علم میں اضافہ فرما۔ یہ نہیں کہ مجھے علم عطا فرما۔

اب اساتذہ شکوہ کرتے ہیں کہ انٹرنیٹ نے طلبہ کو بگاڑ دیا ہے۔ کہیں چوک جائیں تو فوراً فون نکال کر منہ پر مارتے ہیں کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ یہ رویہ بےشک نہایت غلط بلکہ گستاخانہ ہے۔ طلبہ کو ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مگر میں خود استاد ہونے کے ناتے کہتا ہوں کہ اساتذہ اپنی جگہ بہت بڑے مجرم ہیں۔ وہ اپنے تئیں عالمِ کل سمجھتے ہیں اور شاگردوں کو ایک دم کاٹھ کے الو۔ یہ کوئی جرم نہیں کہ استاد کو کسی بات کا پتا نہ ہو۔ مگر یہ سخت جرم ہے کہ وہ پتا نہ ہونے کے باوجود اینڈی بینڈی باتیں کر کے طلبہ کو گمراہ کرے۔

اللہ میرے بزرگوں پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے۔ والدِ مرحوم کہا کرتے تھے کہ گنواروں کا بچہ بھی کوئی صحیح بات کرے تو اسے تسلیم کرو۔ اور صرف کہتے نہیں تھے، اس اصول پر سختی سے کاربند بھی تھے۔ میرے محسن، میرے استاد، حاجی رب نواز صاحب مد ظلہٗ ہمیں میٹرک میں پڑھاتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ کسی سوال کے جواب میں فرمایا، مجھے علم نہیں۔ کل بتاؤں گا۔ پھر اگلے روز پڑھ کر، کھنگال کر، چھان پھٹک کر آئے اور بتایا۔ خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!

راحیلؔ فاروق
  • کیفیت نامہ
  • 7 جون 2022ء
  • ربط
ہمارا ساتھ دیجیے

اردو گاہ کے مندرجات لفظاً یا معناً اکثر کتب، جرائد، مقالات اور مضامین وغیرہ میں بلاحوالہ نقل کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کسی مراسلے کی اصلیت و اولیت کی بابت تردد کا شکار ہیں تو براہِ کرم اس کی تاریخِ اشاعت ملاحظہ فرمائیے۔ توثیق کے لیے web.archive.org سے بھی رجوع لایا جا سکتا ہے۔

© 2022 - جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
Cleantalk Pixel