بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ زبان سننی شروع کرتا ہے جو اس کے گھر میں بولی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا دماغ گویا اس زبان سے لبا لب بھر جاتا ہے اور ایک روز کسی خوبصورت لفظ کی صورت میں اچانک چھلک پڑتا ہے۔ یہ زبان سیکھنے کا فطری طریقہ ہے۔ الفاظ ہوں یا معانی، املا ہو یا تلفظ، ہر پہلو سے میں نے اسی کو کارآمد ترین پایا ہے۔ جس چیز پر دستگاہ مقصود ہو، اسے ایک بچے کی طرح خود میں بھر لینا چاہیے۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ فطرتِ ثانیہ کی طرح خود بخود آپ سے صادر ہونے لگے گی۔
انسان سمجھتا ہے کہ اس کے پاس اختیار ہے۔ حالانکہ ایسا ہو تو ہر کوئی ضرور بہتوں کو مار ڈالے، بہتوں کی زبان کھینچ لے، بہتوں کو اپاہج بنا دے، بہتوں کو رسوا اور ذلیل کر دے، بہتوں کو لوٹ لے، بہتوں کو غلام بنا لے، بہتوں سے زنا کر لے، بہتوں کو ہمیشہ ساتھ رکھے اور بہتوں کو پیدا ہی نہ ہونے دے۔ اور یہ سب کر کے بھی دنیا کا مشہور ترین، حسین ترین، محبوب ترین اور بہترین انسان بن جائے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 2 دسمبر 2021ء
- ربط