لوگ چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تجربہ انسان کے اعصاب کو پگھلا کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے۔ میں ناکام محبت کی بات نہیں کر رہا۔ دو طرفہ محبت اور شدید محبت زیادہ جان لیوا دیکھی گئی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ آسمانی جذبہ ایک زمینی انسان میں دوسرے زمینی انسان کے لیے پیدا ہوتا ہے۔ بشر کا دل محبت کے لیے بہت چھوٹا ہے۔ کوزے میں دریا داخل ہو جائے تو پھٹ جانا ہی اس کا مقدر ہے۔ چاہنے والے کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کیا چاہتا ہے اور چاہے جانے والے کو خبر نہیں ہوتی کہ اس سے کیا چاہا جا رہا ہے۔ محبوب دفعتاً بشر کی سطح سے اٹھ کر خدائی کے سنگھاسن پر جا بیٹھتا ہے اور عاشق کی ذات گھٹتی گھٹتی گندی نالی میں رینگنے والے کیڑے سے بھی گھٹ جاتی ہے۔ دونوں سے سلوک بھی حسبِ حال ہوتا ہے۔ عاشق محبوب سے وہ امیدیں باندھتا ہے جو خدا کے سوا کوئی پوری نہیں کر سکتا۔ محبوب عاشق کو کیڑے مکوڑوں کی طرح روند ڈالنے میں کوئی مضائقہ نہیں دیکھتا۔ اگر دونوں ایک دوسرے کے عاشق ہوں اور دونوں محبوب تو پھر خدا حافظ ہے۔ ایسے ہی دیوانوں کی کہانیاں ہیں جو چار دانگِ عالم میں پھیلتی ہیں اور وہ لوگ جن کی زندگیاں محبت کے بلا خیز طوفانوں سے تہ و بالا نہیں ہوئیں، انھیں پاگل پن یا محض افسانہ طرازیاں سمجھ کر ہنستے ہیں۔
حماقت شاید وہ کام کرنے کا نام ہے جو کرنے کا نہ ہو۔ اس لحاظ سے سب سے بڑی حماقت مجھے یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسان خود کو یا کسی دوسرے انسان کو بےعیب ثابت کرنے کی کوشش کرے۔ یوں منہ سے تو کوئی دعویٰ نہیں کرتا کہ وہ کامل اور بےعیب ہے مگر رویوں کی رو سے بہت لوگ اس غلط فہمی کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے یا کسی دوسرے کے ہر فعل کی توجیہ کرنا چاہتے ہیں۔ انسان کے ہر فعل کی توجیہ نہیں ہو سکتی۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسی کوشش کرنے والا اپنے آپ کو یا اپنے ممدوح کومعقول کی بجائے الٹا اچھا خاصا نامعقول ثابت کر بیٹھتا ہے۔ کاملیت کو ذاتِ باری تعالیٰ نے اپنے لیے مخصوص فرمایا ہے۔ جو کوئی اس میں کسی اور کو شریک کرتا ہے، نہیں کر سکتا۔ جتنا زور مارتا ہے اتنا کمزور پڑتا جاتا ہے۔ جتنا اخلاص دکھاتا ہے، اتنا نقصان کرتا ہے۔ جتنی عقل لڑاتا ہے، اتنا احمق نظر آنے لگتا ہے۔
راحیلؔ فاروق
- کیفیت نامہ
- 25 اکتوبر 2022ء
- ربط