بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ زبان سننی شروع کرتا ہے جو اس کے گھر میں بولی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا دماغ گویا اس زبان سے لبا لب بھر جاتا ہے اور ایک روز کسی خوبصورت لفظ کی صورت میں اچانک چھلک پڑتا ہے۔ یہ زبان سیکھنے کا فطری طریقہ ہے۔ الفاظ ہوں یا معانی، املا ہو یا تلفظ، ہر پہلو سے میں نے اسی کو کارآمد ترین پایا ہے۔ جس چیز پر دستگاہ مقصود ہو، اسے ایک بچے کی طرح خود میں بھر لینا چاہیے۔ تھوڑی ہی مدت میں وہ فطرتِ ثانیہ کی طرح خود بخود آپ سے صادر ہونے لگے گی۔
مذہب بیزار لوگوں کا شیوہ ہے کہ سوال کو حریت کی علامت سمجھتے ہیں۔ اینڈے بینڈے سوال داغنے کو بھی خاموشی پر ترجیح دیتے ہیں۔ مذہبی لوگوں کا یہی رویہ اعتراض کے ساتھ ہے۔ یعنی دوسروں پر اعتراض کرنے کو دینداری کی انتہا خیال کرتے ہیں۔ کسی کے الفاظ گستاخانہ، کسی کے رویے ملحدانہ، کسی کا لباس کافرانہ، کسی کی صورت مشرکانہ۔ اسلام سے خارج کر کے اپنے تئیں امیرِ شریعت بن بیٹھتے ہیں۔
ہمارے لوگ احترام کی راہ سے ایک دوسرے کو قبلہ و کعبہ کہہ کر پکارتے آئے ہیں۔ آج تک کہتے ہیں۔ لیکن جس رفتار سے پارسائی پھیل رہی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ جلد یہ خطاب بھی کعبۃ اللہ کی توہین قرار پا جائے گا۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 11 جنوری 2022ء
- ربط