جمہوریت میں عوام خود اپنا نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔ بادشاہی میں ایک خاندان کے لوگ یکے بعد دیگرے حکومت کرتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ حکمران اور عوام دونوں بادشاہ ہیں لہٰذا یہاں دونوں نظاموں کا ایک حسین امتزاج پیش کیا گیا ہے۔ یعنی عوام کو دو تین خاندانوں سے باری باری نمائندہ منتخب کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ اسے بادشاہی جمہوریت یا جمہوری بادشاہی کہنا چاہیے۔ اور ریاست کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان سے بدل کر بادشاہی جمہوریہ پاکستان رکھ دینا چاہیے۔ اسلام محض پاکستان کا قومی کھیل ہے سو وہ یوں بھی رہے گا۔
دنیا میں اتنی کہانیاں ہیں کہ کہنے سننے والے ان سے کم ہیں۔ وہ کہانیاں ہیں جو لوگ کہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں۔ سنتے ہیں اور سننا چاہتے ہیں۔ مگر کبھی کبھی لگتا ہے کہ کہانی وہ نہیں جو کہی جاتی ہے۔ کہانی تو وہ ہے جو نہ کہی جاتی ہے نہ سنی جاتی ہے۔ نہ کہی جا سکتی ہے نہ سنی جا سکتی ہے۔ میں نے زندگی میں بارہا کسی لمحے ٹھٹک کر غور کیا ہے کہ لوگ جسے واقعہ سمجھ رہے ہیں واقعہ وہ ہے ہی نہیں۔ واقعہ تو اس کے پیچھے ہے۔ کہانی اور ہے۔ اور زیادہ گہری ہے۔ مگر نہ کوئی کہتا ہے نہ کہنا چاہتا ہے۔ یا کہنا چاہتا ہے تو کہہ نہیں پاتا۔ شاید اسی کو مایا کہتے ہیں۔ جو ہے وہ نظر نہیں آتا اور جو نظر آتا ہے وہ نہیں ہے۔
کہانی کہانی کے پردے میں ہے۔ ایک پردہ کہ پردہ بھی نہیں اور اٹھایا بھی نہیں جاتا۔ جس کسی نے چاہا کہ اٹھائے وہ یا تو کہانی میں کھو گیا یا آپ کہانی ہو گیا۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 6 فروری 2022ء
- ربط